• 20 اپریل, 2024

پہلا خُلق

• ’’دوسری قسم اُن اَخلاق کی جو ایصالِ خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔

پہلا خُلق ان میں سے عفو ہے یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے، سزا دلائی جائے، قید کرایا جائے، جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔

وَالۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَالۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ

(آل عمران: 135)

جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ

(الشورى: 41)

یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ351)

• ’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو۔ کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازہ کے لیے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہوسکتا۔کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ12)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 نومبر 2022