• 17 مئی, 2024

عید کا سبق، غرباء پروری

اللہ تعالی نے قرآن کریم کے آخری پارہ میں جہاں امام مہدی کی آمد کی علامات کا ذکر فرمایا ہے وہاں آخری زمانے کی بعض کمزوریوں کا ذکر بار بار کیا ہے جو بالخصوص امام مہدی کے دور میں پائی جانی تھیں۔ ان میں سے ایک یتیموں، مسکینوں اور غرباء کے حقوق کا ذکر ہے۔ جو بار بار ہوا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو رمضان سے ہمیں ملتا ہے اور عید کا موقع اس کا ایک عملی اظہار ہے۔ جیسے فرمایا۔

رزق میں کمی کی وجہ، یتیم اور مسکین کی عزت نہ کرنا ہے۔

(الفجر: 18)

بلندی پر چڑھنے کا ذریعہ یتیم اور مسکین کی خبر گیری ہے گویا زینہ ہے۔ (البلد)

ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے روکتے اور یتیم کو دھتکار تے ہیں۔ (الماعون)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم پا کر پناہ دی۔ اور تلقین کی

فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ ؕوَاَمَّاالسَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَر

(الضحیٰ: 10-11)

اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کو جب ہم اس پہلو سے تاریخ اور سیرت کے آئینہ میں دیکھتے ہیں تو آپ کے دو فرمان بہت واضح طور پر ملتے ہیں۔ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ۔ اَلْحُبُّ اَسَاسِیْ

یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں تعلقات خواہ وہ کسی کے ساتھ ہوں آپ میں محبت ہمیشہ غالب رہی۔ انس چھایا رہا۔ اپنوں اور غیروں سے حسن سلوک اور پیار سے ہی پیش آتے آپ کو دیکھا گیا۔ تمام مخلوق سے آپؐ کا محبت بھر اسلوک تھا۔ کسی کے در میان کوئی فرق نہیں کیا۔ غریب ہو، امیر ہو یا کوئی سر بر اہ ہو برابری کا سلوک کرتے ہوئے محبت اور پیار کے پھول بکھیرے اور صحابؓہ کی بھی پھر اسی رنگ میں تربیت فرمائی۔ صحابہؓ نے بھی آپؐ کے نقش قدم پر محبت کے دیپ جلائے۔ پیار نچھاور کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ آپس میں میل ملاپ کے مواقع مہیا فرمائے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا۔ غمی خوشی میں شامل ہونا گویا ان کی غذائے ثانی بن چکی تھی۔ اور وہ ایک جسم ہو چکے تھے۔ ایک صحابی (خواہ وہ غریب ہو یا امیر) کی تکلیف تمام صحابہؓ کی تکلیف ہوا کرتی تھی۔ اور خود آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ کیفیت تھی کہ غرباء میں رہنا آپ پسند فرماتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے۔

وَابْغُونِیْ فِیْ الضُّعَفَاَءِ مجھے تلاش کرنا ہو تو غرباء میں تلاش کریں۔

ایک دشمن اسلام، آنحضور ﷺ کو غریبوں میں پا کر ایمان لے آیا تھا۔ وہ مدینہ میں یہ کہتا ہوا داخل ہوا کہ اگر محمدؐ غریبوں کے ساتھ ہوا تو وہ سچا ہو گا اور میں ایمان لے آؤں گا۔

آپ صلی الله علیہ و سلم طبعی طور پر مساکین کے ساتھ دلی محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ غرباء اس شمع کے گرد پروانہ وار جمع ہوتے گئے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت تھی اور آپﷺ کے صحابہؓ کی۔ سرداران مکہ بسا اوقات آپؐ سے کہتے کہ ہماری شان ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ آپؐ کی ایسی مجالس میں شامل ہوں۔ جن میں ہم سے چھوٹے طبقے کے لوگ موجود ہوں۔

قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الۡاَرۡذَلُوۡنَ

(الشعراء: 112)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

وَلَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَالۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ

(انعام: 53)

یعنی یہ غرباء جو آپؐ کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں ان کو مت دھتکار۔ یہ صبح و شام اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور ہر آن اللہ کی توجہ چاہتے ہیں۔ غرباء نے جب یہ آیت سنی تو بڑے فخر اور دلی مسرت سے یہ کہا کرتے تھے فیْنَانَزَلَتْ کہ یہ ہماری عزت افزائی اور تکریم کے لئے نازل ہوئی۔ اور کہا کرتے تھے کہ خدا کا یہ حبیب حضرت محمدﷺ ہمارے ساتھ گھل مل کر بیٹھا کر تا ہے اور قرب صحبت کا بعض اوقات یہ حال ہوتا ہے کہ آپؐ کا گھٹنا ہمارے گھٹنوں سے لگ جاتا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالی نے فرمایا کہ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ (الکہف: 29) ان کی طرف سے اپنی توجہ نہ پھیر لینا۔

آپؐ کا یہ اعلی کردار ہی تھا کہ پہلی وحی پر جو آج سے 1400 سال قبل نازل ہوئی حضرت خدیجہ نے برملا طور پر یہ کہتے ہوئے تسلی دی تھی۔

كَلَّا وَاللّٰهِ مَا يُخْزِيكَ اللّٰهُ أَبَدًا،إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،‏‏‏‏‏‏وَتَحْمِلُ الْكَلّ،‏‏‏‏‏‏وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ،‏‏‏‏‏‏وَتَقْرِي الضَّيْفَ،‏‏‏‏‏‏وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ

آپ رشتہ داروں کو جوڑتے ہیں۔ مہمان نواز ہیں۔ صادق وصدوق ہیں۔ آپؐ بے نواؤں اور بے کسوں کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ آمدنی سے محروم لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر تُعِینُ عَلیَ نَوائِبَ الحقِّ کہ قحط اور وبائی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کی تکلیف دور کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ اسی قسم کی گواہی آپؐ کے چچا ابو طالب نے اس وقت دی تھی جب آپؐ کا نکاح حضرت خدیجہؓ سے ہوا۔ خطبہ میں کہا۔(شعر کا ترجمہ) محمدؐ کے باخد ا ہونے کی وجہ سے قحط کے زمانے میں اس کے منہ کا واسطہ دے کر خدا کے حضور بارش نازل کرنے کی التجا کی جاتی ہے کیو نکہ وہ یتامیٰ اور بیوگان کے لئے ملجاو ماوٰی ہے اور خود خدانے گواہی دی تھی کہ مخلوق کا دکھ درد آنحضورؐ کو گراں گزرتا ہے اور ان کو چین نہیں پڑتا جب تک وہ ان کی تکالیف کو دور نہ کر لیں۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ میں مساکین سے محبت رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری زندگی مساکین کے در میان گزرے اور جب میر احشر ہو تو میں اپنے تئیں زمره مساکین میں پاؤں۔

مسجد نبویؐ میں رہائش رکھنے والے 100کے قریب غرباء (جو اصحاب صفہ کہلاتے تھے) کے خود کفیل و متکفل تھے۔ سفر و حضر میں ہر جگہ ناتوانوں کی مدد کرنا بہت ضروری سمجھتے تھے لکھا ہے کہ سفر کرتے وقت قافلے کے پیچھے پیچھے چلتے۔ کمزوروں کے لئے اپنی سواری کی رفتار کم کر لیتے۔ ناتوانوں اور غرباء کو اپنے پیچھے سوار کر لیتے۔ بسا اوقات خود ساتھ پیدل چلتے۔ اور کہا کرتے کہ جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اپنے نادار بھائی کو دے دے۔ جس کے پاس زائد زاد راہ ہے وہ اپنے ایسے بھائی کو دے دے جس کے پاس زاد راہ نہ ہو۔ اور امراء کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے کہ ’’اللہ کی طرف سے مدد اور جو رزق دیا جاتا ہے وہ سب ضعفاء اور غرباء کی بدولت ہے‘‘ اور آج کار خانه زندگی کو دیکھیں تو امراء اور صاحب ثروت لوگ ان غرباء اور گھر میں کام کاج کرنے والوں ہی کی وجہ سے سکھ اور آرام میں ہیں۔ اور گھر کا کاروبار چلانے کے لئے یہ غرباء اور ضعفاء کے محتاج ہیں کوئی باورچی ہے۔ کوئی مالی ہے۔ اور کوئی ڈرائیور ہے۔ جو اپنے آرام سے محروم رہ کر اپنے صاحب مالک کے آرام کے لئے کوشاں رہتا ہے اور یہ اس بات کے حق دار ہیں کہ آنحضورؐ کی اقتداء میں ان سے نرمی ، محبت ، پیار کا سلوک کیا جائے اور اس طرح کے دوسرے غرباء کا بھی خیال رکھا جائے۔

