• 6 جولائی, 2025

رمضان المبارک اور قرآن کریم

رمضان المبارک اور قرآن کریم
حفاظ کرام کے لیے ضروری پیغام

ماہ ِرمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ماہ ِرمضان کا قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے اور حفاظ کارمضان اور قرآن سے ایک خاص تعلق ہے۔ یہ بابرکت مہینہ حفاظ کے لیے خصوصاً بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ حفاظ کے لیے یہ ایک قسم کا ریفریشر کورس ہوتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر حفاظ اپنا حفظ صحیح اور پختہ رکھ سکتے ہیں۔ اس میں حفاظ کرام کے حفظ کو قائم اور پختہ رکھنے کے لیے حیرت انگیز انتظام فرما دیا گیا ہے۔

حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ہر رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور حضرت جبرائیل کے ساتھ مکمل فرماتے ۔

(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیﷺ)

سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا کم از کم ایک دور کرنے کی عادت بہت مبارک ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں آپؐ کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اس کے علاوہ نفل نماز میں بھی قرآن کریم کا ایک دور ہے۔ یہ مبارک عادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نماز تراویح کی شکل میں باقاعدہ جاری ہے۔ صدیوں سے اس پر عمل ہو رہا ہے کہ ماہ رمضان میں دنیا کی بڑ ی مسجد میں حفاظ کرام امامت کر تے ہیں اور قرآن کریم سناتے ہیں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوّر اﷲ مرقدہٗ فرماتے ہیں:
’’ہر رمضان میں ساری دنیا کی ہر بڑی مسجد میں سارا قرآن کریم حافظ لوگ حفظ سے بلند آواز کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ ایک حافظ امامت کراتا ہے اور دوسرا حافظ اس کے پیچھے کھڑ اہوتا ہے تا کہ اگر کسی جگہ بھول جائے تو اس کو یاد کرائے۔ اس طرح (اس ایک ماہ میں ہی) ساری دنیا میں لاکھوں جگہ پر قرآن کریم صرف حافظہ سے دہرایا جاتاہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن ، صفحہ:277)

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور تو حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ کرتے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ قرآن کریم پڑھتے اور اس کے دورمکمل فرماتے تھے۔ پس رمضان کے بابرکت ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر حافظ ِقرآن کو قرآن کریم کا رمضان میں کم از کم ایک دور ضرور کرنا چاہیے۔ اور خاص توجہ کے ساتھ قرآن کریم کونمازِ تراویح میں سنانا چاہیے اور ایک دور تراویح میںضرور مکمل کرنا چاہیے ۔صحیح معنوں میں اس سے ہی اس کا حفظ صحیح اور پختہ رہے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوّر اﷲ مرقدہٗ فرماتے ہیں:

’’رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے۔ جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے، وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کتنی ہی صدیاں ہمارے اورمحمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و سلم کے درمیان گزر جائیں ۔۔۔لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کرکے رکھ دیا ہے۔اورہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ و سلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہواہے اس لیے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فاصلے کورمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خداتعالیٰ کے قریب پہنچا دیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 343)

قرآن کریم یاد رکھنے کا بہترین طریق
نمازوں اور نوافل میں تلاوت کی کثرت

حافظ قرآن کے لیے قرآن کریم کویادرکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ نمازوں میں دھراتا رہے بلکہ باقاعدگی سے روزانہ ایک پارہ یاحسب استطاعت نمازوں میں تلاوت کیا جائے اور اس کو دستورالعمل بنا لیا جائے اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ اس پر اگر مداومت کی جائے گی تو ان شاء اللہ قرآن کریم یاد رہے گا اور نماز میں تلاوت کاالگ ثواب بھی حاصل ہو گا۔نوافل میں کثرت سے تلاوت ہمیشہ ہمارے اکابر کامعمول رہا ہے اس لیے اس پر عمل کرنا زیادہ مفید ہے۔

حفظ ِقرآن کریم کوقائم رکھنے کا طریق یہ ہے کہ ایک تو روزانہ پانچ وقت نمازوں میں قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت کرنے کولازم پکڑا جائے اور دوسرے نمازِ تہجد میں قرآن کریم کی زیادہ مقدار میں تلاوت کی جائے۔ تلاوت کرتے ہوئے ایک ہی حصہ بار بار تلاوت نہ کیا جائے بلکہ قرآن کریم کے مختلف حصے تلاوت کیے جائیں تا کہ سارا قرآن کریم دہرائی کے عمل سے گزر سکے یعنی مختلف سورتیں یا آیات بدل بدل کر پڑھی جائیں یا ترتیب کے ساتھ ہر رکعت میں پڑھا جائے توقرآن کریم کو یاد رکھنے کا یہ طریق بہت مفید اور بابرکت ثابت ہوتا ہے۔

حفظ کے لیے فجر کا وقت سب سے زیادہ مفیداور مقبول ہے:
قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے صبح سحری کا وقت سب سے زیادہ مفید ہے۔ پس ہرحافظ کوچاہیے کہ روزانہ بوقت فجر قرآن کریم کو یادکرے اورمنزل دہرائے۔ سحری کے وقت ذہن فارغ اور طبیعت میں یکسوئی ہوتی ہے ۔پس جو کوئی بھی حفظ کرنا چاہے تو ایسے وقت حفظ کرے جب اس کا دل اور ذہن کسی اور چیز کی طرف مشغول نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ نے صبح کے وقت خاص طور پر تلاوت کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:

وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِط اِنَّ قُراٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا

(بنی اسرائیل :79)

ترجمہ: اور فجر یعنی صبح کے وقت قرآن کریم کو پڑھنا لازم سمجھ اور صبح کے وقت قرآن کریم پڑھنا ایک مقبول عمل ہے۔

صبح کو پڑھنا اس لئے بھی بابرکت ہوتا ہے کہ سچا قاری سارا دن قرآن کی ہدایات کے مطابق گزارتا ہے اور اس کوگزارنا بھی چاہئے گویا ’’دست باکارردل بایار‘‘ کا سامان ہوتا ہے۔ اگر اِس نیت سے تلاوت کی جائے تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ ہر شخص حقوق اﷲ اور حقوق العباد ادا کر کے اس دنیا کو خوبصورت بنا دے۔

حافظ روزانہ رات سونے سے پہلے قرآن کا کچھ حصہ التزاماً پڑھے:

حفظِ قرآن کوقائم رکھنے کے لیے ہر حافظ کو چاہیے کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے قرآن کریم کا کچھ حصہ التزاماً پڑھے۔ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کے ارشادات پیش ہیں:

  • مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آیَاتٍ مِنَ الْبَقَرَۃِ عِنْدَ مَنَامِہِ لَمْ یَنْسَ الْقُرْآنَ أَرْبَعُ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِہَا وَآیَۃُ الْکُرْسِیِّ وَآیَتَانِ بَعْدَہَا وَثَلاَثٌ مِنْ آخِرِہَا. قَالَ إِسْحَاقُ لَمْ یَنْسَ مَا قَدْ حَفِظَ۔

(سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل أول سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی)

ترجمہ: جو شخص رات سونے سے پہلے سورۃ البقرۃ کی دس آیات تلاوت کرے گا اُسے قرآن کریم کبھی نہ بھولے گا ۔چارآیات شروع والی المفلحون تک، ایک آیۃ الکرسی، دو اِس کے بعد والی، اور (سورۃ البقرۃ) کی تین آخری آیات (آخری رکوع) ۔

  • عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقْرَأُ الْمُسَبِّحَاتِ قَبْلَ أَنْ یَرْقُدَ وَیَقُولُ إِنَّ فِیہِنَّ آیَۃً خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ آیَۃٍ۔

ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل ’’سورالمسبحات‘‘ یعنی سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ حدید، سورۃ حشر، سورۃ صف، سورۃ جمعہ، سورۃ تغابن اور سورۃ اعلیٰ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیات سے بڑھ کر ہے۔

(ابو داؤد، کتاب الأدب، باب ما یقال عند النوم)

  • عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ لاَ یَنَامُ حَتَّی یَقْرَأَ (الم تَنْزِیلُ) وَ (تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ)

(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الملک)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ سجدہ اور سورۃ ملک کی تلاوت کرنے سے پہلے نہ سوتے تھے۔

حفظ کرنے کے بعد دہرائی ضروری ہے

حفظ کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ بار بار دہرایا جائے۔ ایک حافظ قرآن کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بہت دہرانا پڑتا ہے۔ پس حفظ کو محفوظ رکھنے کا طریق یہی ہے کہ حفظ کرنے کے بعد اس کی مسلسل دہرائی کی جائے تاکہ حفظ قائم رہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ أَشَدُّ تَفَصِّیاً مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِہَا

(مسند احمدبن حنبل، مسند عبد اللہ بن مسعود، جزء اول صفحہ423)

