• 24 اپریل, 2024

اللہ کا رنگ پکڑو

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً

کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے؟

اس اہم عنوان پر خاکسار دو یا تین بار مختلف انداز میں قلم اٹھا چکا ہے۔ رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کریم کے دوران جب بار بار صفات باری تعالیٰ سے گزر ہوتا رہا تو ہر صفت پر سورت البقرہ کی آیت 139 ذہن میں آتی رہی اور اللہ کے رنگ اپنانے کے حوالہ سے ہر صفت پکار پکار کر یہ دعوت دیتی رہی کہ میرے اندر بیان مضمون یا مفہوم کا لبادہ اوڑھیں تا نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ میں بیان عبادت گزاروں کی صفت کو اپنا کر اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بن جائیں۔

قبل اس کے کہ ہم صفات باری تعالیٰ کے ذکر میں داخل ہوں ہمیں فرمودات رسول ﷺ دیکھنے ہوں گے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے یعنی انسان، اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس میں یہ استعداد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظلی طور پر اپنا سکے.

(مسند احمد از حدیقۃ الصالحین صفحہ40)

پھر فرمایا کہ
اللہ (ذاتی نام) کے علاوہ اس کے ننانوے صفاتی نام ہیں جو زندگی میں ان کو مدنظر رکھے گا اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

(ترمذی از حدیقۃ الصالحین صفحہ33-34)

اللہ اور اس کے بندے کا تعلق کا مضمون بہت گہرا ہے۔ جسے ایک آدھ نشست یا آرٹیکل میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم یہاں اللہ تعالیٰ کی چند ایسی صفات کا ذکر ہوگا، جن کو ایک مومن اپنے اندر حلول کرے تو حقیقی معنوں میں اللہ کے رنگ میں رنگین ہو سکتا ہے۔ جیسے رمضان کے متعلق آتا ہے کہ ایک مومن کم کھا کر، کم سو کر اور کم بول کر اللہ تعالیٰ سے مشابہت یا مماثلت اختیار کرتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے جن صفات کا نام لیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے ’’الرب‘‘ کی صفت ہے۔ بمعنیٰ پالنے والا۔ اس صفت کی مناسبت سے والدین بالخصوص ماں اپنے بچوں کو پالتی پوستی ہے۔

اس صفت کے تحت ہم میں سے ہر ایک مربی ہے۔ ہمیں اپنے خاندان اور پھر معاشرہ میں پلنے والے تمام بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

الرحمٰن بمعنیٰ بن مانگے دینے والا۔ اللہ سے مماثلت کرتے ہوئے ماں باپ اپنی اولاد کی ایسی ضروریات کا خود خیال کرتے ہیں۔ ہمیں معاشرہ میں بھی رحمٰن صفت کے تحت مستحق لوگوں کی ضروریات کا خود خیال رکھنا چاہیے۔

الرحیم بمعنیٰ نہایت رحم کرنے والا۔ جو کوئی اپنی ضروریات ہمارے سامنے رکھے ہمیں اللہ کی اس صفت کے ساتھ حسب توفیق مستحق و غرباء کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔

السّلام بمعنیٰ سلامتی والا۔ ہمیں بھی اس صفت کو اپنے اندر اتار کر اپنے اردگرد بسنے والے تمام لوگوں کے لیے سلامتی کا موجب بننا چاہیے۔

المؤمن بمعنیٰ امن دینے والا۔ جس طرح ہم سلامتی کا موجب ہوں۔ اسی طرح ہمارے پلیٹ فارم سے امن شانتی کا ہی پیغام دیس سندیسہ جانا چاہیے۔

المہیمن بمعنیٰ پناہ دینے والا۔ مخلوق کو ہماری کوکھ میں سکون ملنا چاہیے اور پناہ کا موجب بنیں۔

الجبار بمعنیٰ جوڑنے والا۔ ٹوٹے کام بنانے والا۔ یہ صفت تقاضا کرتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خاندان کو جوڑنے والا ہو۔ بگڑے کاموں کو سنوارنے والا ہو۔

الغغّار بمعنیٰ بخشنے والا۔ ہمیں غفور خدا کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے ہوئے لوگوں کے لیے معافی کا پیغمبر بن کر جانا چاہیے۔

الوھاب بمعنیٰ بہت دینے والا۔ جب خدا دیتا ہے تو اس کی اقتداء میں ہمیں بھی مخلوق کو دینے والا ہونا چاہیے۔ اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیر مِّنَ الْیَدُ السُّفْلیٰ۔