یہی وہ عظیم پیغام ہے ہم سب کے لئے اس عید کے موقع پر جس کا درس سارے رمضان میں ہمیں ملتا ہے اور رمضان کے آخر پر غرباء سے جذبہ ہمدردی اور ضعفاء کی دستگیری کے لئے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے۔ اور عید اس کا عملی نشان ہے۔

ایک عید پر آنحضورﷺ کا ایسی جگہ سے گزر ہوا جہاں کچھ بچے کھیل کود میں مصروف تھے اور عید پر ملنے والے تحائف کا ذکر فخریہ انداز میں کر رہے تھے کہ یہ تحفہ مجھے ابا نے دیا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مجھے یہ تحفہ میری اماں نے دیا۔ ایک کنارے بچہ نا امیدی اور مایوسی کی تصویر بناپرانے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ کھڑا تھا کہ آنحضورﷺ نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں مایوس کھڑے ہو۔ ان بچوں کی ساتھ کیوں نہیں کھیل رہے۔ بچے نے جواب دیا کہ میرے امی ابا نہیں ہیں جو مجھے عید پر نئے کپڑے دیتے اور میں بھی خوشی مناتا۔ آنحضورؐ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ آپ بچے کو گھر لائے۔ حضرت عائشہؓ سے کہا۔ بی بی!اسے نہلاؤ اور نئے کپڑے پہناؤ۔ اس کے ماں باپ نہیں ہیں۔ اوربچے سے کہا کہ بیٹا! گھبراؤ مت۔ آج سے میں تمہارا باپ، عائشہ تمہاری امی اور فاطمہ تمہاری بہن ہے۔

آج 1400 سال کے بعد سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ اور مہدی معہود نے ایک دفعہ پھر اپنے روحانی بادشاہ حضرت محمدؐ کی سیرت اور تاریخ کو زندہ کیا۔ اور شرائط بیعت میں غریب پروری کی تعلیم دے کر ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سے کم ر تبہ و مرتبہ اور Status کے آدمی سے بغیر تمیز مذہب و ملت حسن سلوک کا درس دیا۔

*حضرت میر ناصر نواب صاحب نے ایک دفعہ اپنا مستعمل کوٹ کسی کو تحفہ کے طور پر بھجوایا۔ اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ کوٹ لے کر جانے والے دوست یہ کوٹ حضرت نواب صاحب کو واپس کرنے جارہے تھے کہ راستہ میں حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات ہو گئی۔ آپ نے وجہ پوچھنے پر فرمایا کہ لاؤ! میں پہن لیتا ہوں۔ واپس کرو گے تو حضرت نواب صاحب کی دل شکنی ہو گی۔

*ایک دفعہ ایک غریب اور مفلس صحابی محفل میں موجود تھے کہ اعلی اور امیر صحابی آتے تو ان کو جگہ مل جاتی جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ غریب صحابی جوتیوں والی جگہ پر چلے گئے۔ حضور یہ سارا ماجرا دیکھ رہے تھے جب کھانا Serve ہوا تو آپ اپنا پیالہ لے کر اس غریب صحابی کے پاس جوتی والی جگہ پر چلے گئے اور اپنا کھانا اس غریب صحابی

پچھلا پڑھیں

دنیا کے حالات اور اسیران کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