چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے، صلح کی فضا پیدا ہو۔ عموماً جو عادی مجرم نہیں ہوتے وہ درگزر کے سلوک سے عام طور پر شرمندہ ہوجاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔‘‘
(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ142 ایڈیشن 2005ء)
مزید فرمایا:
’’اسلام کہتا ہے کہ ایسے قانون نہ بناؤ، ایسے فیصلے نہ کرو جن سے بے چینیاں پیدا ہوں بلکہ وہ فیصلے کرو جو بہتر ہوں، معاشرے کے لئے بہتر ہوں، اس شخص کے لئے بہتر ہوں اور ایسے فیصلے جو ہوں گے پھر اس سے خدا تعالیٰ بھی راضی ہو گا۔
…حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔ ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے۔ وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے۔ پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے۔ نہ انسان اور وحشی ہے، نہ مہذب۔‘‘
(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد19 صفحہ437-438)
موقع اور محل اور وقت کی مصلحت کے مطابق کام کرنے کے لئے آپ نے قانون قدرت کے مطابق مثال دی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا …پس انسان کی اس فطرت کو ہر جگہ لاگو کرنے کی ضرورت ہے کہ جو تبدیلیاں ہیں اس کی طبیعت کے مطابق ہوں۔ اصلاح کے لئے جو تجویز کیا گیا ہو وہ کسی بھی انسان کی طبیعت کے مطابق ہو اور یہی انسان اور حیوان میں فرق ہے۔
(خطبہ جمعہ 22؍جنوری 2016ء بحوالہ السلام ویب سائٹ)