• 27 اپریل, 2024

عید الفطر اور اس کے مسائل

ہر مذہب و قوم میں مذہبی اور تمدنی تہوار منانے کے طریق جُدا جُدا ہیں۔ اسلام نے بھی اس فطرتی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا، لیکن اس کی اصلاح کردی۔ اسلام میں خوشیاں منانے کے طریق دوسرے مذاہب سے کئی پہلوؤں سے مختلف بھی ہیں۔ ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ اسلام کے تہوار یعنی عیدین وغیرہ کی حکمت دیگر ایسی تقریبات سے مختلف ہے۔ مثلاً عید الفطر رمضان کی مشقت کے بعد آتی ہے اور عیدالاضحیہ کا پس منظر قربانیوں سے منسلک ہے۔ چنانچہ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لئے منایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے دریافت فرمایا: ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب صلوۃ العیدین)

کیا دنیا کے تمام ممالک میں
عید الفطر ایک ہی دن ہوسکتی ہے؟

ہر علاقے میں مقدس اسلامی ایام کا آغاز اور اختتام اس علاقے کے افق کے مطابق ہوتا ہے۔ صحیح مسلم شریف میں ایک باب کا عنوان ہی یہ ہے کہ:۔ أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ وَأَنَّہُمْ إِذَا رَأَوُا الْہِلَالَ بِبَلَدٍ لَا یَثْبُتُ حُکْمُہُ لِمَا بَعُدَ عَنْہُم (صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ۔ ۔۔) ہر علاقے کے لئے ان کی اپنی رؤیت ہے اوریہ کہ جب لوگ کسی علاقے میں نیا چاند دیکھ لیں تو اس کا حکم جو ان سے دور ہیں اُن پر نافذ نہیں ہوگا۔

چنانچہ حضرت کریب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔ ’’امّ فضل بنت حارث نے انہیں امیر معاویہ ؓ کے پاس شام بھیجا۔ وہ کہتے ہیں مَیں شام آیا اور ان کا کام مکمل کیا۔ مَیں شام میں ہی تھا کہ رمضان کا چاند طلوع ہوگیا۔ مَیں نے چاند جمعہ کے دن دیکھا ،پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آگیا۔

حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (حال احوال) پوچھا پھر نئے چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے نیا چاند کب دیکھا؟ مَیں نے کہا ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تم نے خود اسے دیکھا؟ میں نے کہا ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی اسے دیکھااور انہوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ ؓ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی للہ عنہما نے کہا ہم نے اسے ہفتہ کی رات دیکھا ہم روزے رکھتے رہیں گے یہاں تک کہ تیس پورے کرلیںیا ہم اسے (چاند کو) دیکھ لیں۔ میں نے کہا کیا آپ ؓکے لئے امیر معاویہ ؓ کی رؤیت اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں تو انہوں نے کہا نہیں،ہمیں رسول اللہؐ نے ایسا ہی حکم دیا تھا۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب بیان أَنَّ لِکُلِّ بَلَدٍ رُؤْیَتَہُمْ۔ ۔۔)

چونکہ زمین گھوم رہی ہے اس لئے چاند مختلف علاقوںمیں مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایک جگہ دن ہے تو دوسری جگہ رات ہے یا عصر کا وقت ہے۔ اسی طرح بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو افق مختلف ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کہ سب ممالک کے لوگ ایک ہی وقت میں چاند دیکھنے پر قادر ہو سکیں۔ اس لئے ایسا نظام نا ممکن ہے کہ ایک ملک میں چاند نظرآجا نے پر تمام ممالک کے لوگ ایک ہی دن رمضان وعیدین وغیرہ اسلامی تہوار منائیں۔

قبل از نماز عید صدقۃ الفطر یعنی فطرانہ کی ادائیگی ضروری ہے:

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریمؐ نے صدقہ فطر ادا کرنا ہرچھوٹے، بڑے، امیر اور غریب مسلمان پر واجب قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:۔ آنحضرتؐ نے چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام اور ایسے افراد کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا جو کسی کے زیر کفالت ہوں، یعنی جس کے نفقہ کا وہ ذمہ دار ہے۔ (الدارقطنی کتاب زکاۃ الفطر) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:۔ رسول اللہؐ نے فطر کی زکوٰۃ (یعنی فطرانہ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے، بڑے تمام مسلمانوں پر فرض قرار دی تھی۔ اور آپ کا حکم تھا کہ نماز عید کے لیے جانے سے قبل یہ فطرانہ ادا کر دیا جائے۔ (بخاری کتاب الزکاۃ باب فرض صدقۃ الفطر) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے تعامل کے متعلق حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ:۔ ’’صحابہ عید سے ایک دن یا دو دن قبل فطرانہ اداکیا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری کتاب الزکاۃ باب صدقۃ الفطر علی الحر والمملوک) حضرت ابن عباسؓ نے ماہ رمضان کے آخر میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:۔ رسول کریمؐ نے یہ صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا گندم کا آدھا صاع ہر آزاد، غلام، مرد، عورت اور بڑے چھوٹے پر مقرر فرمایاہے۔ (ابو داؤد کتاب الزکاۃ باب من روی نصف صاع من قمح) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:۔ آنحضرتؐ نے روزہ دار (کے روزہ) کو لغو اور شہوانی امور سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کے کھانے کے لئے صدقۃ الفطر مقرر فرمایا ہے۔ پس جو شخص قبل نماز عید ، صدقۃ الفطر ادا کرے تو وہ زکوٰۃ کے طور پر قبول کیا جائے گا اور جو شخص نماز عید کے بعد ادا کرے تو وہ دیگر صدقات کی مانند ایک صدقہ ہو گا (فطرانہ نہیں کہلائے گا)۔

(ابو داؤد کتاب الزکاۃ باب زکاۃ الفطر)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’صدقہ فطر بموجب حدیث کے سب پر ہے۔ غنی ہو یا فقیر۔ بالغ ہو یا نابالغ۔ جو ایسا نادار ہے کہ اس کو ممکن نہیں تو لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا کے ماتحت ہے۔مسکین وہ ہے جو کام نہیں کر سکتا۔‘‘

