• 8 مئی, 2024

سجدۂ تلاوت کرنا مستحب ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا۔

ترجمہ: جب اُن پر رحمان کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر جاتے ہیں۔

(مریم: 59)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا: إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ جب ابن آدم سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان ایک طرف ہو کر رونے لگ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس! ابن آدم کو سجدے کا حکم ہوا، اُس نے سجدہ کر لیا، اُس کے لئے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم ہوا تھا، مَیں نے (سجدہ کرنے سے) انکار کر دیا، میرے لئے جہنم ہے۔

(ابن ماجه، إقامة الصلاة والسنة فيها، سجود القرآن)

حضرت عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السُّورَةَ الَّتِي فِيهَا السَّجْدَةُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ۔ نبی کریم ﷺ جب سجدہ تلاوت والی سورت کی تلاوت فرماتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ سجدہ کرتے حتیٰ کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی تھی۔

(صحيح البخاري، کتاب الجمعة، باب من لم يجد موضعا للسجود)

حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں۔
سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهٗ الْمُسْلِمُوْنَ وَالْمُشْرِكُوْنَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ النجم میں سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ مسلمانوں نے اور تمام مشرکوں اور جنّات و انسانوں نے بھی سجدہ کیا۔

(صحيح البخاري، كتاب تفسير القرآن، باب فاسجدوا للّٰه واعْبدُوا)

حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں۔ قَرَأْ تُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيْهَا۔ مَیں نے نبی کریم ﷺ کو سورۂ نجم پڑھ کر سنائی تو آپ ﷺ نے سجدہ نہیں کیا۔

(صحیح البخاری، کتاب الجمعة باب من قرا السجدة ولم يسجد)

اصل میں سجدہ تلاوت کرنا مستحب ہے لیکن اگر کوئی سجدۂ تلاوت نہیں کرتا تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ حضرت عمر ؓنے جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا۔ اے لوگو ! ہم سجدہ کی آیات سے گزرنے والے ہیں فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ پس جس نے سجدہ کیا تو اُس نے اچھا کیا اور جو سجدہ نہ کرے اُس پر کوئی گناہ نہیں۔

(صحیح البخاري، کتاب الجمعة، باب من راى ان اللّٰه عزّ وجل)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ
آنحضرت سے یہ بھی ثابت ہے کہ سجدے کی آیت پڑھی گئی۔ آپؐ نے سجدہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سختی سے لوگ عمل کرتے ہیں رسول الله ﷺ نے ویسی سختی نہیں کی۔ روح سجدہ ریز ہونی چا ہئے۔ اصل بنیادی بات یہ ہے اور جسم کا سجدہ ساتھ ہو جائے تو بہتر ہے لیکن اگر جگہ نہ ہو، توفیق نہ ہو تو کوئی بھی حرج نہیں۔ اُس وقت وہاں سجدہ نہ کیا جائے، بعد میں گھر جا کے کر لیا جائے۔ مگر آج کل کے لوگ جو ہیں یہ بہت زور دیتے ہیں اس بات پر کہ جہاں سجدہ ہو وہیں کرو ………سجدہ جہاں تک توفیق ہو کرنا چاہئے۔ گندی جگہ ہو،نہ کر سکے تو پھرآپ گھر جا کے سجدہ کر (سکتے) ہیں۔ اب رستہ چلتے بعض دفعہ تلاوت ہورہی ہے۔ آواز باہر آرہی ہے اور اُس میں سجدہ آجائے تو آدمی سڑک پر سجدہ کرے گا، تو یہ نہیں ہو سکتا تو ظاہری باتوں پر بہت زور نہیں دینا چاہئے بلکہ روحانی لحاظ سےسمجھنا چا ہئے۔ اصل سجدہ روح کا ہے۔ بعض جگہ آتا ہے جب لوگ رکوع کر رہے ہوں تم بھی رکوع کرو۔ تو کیا رستہ چلتے خدا کے گھر میں اگر رکوع ہو جائے تو سارے رکوع کر کے چلنے لگ جائیں گے۔ یہ سارے توہّمات ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان سب توہّمات کو دُور کیا ہے۔ اصل رکوع بھی روح کا ہے اور اصل سجدہ بھی روح کا ہے۔

(لجنہ سے ملاقات۔ الفضل 8مئی 2000ء۔ ریکارڈنگ 9جنوری 2000ء)

نیز سوال ہوا کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کے دوران سجدے کا مقام آتا ہے کیا قبلہ رو ہو کر سجدہ کرنا ضروری ہے؟ آپؒ نے فرمایا۔ قبلہ رو ہونا ضروری نہیں۔

(مجلس عرفان۔ الفضل 13۔اپریل2000ء، ریکارڈنگ 4فروری 2000ء)

قرآن مجید میں سجدہ کیوں آتا ہے اور کیسے ادا کر نا چا ہئے؟ آپ ؒنے فرمایا۔ قرآن مجید میں جو سجدہ آتا اُس کا بعض دفعہ مضمون خود بتا دیتا ہے کہ یہاں سجدہ کرنے کی طرف طبیعت مائل ہورہی ہے اور سجدے کچھ رسول اللہ ﷺ نے خود مقرر فرمائے تھے کہ یہاں سجدہ کرنا چاہئے۔ کچھ بعد کے عُلماء نے سجدے تجویز کئے۔ تو جہاں تک سجدے کا تعلق ہے اگر زمین صاف ہو اور پاک ہو اور سجدہ آجائے تو وہاں سجدہ کر لینا ٹھیک ہے ۔ لیکن اگر گندی جگہ ہو اور زمین صاف نہ ہو تو انسان گھر جا کے سجده کر سکتا ہے۔

(اطفال سے ملاقات۔ الفضل 16مارچ 2000ء، ریکارڈنگ 26جنوری 2000ء)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء