• 25 اپریل, 2024

ریل کی ایجاد

ریل گاڑی انیسویں صدی کی ایک حیرت انگیز ایجاد ہے۔ 1801ء میں پہلی بار لندن میں ریل گاڑی چلائی گئی۔ جسے گھوڑے کھینچتے تھے۔ لیکن جب سائنس دانوں نے بھاپ کی طاقت کا راز معلوم کر لیا۔ تو انہوں نے بھاپ سے چلنے والے انجن سے ریل چلانے کی ٹھانی جو گھوڑوں کی جگہ استعمال ہو سکے۔ اس قسم کے انجن بنانے میں بہت سے سائنس دانوں نے کوششیں کیں۔ ان میں سے ایک سائنس دان جیمز واٹ تھا۔ جس کی کوششوں سے پہلا سادہ بھاپ والا انجن 1804ء میں تیار ہوا۔ اور پہلی دفعہ مکینکل ٹرین چلائی گئی۔ جس کی رفتار 5 میل فی گھنٹہ تھی۔ لیکن پٹری اچھی نہ ہونے کی وجہ سے بار بار انجن اور گاڑیاں پٹری سے اتر جاتی تھیں۔ جیمز واٹ نے بجائے پٹری کی اصلاح کرنے کے، تنگ آ کر یہ کام ہی چھوڑ دیا اور انجنیئری کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اور ایسے انجن بنانے شروع کر دئیے جو صرف کان سے پانی باہر نکالنے کے کام آتے تھے۔

پٹری کی اصلاح اور انجن کی تکمیل

جارج اسٹیفن سن کو بچپن سے ہی انجنوں سے بہت لگاؤ تھا اور وہ ان کے کَلْ اور پرزوں کو بڑے غور سے دیکھتا رہتا اور چونکہ وہ کان میں استعمال ہونے والے ایک انجن کا نگران بھی تھا۔ اس انجن کے خراب ہونے پر خود ہی اسے ٹھیک کر لیتا۔ اس کی بہت خواہش تھی کہ میں ایسا انجن تیار کروں جو گاڑیوں کو کھینچ سکے۔ آخر کئی سالوں کی محنت اور مشقت سے وہ اس میں کامیاب ہو گیا اور پھر ایسی پٹری بھی تیار کی جس سے انجن اور گاڑیاں اتر نہ سکیں۔ جارج اسٹیفن سن نے اس کا کامیاب تجربہ 1814ء میں کیا۔ جس کے بعد اس نے اپنے بنائے ہوئے انجن کو اور بہتر کیا اور 1825ء میں ایک نئی پٹری بچھائی۔ جس پر ریل گاڑی 15 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلی۔ اس انجن کا وزن 112 من تھا۔ بعد ازاں 1830ء میں سرکاری طور پر انگلستان میں ریلوے کا افتتاح ہوا۔ ریلوے کا قانون منظور ہونے کے بعد جارج اسٹیفن سن کو اس کا انجنیئر مقرر کر دیا گیا اور پورے ملک میں ریلوے لائن بچھانے کا کام اس کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جارج اپنے بنائے ہوئے انجن کو مزید بہتر بناتا رہا اور آخر میں 48 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ریل چلائی۔

برقی اور ڈیزل والا انجن

1900ء کی دہائی کے اوائل سے ہی بھاپ کے انجنوں کی جگہ آہستہ آہستہ برقی اور ڈیزل والے انجن لینے لگے اور 1930ء کے آخر میں اکثر جگہوں پر بجلی اور ڈیزل کے انجن ہی استعمال ہونے لگے۔ 1980ء کے بعد بھاپ والے انجن مکمل طور پرختم کر دیئے گئے اور مکمل طور پر ڈیزل اور بجلی والے انجن استعمال ہونے لگے۔

