• 18 مئی, 2024

مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر

یاد رفتگان
میرے بڑے بھائی مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر

میرے بھائی جان اپنے علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے آپ ملک عمر علی کھوکھر رئیس ملتان کے بیٹے اور حضرت میر محمد اسحاق ؓ کے نواسے تھے اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ؓکے داماد تھے

اپنے علاقے میں آپ بہت ہر دلعزیز تھے رعب و دبدبہ بھی تھا، احمدی غیراحمدی سب آپ کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کی وفات پر جماعت احمدیہ ملتان کے اکثر احباب نے افسوس کرتے ہوئے بار بار یہی کہا کہ ملتان کی جماعت میں بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا ہے۔

آپکے جنازہ میں باوجود عقیدہ کی مخالفت کے غیراز جماعت لوگ بھی شامل ہوئے بلکہ بعض غیر احمدی عزیز رشتہ دار بھی تدفین میں شامل ہوئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھائی جان رشتہ داری کو ختم نہیں ہونے دیتے تھے سب سے ہمیشہ میل ملاپ رکھتے تھے۔

میں بھائی جان کا ذکر بحیثیت ایک بھائی کروں، باپ کروں یا بحیثیت ایک انسان کروں جس طرح بھی کروں آپ کی شخصیت کا احاطہ نہیں ہو سکتا، دوستوں کے دوست تھے دکھی لوگوں کے غمگسار تھے اور بچوں کے ساتھ بچہ تھے ان کے حلقہ احباب میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے، انتہائی نرم دل مگر مضبوط اعصاب کے آدمی تھے بڑی سے بڑی مشکل بھی ان کو پریشان نہیں کرتی تھی لیکن کسی عزیز کی چھوٹی سی تکلیف یا بیماری ان کو بے چین کر دیتی تھی۔

میں نے ابھی ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ ہمارے والد صاحب کی وفات ہوگئ مجھے میرے بھائی نے اپنی آغوش میں چھپا لیا مجھے کبھی بن باپ کے ہونےکا احساس نہیں ہونے دیا ہمارے والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں میں دوسری والدہ سے پیدا ہؤا تھا مگر بھائی نے کوئی فرق رکھا نہ کبھی سوتیلے پن کا احساس ہونے دیا، ہم سب بہن بھائی آپس میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک ماں کے بچے ہوں الحمد للّٰہ۔

میرے والد صاحب کی وفات کے وقت بھائی جان کی عمر صرف 22سال تھی نازوں میں پرورش ہوئی تھی سب کی آنکھوں کا تارا تھے اکلوتے بھائی کی پہلوٹھی اولاد ہونے کے ناتے پھوپھیوں کی بھی آنکھ کا تارا تھے ابھی نوجوانی کی عمر تھی کہ اباجان کی ناگہانی وفات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا اور بھائی جان کو ناز نخرے بھلا کر ایک ذمہ دار شخص بنا دیا، دو والدائیں سات بہن بھائی جو سب ہی چھوٹے تھے۔ ان سب کی ذمہ داری بھائی جان پر آن پڑی جس کو ادا کرنے کی انہوں نے حتی المقدور کوشش اور ہمت کی

میرے والد صاحب کے علاوہ میرے ددھیال میں کوئی بھی احمدی نہیں تھا اباجان اکیلے بھائی تھے تین بہنیں تھیں جو سب غیر احمدی با اثر بڑے زمینداروں میں بیاہی ہوئی تھیں ابا جان خود بھی علاقے کے رئیس تھے ایک خاص زمیندارا ماحول تھا

ان حالات و واقعات میں بھائی جان نے اپنے ابا کی ساکھ کو ہمیشہ برقرار رکھا اور احمدیت کو اپنا طرہ ٔ امتیاز بنائے رکھا۔

میری شادی بہن بھائیوں میں سب سےآخر میں ہوئی میری شادی کے بعد ایک دن بھائی جان نے مجھے کہا کہ اب میں اپنے باپ کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوا ہوں، اور ساتھ ہی اپنے بچوں کی ذمہ داریوں کا وقت آگیا ہے۔ گویا ان کی زندگی صرف ذمہ داریاں نبھاتے ہی گزر گئ۔

بھائی جان اپنی والداوٴں کے انتہائی مؤدب بیٹے تھے ان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے دور نزدیک کے سب رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے انتہائی مہمان نواز تھے بس نہیں چلتا تھا کہ گھر میں موجود ہر چیز مہمان کو پیش کر دیں مہمان نوازی ان پر ختم تھی امیر غریب سب کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔

صلہ رحمی کا بہت خیال رکھتے تھے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ ایک بار ہماری والدہ بچوں کی فیس کے لئے پریشان تھیں گھر سے نکلیں کہ خدا تعالیٰ کہیں سے کوئی وسیلہ پیدا کر دئے گا، اچانک سامنے سے فاروق ایک فرشتے کی صورت میں آیا میرا حال احوال دریافت کیا اور میرے ہاتھ میں کچھ رقم رکھ کر آگے چل دیا میرے لئے خدا نے ان کو وسیلہ بناکر بھیجا۔

بھائی جان بہت غریب پرور تھے غریب رشتہ داروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ جماعت میں مالی طور پر کمزور لوگوں کو بھی گندم وغیرہ ان کے گھر پہنچاتے، اسی طرح جماعت میں یا غیرازجماعت کسی عزیز یا زمینوں پر کسی گھر میں وفات ہوجاتی تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کھانا، ناشتہ سب سے پہلے بھجوا دیں۔

عید کے موقع پر جماعت میں سب بزرگ لوگوں کے گھر عید کی نماز کے بعد عید ملنے جاتے اس کےبعد غیر احمدی عزیزوں کے گھر بھی عید ملنے جاتے تھے، بھائی جان نے کبھی بھی کسی سے تعلق نہیں توڑا بعض رشتہ دار مذہب کا فرق کرتے تھے لیکن بھائی جان ہمیشہ اپنا فرض پورا کرتے رہے۔

بھائی جان نے بے شمار یتیم بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ان کو ڈگری دلوا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا ان میں بعض کو اپنے پاس منشی رکھ کر تنخواہ بھی دیتے رہے اور ان کی تعلیم کا بوجھ بھی اٹھائے رکھا۔

جماعت کی خدمت کے لئے بھائی جان کا دل بہت فراخ تھا جماعتی اجلاس اجتماعات میٹنگز ہر طرح کے مواقع پر ان کا گھر اور جیب کھلی رہتی تھی، اکثر مواقع پر اپنی طرف سے ہی ضیافت کا انتظام بھی کرتےتھے، امارت کے دور میں بیگم کو کہہ رکھا تھا کہ چھ سات لوگوں کا کھانا ہر وقت تیار رہے اس کے علاوہ جب اسیران ساہیوال ملتان ملڑی کورٹ پیشی پر جب بھی آتے تھے ان کا اور ساتھ آنے والے تمام لوگوں کے کھانے کا انتظام بھائی جان کرتے تھے۔

اب تو جگہ جگہ ریسٹورنٹ وغیرہ کھل گئےہیں لیکن اس سے پہلے ملتان کے گردو نواح سے احمدی لوگ شہر میں کسی کام کے لئے بھی آتے تو ان کا پڑاوٴ 44 قاسم روڈ ملک صاحب کا گھر ہی ہوتا تھا کھانے کے علاوہ اگر رات رکنا پڑتا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا وہ بھائی جان کے گھر ہی ٹھہر جاتےتھے۔

70 کے الیکشن میں بھائی جان نے دن رات کام کیا اپنے ہر طرح کے وسائل اور تعلقات کو بروئے کار لائے اس کے علاوہ والد صاحب مرحوم کا اثر رسوخ بھی بہت کام آیا اسی طرح 1974 اور 1984 کے مشکل حالات میں بھی بہت کام کیا۔

بھائی جان جماعتی چندہ جات اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرتے تھے کچھ سال بھائی جان کے چندہ پر کسی وجہ سے پابندی لگی تو بھائی جان بہت رنجیدہ ہوئے کہ مالی قربانی سے محروم ہوگیا ہوں اس رنجیدگی کی تلافی کے لئے انہوں نے باقی گھر والوں کے وعدہ جات بڑھا دئے تاکہ جماعتی بجٹ پر فرق نہ پڑے۔

بھائی جان کو اپنی وصیت کی ادائیگی کی بہت فکر تھی اور انہوں نے کوشش کر کے وصیت کا زیادہ حصہ زندگی میں ہی ادا کر دیا الحمد للّٰہ۔

بھائی جان کی وفات پر جتنے لوگوں کے فون یا تعزیت کے میسج آئے ہیں ہر ایک نے بھائی جان کےکسی نہ کسی احسان کا ذکر کیا ہے جن کا ہمیں علم نہیں تھا بہر حال واقعات و حالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا ذکر ایک مضمون میں نہیں ہو سکتا وہ larger than life تھے

دعا ہے اللہ تعالیٰ بھی بھائی جان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔آمین

(سعدیہ طارق بزبان طارق علی کھوکھر)

پچھلا پڑھیں

دنیا کے حالات اور اسیران کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