• 27 اپریل, 2024

مسیح موعود کی تکذیب اور انکار کا نتیجہ

میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ اور اس کے رسُول صلے اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاﷲ اﷲ تعالےٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے جبکہ وُہ دیکھتا ہے کہ اندرُونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اور خدا تعالےٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالے ٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ مُوسوی سلسلہ کی طرح اس محمّدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اُس نے معاذاﷲ اس وعدہ کو پُورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امّت میں نہیں اور نہ صرف یہانتک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے معاذاﷲ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اتّم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اسیطرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔ اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ: 4) میں ایک آنیوالے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ میں دعوےٰ سے کہتا ہوں کہ الحمد سے لے کر والنّاس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا۔ پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے۔ یہ میں ازخودنہیں کہتا۔ خداتعالےٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اُس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا۔

اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے۔ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ بیشک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالےٰ کی تصدیق ہوتی اور اُس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسُول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے، ذرا اپنے دل میں سوچے اور اُس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے۔

•رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیوں تکذیب ہوتی ہے؟ اس طرح پر کہ آپ ؐنے جو وعدہ کیا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا وہ معاذاللہ جھوٹا نِکلا۔ پھر آپؐ نے جو امامکم منکم فرمایا تھا، وہ بھی معاذاللّٰہ غلط ہوا ہے۔ اور آپ ؐنے جو صلیبی فتنہ کے وقت ایک مسیح و مہدی کے آنے کی بشارت دی تھی وہ بھی معاذاللہ غلط نِکلی۔ کیونکہ فتنہ تو موجود ہو گیا مگر وہ آنے والا امام نہ آیا۔ اب ان باتوں کو جب کوئی تسلیم کرے گا۔ عملی طور پر کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب ٹھہرے گا یا نہیں؟

(ملفوظات جلد4 صفحہ14-16 ایڈیشن1984ء)

پچھلا پڑھیں

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2022