برصغیر میں ریلوے

بر صغیر میں ریلوے کی تاریخ کا آغاز 1845ء میں ہوا۔ اس سال کلکتہ سے رانی گنج، بمبئی سے کلیان اور مدارس سےارکونام تک تین ریل گاڑیاں تجرباتی طور پر چلائی گئیں۔ 13 مئی1861ء کو کراچی سے کوٹری کی طرف ٹرین چلائی گئی۔ 1862ء کو لاہور سے امرتسر کی گاڑی کا افتتاح کیا گیا۔ اپریل 1865ء میں لاہور سے ملتان کے درمیان ریلوے کا افتتاح ہوا اور 1870ء تک سات ہزار چھے سواسّی کلو میٹر لائن بچھائی گئی اور ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے چھوٹے شہروں کو ریل کے ذریعے ملا دیا گیا۔

پاکستان میں ریلوے

1947ء میں آزادی کے بعد ریلوے لائن کا بٹوارہ کیا گیا۔تو North western state بنیادی طور پر پاکستان کے حصے میں آیا۔ جس کے بعد اسے Pakistan western railway کا نام دے دیا گیا۔ ہندوستان سے علیحدگی کے وقت پاکستان ریلوے پورے ملک کا آٹھ ہزار ایک سو بائیس کلومیٹر حصے کو Cover کرتا تھا۔ جو کہ آج تبدیل ہو کر گیارہ ہزار آٹھ سو اکاسی کلومیٹر تک پھیل چکا ہے۔ پاکستان ریلوے نیٹ ورک کو بنیادی لائنوں اور شاخ لائنوں میں تقسیم کیا گیا۔ کراچی سے پشاور کی لائن مین شمال جنوبی لائن کہلاتی ہے اور روہٹری سے چمن کی لائن مین مشرق مغربی لائن کہلاتی ہے۔ باقی 16 برانچ لائنیں ہیں۔

پاکستان میں ریلوے کا نظام

ٹرین ڈرائیورہر اسٹیشن یا سگنل سے پاس ہوتے ہوئے ہارن دیتا ہے جو ریل کی اصطلاح میں وسل کہلاتا ہے۔ وسل کے بعد اسٹیشن پر کھڑا گارڈ دن کو ہرے رنگ کا جھنڈا دکھاتا ہے اور سگنل کی تائید کرتا ہے کہ سب ٹھیک ہے اور رات کے وقت لائٹ دکھاتا ہے۔

ٹرین کے پہیوں پر ہتھوڑا مارنا

ٹرین کے اسٹیشن پہنچنے پر ایک اہلکار بوگی کے پہیوں پر ہتھوڑا مار کر Wheel کی آواز چیک کرتا ہے۔ اگر تو wheel درست ہو تو ٹن ٹن کی آواز آتی ہے اور خراب ہونے کی صورت میں ٹھک ٹھک کی آواز آتی ہے جس پر ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ ہونے کی بناء پر اس بوگی کو ٹرین سے جدا کر دیا جاتا ہے اور اس کی ایک رپورٹ بنائی جاتی ہے۔

بوگیوں میں لگا ہینڈل یا چین

بوگی میں لگا ہینڈل یا چین کھینچنے سے گاڑی کا پریشر ٹوٹ جاتا ہے اور گاڑی بھاری ہو جاتی ہے۔ جس سے ڈرائیور کو پتہ لگ جاتا ہے کہ بوگی سے چین کھینچی گئی ہے اور اگر بیک وقت دو یا تین بوگیوں سے چین کھینچی جائے توٹرین جام ہو جاتی ہے۔

ایمر جنسی بریک

ٹرین کو روکنے کے لئے کم از کم دو منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے اور ٹرین ایک سے دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے رکتی ہے۔

ٹرین میں دو طرح کے Brake System ہوتے ہیں۔ جن میں ایک air brake اور دوسرا vacuum brake کہلاتا ہے۔آجکل نئے انجنوں میں زیادہ تر air brake system ہی ہوتے ہیں۔

ٹرین کی رفتار

پاکستان میں ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ وزات ریلوے پاکستان نے محکمے کی ترقی کے لئے ویژن 2025ء پیش کیا۔ جس کے تحت ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ کرنا، نظام کو بہتر کرنا، وقت کی پابندی، اور مسافر بردار ٹرینوں میں اضافہ کرنا۔ نئے ٹریکوں کی بحالی، نظام میں اصلاحات اور نئی ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔

(فیاض احمد طارق)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 نومبر 2022