(بدر سلسلۃ الجدید نمبر5 جلد8،10دسمبر 1908ء صفحہ9)

اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوجائیں۔ تو نماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق ہدایات:۔ حدیث شریف میں آیا ہے: عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اجْتَمَعَ عِیْدَانِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَصَلَّی بِالنَّاسِ ثُمَّ قَالَ مَنْ شَآءَ أَنْ یَّأْتِیَ الْجُمُعَۃَ فَلْیَأْتِہَا وَمَنْ شَآءَأَنْ یَّتَخَلَّفَ فَلْیَتَخَلَّفْ۔ (سنن ابن ماجہ۔ کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا۔ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1312) حضرت ابن عمر ؓفرماتے ہیں کہ رسول پاکؐ کے عہد مبارک میں دونوں عیدیں (جمعہ اور عید) جمع ہوگئیں تو آپؐ نے عید کی نماز پڑھا کر فرمایا جو جمعہ کی نماز کے لیے آنا چاہے آجائے اور جو نہ آنا چاہے وہ نہ آئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَنَّہٗ قَالَ اجْتَمَعَ عِیْدَانِ فِیْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فَمَنْ شَآءَ أَجْزَأَہٗ مِنَ الْجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُوْنَ إِنْ شَآءَ اللّٰہُ (سنن ابن ماجہ۔ کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا۔ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1311) حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کی بجائے عید کافی ہوگئی۔ اور ہم تو ان شاء اللہ جمعہ ضرور پڑھیں گے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 11فروری 1938 میں متذکرہ بالا احادیث اور اس سے ملتی جلتی دیگر روایات میں بیان شدہ مضامین کا بڑے خوبصورت انداز میں احاطہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریمؐ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپؐ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔میں نے اُن کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریمؐ نے کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نما زپڑھنا چاہے، تو اُسے اجازت ہے۔ مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔میں نے انہیں کہا، میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ جو شخص چاہے آج کی بجائے ظہر پڑھ لے،مگر جو ظہر پڑھنا چاہتا ہے، تو وہ مجھے کیوں مجبور کرتا ہے کہ میں بھی جمعہ نہ پڑھوں، میں تو وہی کہونگا جو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ہم جمعہ ہی پڑھیں گے۔۔۔ میں اس حصہ عمل کرتا ہوں جس میں آتا ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ہم جمعہ ہی پڑھیں گے، اور اگر کوئی دوسرے حصہ پر عمل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس حصہ پر عمل کرے، مگر وہ مجھے کیوں مجبور کرنا چاہتا ہے کہ میں بھی اس دوسرے حصہ پر عمل کروں تو آج دو عیدین جمع ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک پنجابی مثل ہے کہ دو دو تے چوپڑیاں۔۔۔ ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو (عیدیں۔ناقل) دیں یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو، دو چپُٹری ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں رد کرے گا۔ وہ تو دونوں لے گا۔سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریمؐ نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 11فروری 1938ء بحوالہ الفضل 15مارچ 1938ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور موقع پر فرمایا: ’’شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔ کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے۔ چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیا دہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا۔اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معا شرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21اگست 1956ء بمقام کراچی۔ بحوالہ المصلح کراچی 20اکتوبر 1956ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر اد اکرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئے گئے ہیں۔ ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11فروری 1939ء۔ الفضل 19فروری 1939ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں: ’’عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘

(بدر جلد9 نمبر10۔ ۔۔۔ 30دسمبر 1909ء صفحہ1 تا 3)

مؤرخہ 21 جنوری 2005 بروز عیدالاضحی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اعلان فرمایا: ’’آج جمعہ بھی ہے۔ جمعہ کے لئے اعلان ہے آج جمعہ نہیں ہو گا۔ صرف نماز ظہر ادا کی جائے گی۔ ان شاء اللہ‘‘

(خطبہ جمعہ 21جنوری 2005، از خطبات مسرور جلد3 صفحہ37)

قرآن کریم میں لفظ عیدکا تذکرہ

قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَارۡزُقۡنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ عىسى ابنِ مرىم نے کہا اے اللہ ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے (نعمتوں کا) دسترخوان اُتار جو ہمارے اوّلىن اور ہمارے آخرىن کے لئے عىد بن جائے اور تىرى طرف سے اىک عظىم نشان کے طور پر ہو اور ہمىں رزق عطا کر اور تُو رزق دىنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔ اللہ نے کہا کہ مىں وہ تم پر ضرور اتاروں گا پس جو کوئى اس کے بعد تم مىں سے ناشکرى کرے تو مىں اسے ضرور اىسا عذاب دوں گا جو تمام جہانوں مىں کسى اور کو نہىں دوں گا

(المائدہ: 115-116)

عید کی حقیقت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’رمضان گزر گیا اور وہ دن آگیا جسے عید کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رمضان ہمیشہ ختم ہو جاتے ہیں اور خدا اپنے بندوں کے لئے عیدیں بھیج دیتا ہے۔ لمبے سے لمبا عرصہ امتحان کا جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے رکھا ہے رمضان کا مہینہ ہے۔ تیس دن خدا کے بندے روزے رکھتے ہیں ’بھوکے رہتے ہیں‘ پیاسے رہتے ہیں، شہوانی تقاضوں سے بچتے ہیں ’راتوں کو جاگتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں،تلاوت قرآن کریم زیادہ کرتے ہیں‘ ذکر الٰہی کرتے ہیں اور بعض تراویح بھی پڑھتے ہیں۔ غرض یہ تیس دن کا مہینہ دینی لحاظ سے عجیب لطف اور مزے کا مہینہ ہوتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے ایک امتحان ہوتا ہے کیونکہ خدا کے بندے بھوکے اور پیاسے رہتے اور شہوانی تقاضوں سے اپنے آپ کو مجتنب رکھتے ہیں لیکن یہ ابتلاء ایک مہینہ کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور خدا اپنے بندوں کے لئے عید کا دن لے آتا ہے۔ اس طرح مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں اور ان کے بعد جلد ہی خوشی اور راحت کا دن آجاتا ہے۔ لیکن بندہ جب خود اپنے لئے کوئی مصیبت پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ اتنی لمبی ہو جاتی ہے کہ نسلاً بعد نسلٍ وہ مصیبت چلتی جاتی ہے اور بعض دفعہ تو صدیوں تک وہ مصیبت سروں پر مسلط رہتی ہے اور عید آنے میں ہی نہیں آتی بلکہ روز بروز دور ہوتی چلی جاتی ہے۔

(خطبات محمود جلد1 صفحہ321)

اسلامی عید کی بابت تفصیلی احکامات لفظاً براہ راست قرآن میں نہیں ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ہر احمدی کو اس بات کو پلّے باندھنے کی ضرورت ہے اور باندھنی چاہئے کہ صرف رمضان کا جمعہ نہیں یا آخری جمعہ نہیں جس کے لئے بعض لوگوں میں اہتمام کیا جاتا ہے کہ جس طرح بھی ہو ضرور مسجد جانا ہے یا بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ عید ضرور عیدگاہ یا مسجد میں جا کر پڑھنی ہے۔ جبکہ عید کی اہمیت کے بارے میں قرآن کریم میں براہ راست کوئی حکم نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عید کی اتنی اہمیت ہے کہ آنحضرتؐ نے اس میں شامل ہونے کی خاص تاکید فرمائی ہے اور ان عورتوں کو بھی عیدپر جانے کا حکم ہے جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی لیکن جمعہ کے بارے میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ ضرور شامل ہونا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ عید پر جانے کا حکم صرف اس لئے نہیں کہ سال کے بعد دو رکعت پڑھ لینے سے یا چند منٹ کا خطبہ سن لینے سے گناہ بخشے جائیں گے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو عبادت اور قربانی کی توفیق ملی یا جس کی خواہش تھی لیکن مجبوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہی اس پر مکمل عمل نہ ہو سکا۔ لیکن کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے شکرانے کی عبادت میں شامل ہو تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو سکیں، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ توفیق دے کہ عبادت کا ہر فرض پورا کرنے والے بن سکیں اور نوافل کی توفیق پا سکیں تو تب ہی ہر عید میں شامل ہونے کا فائدہ ہے اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ ایسی عید منانے کی کوشش کرے۔

(الفضل انٹرنیشنل 17 اکتوبر تا 23 اکتوبر 2008ء صفحہ6)

عید کے دن صدقہ و خیرات

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’آج عید کا دن ہے اور رمضان شریف کا مہینہ گزر گیاہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ایام تھے جبکہ اس نے اس ماہ مبارک میں قرآن شریف کا نزول فرمایا اور عامہ اہل اسلام کے لئے اس ماہ میں ہدایت مقدر فرمائی۔ راتوں کو اٹھنا اور قرآن شریف کی تلاوت اور کثرت سے خیرات و صدق اس مہینہ کی برکات میں سے ہے۔ آج کے دن ہر ایک کو لازم ہے کہ سارے کنبہ کی طرف سے محتاج لوگوں کی خبر گیری کرے۔ دوبُک گیہوں کے یا چار جَوکے ہر ایک نفس کی طرف سے صدقہ نماز سے پیشتر ضرور ادا کیا جاوے اور جن کو خدا نے موقع دیا ہے وہ زیادہ دیویں۔‘‘

(خطبات نور صفحہ 179)

عید الٰہی ضیافت کا دن

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:۔ جنہوں نے روزہ رکھا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدقۃ الفطر دیں۔ یہ حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنَ (بقرہ: 185) اور جو لوگ اس فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ طعام مسکین دیں۔ رسول کریمؐ نے تین رنگوں میں اس کی تفسیر فرمائی ہے۔

اول یہ کہ انسان عید سے پہلے صدقۃ الفطر دے۔

دوم، جو روزہ نہ رکھے وہ بدلے میں طعام مسکین دے۔ دائم المرض ہو یا بہت بوڑھا یا حاملہ یا مُرضِعَہ (یعنی دودھ پلانے والی عورت۔ناقال) ان سب کے لئے یہ حکم ہے۔

سوم یہ کہ یہ الٰہی ضیافت کا دن ہے۔ پس مومن کو چاہئے کہ کھانے میں توسیع کر دے اور غرباء کی خبر گیری کرے۔

(خطبات نور صفحہ411)

عید الفطر کے دن تکبیرات

عید الفطر کے دن تکبیرات پڑھنا بھی مسنون ہے۔ حضرت سالم اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کرتے ہیں کہ :۔ ’’رسول اللہؐ عید الفطر کے روز اپنے گھر سے نکلنے سے لے کرعید گاہ پہنچنے تک تکبیرات پڑھا کرتے تھے۔‘‘

(سنن الدارقطنی کتاب العیدین حدیث نمبر: 6)

امام الزہری بیان کرتے ہیں کہ:۔ ’’رسول اللہؐ عید الفطر کے روز نماز کی جگہ پہنچنے تک اور نماز کی ادائیگی تک تکبیرات کہتے۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہو جاتے تو تکبیرات کہنا ختم کر دیتے۔‘‘

(مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب صلاۃ العیدین باب فی التکبیر اذا خرج الی العید)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام ممالک میں عید الفطر کی تکبیرات کے بارہ میں درج ذیل سرکلر جاری کروایا:۔
’’عید الفطر کے موقع پر بھی تکبیرات کہنی چاہئیں کیونکہ یہ امر احادیث سے ثابت ہے اور صحیح ہے کہ عید والے دن صبح سے لے کر نماز عید تک تکبیرات پڑھی جاتی تھیں۔‘‘ (ارشاد حضور انور معرفت ایڈیشنل وکیل التبشیرصاحب لندن, حوالہ نمبر:8053/15.12.06)

(بحوالہ: الفضل انٹرنیشنل 03؍جون 2019ء۔ صفحہ نمبر 12)

عید الفطر کی صبح نماز عید سے قبل کچھ نہ کچھ کھانا ضروری ہے، چندکھجوریں کھانا بھی سنت ہے

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ عید الفطر کے دن نماز کے لئے تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے جب تک کہ چند کھجوریں نہ کھا لیں۔ حضرت انس ؓ ایک دوسری روایت میں بیان کرتے ہیں کہ آنحضورؐ طاق میں کھجوریں کھاتے تھے۔

(بخاری کتاب العیدین باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج)

عبداللہ اپنے والد بُرَیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبیؐ عید الفطر کے دن عید کے لئے کچھ کھائے بغیر نہ جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے کچھ نہ کھاتے۔

(ترمذی کتاب العیدین۔ باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج)

عید گاہ میں مختلف راستوں سے آنا اور جانا

محمد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ عید کے لئے پیدل جایا کرتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے مختلف راستے سے واپس لوٹتے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سنت ہے کہ آپ عید کے لئے پیدل جائیں اور عید کے لئے جانے سے پہلے کچھ کھا لیں۔

(ترمذی کتاب العیدین۔ باب ماجاء فی المشی یوم العید)

عید کے دن حضورؐ کا خوبصورت لباس

حضرت جعفر اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ ہر عید پر یمنی منقش چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔

(کِتَابُ الْاُمّ (لامام شافعی)کتاب صلوۃ العیدین باب الزینۃ للعید)

نماز عید سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھے جاتے:۔ حضرت سعید بن جُبِیْر ؓ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ خَرَجَ النَّبِيُّ يَوْمَ عِيدٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلُ وَلاَ بَعْدُ، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ، فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ المَرْأَةُ تَصَدَّقُ بِخُرْصِهَا وَسِخَابِهَا رسول اللہؐ عید کے دن نکلے اور دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اور ان سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں صدقہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔ تو عورتیں اپنے کانوں اور گلے کے زیور صدقہ میں دینے لگیں۔

(بخاری کتاب اللباس باب القلائد و السخاب للنساء یعنی قلادۃ من طیب وسک)

ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ عیدین کے مواقع پر بعض لوگ مساجد میں آکر عید سے پہلے یا بعد میں نوافل ادا کرتے ہیں۔ اس بارے میں رہ نمائی کی درخواست ہے۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14؍اکتوبر 2017ء میں ان مربی صاحب کو جو جواب اور اس مسئلہ کے بارے میں انتظامیہ کو جو ہدایت عطا فرمائی وہ حسب ذیل ہے۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: نماز عید سے پہلے نوافل کی ادائیگی منع ہے جیساکہ احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے، لیکن بعد میں اگر وقت ممنوعہ شروع نہ ہوا ہو تو گھر جا کر نوافل پڑھے جا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے جنرل سیکرٹری صاحب کو بھی ہدایت کر دی ہے کہ جو لوگ عید والے دن نماز عید سے قبل مساجد میں آکر نوافل ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں انہیں اس کی ممانعت کی بابت توجہ دلانے کےلیے نماز عید سے قبل مساجد میں باقاعدہ اعلان کروایا کریں۔

(الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2020ء۔ صفحہ نمبر 12۔زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قسط نمبر4)

نماز عید پر اذان یا اقامت نہیں ہوتی

اس بابت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’روایت میں آتا ہے کہ‘‘ عبدالرحمن بن عابس روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ سنا ہے کہ ان سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عیدالاضحی یا عید الفطر پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اگر میرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن میں ہی تعلق نہ ہوتا تو مَیں اس عہد کا مشاہدہ نہ کر پاتا۔پھر حضرت ابن عباس ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے لئے تشریف لے گئے۔خطبہ عید دیا۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا۔ ’’یہ مسئلہ بھی یہاں حل ہو گیا کہ عید پہ اذان اور اقامت وغیرہ کوئی نہیں ہوتی۔

(الفضل انٹرنیشنل01 تا 07 مئی 2015 صفحہ14)

تکبیرات کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑے جائیں

تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھی جاتی ہے اور بعد میں سات بار تکبیرات کہہ کر ہاتھ کھلے چھوٹ دیئے جاتے ہیں۔ اور اسی طرح دوسری رکعت میں سجدہ سے اٹھنے کے بعد پانچ بار تکبیرات کہی جاتی ہیں اور ہاتھ کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں ’’امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑ دیں۔‘‘

(فقہ احمدیہ عبادات صفحہ179)

سوال:۔ عید الفطر کی نماز پڑھتے وقت پہلی اور دوسری رکعت میں کتنی کتنی تکبیرات کہی جاتی ہیں؟

جواب:۔ نماز عید کی تکبیرات کی تعداد اور کیفیت کے متعلق فقہائے امت میں اختلاف ہے بعض ہر رکعت میں تین تین زائد تکبیرات کہنے کے قائل ہیں اور بعض پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات کہنے کے قائل ہیں۔ عید کی تکبیروں کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا مسلک فقہ احمدیہ میں یوں درج ہے:۔ ’’نماز عید کی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریںبلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے یہ تکبیرات کہیں۔ امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑ دیں۔ تکبیرات کے بعد امام اعوذ اور بسم اللہ پڑھے۔ اس کے بعد سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کوئی حصہ بالجہر پڑھ کر پہلی رکعت مکمل کرے۔ پھر دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی پانچ تکبیریں پہلی تکبیرات کی طرح کہے اور پھر یہ رکعت مکمل ہونے پر تشہد ،درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد سلام پھیرے۔‘‘

(فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ179)

تکبیرات کی بابت جماعت احمدیہ کا مسلک درج ذیل احادیث کی بناء پر ہے۔ حدثنا کثیر بن عبداللّٰہ عن ابیہ، عن جدہ، ان رسول اللّٰہؐ کبر فی العیدین فی الاولیٰ سبعاً قبل القراء ۃ ، وفی الآخرۃ خمساً قبل القراءۃ۔ کثیر بن عبداللہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے قبل سات تکبیرات کہیں اور دوسری رکعت میں قرأت سے قبل پانچ تکبیرات کہیں۔

(ترمذی کتاب العیدین باب فی التکبیر فی العیدین)

’’عن عبداللّٰہ بن عمر و بن العاص، قال قال نبی اللّٰہ التکبیر فی الفطر سبع فی الاولیٰ، وخمس فی الآخرۃ، والقراءۃ بعدھما کلتیھما۔ عبداللہ بن عمر و بن العاص روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیرات ہیں اور دوسری میں پانچ۔ اور دونوں رکعات میں تکبیرات کے بعد قرأت ہے۔

(ابو داؤد کتاب تفریع ابواب الجمعۃ باب التکبیر فی العیدین)

عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی کبر فی عید ثنتی عشرۃ تکبیرۃ، سبعاً فی الاولیٰ، وخمسا فی الآخرۃ۔ عمر و بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے عید کی نماز میں 12 تکبیرات کہیں۔ سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری میں۔

(مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر: 6688)

حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ:۔ شہدت الاضحیٰ والفطر مع ابی ھریرۃ، فکبر فی الرکعۃ الاولیٰ سبع تکبیرات قبل القراءۃ وفی الآخرۃ خمس تکبیرات قبل القراءۃ۔ میں نے عید الاضحی اور عید الفطر ابو ہریرۃ ؓ کے ساتھ ادا کی۔ ابو ہریرۃ ؓ نے پہلی رکعت میں قرأت سے قبل سات تکبیرات کہیں اور دوسری رکعت میں قرأت سے قبل پانچ تکبیرات کہیں۔

(مؤطا امام مالک ،کتاب العیدین باب ما جاء فی التکبیر والقراءۃ فی صلاۃ العیدین)

یکم جنوری 1903 کو قادیان میں عید الفطر کی نماز ادا کی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ادا کی۔ اس نماز کے متعلق اخبار ’’البدر‘‘ میں درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی:۔ ’’گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا۔ جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارکباد دی۔ اتنے میں حکیم نور الدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستور اپنے ہاتھ اٹھائے۔‘‘

(بدر نمبر11 جلد1۔ 9جنوری 1903ء صفحہ85)

عیدین کی تکبیرات کی حکمت

ایک بچی نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ نماز عیدین کی تکبیرات کی کیا حکمت ہوتی ہے؟ حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح آنحضرتؐ نے ہمیں کر کے دکھایا ہے ہم نے کرنا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ان دنوں میں الله تعالیٰ کی بڑائی کو زیادہ سے زیادہ بیان کرو۔ اس لئے تکبیرات میں بھی الله اکبر بڑی کثرت سے کہتے ہیں۔ نماز عید کی پہلی رکعت میں سات دفعہ اور دوسری رکعت میں پانچ دفعہ زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو اور اس کی بڑائی بیان کرو۔‘‘

(كلاس واقفات نو 9۔اکتوبر2015ء) (تشحیذ الاذہان جولائی 2016ء ص14۔15) بحوالہ الفضل آن لائن مؤرخہ 27اپریل 2021ء۔صفحہ نمبر4)

عید کی نماز میں سورۃ اعلیٰ اور سورۃ غاشیہ پڑھنا

عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ۔: نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نمازوں میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے۔

(سنن ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا باب ماجاء فی القرائۃ فی صلاۃ العیدین)

نماز عیدکی ادائیگی کا طریق، نیز اگر کوئی نماز عید کی دوسری رکعت میں شامل ہو تو؟

نماز عید سنت مؤکّدہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہاں اگر کسی کی نماز عید رہ جائے تو حنفی اور مالکی مسلک کے مطابق نماز دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی، نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر۔ لیکن اگر کوئی شخص نماز عید میں اس حال میں شامل ہوا ہے کہ امام ایک رکعت پڑھا چکا ہے تو پھر مقتدی اپنی رہ جانے والی رکعت ویسے ہی ادا کرے گا جیسا کہ امام نے ادا کی تھی۔ یعنی امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی رہ جانے والی رکعت مکمل کرے گا اور ویسے ہی تکبیرات بھی کہے گا جیسا کہ امام نے کہی تھیں۔ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: مَآاَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَ مَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا۔ (بخاری کتاب الاذان باب لا یسعی الی الصلاۃ) یعنی امام کی جو نماز تمہیں ملے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے مکمل کرو۔

مجلس افتاء کی رائے

اگر عید کی ایک رکعت رہ جائے تو مقتدی اپنی رکعت کس طرح ادا کرے گا؟ یہ معاملہ مجلس افتاء میں پیش ہوا تھا۔ مجلس افتاء نے درج ذیل رائے دی: ’’جو شخص نماز عید میں پہلی رکعت کا رکوع گزرنے کے بعد شامل ہو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام کے ساتھ نہ پڑھی جا سکنے والی نماز کو اسی طرح مکمل کرے گا جس طرح اس نے اس حصہ نماز کو امام کی اقتداء میں ادا کرنا تھا۔‘‘ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 15 جولائی 2000 کو مجلس افتاء کی سفارش کو منظور فرمایا اور اپنے دستخط ثبت فرمائے۔

(بحوالہ: الفضل آن لائن لندن ایڈیشن۔ 17جولائی 2021۔ عید الاضحی نمبر۔صفحہ نمبر5)

نماز عید کی ادائیگی کے دوران اگر کچھ بھول ہوجائے تو؟ ایک دوست نے عیدین کی نماز کے واجب ہونے نیز عید کی نماز میں امام کے کسی رکعت میں تکبیرات بھول جانے اور اس کے تدارک میں سجدہ سہو کرنے کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی خدمت اقدس میں رہ نمائی فرمانے کی درخواست کی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 21؍نومبر 2017ء میں اس سوال کا جو جواب عطا فرمایا، وہ حسب ذیل ہے۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: ’’عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔ حضورؐ نے ایسی خواتین جن پر ان کے خاص ایام ہونے کی وجہ سے نماز فرض نہیں، انہیں بھی عید گاہ میں آ کر مسلمانوں کی دعا میں شامل ہونے کا پابند فرمایا ہے۔ اور جہاں تک امام کے تکبیرات بھول جانے کا سوال ہے تو ایسی صورت میں مقتدی اسے یاد کروا دیں، لیکن مقتدیوں کے یادکروانے کے باوجود اگر امام کچھ تکبیرات نہ کہہ سکے تو مقتدی امام کی ہی اتباع کرتے ہوئے عید کی نماز ادا کریں۔ تکبیرات بھولنے کے نتیجہ میں امام کو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2020ء۔صفحہ نمبر 12۔زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قسط نمبر 4)

نماز عید کس وقت تک ادا کی جاسکتی ہے؟ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ برابر بلند ہونے سے لیکر زوال سے قبل تک رہتا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت ہے: أَنَّ رَسُولَ اللہِ کَتَبَ إِلَی عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَہُوَ بِنَجْرَانَ عَجِّلِ الْأَضْحَی، وَأَخِّرِ الْفِطْرَ، وَذَکَّرِ النَّاسَ۔ ترجمہ: رسول کریمؐ نے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھا جو کہ نجران میں تھے عید الاضحی جلدی پڑھا کرو، اور عید الفطر قدرے تأخیر سے ادا کیا کرو اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرو۔

(السنن الکبری للبہقی کِتَابُ صَلَاۃِ الْعِیدَیْنِ بَابُ الْغُدُوِّ إِلَی الْعِیدَیْنِ)

اتفق الفقہاء علی أن وقت صلاۃ العید ھو مابعد طلوع الشمس قدر رمح أو رمحین، أی بعد حوالی نصف ساعۃ من الطلوع الی قبیل الزوال أی قبل دخول وقت الظہر فقہاء کا اتفاق ہے کہ نماز عید کا وقت سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یعنی طلوع کے تقریباً نصف گھنٹے کے بعد اور یہ زوال سے کچھ پہلے تک یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک رہتا ہے

(الفقہ الاسلامی وأدلتہ تألیف الدکتور وھبۃ الزحیلی۔ جلد نمبر2 صفحہ نمبر366 صلاۃ العیدین۔ وقتھا)

عیدگاہ میں خواتین کا تشریف لے جانا

حضرت امّ عطیہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:۔ یَخْرُجُ العَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الخُدُورِ، أَوِ العَوَاتِقُ ذَوَاتُ الخُدُورِ، وَالحُیَّضُ وَلْیَشْہَدْنَ الخَیْرَ وَدَعْوۃالمُؤْمِنِینَ وَیَعْتَزِلُ الحُیَّضُ المُصَلَّی۔ بالغ اور حائضہ عورتیں عید کے موقع پر باہر نکلیں اور بھلے کاموں اور مومنوں کی دعا میں شریک ہوں مگر حائضہ عورتیں نماز گاہ سے الگ رہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الحیض باب شھود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین)

جبکہ ایک اَور روایت میں حضرت اُمِّ عَطِیَّہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ محفوظ کیے گئے ہیں کہ رسول اللہؐ کنواری لڑکیوں اور جوان لڑکیوں۔ پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ کے لئے جانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے البتہ حائضہ خواتین نماز پڑھنے والی جگہ پر نہیں جاتی تھیں مگر دعا میں شامل ہوتی تھیں۔ ایک عورت نے عرض کی۔ اگر کسی خاتون کے پاس (پردہ کے لئے) چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ اس پر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ چاہئے کہ اس کی بہن اس کو عاریتاً چادر دے۔

(ترمذی کتاب العیدین۔ باب فی خروج النساء فی العیدین)

عورتوں کے ایام حیض میں مسجد میں آ کر بیٹھنے نیز ان ایام میں تلاوت قرآن کریم کرنے کے بارے میں ایک خاتون کی ایک تجویز پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍مارچ 2019ء میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:جواب: مذکورہ بالا دونوں امور کے بارےمیں علماء و فقہاء کی آراء مختلف رہی ہیں اور بزرگان دین نے بھی اپنی قرآن فہمی اور حدیث فہمی کے مطابق اس بارے میں مختلف جوابات دیے ہیں۔ اسی طرح جماعتی لٹریچر میں بھی خلفائے احمدیت کے حوالے سے نیز جماعتی علماء کی طرف سے مختلف جوابات موجود ہیں۔قرآن کریم، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں، خواتین کے ایام حیض میں قرآن کریم پڑھنے کے متعلق میرا موقف ہے کہ ایام حیض میں عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کےلیے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کےلیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کےلیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کےلیے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ان ایام میں عورت مسجد سے کوئی چیز لانے کےلیے یا مسجد میں کوئی چیز رکھنے کےلیے تو مسجد میں جا سکتی ہے لیکن وہاں جا کر بیٹھ نہیں سکتی۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضورؐ عید میں شامل ہونے والی ایسی خواتین کےلیے کیوں یہ ہدایت فرماتے کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ پس اس حالت میں عورتوں کو مسجد میں بیٹھنے کی اجازت نہیں۔اگر کوئی خاتون اس حالت میں مسجد میں آتی ہےیا کوئی بچی ایسی حالت میں اپنی والدہ کے ساتھ مسجد آئی ہے یا اچانک کسی کی یہ حالت شروع ہو گئی ہے تو ان تمام صورتوں میں ایسی خواتین اور بچیاں مسجد کی نماز پڑھنے والی جگہوں میں نہیں بیٹھ سکتیں۔ بلکہ کسی نماز نہ پڑھنے والی جگہ پر ان کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 5؍مارچ 2021ء۔صفحہ نمبر 11,12۔زیر عنوان: بنیادی مسائل کے جوابات۔ (قسط نمبر10)

عید عورتوں پر فرض نہیں،
البتہ سنت مؤکدہ ضرور ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’صرف عید کی نماز پر آنا ہر عورت پر فرض ہے۔ اگر نماز نہ بھی پڑھنی ہو تو خطبہ سن لے‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 07 تا 13 اگست 2015، صفحہ6)

اس حوالہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اگلے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ایک غلط فہمی کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے عورتوں کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لئے جمعہ ضروری نہیں ہے۔ میں نے الفاظ دوبارہ دیکھے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ جمعہ پر ضرور آئے لیکن عید پر آنا ضروری ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ عید ضروری ہے۔ یہ نہیں کہا تھا کہ عيد فرض ہے۔ کسی نے کہا کہ جی عید تو سنت ہے۔ عید سنت تو ہے لیکن سنت مؤکدہ ہے۔ عید پڑھنے کے بارے میں اور عورتوں کے لئے خاص طور پر اس بارہ میں بڑی تاکید کی گئی ہے۔ تو ایسے صاحب جنہوں نے یہ ایک دو جگہ باتیں کیں ان کا اعتراض دور کرنے کے لئے میں حدیث آپ کو سنا دیتا ہوں۔ حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا اور حضرت عمر بن خطاب کو ہمارے پاس بھیجا۔ آپ دروازے پر پہنچے اور سلام کیا۔ ہم نے سلام کا جواب دیا۔ پھر آپ (یعنی حضرت عمر) نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کے طور پر تمہارے پاس آیا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکامات پہنچائے کہ ہمارے لئے یہ حکم ہے کہ ہم عیدین کے موقع پر ضرور جائیں۔ حائضہ عورتوں اور رواتق یعنی نئی بلوغت تک پہنچنے والی عورتوں کو بھی نماز عید کے لئے گھروں سے نکالا کریں لیکن جمعہ ہم پر فرض نہیں اور جنازے کے ساتھ قبرستان جانے سے ہمیں منع کیا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحه820 حدیث 27852)

(الفضل انٹرنیشنل 08 تا 14 اپریل 2016، صفحہ15)

عید کے خطبہ کے بعد آنحضرتؐ کا خواتین میں تشریف لے جانا اور خواتین کا صدقات پیش کرنا

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے ایک بار نماز (عید) پڑھائی۔ آپ کھڑے ہوئے اور نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی آپ اس وقت حضرت بلال کے بازو کا سہارا لئے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں۔

(بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید)

خطبہ عید کی کس قدر اہمیت اور تاکید ہے

ایک دوست نےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضورؐ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے، جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20؍اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا: جواب:۔ خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حضورؐ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بنا پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیےکہ حضورؐ نے عید کے لیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کے لیے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل 27؍اکتوبر تا 02؍نومبر 2020ء (سیرت النبیؐ نمبر2) زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ۔صفحہ نمبر29)

عید الفطر کے دن آنحضورؐ کی دیگر مصروفیات

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ میں جا کر سب سے پہلے نماز عید پڑھایا کرتے تھے۔ سلام پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ آنحضورؐ کے خطاب کے دوران لوگ صفوں میں ہی بیٹھے رہتے۔ آپ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ان کو تاکیدی احکام سے مطلع فرماتے۔ ان کو اپنے ارشادات سے نوازتے۔ اگر کسی گروہ کو کہیں روانہ کرنا ہوتا تو اس کا انتخاب فرما دیتے۔ اور اگر کسی شے کا حکم دینا ہوتا تو حکم دیتے پھر عیدگاہ سے لوٹ آتے۔

(بخاری کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)

کھیل کود کے دو دنوں کے مقابل عیدین:۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لئے منایا کرتے تھے۔ حضورؐ نے دریافت فرمایا: ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب صلوۃ العیدین)

عید کے دن نغمات گانا

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ اس وقت انصار کی دو لڑکیاں میرے ہاں جنگ بعاث کے متعلق شعر گا رہی تھیں۔ (اور یہ دونوں پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں)۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا: کیا خدا کے رسول کے گھر میں شیطانی بانسریوں کے ساتھ (گانے گائے جارہے ہیں)۔ یہ واقعہ عید کے روز کا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: اے ابو بکرؓ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔ اور یہ ہماری عید ہے۔

(بخاری، کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام)

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول پاکؐ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے واقعات پر مشتمل نغمے گا رہی تھیں۔ آپ منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ نبیؐ کے پاس شیطانی آلات بجائے جا رہے ہیں اس پر حضور حضرت ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان کو کچھ نہ کہو جب حضور کی توجہ ہٹی تو میں نے اشارہ کیا تو وہ دونوں چلی گئیں۔

(بخاری کتاب العیدین۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

عید کے دن مناسب کھیلوں کاانتظام
اور ان کو دیکھنا

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ عید کا دن تھا اور اسی روز کچھ حبشی نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے میرے پوچھنے پر یا از خود مجھے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی۔ ہاں۔ اس پر آپ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ انہیں کہتے تھے کہ اے بنی اَرفَدَہ اپنا کھیل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا بس؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تو جاؤ۔

(بخاری کتاب العیدین۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

قادیان میں عیدالفطر

یکم جنوری 1903ء کو قادیان میں عید الفطر کی نماز ادا کی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں ادا کی۔ اس نماز کے متعلق اخبار ’’البدر‘‘ میں درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول فرمائے۔

گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء سادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا۔ جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑ دوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی اور عید کی مبارکباد دی۔

اتنے میں حکیم نور الدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نماز عید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستور اپنے ہاتھ اٹھائے۔‘‘

(بدر نمبر11جلد1۔9جنوری 1903ء صفحہ85۔ملفوظات جلد2 صفحہ627)

خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کے لیے ایک موقعہ پر ’’ہدیہ عید‘‘

یکم جنوری 1903ء بروز پنجشنبہ۔ حضرت حجۃ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عید کی مبارک صبح کو جو الہام بطور ہدیہ عید سنایا اور اس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا ہے اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ وَھُوَ ھٰذَا

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی

وحی الٰہی کی ایک پیشگوئی جو پیش از وقت شائع کی جاتی ہے چاہئے کہ ہر ایک شخص اس کو خوب یاد رکھے۔

اول ایک خفیف خواب جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ میں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے۔ پھر وہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہو گئی۔ چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ شَیْئًا ـ اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَـلاَ تَسْتَعْجِلُوْہُ بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ۔: ترجمہ:۔ خدا جو رحمان ہے تیری سچائی کو ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا خدا کا امر آرہا ہے تم جلدی نہ کرو یہ ایک خوشخبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے۔

صبح پانچ بجے کا وقت تھا۔ یکم جنوری 1903ء و یکم شوال 1320ھ روز عید جب میرے خدا نے مجھے یہ خوشخبری دی۔ اس سے پہلے 25دسمبر 1902ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے حکایت تھی اور وہ یہ ہے۔

اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ ترجمہ:۔ میں صادق ہوں صادق ہوں عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا۔

یہ پیشگوئیاں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا امر میری تائید میں ظاہر ہونے والا ہے جس سے میری سچائی ظاہر ہو گی اور ایک وجاہت اور قبولیت ظہور میں آئے گی۔ اور وہ خدا تعالیٰ کا نشان ہو گا تا دشمنوں کو شرمندہ کرے اور میری وجاہت اور عزت اور سچائی کی نشانیاں دنیا میں پھیلا دے۔

نوٹ :۔ چونکہ ہمارے ملک میں یہ رسم ہے کہ عید کے دن صبح ہوتے ہی ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرتے ہیں سو میرے خداوند نے سب سے پہلے یعنی قبل از صبح پانچ بجے مجھے اس عظیم الشان پیشگوئی کا ہدیہ بھیج دیا ہے۔ اس ہدیہ پر ہم شکر کرتے ہیں اور ناظرین کو یہ بھی خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم عنقریب ان نشانوں کے متعلق بھی ایک اشتہار شائع کریں گے جو اخیر دسمبر 1902ء تک گزشتہ سالوں میں ظہور میں آچکے ہیں۔

المشتہر
مرزا غلام احمد قادیانی
یکم جنوری 1903ء

(ملفوظات جلد2 صفحہ625 تا 627 مطبوعہ ربوہ)

عید کی خوشیوں کو بڑھانے
کا ایک بڑا ہی لطیف طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12جولائی 1983ء کوعید الفطر کے روز خطبہ عید میں بیان فرمایا:۔
’’عید میں لذت کیا ہے۔ مثلًاآج عید کی نماز کے بعد ضروری امور سے فارغ ہو کر اگر وہ لوگ جن کو خدا نے نسبتًا زیادہ دولت عطا فرمائی ہے زیادہ تموّ ل کی زندگی بخشی ہے وہ کچھ تحائف لے کر غریبوں کے ہاں جائیں اور غریب بچوں کے لئے کچھ مٹھائیاں لے جائیں جو ان کے گھر میں زائد پڑی تھیں اور جو ان کا پیٹ خراب کرنے کے لئے مقدر تھیں وہ غریب بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ساتھ لے جائیں اور وہ زائد پھل بھی جس نے زائد از ضرورت استعمال کی وجہ سے ان کو ہیضہ کر دینا تھا۔ غریب بچوں کو دیں تا کہ ایک دن تو ایسا ہو کہ ان کو بھی کچھ نصیب ہو۔ تو کچھ وہ پھل پکڑیں کچھ مٹھائیاں گھر سے اُٹھائیں، کچھ بچوں کے لئے جو ٹافیاں یا چاکلیٹ آپ نے رکھے ہوئے تھے وہ آپ لیں اوربچوں سے کہیں آؤ بچو! آج ہم ایک اور قسم کی عید مناتے ہیں ہمارے ساتھ چلو ، ہم بعض غریبوں کے گھر آج دستک دیں گے، ان کو عید مبارک دیں گے ان کے حالات دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اپنے سُکھ بانٹیں گے۔۔۔۔ ان کے حالات دیکھیں گے تو مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر ہیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی تو کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے اور اپنے رب سے معافیاں مانگ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ! ان لوگوں سے ناواقفیت رکھ کر اور ان کے حالات سے بے خبری میں رہ کر اور ان کے حالات سے بے خبر ی میں رہ کر ہم نے بڑے نا شکری کے دن کاٹے ہیں، ہم تیرے بڑے ہی ناشکر گزار بندے تھے، نہ ان نعمتوں کی قدر کر سکے جو تُونے ہمیں عطا کر رکھی تھیں نہ ان نعمتوں کا صحیح استعمال جان سکے جو تو نے ہمیں عطا کر رکھی تھیں اور واپس آ کر وہ روئیں گے خداکے حضور اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان آنسوؤں میں وہ اتنی لذّت پائیں کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہوں گی۔ ان کو بے انتہاء ابدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائل نہ ہونے والے بے انتہاء سرور ان کو عطا ہوں گے۔

یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفیٰ ﷺ کی عید ہے۔ یہ ہے وہ عید جو درحقیقت سچے مذہب کی عید ہے۔ پہلے بھی یہی عیدیں تھی جو خدا نے عطا کی تھیں۔لیکن بعد میں آنے والوں نے ان عیدوں کے مزاج بدل ڈالے۔ ان کے مضمون کو بھلا دیا۔ اپنی عید کے رنگ بگاڑ دیے تو وہ عیدوں کے مقاصد سے دُور جا پڑے۔ ان کے لئے وہ عیدیں ، عیدیں نہ رہیں جو خدا اپنے مومن بندوں کو عطا کرنا چاہتا ہے’’

(الفضل 26جولائی 1983ء صفحہ نمبر 1تا5)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ مربی سلسلہ واستاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

چودہواں سالانہ ریجنل جلسہ گراں لاؤو، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2022