الرزاق بمعنیٰ رزق دینے والا۔ اللہ تو بغیر حساب کے دیتا ہے۔ انسان کو اللہ کی مخلوق جو اس کی عیال ہے، کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے سے کم تر لوگوں کے لیے رزق فراہم کرنے والا بننا چاہئے۔

الباسط بمعنیٰ کشادہ کرنے والا۔ اپنے ہاتھ کو دوسروں کے لیے ہمیشہ کشادہ رکھنے والا ہو۔

الرافع بمعنیٰ بلند کرنے والا۔ کبھی انسان کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ نہ رکھیں بلکہ اس کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنا چاہیے۔

المعزّ بمعنیٰ بہت عزت دینے والا۔

السمیع بمعنیٰ بہت سننے والا۔ انسان کے اندر یہ ایک خامی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی باتوں کو ذرا کم سنتا اور اپنی ہانکتا چلا جاتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ السمیع ہے جو اپنی مخلوق کی داد رسی کرتا ہے۔ مخلوق اپنے اللہ سے باتیں کرنا پسند کرتے ہیں چونکہ وہ سنتا ہے۔ ایک مشہور مصنفہ ہیلن کیلر جو خود سماعت، گویائی اور نظر سے محروم تھیں کہتی ہیں کہ سننے کی صلاحیت تو اکثر لوگ رکھتے ہیں مگر سماعت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔

البصیر بمعنیٰ دیکھنے والا۔ انسان عموماً دیکھی ان دیکھی کر جاتا ہے اور آنکھوں سے دیکھ کر بھی نہ سبق حاصل کرتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے رہنما بنتا ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی منظر میں نہیں ہماری آنکھ میں ہوتی ہے۔ اس کو بصارت بولتے ہیں۔ اگر بصارت حاصل ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بصیرت بھی عطا کر دیتا ہے۔

العدل بمعنیٰ انصاف کرنے والا۔ ایک مومن کو اپنے خالق اللہ کے تابع رہتے ہوئے اپنے آپ اور معاشرے میں بسنے والوں سے عدل و انصاف سے پیش آنا چاہیے۔ اور میانہ روی و متوازن زندگی گزارنی چاہیے۔

الحلیم بمعنیٰ بردباد، نرمی حلم والا۔ اپنے خالق سے پیار رکھنے والے ایک مومن کو حلیم و ودود بن کر خاندان اور معاشرہ میں لوگوں سے حلم نرمی پیار، رافت اور بردباری سے پیش آنا ضروری ہے۔

الغفور بمعنیٰ بار بار مغفرت کا عادی۔یعنی بار بار معاف کرنے والا۔ ہم انسانوں کو بھی اپنے ماحول میں بسنے والوں کی غلطیوں کو بار بار معاف کرنا چاہیے۔

الشکور بمعنیٰ قدردان۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک اہم صفت ہے۔ جس کے تحت اللہ، اپنے بندوں کی اداؤں اور اپنے ساتھ بندوں کی محبت کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس لئے بندوں کو بھی معاشرہ میں اس صفت کو رواج دینا چاہیے۔ اور معاشرہ میں بسنے والے اپنے ساتھی بھائیوں کی قدر کرنی چاہیے۔

الحفیظ بمعنیٰ حفاظت کرنے والا ہے۔ اس صفت کے تحت ہم اللہ سے اپنی حفاظت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں ہمیں بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے ضامن بن کر سامنے آنا چاہیے۔ دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور اسے ذلیل کرنے کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔

المقیت بمعنیٰ نگران غذا بہم پہنچانے والا۔ اصل میں مقیت اس کو کہتے ہیں جو مخلوقات کو خوردونوش کی اشیاء پہنچائے۔ اپنی حکمت اور مرضی سے جس کو جس قدر چاہے رزق پہنچائے۔ جو انسان کو چاہے وہ دے۔

الکریم بمعنیٰ عزت دینے والا۔ اس صفت کے تحت احترام آدمیت و انسانیت لازم ہے۔ بڑوں کو تو ہم عزت و احترام کا درجہ دیتے ہی ہیں۔ اپنے چھوٹوں اور اپنے سے کم مرتبہ، کمزوروں، خادموں اور مزدوروں سے بھی عزت سے پیش آنا اور ان کا احترام کرنا لازم ہے۔

المجیب بمعنیٰ قبول کرنے والا۔ جواب دینے والا۔ گو ان خوبیوں کے حوالہ سے کچھ گفتگو اوپر ہو چکی ہے لیکن خصوصی طور پر اس صفت کو اپنا کر ہر بندے کی بات کو سننا اور جواب دینا نیز اس کی خدمات و جذبات کو قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ تو بعض متکبرانہ رنگ میں سوالی یا مخاطب کی بات سن تو لیتے ہیں مگر حقارت سے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

الودود بمعنیٰ محبت کرنے والا۔ خدائے عزوجل کی جو بنیادی صفات ہیں۔ ان میں یہ ایک صفت ہے جس کے نظارے ہم روزانہ اپنی زندگیوں میں بھلائی و خیر کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں آ پس میں محبت و شفقت، اخوت و الفت کو اپنانا چاہیے اور ہمیں ایک دوسرے سے محبت پیار سے پیش آنا چاہیے۔ آنحضور ﷺ نے ایک مسلمان کو ہدایت فرمائی کہ ’’الودود الولود‘‘ سے شادی کرو یعنی ایسی خاتون سے جو بچے جننے والی اور محبت کرنے والی ہو۔

الوکیل بمعنیٰ کام سنبھالنے والا۔ ہم اس لفظ کو اپنے معاشرے میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اور ہم جائز و نا جائز معاملات میں ایک دوسرے کی وکالت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ ان معنوں میں معاشرہ کے بے بس و مجبور لوگوں کے کام کرنے اور سنبھالنے کا ذکر ہے۔

الولیُّ بمعنیٰ حمایت کرنے والا۔ دوست۔ یہ لفظ ولایت سے نکلا ہے۔ معاشرہ میں انسان کو خود سری سے پیش نہیں آنا چاہیے بلکہ جائز کاموں کی حمایت کرنا اور ایک دوسرے کو دوست بنا کر گزر بسر کرنی چاہیے۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کئی ایسے پیشہ رکھنے والے لوگوں کی ضروریات رہتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس ناطے خیر خواہی کے جذبات رکھ کر دوستی کو اپنانا اور ولی بنانا ضروری ہے۔

الحیُّ القیوم بمعنیٰ زندہ اور سب کو تھامنے والا۔ بظاہر دیکھنے سے یہ صفات صرف اورصرف خدا کے لئے مختص نظر آتی ہیں۔ لیکن گہرائی سے سوچنے پر اس کے ایسے معانی سامنے آتے ہیں جو ہرانسان اپنے خالق حقیقی کا مظہر بن کر اپنے اوپر لاگو کر سکتا ہے۔ انسان بظاہر تو زندہ ہے اور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے کئی جتن بھی کرتا ہے۔ لیکن اخلاقی و روحانی اعتبار سے اپنے آپ کو زندہ رکھنے اور دوسرے گرتے پڑتے لوگوں کو تھامنے اور ان کو اخلاقیات سے آراستہ کرنے کا مفہوم اس میں موجود ہے گویا کہ داعی الی اللہ بننے کے لیے ان صفات کو اپنے وجود میں اتارنا چاہیے۔

الماجد بمعنی عزت دینے والا۔ اس حوالہ سے بھی اوپر گفتگو گزر چکی ہے۔ معاشرے میں ہر انسان کو عزت کے ساتھ رہنے کا حق ہے اور دوسروں کی عزت کرنا بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا اپنی عزت کے ساتھ دنیا میں رہنے کا حق ہے۔

المقدّم بمعنی آگے کرنے والا۔ انسان کو اس صفت سے اپنے آپ کو رنگین کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں، کولیگز کو معاشرے میں اچھے معنوں میں پیش کرنے، انہیں ترقیات کے لئے آگے کرتے رہنا چاہیے۔

الاوّل بمعنیٰ سب سے پہلے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے استاذی المکرم سید محمود احمد عفی عنہ نے مسجد مبارک ربوہ میں حدیث کے درس میں یہ اہم نکتہ اپنے شاگردوں کو سمجھایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ’’الاوّل‘‘ ہے۔ آپ کو بھی دنیا کے ہر میدان میں اول رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اَلْبَرُّ بمعنی احسان کرنے والا۔ اسلامی تعلیمات میں احسان سے پیش آنے کی بہت تلقین ملتی ہے۔ والدین، عزیزو اقارب، کمزوروں، یتیموں، بے کسوں، خادموں، مزدوروں اور پسے ہوئے طبقہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آکر ’’اَلْبَرُّ‘‘ صفت کا لبادہ انسان پہن سکتا ہے۔

الستار بمعنیٰ ستر یعنی پردہ پوشی کرنے والا۔ معاشرے میں بالعموم غیروں کی برائیوں کو اچھالنے، تجسس و عیب جوئی کرنے کی عادت عام ہوتی ہے۔ جبکہ خدائے کریم و برتر نے آپ کے بے شمار عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اس کے پیش نظر ہم پر لازم ہے کہ ہم دوسروں کے عیوب کو عیاں کرنے کی بجائے ستر، پردہ پوشی، چشم پوشی سے کام لیں۔

التواب بمعنیٰ رجوع کرنے والا۔ گھروں میں برتن رکھے ہوں وہ آپس میں ٹکرا کر آواز پیدا کر ہی دیتے ہیں۔ اسی طرح معاشرہ میں لڑائی جھگڑا اور تو تکرار ہونا بھی حقیقت ہے۔ مگر اس کے بعد اکڑ میں رہنا اور میل ملاقات بند کر دینا انسانیت کے دائرہ سے باہر کی بات ہے۔ رجوع کر کے اللہ کی صفت کو اپنے اوپر چڑھانا ضروری ہے۔

العفو بمعنیٰ معاف کرنے والا۔ یہ صفت تو بہت واضح ہے۔ ہم ہر روز گناہ کرتے ہیں اور پھر اللہ سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں اور وہ ہمیں معاف بھی کر دیتا ہے۔ ہم بار بار غلطی کرتے ہیں اور وہ بار بار رجوع برحمت ہو کر ہمیں معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ ہم اپنے ہی کسی ساتھی کی ایک ہی غلطی کو دل میں بٹھا کر سالوں سال انتقام کی آگ میں جلتے بھڑکتے اور معاف کرنے کا نام ہی نہیں لیتے اور خدا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری غلطیوں کو معاف کرتا رہے۔ اللہ کی صفت ’’العفو‘‘ کو اپنا کے اسے معاشرہ میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔

الرؤوف بمعنیٰ مہربانی کرنے والا۔ معاشرہ کو حسین اور اسلامی بنانے کے لیے یہ صفت بھی ہر فرد کو اپنانا ضروری ہے۔ اگر ہم معاشرے میں ایک دوسرے سے مہربانی، رافت و نرمی سے پیش آئیں تو ہر جگہ اللہ ہی اللہ ہو اور معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔

اَلْمُقْسِطُ بمعنیٰ انصاف کرنے والا۔ اوپر ’’العدل‘‘ صفت کے تحت انصاف کا ذکر ہو آیا ہے عدل اور قسط میں معمولی فرق ہے لیکن مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکا ہے

النافع بمعنیٰ نفع پہنچانے والا۔ ہمارے معاشرہ میں بعض لوگ ایسےہوتے ہیں جن سے کسی کو نفع کی امید نہیں کی جاتی۔ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’النافع‘‘ کو سامنے رکھ کر انسان کو دوسروں کے لیے نفع رساں وجود بننا چاہیے۔

النور بمعنیٰ روشن کرنے والا۔ اللہ کی اس صفت کو مدنظر رکھ کر انسان کو دوسروں کے لیے روشنی کا مینار بن کر علمی، اخلاقی، معاشرتی روشنی سے متمتع کرتے رہنا چاہیے۔

الہادی بمعنیٰ ھدایت دینے والا۔ ویسے تو ھدایت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے لیکن ھدایت بمعنی راہنمائی لیے جائیں تو ایک مومن دوسرے مومن کے لیے راہنمائی کے اصول وضع کرتا ہے۔

الرشید بمعنیٰ نیک راہ چلنے والا۔ یہ لفظ بھی رشد یعنی ھدایت و رہنمائی سے نکلا ہے۔ ایک مومن کو خود بھی نیکی کی راہیں اختیار کرنی چاہیں اور دوسروں کو بھی نیکی کی راہوں پر چلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الغرض اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا کو ہر وقت مشعل راہ بنائے رکھنا چاہیے۔

پیارے قارئین! یہاں وقت کی مناسبت اور جگہ کی رعایت سے 104 صفات باری تعالیٰ میں سے 40 صفات کا اختصار سے ذکر کیا ہے (باقی کو قسط 2 کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔) یا قارئین باقی صفات باری تعالیٰ کا ذکر حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم کی مرتب کردہ حدیقۃ الصالحین صفحہ 33 تا صفحہ 35 زیر عنوان اللہ تعالیٰ اور اس کے نام نیز مکرم حافظ مظفر احمد کی مرتبہ دعاؤں کی معروف کتاب مناجات رسول از خزینۃ الدعا صفحہ 120 تا 121 یا 700 احکام خداوندی مرتبہ حنیف احمد صفحہ 99 تا 101 ملاحظہ کر لیں۔
40 صفات کی مختصر تشریح قارئین کی خدمت میں صرف ایک نوالہ کے طور پر پیش کی گئی ہے تا ان کی روشنی میں ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ہر صفت سےرنگیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2022