• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 24)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 24

دعا اس کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے

یاد رکھو غفلت کا گناہ پشیمانی کے گناہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔یہ گناہ زہریلا اور قاتل ہوتا ہے۔ توبہ کرنےوالا تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ جس کو معلوم ہی نہیں کہ میں کیا کررہا ہوں وہ بہت خطرناک حالت میں ہے۔ پس ضرورت ہے کہ غفلت کو چھوڑدو۔ اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور خداتعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ جو شخص توبہ کرکے اپنی حالت کو درست کرلیگا وہ دوسروں کے مقابلہ میں بچایا جائے گا۔ پس دعا اسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنےسچے تعلق کو قائم کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ230 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو

سو تم نمازوں کو سنو ارو اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب کرو۔ اس کی نواہی سے بچے رہو۔ اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو۔ دعا کا سلسلہ ہر وقت جاری رکھو اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع و سجود میں دعا کا موقعہ ہے دعا کرو۔ اور غفلت کی نماز کو ترک کردو۔ رسمی نماز کچھ ثمرات مترتب نہیں لاتی۔ اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع خضوع اور حضور قلب سے ادا کی جاوے اور عاجزی اور فروتنی اور انکساری اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم از کم یہ تو ہوکہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کمال ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نماز ادا کرو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ236 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

اپنے گھروں کو دعاؤں سے پر کرو

رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا تمام مدار دعا پر ہی تھا اور ہر ایک مشکل میں آپ دعا ہی کرتے تھے۔ ایک روایت سے ثابت ہے کہ آپ کے گیارہ لڑکے فوت ہوگئے ہیں تو کیا آپ نے ان کے حق میں دعا نہ کی ہوگی؟ آج کل ایک غلط فہمی لوگوں کے دلوں میں پڑ گئی ہے اور یہ اس جہالت کے زمانہ کی نشانی ہے کہ اکثر لوگو کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ فلاں ولی کی ایک پھونک مارنے سے صاحب کو کمال ہوگیا اور فلاں کے ہاتھ سے مردے زندہ ہوئے …

یہ مت خیال کرو کہ جو نماز کا حق تھا ہم نے ادا کرلیا یا دعا کا جو حق تھا وہ ہم نے پورا کیا۔ ہرگز نہیں۔ دعا اور نماز کے حق کا ادا کرنا چھوٹی بات نہیں۔ یہ تو ایک موت اپنے اوپر وارد کرنی ہے۔ نماز اس بات کا نام ہے کہ جب انسان اسے ادا کرتا ہو۔ تو یہ محسوس کرے کہ اس جہان سے دوسرے جہان میں پہنچ گیا ہوں۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو بری خیال کرکے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نماز بھی پڑھی اور دعا بھی کی ہے مگر قبول نہیں ہوتی۔ یہ ان لوگوں کا اپنا قصور ہوتا ہے۔ نماز اور دعا جب تک انسان غفلت اور کسل سے خالی نہ ہو تو وہ قبولیت کے قابل نہیں ہوا کرتی۔ اگر انسان ایک ایسا کھانا کھائے جو کہ بظاہر تو میٹھا ہے مگر اس کے اندر زہر ملی ہوئی ہے تو مٹھاس سے وہ زہر معلوم تو نہ ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ مٹھاس اپنا اثر کرے زہر پہلے ہی اثر کرکے کام تمام کردے گا۔ یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بھری ہوئی دعائیں قبول نہیں ہوتیں کیونکہ غفلت اپنا اثر پہلے کر جاتی ہے۔ یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بالکل مطیع ہو اور پھر اس کی دعا قبول نہ ہو۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اس کے مقرر ہ شرائط کو کامل طورپر ادا کرے جیسے ایک انسان اگر دوربین سے دور کی شئے نزدیک دیکھنا چاہے تو جب تک وہ دوربین کے آلہ کو ٹھیک ترتیب پر نہ رکھے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ یہی حال نماز اور دعا کا ہےاسی طرح ہر ایک کام کی شرط ہے جب وہ کامل طورپر ادا ہو تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے۔ اگر کسی کو پیاس لگی ہو اور پانی اس کے پاس بہت سا موجودہے مگر وہ پئے نہ تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا… اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا…

… نماز کوئی ایسی ویسی شئے نہیں ہے بلکہ یہ وہ شئے ہے جس میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) جیسی دعا کی جاتی ہے اس دعا میں بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ برے کام کرتے ہیں ان پر دنیا میں خداتعالیٰ کا غضب آتا ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیئے۔ جو کام ہوتا ہے اس کے ارادہ سے ہوتا ہے… تم کو چاہیئے کہ برائیوں سے بچنے کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرو تاکہ بچے رہو۔ جو شخص بہت دعا کرتا ہے اس کے واسطے آسمان سے توفیق نازل کی جاتی ہے کہ گناہ سے بچے اور دعا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گناہ سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی راہ اسے مل جاتی ہے۔ جیسا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا (الطلاق: 3) یعنی جو امور اسے کشاں کشاں گناہ کی طرف لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان امور سے بچنے کی توفیق اسے عطا فرماتا ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ318-321 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

سجدہ ورکوع میں قرآنی آیت نہ پڑھی جائے

سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ331 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو

ہوا۔ پانی۔ آگ وغیرہ بھی ایک طرح کے ملائکہ ہی ہیں۔ ہاں بڑے بڑے ملائکہ وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا مگر اس کے سوا باقی اشیاء مفید بھی ملائکہ ہی ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جہاں فرماتا ہے کہ وَاِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ (بنی اسرائیل: 45) کل اشیاء خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں۔ تسبیح کے معنے یہی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ ان کو حکم کرتا ہے اور جس طرح اس کا منشا ہوتا ہے وہ اسی طرح کرتے ہیں اور ہر ایک امر اس کے ارادے اور منشا سے واقع ہوتا ہے۔ اتفاقی طور سے دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ اگر خداتعالیٰ کا ذرہ ذرہ پر تصرف تام اور اقتدار نہ ہوتو وہ خدا ہی کیا ہوا۔ اور دعا کی قبولیت کی اس سے کیا امید ہوسکتی ہے؟ اور حقیقت یہی ہے کہ وہ ہوا کو جدھر چاہے اور جب چاہے چلا سکتا ہے اور جب ارادہ کرے بند کرسکتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں پانی اور پانیوں کے سمندر ہیں۔ جب چاہے جوش زن کردے اور جب چاہے ساکن کردے وہ ذرہ ذرہ پر قادر اور مقتدر خدا ہے۔ اس کے تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں۔ وہ جنہوں نے دعا سے انکار ہی کردیا ہے۔ ان کو بھی یہی مشکلات پیش آئے ہیں کہ انہوں نے خد اکو ہر ذرہ پر قادر مطلق نہ جانا اور اکثر واقعات کو اتفاقی مانا۔ اتفاق کچھ بھی نہیں۔ بلکہ جو ہوتا ہے اور اگر پتہ بھی درخت سے گرتا ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے اور حکمت سے گرتا ہے اور یہ سب ملائکہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے اشارے سے کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں لگائے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے سچے فرمانبردار اور اسی کی رضا کے خواہاں ہوتے ہیں۔ جو خدا کا بن جاتا ہے اسے خدا تعالیٰ سب کچھ عطا کرتا ہے

؂جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ335-336 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

ساری نماز دعا ہی ہے

سوال ہوا کہ نماز کے بعد دعا کرنا یہ سنت اسلام میں ہے یا نہیں؟ فرمایا ہم انکار نہیں کرتے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہوگی مگر ساری نماز دعا ہی ہے اور آج کل دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نماز کو جلدی جلدی ادا کرکے گلے سے اتارتے ہیں۔ پھر دعاؤں میں اس کے بعد اس قدر خشوع خضوع کرتے ہیں کہ جس کی حد نہیں اور اتنی دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں کہ مسافر دو میل تک نکل جاوے۔ بعض لوگ اس سے تنگ بھی آجاتے ہیں تو یہ بات معیوب ہے۔ خشوع خضوع اصل جزو تو نماز کی ہے وہ اس میں نہیں کیا جاتا۔ اور نہ اس میں دعا مانگتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگ نماز کو منسوخ کرتے ہیں۔ انسان نماز کے اندر ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ367 آن لائن ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

دنیا کے حالات اور اسیران کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