• 2 مئی, 2024

دنیا دار کے جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے

دنیا دار کے جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے
ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
دوسری بات جو اصلاح کے لئے ضروری ہے جبر ہے۔ یہاں کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ ’’دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے‘‘ دوسری طرف عملی اصلاح کے لئے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے، وہ جبر ہے۔ پس واضح ہو کہ یہ جبر دین قبول کرنے یا دین چھوڑنے کے معاملے میں نہیں ہے۔ ہر ایک آزاد ہے، جس دین کو چاہے اختیار کرے اور جس دین کو چاہے چھوڑ دے۔ اسلام تو بڑا واضح طور پر یہ اختیار دیتا ہے۔ یہاں جبر یہ ہے کہ دین کی طرف منسوب ہو کر پھر اُس کے قواعد پر عمل نہ کرنا اور اُسے توڑنا، ایک طرف تو اپنے آپ کو نظامِ جماعت کا حصہ کہنا اور پھر نظام کے قواعد کو توڑنا۔ یہ بات اگر ہو رہی ہے تو پھر بہر حال سختی ہو گی اور یہاں جبر سے یہی مراد ہے۔ نظام کا حصہ بن کر رہنا ہے تو پھر تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ سزا مل سکتی ہے، جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، بعض قسم کی پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہے۔ اور ان سب باتوں کا مقصد اصلاح کرنا ہے تا کہ قوتِ عملی کی کمزوری کو دور کیا جا سکے۔ جماعت میں بھی جب نظامِ جماعت سزا دیتا ہے تو اصل مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ کسی کی سبکی یا کسی کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالنا نہیں ہوتا۔ یہ جبر حکومتی قوانین میں بھی لاگو ہے۔ سزائیں بھی ملتی ہیں، جیلوں میں بھی ڈالا جاتا ہے، جرمانے بھی ہوتے ہیں، بعض دفعہ مارا بھی جاتا ہے۔ اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں امن رہے اور جودوسرے کو نقصان پہنچانے والے ہیں وہ نقصان پہنچانے کا کام نہ کر سکیں بلکہ بعض دفعہ تو اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے کام پر بھی سزا مل جاتی ہے۔ لیکن اس سزا کے دوران اصلاح کرنے کے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر کسی کو پھانسی بھی دی جاتی ہے تو یہ جبر اس لئے ہے کہ قاتل نے ایک جان لی اور قاتلوں کو اگر کھلی چھٹی مل جائے تو پھر معاشرے کا امن برباد ہو جائے اور کئی اور قاتل پیدا ہو جائیں۔ پس قتل کی سزا قتل دینے سے کئی ایسے لوگوں کی اصلاح ہو جاتی ہے یا وہ اس کام سے رُک جاتے ہیں جو قتل کا رجحان رکھتے ہیں، جو زیادہ جوشیلے ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ جبر اصلاح کا ایک پہلو ہے جو دنیا میں بھی رائج ہے۔

دنیا دار کے جبر سے یا دنیاوی سزاؤں کے جبر سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ایک دین کی طرف منسوب ہونے والے پر جب جبر کیا جاتا ہے اور دینی نظام کے تحت اُس کو سزا دی جاتی ہے یا کسی بھی قسم کی سزا یا جرمانہ ہو، کوئی اور سزا ہو یا بعض پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ جماعت میں بعض دفعہ بعض چندے لینے پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں تو بیشک جبراً ان کاموں سے روکا جا رہا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی جب وہ باتیں یا اعمال جو صالح اعمال ہیں، اُن کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہو اور کوئی شخص اس لئے کر رہا ہو کہ سزا سے بچ جاؤں یا خلیفہ وقت کی ناراضگی سے بچ جاؤں یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جاؤں تو آہستہ آہستہ دل میں ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لوگ برائیوں کو چھوڑ کر خوشی سے نیک اعمال بجا لانے والے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 31؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2023