ابتداء سے سنت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو ہدایت اور رشد پانے کے ضروری سامانوں سے کبھی بھی محروم نہیں رکھا ہے۔ تخلیق آدم سے لے کر انسانیت کے اس دور تک کے بارہ میں ہمیں قرآن بتاتا ہے کہ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ
(الفاطر:25)
’’اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔‘‘ اب ان انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق خدائی مدد اور ہدایت سے اصلاح کی کوششیں کیں اور کامیابیاں بھی پائیں۔ اور رفتہ رفتہ ان انبیاء کے دائرہ اصلاح میں وسعت آتی گئی۔ پھر اجتماعیت کی جانب سفر اپنے اس مقام پر جا پہنچا کہ ساری دنیا کو ایک نبی مخاطب کرے اور اس بارِعظیم کو اٹھانے اور اس رفیع الشان ذمہ داری کو نبھانے کے لئے قرعہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام نکلا۔ اور آپؐ کو اس مقصد کے لئے قرآن کریم جیسی کتاب دی گئی۔ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت کی آخری کتاب ہے جو کہ قیامت تک کے لئے تمام انسانیت کے واسطے مکمل ضابطہ حیات اور ذریعہ فلاح و نجات ہے۔ اس قدر اہمیت کی حامل کتاب کی حفاظت کے موضوع پر چند سطور ان دلائل کی روشنی میں تحریر ہیں جو دنیا کے سامنے اس زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھے۔ سب سے پہلے قرآن کریم کے اپنے دلائل ہیں۔ ان دعاوی کا پتہ ہونا ضروری ہے جو اس بابت اس کتاب میں درج ہیں۔ اس مُنْزِل مِنَ اللّٰہ کتاب میں خدائے قادر تا کید سے بھرے ہوئے الفاظ میں فرماتا ہے کہ
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(الحجر: 10)
یقینًا ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور یقینًا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
گذشتہ کتب میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک کتاب کا ایک خاص دور اصلاح ہوا کرتا تھا اور وہ کتب اس خاص زمانے کی ضرورتوں اور پیش آمدہ مسائل کو ہی مخاطب کیا کرتی تھیں اور ان مسائل کا حل بتایا کرتی تھیں اور ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد خدائے قادر کی حکمت بالغہ کے تحت ان کتب کا اثر اور ان میں مذکور مسائل کا حل زمانے کے مسائل کی تعداد اور شدّت سے پیچھے رہ جاتا تھا اور نئی کتاب کا دور شروع ہو جاتا تھا۔ اب قرآن قیامت تک کیلئے بطور قانون اور ضابط حیات ہے۔ اس مذکورہ بالا حفاظت قرآن کے وعدہ کے اختتام کی آخری مدت خدا نے مقرر نہیں فرمائی۔ اس دلیل کو پرکھنے کے لئے اس ماحول کا اندازہ کر لینا کافی ہو گا کہ اگر دنیا میں آج حضرت موسیٰؑ کا لایا ہوا قانون یا حضرت عیسیٰؑ کی بتائی ہوئی باتیں بطور قانون اور ضابطہ حیات لاگو کر دی جائیں۔ نیز یہ فخر صرف اور صرف قرآن کو ہی حاصل ہے کہ اس کی حفاظت کا وعده خود خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کیونکہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تورات کی حفاظت کا فریضہ ربّانی لوگوں اور احبار کے ذمہ تھا۔ مطالعہ قرآن کے دوران ہم مذکورہ بالا حفاظت قرآنی کے وعدہ کے علاوہ بھی اس کتاب کے اندر ہی اس کی حفاظت کے لئے خاص انتظامات کا متعدد جگہ اور مختلف طریقوں کا ذکر پڑھتے ہے۔ مثلاً خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُراٰنَهُ
(القیامیہ:17)
ترجمہ: یقینًا اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے۔
