• 5 مئی, 2024

تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
میں اکثر مختلف جگہوں پرعاملہ کی میٹنگ میں کہا کرتا ہوں کہ تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں اور یہ گھر صرف سیکرٹری تربیت کا گھر نہیں ہے بلکہ عاملہ کے ہر ممبر کا گھر ہے اور مجلس عاملہ سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے۔ امیر جماعت، صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت جو بھی پروگرام بناتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنی عاملہ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان پروگراموں پر عمل کر رہی ہے کہ نہیں۔ خدا تعالیٰ کے جو بنیادی احکام ہیں اور انسان کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے عاملہ کے ممبران پورا کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر تقویٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور اس کے لئے مردوں کو یہ حکم ہے کہ نماز کا قیام کرو اور نمازوں کا قیام باجماعت نماز کی ادائیگی ہے۔ پس امراء، صدران، عہدیداران اپنی نمازوں کی حفاظت کر کے اس کے قیام اور باجماعت ادائیگی کی بھرپور کوشش کریں تو اس سے جہاں ہماری مسجدیں آباد ہوں گی، نماز سینٹر آباد ہوں گے وہاں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور اپنے عملی نمونے سے افراد جماعت کی بھی تربیت کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی ہوں گے۔ ان کے کاموں میں آسانیاں بھی پیدا ہوں گی۔ صرف باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے۔ پس کام کرنے والے پہلے اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک ان کے قول و فعل ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 3) یعنی اے مومنو وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خودنہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے‘‘۔ فرمایا کہ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ67 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر فرمایا ’’یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آ سکتی جب تک عمل نہ ہو‘‘۔ اور ’’محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ77 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

عمل کے علاوہ اگر اور باتیں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کھول کر بتایا کہ ہمارے عمل اور قول میں تضادنہیں ہونا چاہئے۔ پس اس بات کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لینے والے سب سے زیادہ ہمارے عہدیدار ہونے چاہئیں۔ جہاں فاصلے زیادہ ہیں یا چند گھر ہیں اور مسجد یا سینٹر کی سہولت موجودنہیں وہاں گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو سکتا ہے اور عملاً یہ مشکل نہیں ہے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی باقاعدہ خدمت بھی نہیں ہے۔ کسی عاملہ کے ممبر بھی نہیں ہیں لیکن اپنے گھروں میں ارد گرد کے احمدیوں کو جمع کر کے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ پس اگر احساس ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہمارے ہر عہدیدار میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے۔

پس ہمیشہ عہدیداران کو یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ان کی نگرانی کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھنے والے ہیں کہ کہیں ہمارے سپرد جو امانتیں کی گئی ہیں اور جو ہم نے خدمت کرنے کا عہد کیا ہے اس میں ہماری طرف سے کوئی کمی اور کوتاہی تو نہیں ہو رہی؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: 35) کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہو گی۔ یہ عبادت تو ایک بنیادی چیز ہے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس کا حق تو ہم نے ادا کرنا ہی ہے۔ اس میں سستی تو، خاص طور پر عہدیداروں کی طرف سے بالکل نہیں ہونی چاہئے بلکہ کسی بھی حقیقی مومن کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15جولائی 2016)

پچھلا پڑھیں

چودہواں سالانہ ریجنل جلسہ گراں لاؤو، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2022