ترجمہ: قرآن کریم کوبار بار دہرائو کیونکہ یہ لوگوں کے سینوں سے اس سے بھی جلدی چھوٹ کر نکل جاتا اور زائل ہو جاتاہے جیسے بندھے ہوئے جانور۔

حفظ کیا گیا قرآن کریم (منزل) یاد رکھنے کے لیے ضروری نصائح:

احادیث میں حافظ کوحاملِ قرآن یعنی قرآن کریم کا بوجھ اٹھانے والا کہا گیا ہے۔ پس حافظ قرآن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے ظاہری الفاظ کی حفاظت کرے،اس کو یاد رکھے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر اس کی تعلیمات کی بھی حفاظت کرے۔ بعض لوگ اپنے بچوں کو حفظ تو کرا دیتے ہیں اور اس کو فخرکا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں مگر اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ یہ بچہ اس دولت کی قدروحفاظت بھی کر سکے گا یا نہیں؟ مثلاًحفظ کرنے کے بعد دنیاوی تعلیم یا دیگر سرگرمیوں کی ایسی مصروفیت ہو جاتی ہے کہ حافظ دہرائی چھوڑ دیتا ہے یا سرسری تھوڑا سا پڑھ لیتا ہے۔ اس طرح ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔

پس والدین کی ذمہ داری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو بچہ کو قرآن کریم کی اہمیت کے اعتبار سے یاد بھی کرواتے رہیں اور دہرائی بھی کرواتے رہیں تا کہ کسی بھی کام میں مصروف ہونے کے باوجود بچہ کے ذہن و دل میں قرآن کریم کی محبت اور اہمیت اجاگر رہے اور وہ دہرائی کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اس سے کبھی بھی غفلت نہ برتے۔

یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جو حافظ دہرائی نہیں کرتے،قرآن کریم آہستہ آہستہ ان کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بہت سا حصہ بالکل بھول جاتا ہے۔ اس حصہ کو دوبارہ یاد کرنے کے لیے سخت ترین محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے طلبا اور والدین خصوصاً یہ بات مدنظر رکھیں کہ حفظ کرنا ہے تو اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ساری زندگی تیار رہیں۔ اس طرح کہ حفظ کرکے اس کو یاد بھی رکھیں اور بعد میں مسلسل دہراتے رہیں۔

  • اس سلسلہ میں والدین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچے کو حفظ کروانے کے بعد اس بات کی فکر کریں کہ وہ حفظ کو یاد بھی رکھے اور بعد میں مسلسل دہرائی کرتا رہے۔ یہ بڑی بھاری ذمہ داری والدین پرعائد ہوتی ہے کہ وہ اپنافرض ادا کریں تبھی تو وہ ان انعامات اور برکات کے وارث بنیں گے جن کی خوشخبری احادیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
  • حافظ قرآن کو روزانہ دو پارے منزل دہرانے کی کوشش کرنی چاہیے یا کم از کم ایک پارہ منزل یاد کرنے کا معمول زندگی بھر رکھنا چاہئے ۔ ہرماہ قرآن کریم کا ایک دور کم از کم ضرور مکمل کرنا چاہئے۔
  • ماہ رمضان میں نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کادورکرنا چاہئے۔ اس کے لیے اچھی اوربھرپور تیاری ہونی چاہئے جس سے حفظ بہت پختہ رہے گا۔
  • دو حافظِ قرآن ساتھی مل کرایک دوسرے کو منزل سنائیںاور اس طرح قرآن کریم کا دَور کریں تو زیادہ مفید رہتا ہے۔
  • روزانہ باقاعدگی سے تلاوت حدرکے طریق پر منزل کی دہرائی کی جائے۔ دہرائی کے لیے ایک وقت مخصوص کر لیا جائے تو مناسب رہتا ہے۔
  • حفاظ کرام کو ترتیل کے ساتھ روزانہ تلاوت یعنی حسن قراءت کی مشق بھی کرنی چاہئے۔
  • حفظ کرنے اور قائم رکھنے کے لیے دعاایک بنیادی کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنی کامیابی کے لیے باقاعدہ دعائیں کریں۔
  • دعا ختم القرآن. اللّٰھم ارحمنی باالقراٰن ۔۔۔۔ بہت جامع اور عظیم دعا ہے۔ اس کو التزاماً روزانہ پڑھیں۔
  • قرآنی دعائیں بھی کثرت سے پڑھیں۔

(حافظ مسرور احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 30 ۔اپریل2020ء