اس قرآن کو جو خدا کی طرف سے نام دیئے گئے ان میں سے الکتاب اور قرآن بھی ہیں، یہ دونوں نام اس کی تا قیامت زبانی اور کتابی شکل میں حفاظت کا پتا دیتے ہیں۔ اور ان ناموں کے معانی کے اندر اس کی حفاظت کی پیش گوئی موجود ہے۔ فِـيْـهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینۃ: 4) کہہ کر اس کی تعلیمات کے دائمی ہونے کا پتہ دیا۔ پھر فرمایا کہ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ (البروج :23) یہ کتاب لوح محفوظ میں ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں متعدد جگہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے حفاظت قرآن کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کے آپ لینے اور آپؐ کو اس کی حفاظت کے لئے غیرمعمولی کوشش اور جدوجہد سے روکا گیا ہے۔
حفاظت قرآن کے لئے خدا تعالیٰ نے جو انتظامات فرمائے اس کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح پر ہے کہ جو بھی آیات نازل ہوتی تھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فوراً کاتب صحابہ کو بلا کر ان آیات کو ضبط تحریر میں لے آتے تھے اور یہ ساری کاروائی آپؐ کی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی اور آپؐ اس کے لئے خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ لکھوانے کے بعد اس نازل شده حصہ کو سنا بھی کرتے تھے۔ آپؐ نہ صرف خود لکھواتے تھے بلکہ خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے تھے۔ اس بات کا تفصیلی نقشہ مستند کتب احادیث میں موجود ہے۔کتابت وحی کی اس مقدس اور انتہائی اہم ڈیوٹی انجام دینے کی سعادت حاصل کرنے والے اصحابؓ کرام کے اسماء اور ان کی پاکیزہ ذاتی زندگیوں کے واقعات کتب تاریخ کا حصہ ہیں۔
دوسرا بڑا ذریعہ خدا نے حفاظت قرآن کے لئے یہ قائم فرمایا کہ مسلمانوں کے اندر اس کتاب کو حفظ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک تو خدانے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اس کتاب کو حفظ کرنے کا شوق پیدا کر دیا اور دوسرا اس کی عبارت اس قدر خوبصورت، سلیس اور نظم و نثر کے درمیان ہے کہ جو حفظ کرنے کے لئے بہت آسان ہے۔ ہر مسلمان کو نماز کے اندر پڑھنے کے لئے قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ زبانی یاد کرناپڑتا ہے۔ کیونکہ ہر رکعت کے اندر سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنا فرض ہے۔
قرآن کے جو نسخے سارے عالم میں پھیلے اور ان کی تعداد بلامبالغہ کروڑوں میں ہے۔ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کبھی بھی قرآن ہی ہے۔ آج کے اس جدید پریسں کے زمانہ میں قرآن کے نسخے بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں اور ان کی چھپائی میں اغلاط اور ہر طرح کے سقم سے بچنے کے لئے شدید عرق ریزی اور زر کثیر خرچ کر کے اس کی اعلیٰ حفاظت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اور مسلمان ممالک میں پورے پورے محکمے اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہیں۔ نیز گذشتہ وقتوں میں مسلمانوں کی اس طرف بے پناہ توجہ کا اندازہ ہمیں ان قلمی نسخوں سے بھی ہوتا ہے جو آج کل لائبریریوں کی زینت ہیں۔ اور مسلمانوں میں اس کی کتابت کا اس قدر رواج تھا کہ نہ صرف عوام بلکہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کی کتابت نہایت محبت اور جانفشانی سے کیا کرتے تھے۔
قرآن کی حفاظت پر ایک گواہ وہ تبلیغ قرآن ہے جو انتہائی قلیل عرصہ میں بڑے خطہ زمین پر پھیل گئی۔ دیگر مخالف اقوام کو اس کی تعلیمات کا بخوبی علم ہو گیا۔ جن تک اس کی تعلیم پہنچی وہ لاکھوں کروڑوں تھے اور ان کا حلقہ بہت وسیع ہے قرآن کی تبلیغ و اشاعت مشرکین کے سامنے ہوئی۔ یہود و نصاریٰ، مجوسی اردگرد تھے اور اس قرآن کے اندر ان کے عقائد کا ذکر ہے۔ اگر ایک بات بھی ان کی طرف ایسی منسوب کی جاتی جو ان میں موجود نہ تھی تو فوراً بول اٹھتے سر ولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں بحث کے بعد لکھتا ہے کہ
..Since what we now have, though possibily corrected and modified by himself, is still his own.
اب جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ گو یہ بالکل ممکن ہے کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں خود اس کی غلطیاں درست کی ہوں۔ اور بعض دفعہ خود ہی اس میں بعض تبدیلیاں بھی کر دی ہوں۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ اب اس زمانہ تک وہی قرآن ہے۔ جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں دیا تھا۔
(THE LIFE OF MOHAMET by SIR WILLIAM MUIR Page 562)
یہ تو ظاہری حفاظت کا معاملہ ہے۔ حفاظت کی اقسام کے موضوع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ۔
اب حفاظت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو حفاظت ظاہری اور ایک حفاظت معنوی۔ جب تک دونوں قسم کی حفاظت نہ ہو کوئی چیز محفوظ نہیں کہلا سکتی ……………… ایک کتاب جس کے اندر لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ عبارتیں زائد کر دی ہوں یا اس کی بعض عبارتیں حذف کر دی ہوں یا جس کی زبان مردہ ہو گئی اور کوئی اس کے سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو یا جواس غرض کے پورا کرنے سے قاصر ہو گئی ہو جس کے لئے وہ نازل کی گئی تھی،محفوظ نہیں کہلا سکتی کیونکہ گو اس کی حفاظت بھی صرف معنی کی حفاظت ہی کے لئے کی جاتی ہے۔ پس قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور اس کے مطالب دونوں کی حفاظت ہے۔‘‘
(دعوت الامیر، انوارالعلوم جلد7 صفحہ380)
خدا تعالیٰ نے اس معنوی حفاظت کے میدان کو بھی تشنہ نہ چھوڑا اور گزشتہ چودہ سو سال میں کوئی وقت بھی ایسانہ گزرا کہ جس میں ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نہ کوئی روحانی فرزند اپنی تمام خداداد طاقتوں اور استعدادوں کےساتھ اس راہ میں مصروف عمل نظر نہ آتاہو۔ ان سب محافظین قرآن کا سردار خدا نے (حضرت) مسیح موعودؑ کی شکل میں کھڑا کیا جس نے آکر بڑے عظیم الشان اعلانات کئے اور حفاظت قرآن کا حق ادا کر دیا۔ آپ نے اعلان عام کیا کہ قرآن کی کوئی آیت، کوئی نکتہ، حتیٰ کہ اس کا کوئی شعشہ بھی منسوخ یا ناقابل عمل نہیں ہے بلکہ قرآن کریم مکمل محفوظ اور خدا کی طرف سے تا قیامت قابل عمل تعلیم کا مجموعہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے بطور حکم اور عدل اعلان کیا کہ و بان القرآن المجید بعد رسول اللّٰہ محفوظ من تحریف المحرفین و خطأ المخطین۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ21)
’’اور اس وجہ سے کہ قرآن مجید آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب تک تحریف کرنے والوں کی تحریف اور خطا کاروں کی خطاؤں سے پاک ہے۔‘‘
خدا تعالیٰ نے نزول قرآن سے لے کر آج تک اس کتاب کی ظاہری اور معنوی حفاظت کا جو وعدہ فرمایا تھا اس کے بکمال ایفاء کا حال تو ہمارے سامنے آگیا مگر اب کبھی کسی کو اس قرآن کی حفاظت پر شبہ ہو تو وہ حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرموده اس انقلاب آفرین اصول علم الکلام کی رو سے پہلے اپنی الہامی کتاب کا محفوظ ہونا ثابت کرے۔ کیونکہ اس وقت تک کسی دوسرے کی طرف کوئی الزام منسوب کرنا ہرگز درست نہیں اگر وہی اعتراض خود اپنے پر پڑ رہا ہو۔ اس اصول کے مطابق کسی بھی اور کتاب کا ماننے والا قرآن کی ظاہری یا معنوی حفاظت وثقاہت پر اعتراض نہیں کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل اسے اپنی کتاب کی حفاظت کا کم از کم وہ معیار ثابت کرنا ہو گا جو قرآن کریم کو حاصل ہے۔ اور اس قدر اعلیٰ حفاظتی معیار کی حامل اور حفاظت کے خدائی وعدوں کی حامل کتاب اس وقت روئے زمین پر صرف اور صرف قرآن حکیم ہی ہے۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے