• 26 اپریل, 2024

خلافت باپ کی شفقت، خلافت ماں کا سایہ ہے

لاک ڈاؤن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا تذکرہ آج کل ہر طرف جاری ہے۔منفی پہلوؤں میں بیماری، خوف، دہشت، بیروزگاری، لمحہ بہ لمحہ بنتی بگڑتی اقتصادی و معاشی صورتحال ہے ۔جبکہ مثبت پہلوؤں میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جاں نواز اور پُر تسکین کلمات کے مطابق ہر گھر کا مسجد میں تبدیل ہوجانا ہے۔ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف پوری فرصت اور یکسوئی کے ساتھ توجہ، بچوں کو تدریسی نصاب کے علاوہ پہلے سے بڑھ کر جذبے کے ساتھ سُورتیں اور دُعائیں حفظ کروانا ، خُوش الحانی سے نظمیں پڑھنے کی ترغیب دیناہے۔کچھ دِنوں سے بچوں کے ساتھ سنتے ہوئے ایک نظم نوک زباں پر جاری رہنے لگی ہے۔ ’’خلیفہ دل ہمارا ہے‘‘ اسی نظم کا ایک مصرع ہے کہ

’’خلافت باپ کی شفقت،خلافت ماں کا سایہ ہے‘‘

تو میرے دل نے مجھے خلافت کی برکات، والدین کی محبت اور میری ذات کو عجب انداز سے ایک مثلث، ایک تکون، ایک لائف سائیکل کی صورت میں رُوشناس کرایا۔مختصر کہا جائے تو یہ کہ خلافت زندگی ہے، آبِ حیات ہے، ایک نظام ِ واحد کے ساتھ وابستگی، شیفتگی اور اطاعت کا نام ہےاور سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا یہ سبق ہمیں والدین نے سِکھایا اور گزرتے ہر لمحۂ زندگی نے ہمیں خلافت کے ساتھ یوں جوڑ دیا کہ ہر لحظہ خلافت پر ایمان کامل، والدین کے سِکھائے گئے درسِ محبت اور دامنِ خلافت سے وابستہ رہنے کے سبق نے زندگی کے کڑے تیوروں کو ہنس کر برداشت کرنے کا سبق دیا اور ہر لمحہ یہ یقین پختہ تر ہوتا چلا گیا کہ ایک امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک طفلِ شیر خوار کی طرح دامن ِخلافت سے چمٹے رہنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ یوں والدین کی محبت، خاموش انداز سے تربیت اور احترامِ خلافت کا درس ہی ہماری زندگی کا نصاب مرکزی ٹھہرا۔

والد محترم مکرم رانا اقبال الدین مرحوم واقف زندگی کے بزرگوں کا تعلق قادیان سے تھا۔ گھر کا ماحول بھی دینی اور علم دوست تھا۔ ہماری دادی جان محترمہ صادقہ ثریّا بیگم ایک عرصہ تک محلّہ دارالعلوم غربی حلقہ خلیل کی صدر لجنہ رہیں، اعلیٰ ذوق سخن کی حامل تھیں اور میری تینوں پھوپھیوں کو بھی ہمیشہ ہی کسی نہ کسی رنگ میں خدمت دین کی توفیق ملتی رہی لیکن میری والدہ مکرمہ ذکیہ اقبال ایک ایسے پسِ منظر سے تعلق رکھتی تھیں کہ جو دُنیاوی تعلیم، وسائل اور عہدوں کے لحاظ سے تو بہت آراستہ تھا لیکن بدقسمتی سے 1974ء کے بعد عملاً و اعلانیہ احمدیت سے منہ موڑ چکا تھا۔ ان حالات میں والدہ نے خود کو احمدیت پر قائم رکھا۔ والدین اور سوتیلے بہن بھائیوں کے احترام و مودّت کے حق بھی ادا کئے اور ہمیں ہر لمحہ دین میں فَاسْتَبِقُوْ ا الْخَیْرَات کے مصداق بنانے کے لئے بھی کوشاں رہیں۔ اپنے اُس ماضی کو سوچوں تو ایک ہی نتیجہ پر پہنچتی ہوں کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا کا وِرد ساری زندگی بھی زبان پر رہے تو اس قرض کی ادائیگی اور ہدیہ سپاس گزاری کا حق تشنہ اور اَدھورا ہی رہے گا۔

والد صاحب کو بطور واقف زندگی کارکن دَور خلافت ثالثہ تا 2007ء تین خلفائے احمدیت کے زیر سایہ دفتر پرائیویٹ سیکریٹری اور بعد ازاں بطور نائب آڈیٹر خدمت کی توفیق ملی۔ ہم ابو جان کے ساتھ بیٹھ کر ’’حضور کی باتیں‘‘ سننے کی خواہش کرتے تو بلاشبہ اُن کے چہرہ اور آنکھوں میں وہی الوہی سی چمک ہوتی کہ بقول فیضؔ

پھر نظر میں پھول مہکے،دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا ہے اُس بزم میں جانے کا نام

خلفاء کی باریک بینی، فہم وفراست، انتہائی گہرے مشاہدے اور بلا کے حافظے کے واقعات، 1991ء میں جب حضرت خلیفتہ المسیح الربعؒ قادیان تشریف لے گئے تو ابو جان بطور اکاؤنٹنٹ دفتر پرائیویٹ سیکریٹری تقریباً ایک ماہ قبل قادیان گئے اور اسی طرح قافلوں کی ربوہ واپسی کے کافی دنوں بعد ربوہ واپس آئے تو وہ ذکرِ یار تھا کہ بس حضور کی عنایات و نوازشوں کا تذکرہ، عین کھانے کے وقت کارکنان کے لئے بھیجے گئے کسی لذیذ کھانے اور پھلوں کے تحفے کی یاد۔ حضور انور نے ابو جان کو دُعا کیا ہوا متبرک پین عنایت فرمایا جوہم بصد اصرار اور شوق اپنے امتحانات میں لے کر جاتے، ہم بیٹیوں کے لئے تحفہ مر حمت فرمایا۔ یہ مہر و وفا خلفاء کے ساتھ ساتھ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے لئے بہت تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ہم ابو جان کو کہا کرتے تھے کہ ہمیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ قمر الانبیاء کی شکل و صورت کے بارے میں بتائیں تو لذّت،کیف اور سُرور کا وہ رنگ چہرہ پر نمودار ہوتا کہ ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ حسنِ یار کا تذکرہ زیادہ دلکش ہے کہ ابّا کے چہرےکا ٹھاٹھیں مارتا ہوا محبت اور عقیدت کا سمندر۔

کبھی ایسا اتفاق ہوتا کہ ابو جان پڑھائی لکھائی کے حوالے سے ہمارا جائزہ لیتے تو ضرور ذکر کرتے کہ میاں احمد صاحب (صاحبزادہ مرزا غلام احمد) کی لکھائی ایسی ہے کہ بلاشبہ موتیوں کی لڑی معلوم ہوتی ہے، نماز میں رقّت اور گریہ وزاری اگرچہ عبد و معبود کے درمیان رازو نیاز کا ایک سلسلہ ہے تاہم ہمیں نماز کی ادائیگی کی تاکید کرتے ہوئے ہمیشہ ہردو صاحبزادگان مکرم مرزا خورشید احمد و مکرم مرزا غلام احمد کی نماز کے حسن اور رقّت کی بات کرتے ہوئے خود ابو جان کی آنکھوں کے گوشے بھیگ جاتے کہ اُنہیں تقریباً روز ہی مسجد مبارک میں ان حضرات کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملتا۔

والدہ بھی خاموش کارکنہ تھیں جو ہر جماعتی تحریک اور مجلسی مقابلہ جات میں سب سے آگے دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کرتیں، لمبا عرصہ تربیتی کلاس پر ، سالانہ کھیلوں پر ڈیوٹی کا موقع ملا، طبیعت میں جھجک کا مادہ تھا لیکن خواتین مبارکہ سے جب بھی ملنے کا موقع ملتا تو ذوق و شوق اور محبت سے آنکھیں چمک چمک جاتیں، اکثر بتاتیں کہ کسی جماعتی تقریب مثلاً سالانہ دستکاری نمائش یا پھر مجلس مشاورت کے ممبران کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ میں وہ ابو جان کے حوالے سے مدعو ہوتیں تو نہایت مزے سے بتاتیں کہ بی بی چھیرو (صاحبزادی امۃ النصیر بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعودؓ) مجھے فوراً پہچان گئیں اور فرمانے لگیں کہ اچھا تم صادقہ ثریّا لاہور والی کی بہو ہو نا، دیکھو ہر دفعہ تمہاری شکل بدل جاتی ہے لیکن مَیں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔

ہمارے لئے جماعتی ڈیوٹیوں کے حوالےسے کبھی تاخیر کی صورت میں معمولی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا، ترجمۃ القرآن، قصیدہ، ہر چیز ہمیں سِکھانے بلکہ گھول کر پلانے کے لئے ہمہ وقت متحرک رہتی تھیں، مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ غالباً سورۂ واقعہ یا سورہ ٔ یسین مَیں نے مکمل یاد کی تو تپتی دوپہر میں درمیانی پھپھو کے گھر بھجوا یا کہ جاؤ ابھی دادا ابو کو سنا کے آؤ حالانکہ وہ ملنے کی غرض سے وہاں گئے ہوئے تھے اور کچھ دیر میں ہی واپسی تھی۔

ہمارے ذہنوں میں یہ بات پختہ کردی تھی کہ برکت خلفائے احمدیت کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی اولادکے ساتھ بھی وابستہ ہے۔1997ء میں میرے میٹرک کرنے کے بعد مجھے دفتر لجنہ مرکزیہ لے گئیں کہ یہاں جو بھی کام، خدمت، ڈیوٹی دی جائے وہ کرنا ہے۔ میں گھر آکر خواتین مبارکہ کے حسنِ اخلاق، انتظامی صلاحیتوں، وضع داری، سلیقے، مہمان نوازی اور جماعتی اموال کے لئے اُن سب کے حددرجہ حساس ہونے کا ذکر کرتی تو وہ انتہائی خوشی اور دلچسپی سے سب سُنتیں اور میری خوش قسمتی پر نازاں ہوتیں۔ مَیں خود بطور واقف زندگی لیکچرر نصرت جہاں کالج جب اپنے وقف کے بارے میں سوچتی ہوں تو یہ خدا تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور نعمت بے بہا اپنے سے بڑھ کر اپنے والدین کے لئے اس لئے بھی محسوس ہوتا ہے کہ میرے امّی، ابّو کو اللہ نے اگرچہ نرینہ اولاد نہیں دی لیکن جس شفقت، محبت اور قدر کے ساتھ بیٹے کے نہ ہونے کا شکوہ کبھی بھی لب پہ لائے بغیر ہمیں پروان چڑھایا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی بیٹی کے حق میں ہی اولاد کو وقف کرنے والی خواہش کو پورا کردیا،اے خدا !مجھے تا دمِ آخر اپنے وقف سے وفا اور انصاف کی توفیق عطا کرنا ۔ آمین

دل کے ہر گوشے سے بے اختیار یہ رقّت سے بھری دُعا نکلتی ہے کہ اے خدا ! ہم عہدِ خلافت سے وفا اور اطاعت کا حق ادا کرنے والے ہوں جس سے جڑے رہنے کی دُعا ہمیں ابّو جان نے اس وقت سِکھائی تھی جب پورنوں پر پیارے آقا کو خط لکھنا شروع کیا، الٰہی! یہ بارِ امانت ہمیں اپنی نسلوں کو اُن آرزوؤں کے مطابق منتقل کرنے کی توفیق عطا کرنا جو ہمارے والدین کا اثاثہ تھیں۔

زندگی کی ہر آزمائش، ہر نفع و نقصان کا حساب کرنے بیٹھوں تو بعض اوقات بشری تقاضوں کے ماتحت دل افسردہ ہونے لگتا ہے تو اُنگلیوں کی پوروں پر اُن فضلوں کو گنتی ہوں جو خلافت کے اثمارِ شیریں ہیں، بطور وقف زندگی مدرس نظارت تعلیم کی کارکن ہونا، صدر انجمن احمدیہ کے کاروانِ خدمت کا ایک حصہ ہونا، ایک پُر سکون و پُر امن شہر کا باسی ہونا، اطاعت، وفا اور محبت کے ایسے نظام سے وابستہ ہونا جہاں ہم اپنے دامن کا ہر دُکھ کاغذ پر منتقل کرتے ہی بے فکر ہو جاتے ہیں کہ ہمارے واسطے دُعا شروع ہو چکی ہے۔ سو میرے لئے مئی کا مہینہ جہاں تجدید عہد وفا کا مہینہ ہے ، خلافت کو ہر لحظہ اپنے عمل اور اپنی شبانہ روز دُعاؤں سے مستحکم کرنے کا مہینہ ہے، شکروسپاس کا مہینہ ہے کہ کس طرح خدا نے تیرگی کو روشنی سے ،گمان کو یقین پختہ سے بدلا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارے دیکھے اور اس کے ساتھ ساتھ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا کے پہلے سے بڑھ کر وِرد کا مہینہ بھی ہے کہ آدابِ محبت اور درسِ اطاعت والدین نے سِکھایا بھی اور خُود کار بند ہو کر دِکھایا بھی۔

خلافت کی طرف سے ہر بشارت کی نوید آئے
خلافت سے محبت ہی تو سارا حسن و احساں ہے
خلافت سے مرے گھر میں ہے رونق جاودانی سی
اُتاروں دل کے آنگن میں خلافت کا جو فرماں ہے


(زاہدہ یاسمین طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء