• 16 مئی, 2024

فقہی کارنر

حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو

ایک بھائی نے (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں) عرض کی کہ حضور! بکرا وغیرہ جانور جو غیر اللہ تھانوں اور قبروں پر چڑھائے جاتے ہیں پھر فروخت ہو کر ذبح ہوتے ہیں کیا ان کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:۔
شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں اصل بات یہ ہے کہ اُ ھِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ (البقرہ: 174) سے یہ مراد ہے کہ جو ان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور ربیع و شرء میں آ جاتے ہیں اس کی حلّت ہی سمجھی جاتی ہے زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھو! حلوائی وغیرہ بعض اوقات ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی کراہت اور نفرت پیدا کرتا ہے لیکن ان کی بنی ہوئی چیزیں آخر کھاتے ہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ شیرنیاں تیار کرتے ہیں اور میلی کچیلی دھوتی میں بھی ہاتھ مارتے جاتے ہیں اور جب کھانڈ تیار کرتے ہیں تو اس کو پاؤں سے مَلتے ہیں چوڑے چمار گڑ وغیرہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جوٹھے رس وغیرہ ڈال دیتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں ان سب کو استعمال کیا جاتا ہے اس طرح پر اگر تشدّد ہو تو سب حرام ہو جاویں اسلام نے مالا یطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے۔

اس کے بعد سائل مذکور نے پھر اسی سوال کی اور باریک جزئیات پر سوال شروع کئے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ (المائدہ: 102) بھی فر مایا ہے۔ بہت کھودنا اچھا نہیں ہوتا۔

(الحکم 10 اگست 1903ء صفحہ20)

(مرسلہ:داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ )

پچھلا پڑھیں

مصلح موعود کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2022