• 27 اپریل, 2024

دعا اور استخارہ

حضرت نور محمد ؓ زیارت مسیح موعود ؑکے حسین نظارہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’میں نے بیعت سال 1905 ء میں کی جبکہ میری عمر تیس سال کی تھی میرا ایک چھوٹا بھائی مسمیّٰ میاں نور احمد جو مجھ سے چھوٹا تھا وہ ایک پرائیویٹ سکول واقع موضع بستی وریام کھلانہ تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں مدرس تھا۔ اس نے 1900ء میں بوساطت مولوی محمد علی صاحب ساکن موضع مذکور بیعت کی تھی جو کہ بہت نیک اور مخلص اور بطور پروانہ حضرت مسیح موعود ؑکا عاشق تھا جس کے بارے میں ایک پیشگوئی حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ324 نشان نمبر141 میں درج ہے۔ وہ بھائی مرحوم مجھے تبلیغ کرتا رہا مگر میں نہ مانتا۔ آخر اس نے مجھے ایک حمائل شریف مترجم ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب دی کہ اس کی تلاوت روز بلاناغہ کرتے رہو۔ اور خدا سے دعا بہت مانگتے رہنا۔ اور ایک طریق استخارہ بتایا کہ چالیس روز استخارہ کرو۔ اس کے کہنے پر میں تلاوت قرآن کریم، دعا و استخارہ میں لگ گیا۔ خدا کے فضل و کرم سے قرآن شریف سے بھی مجھے امداد ملتی گئی اور استخارہ کے چالیس دن بھی قریب آنے شروع ہوگئے۔ مجھے تو پروانہ وار بیعت اور حضرت مسیح موعود ؑ کی زیارت کا از حد شوق ہوگیا۔ میرا بھائی مرحوم تو مجھ سے 25 میل کے فاصلہ پر تھا میں بوجہ دوری اپنے بھائی میاں نور احمد صاحب مرحوم سے تو نہ مل سکا مگر بوجہ عشق مولوی محمد فاضل صاحب احمدی جو کہ پہلے سے بیعت کرچکے تھے۔ اور جو کہ تین میل کے فاصلہ پر تھے کو کہا کہ میری بیعت جلد کراؤ۔ وہ مجھے لے کر قادیان دارالامان آئے مگر حوصلہ دلاتے دلاتے چارپانچ (دن) ٹھہرائے رکھا مگر بے تابی عشق کی وجہ سے خود بیعت کی کوشش کی۔ چار پانچ روز مسجدمبارک میں حضرت اقدس کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتا رہا اور ایک موقع تاڑلیا۔ حضرت صاحب ہمیشہ پانچ وقت ایک ہی جگہ امام کے دائیں جانب نماز ادا کرتے تھے۔ حضور کی ایک ہی جگہ مقرر تھی۔ چوتھے روز اپنے ساتھی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ظہر کی نماز سے پہلے حضرت صاحب کی جائے نماز کے ساتھ صف بنا کر بیٹھ گیا۔ بعد ہ نمازی آنے شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ مسجد پُر ہوگئی۔ حضور کی تشریف آوری پر نماز کھڑی ہوگئی۔ میں نے حضور کے دوش بدوش ہو کر نماز ادا کی۔ بعد فراغت نماز سب سے پہلے مصافحہ کیا اور بیعت کی درخواست کی۔‘‘

(الفضل 3مارچ 2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء