• 27 اپریل, 2024

سقوط شہب کی پیشگوئی۔شہب کا تماشہ

موعود زمانہ میں شُہب کے کثرت سے گرنے کی پیشگوئی

گزشتہ دنوں سائنسی حلقوں میں ایک یہ خبر گردش کرتی رہی کہ مورخہ 29 اپریل 2020ءکو تقریباً سوا میل چوڑا ایک سیّارچہ یعنی asteroid ایسٹرن ٹائم زون کے مطابق صبح 5:56 پر زمین کے پاس سے گزرے گا۔ یہ سیّارچہ جس کو 1998OR2 کا نام دیا گیا ہے کیونکہ 1998ء میں پہلی دفعہ ناسا کی ایک آبزرویٹری نے پتہ لگایا تھا۔ اگر یہ ہماری زمین سے ٹکرا جاتا تو شاید انسانی تہذیب کی بقا ہی خطرے میں پڑ جاتی۔ لیکن اس میں کسی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ یہ زمین سے تقریباً 39لاکھ میل یا 63لاکھ کلومیٹرکے فاصلہ سے گزر گئی۔اس فاصلے کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زمین سے چاند تک کے فاصلہ کا 16 گنا ہے۔

پھر ایک اور خبر یہ سامنے آئی کہ مورخہ 5 مئی 2020ء کو سحر کے وقت شہب کا تماشہ جسے eta aquarids کا نام دیا گیا ہے اپنے عروج پر ہو گا۔ یہ دراصل ہیلے (halley) دم دار ستارے کے ذرات ہیں۔ اس سے پہلے یہ تماشہ دنیا نے1986ٗء میں دیکھا تھا اور آئندہ آج سے 41 سال بعد2061ء میں نظر آئے گا۔ ایک خیال ہے کہ وہ لوگ جو 1983ء میں پیدا ہوئے تھے ان کے لئے تقریباً 50 فیصد چانس ہو گا کہ وہ اس شہب کی بارش کو دیکھ سکیں گے۔

باقی دم دار ستاروں کی طرح ہیلے ستارہ (cosmic litterbug) کائناتی گندگی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ تقریبا ہر 76 برس کے بعد یہ سورج سے بہت قریب سے گزرتا ہے اور اپنے مدار میں اپنے پیچھے ملبے کا ایک دریا چھوڑتا چلا جاتا ہے اور جب زمین اس ملبے سے ٹکراتی ہے تو ستارے کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے زمینی فضا میں بڑی تیزی سے داخل ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے روشنی کی ایک لکیر سی چھوڑتے ہیں جسے ہم ٹوٹتا ہوا ستارہ (shooting stars) کا نام دیتے ہیں۔

دراصل سورج، چاند اور ستاروں کے علاوہ بھی کئی قسم کے اجرام فلکی ہیں۔ اصل مضمون کی طرف آنے سے قبل قارئین کی دلچسپی کے لئےچند کے بارہ میں مختصراً بتا دوں کہ

سیارچہasteroid) 10) میٹر سے بڑے پتھر یا دھات یا پتھر اور دھات سے بنےجرم فلکی کو کہتے ہیں جوزیادہ تر مریخ اور مشتری کے بیچ میں سورج کے گرد گھومتا ہے۔پھر قدرے چھوٹے اجسام دم دار ستارے (comets) ہیں جو کہ زیادہ تر برف ، اور مٹی کےبنے ہوتے ہیں ۔ان میں سے کئی تو میلوں بڑے بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی سورج کے گرد گھومتے ہیں اور سورج کے قریب پہنچنےپر گیس اور ڈسٹ کی پھوارچھوڑتے ہیں جو ایک دم کی شکل میں نظر آتی ہے۔ان کی باقیات شہابیے بننے کا موجب بنتی ہیں۔ شہابیے(meteoroids) عام طور پر ریت کے ذرے سے لے کر بیٹے (گول پتھر) تک کا سائز لئےہوئے ، دھات یا پتھر سے بنے ہوتے ہیں اور جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جب یہ فضا میں داخل ہوتے ہیں تو جلنے کی وجہ سے اپنے پیچھے روشنی کی لکیر بناتے ہیں، جس کو ٹوٹتا ستارہshooting star or falling star) (بھی کہتے ہیں۔ اور ان کے مجموعے کو شہابیوں کی بارش (meteor shower) کہتے ہیں۔ ایسا سیارچہ یا شہابیہ جو بغیر جلے زمین سے ٹکرا جائے شہابی پتھر(meteorite) کہلاتا ہے۔ سائز میں قدرے بڑے اور روشن شہابیے جو کہ سیارے زہرہ سے بھی روشن شہابیے ہوتے ہیں ان کو آگ کا گولہ (fireball) اور جو آواز کے ساتھ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں انہیں(bolide) کہتے ہیں۔ بعض دفعہ آسمان میں کچھ پراسرار چیزیں جیسے اڑن طشتری وغیرہ جن کی واضح طور پر شناخت نہیں ہو سکی اور نہ ہی ابھی تک کوئی سائنسی وضاحت ہے ہاں ان کے بارہ میں مختلف جگہوں پر مبہم شہادتیں ضرور ملتی ہیں۔ان کو ’’یو ایف او‘‘ (UFOs- unidentified flying objects) کہتے ہیں۔ امریکہ میں ان کو دیکھنے کے لئے شوق کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہؤا ہے۔

اس مختصر سے تعارف کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ۔

(التکویر:3)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ اس قرآنی آیت کی تفسیر میں اس آیت کے یہ معنی بھی لئے ہیں کہ موعود زمانہ میں شُہب کثرت سے گریں گے۔چنانچہ یہ پیشگوئی اس وقت بڑی واضح طور پر پوری ہوئی جب 28 نومبر 1885ء کو اس کثرت سے شُہب گرے کہ فضاءآسمان میں ہر طرف شعلے چلتے

(http://www.popsci.com/science/article/2013-02/fyi-do-meteor-showers-ever-run-out-meteors)

ہوئےنظر آئے جس پر یورپ، امریکہ اور ایشیاء کے اخبارات نے اس نظارۂ قدرت کو عجوبہ قرار دیا۔

(تفسیر کبیر مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ خلیفۃ المسیح الثانی جلد 8 صفحہ202۔203)

اب تو اس کو شہابیوں کی بارش (meteor shower) کا نام دیا گیا ہے۔ اور باقاعدہ پوری دنیا میں مختلف جگہوں پر اس آسمانی مظاہرے کا نظارہ کرنے کے اوقات پہلے ہی بتا دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً 2020ء کے کیلنڈر کے مطابق درج ذیل تاریخوں کا پہلے ہی اعلان کیاجا چکا ہے۔

• :Quadrantids

4 جنوری کو اپنے عروج پرتھا

• :Lyrids

16 اپریل تا 30 اپریل کے درمیان 21 اور 22 اپریل کو اپنے عروج پر

• :Eta Aquarids

19 اپریل سے 28مئی تک، 4 اور 5 مئی کوعروج پر۔ یہ دراصل جنوبی نصف کرۂ عرض پر واقع ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس کو اور کئی مقامات پر بھی کسی حد تک دیکھا جا سکتا ہے۔

• Alpha Capricornids

3 جولائی سے 15 اگست تک 29 اور 30 جولائی کو بام عروج پر۔ اس میں فی گھنٹہ تعداد کوئی زیادہ نہیں ہوتی لیکن یہ کبھی کبھار فائر بالز پھینکتا ہے۔

• :Perseids

17 جولائی تا 26 اگست، 11 اور 12 اگست کو اپنے عروج پر دیکھا جا سکتا ہے۔یہ تماشہ سب سے مقبول ہے۔لوگ اس کو دیکھنے کے لئے خاص تردد کرتے ہیں اور کیمپنگ کرتے ہیں۔ اس سے بہتر اور کیا چیز ہو گی کہ رات کھلے آسمان کے نیچے تاروں کی چھاؤں میں گزاری جائے۔

• :Orionids

2اکتوبر سے لے کر 7 نومبر تک اور 21 اور 22 اکتوبر کو عروج پر

• :Northern Taurids

20 اکتوبر سے 10 دسمبر تک اور 11 اور 12 نومبر کو عروج پر

• :Leonids

6 نومبرسے 30 نومبر تک اور 16 اور 17 نومبر کو عروج پر

• :Geminids

4دسمبر سے 17 دسمبر تک، 13 اور 14 دسمبر کو عروج۔یہ سال کا سب سے طاقتورشہابیوں کا طوفان ہوتا ہے۔اور آدھی رات سے پہلے آپ زیادہ بہتر مظاہرہ دیکھ سکتے ہیں۔کوشش کر کے دیکھ لیں۔

• :Ursids

17 دسمبر تا 26 دسمبر جس میں 22 اور 23 دسمبر کو یہ اپنے عروج پر ہو گا۔

ان میں سے گرمیوں میں perseids اور سردیوں میں geminids ہیں۔ شہب کا یہ تماشہ دیکھنے کے لئے کسی دور بین کی ضرورت نہیں۔ بس صحیح مقام ، صاف آسمان اور اندھیری رات چاہئے۔

پھر جیسا کہ فرمایا۔

وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا۔ وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآَنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا

(الجن:9۔10)

آنحضرت ﷺ کی آمد کے بارے میں قرآن کریم کی عظیم الشان پیشگوئی کا ظہور والے باب میں ان آیات کو حضرت مسیح موعود ؑ نے آنحضرتﷺ کی صداقت کے طور پر پیش فرمایا ہے۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ103۔106حاشیہ)

لیکن ساتھ ہی آپؑ نے اسے اپنی شہادت کے طور پر بھی بیان فرمایا ہے۔ اپنی سرگذشت کی نسبت ایک حکایت میں آپ 28نومبر 1885ء کی کثرت شہب کا حال بیان فرماتے ہیں:

’’ابن کثیر نےاپنی تفسیر میں سدی سے روایت کی ہے کہ شہب کا کثرت سے گرنا کسی نبی کے آنے پر دلالت کرتا ہے۔ یا دین کے غلبہ کی بشارت دیتا ہے…..ان تمام صورتوں میں ایسے ایسے آثار آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں اور اس سے انکار نادانی ہے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں ہے…. 28 نومبر 1885ء کی رات کو …اِس قدر شہب کا تماشہ آسمان پر تھا جو مَیں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی…اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لَکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی سو اس رمی کو رمی شہب سے بہت مناسبت تھی۔ یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو 28 نومبر 1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا …لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشہ کے دیکھنے والا اور پھر حظّ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا…جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا…حضرت مسیحؑ کی گرفتاری کے بعد اول شہب شہب ثاقبہ اور پھر ایک زمانہ آتش پورے ایک برس تک جوّ آسمانی میں دکھائی دیا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ108۔114حاشیہ)

شہابیوں پر تحقیق انتہائی دلچسپ ہے۔ لیکن اس کی حقیقت کیا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس بارہ میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کب شہاب ثاقب دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہےسال کے مختلف حصّوں میں اس تماشہ کو دیکھنے کی ممکنہ تواریخ کا باقاعدہ کیلنڈر شائع کیا جاتا ہے۔

کسی نے کیا ہی خوب لکھا ہے کہ

Remember … meteor showers are like fishing. You go, you enjoy nature … and sometimes you catch something.

یاد رکھیں! شہابیوں کو دیکھنا ایسا ہی ہے کہ آپ فشنگ کے لئے جائیں…قدرت کا نظارہ کریں …. اور بعض دفعہ شاید کچھ ہاتھ لگ ہی جائے۔یعنی شاید ہمیں یہ منظر دیکھنے کو مل ہی جائے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے شہب ثاقبہ کے بارہ میں چند انتہائی اہم حقائق پیش فرمائے ہیں۔ جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث بنیں گے۔آپؑ فرماتے ہیں:

’’نئی روشنی کے محقق شہب ثاقبہ کی نسبت یہ رائے دیتے ہیں کہ وہ درحقیقت لوہے اور کوئلہ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جن کا وزن زیادہ سے زیادہ چند پونڈ ہوتا ہے اور وُمدار ستاروں کی مانند غول کے غول لمبے بیضوی دائرے بناتے ہوئے سورج کے اردگرد جوّ میں پھرتے ہیں۔ ان کی روشنی کی وجہ درحقیقت وہ حرارت ہے جو اُن کی تیزیٔ رفتار سے پیدا ہوتی ہے…جب آفتاب بُرج اسد یا میزان میں ہوتو..کثرت شہب ثاقبہ کی توقع کی جاتی ہے۔ اور اکثر 33 سال کےبعد یہ دورہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ قاعدہ کُلّی نہیں..اگرچہ 14 نومبر 1833ء اور 27نومبر 1885ء کو کثرت سے یہ واقعہ ظہور میں آنا اُن کےقواعد مقررہ سے ملتا ہےلیکن..یہ واقعہ نہایت فرق کے ساتھ ان تاریخوں سے بہت دور بھی وقوع میں آیا ہے چنانچہ دہم مارچ 1521ء اور 19 جنوری 1135ء اور ماہ مئی 610ء میں جو کثرت شہب ثاقبہ وجود میں آئے اُس میں ان تمام ہیئت دانوں کو بجز سکتہ حیرت اور کوئی دم مارنے کی جگہ نہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ115۔116حاشیہ)

بہرحال شہب تو ہمیشہ گرتے ہیں مگر اُن کے گرنے سے ہمیشہ نبی ظاہر نہیں ہوتے۔ کاہنوں کے لئے اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ کثرت سقوط شہب کی کسی نبی اللہ کے ظہور پر دلالت ہے کیونکہ اُن کے شیاطین کثرت شہب کے ایام میں سماوی اخبار سے بکلی محروم رہتے تھے۔ قرآن کریم سے شہب کی نسبت بھی یہی مستنبط ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ علم حکمت کے محققوں نےشہب ثاقبہ وغیرہ کے پیدا ہونے کی اور وجوہ لکھی ہیں۔ یہ دعویٰ بھی بالکل بیہودہ اور بے اصل ہے کہ حال کے طبعی اور ہیئت کے تمام مباحث اور جمیع جُزئیات یقینی اور قطعی طور پر تجارب کے ذریعہ سے ثابت کئے گئے ہیں ہاں یہ سچ ہے کہ بعض مسائل تجارب کے ذریعہ سے کسی قدر صاف ہو گئے ہیں مگر ان کو باقی ماندہ مسائل کی طرف وہ نسبت ہے جو شاذونادر کو کثیر الوجود کی طرف ہوتی ہے۔لیکن اس میں شک نہیں کہ شہب ثاقبہ وغیرہ امور کی نسبت یورپ کی نئی تحقیقاتیں پوری تحقیق کے مینار تک ہرگز نہیں پہنچیں اور شبہات سے پُر ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے،اس وقت بھی جب کہ اس مضمون کو ضبط تحریر میں لایا جا رہا ہے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے نشان کے طور پر شہب ثاقب کی بارش جاری ہے۔

آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی جو پُر شوکت انداز میں ظہور پذیر ہوئی۔

الغرض چمنِ اسلام کی تازگی و شگفتگی اب صرف اور صرف اسی موعود اقوام کے دم قدم سے وابستہ کر دی گئی ہے۔ آپؑ کا پیغام ہی اب پیغام اسلام کہلائے گا۔ آپ نے اس عظیم انقلاب کی داغ بیل ڈال دی ہے جس کی پیش گوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی۔ اس حقیقت کا آپ نے بڑے ہی پُر شوکت انداز میں اظہار فرمایا ہے۔ میں اس جگہ آپؑ کے وہ الفاظ نقل کرتا ہوں تا آپؑ کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اے میری عزیز جماعت یقیناً سمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گیا ہے اور ایک صریح انقلاب نمودار ہوگیا ہے ……………… اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالےگا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ66،64)

امام الزمان کی یہ پیشگوئی ہمارے شاندار مستقبل کی منظر کشی کر رہی ہے جس کی طرف ہمارا نصب العین ہمیں کھینچے لیئے چلےجا رہا ہے۔ اور یہی وہ راستہ ہے جس پر ہم سب کو رواں دواں ہونا ہے۔

قوم کے لوگو ادھر آؤ کہ نکلا آفتاب
وادئ ظلمت میں کیوں بیٹھے ہو تم لیل و نہار
میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار


(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء