• 25 اپریل, 2024

شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم

ایڈیٹر کے قلم سے

شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم

حج اور عید الاضحیہ کی مناسبت سے ایک تحریر

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے لفظ ’’شعائر‘‘ کو شعور سے لیا ہے۔ آپ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ (المائدہ:3) کے تحت فٹ نوٹ(foot note) میں تحریر فرماتے ہیں:۔

شعائر جمع ہے شعور کی یعنی وہ شعور جس سے اللہ تعالیٰ سمجھ میں آجائے وہ تعظیم والی چیزیں جیسے قرآن مجید۔ حدیث۔ بیت اللہ۔ قربانی کی اونٹنیاں ہیں یا انبیاء اور امام اور مجدّد وغیرہ مقدس حضرات۔ »

(قرآن کریم مترجمہ حضرت میر محمد سعید ازدرس قرآن حضرت خلیفۃ المسیح حاجی مولوی نورالدین صفحہ222)

اسی لئے آپ نےسورۃ البقرہ آیت 159 کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
’’بے شک صفا اور مروہ کے پہاڑ اللہ کی باتوں کا شعور حاصل کرنے کے لئے ہیں۔‘‘

اور سورۃ الحج آیت 37 کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’قربانیوں کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی باتوں کے شعور حاصل کرنے کا سبب بنایا ہے۔‘‘

شعائر اللہ کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’شعائر، شعیرہ کی جمع ہے اس کے معنی علامت، آیت اور نشان کے ہوتے ہیں اور عبادات کے مقررہ طریقوں کو بھی شعیرہ کہتے ہیں۔ یہاں (البقرہ آیت 159) علامت کے معنی مراد ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 305 زیر آیت البقرہ: 159)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں درج ذیل مقامات پر ’’شعائر اللہ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں: البقرہ:159۔ المائدہ: 3۔ الحج: 33 اور37۔

ان چاروں مقامات میں شعائر اللہ سے مراد مناسک حج لئے ہیں۔ جو اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ جیسے بیت اللہ، صفا، مروہ۔

مناسک حج کو شعائر اللہ قرار دینے کی یہ بھی حکمت ہے کہ اس میں وہ تمام مقدس اشیاء آجاتی ہیں جن پر اسلام کی بنیاد کھڑی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاپ۔ اس کا شعور حاصل کرنا۔ سیدنا حضرت محمد مصطفٰیﷺ، قرآن کریم، قبلہ، خانہ کعبہ، صفاو مروہ، حجر اسود، عرفات، مزدلفہ، جمرات، تلبیہ، قربانی، نفس کی قربانی وغیرہ وغیرہ۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے نام کے لئے صبر کرکے اس کے نتائج سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ صفا اور مروہ سے جاکر یہ شعور، یہ معرفت حاصل کریں کیونکہ وہ مقام اللہ کی طرف سے صبر کے نتائج کے شعور کے حصول کا ذریعہ مقرر شدہ ہے جو حج کرنے جائے وہ وہاں ذرا چل پھر کر دیکھے کہ ہمارا فضل اس صابرہ پر کیسا ہوا ہم کیسے قدردان ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 375)

الشھرالحرام (رجب، ذی قعدہ، ذی الحجۃ، محرم)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’پھر حرمت کے مہینے وہ بھی شعائر اللہ ہیں۔ ان سے خدا کا شعور حاصل ہوتا ہے کہ کس قدر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2صفحہ74)

• قربانی کے جانور (اونٹنیاں) ھَدْیَ وَالْقَلَائِدَ (وہ نذر و نیاز جو اللہ ہی کے واسطے کعبہ میں بھیجی جائیں)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’اسی طرح قربانیوں کے جانور ہیں کہ وہ سکھاتے ہیں کہ اسی طرح انسان کو اپنے آقا کے حضور جان دینی چاہیے۔ دنیا کے آقاؤں کے لئے جان دیتے ہیں پس دنیا و آخرت کے آقا زمین و آسمان کے مالک پر جان کیوں نثار نہ کریں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ74)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’پھر فرماتا ہے وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ۔ اور تُو ان کو بتادے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے۔ پس قربانی کے دنوں میں قربانیوں کو صف در صف کھڑا کرکے اُن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے کام آئیں۔ چنانچہ جب وہ ذبح ہوکر اپنے پہلوؤں پر گر جائیں۔ تو خود بھی اُن کا گوشت کھاؤ اور صابر غریب اور مضطر غریب کو بھی کھلاؤ۔ یہ سب مال ہم نے تم کو دیا ہے تاکہ اس کو غریبوں پر خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جو حج بیت اللہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور بتایا ہے کہ یہ قربانیاں شعائر اللہ میں داخل ہیں اور تمہارے لئے ان قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی برکت رکھی گئی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 53-54)

تلبیہ (لبیک اللھم لبیک) قرآن کریم، نماز، سیدنا حضرت محمد مصطفٰیﷺ، حجراسود، جمرات، مقام ابراہیم، منیٰ، عرفہ اور جمیع مساجدیہ تمام شعائر اللہ میں سے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’چنانچہ قربانیوں کو ہی دیکھ لو۔ یہ پہلے کچھ مدت تک لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اور پھر خانہ کعبہ پر پہنچتی ہیں تو ذبح کی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی اُن کا گوشت تم لوگوں کے فائدے کے لئے ہی تقسیم ہوتا ہے خدا کو نہیں پہنچتا خدا تعالیٰ کو وہی اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت تم نے قربانیاں کی ہوتی ہیں۔ پس اصل چیزدل کا اخلاص اور وہ ایمان ہے جو انسان کے اندر پایا جائے۔ اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قدر و قیمت رکھتی ہے۔ اس جگہ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تعظیم شعائر اللہ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ میں داخل ہے۔ یعنی متقی ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نشانات کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں۔ درحقیقت اسلام نے یہ کلیہ پیش کیا ہے کہ انسان کے ظاہری اعمال کااس کے باطن پر اور اس کے باطن کاظاہر پر اثر پڑتا ہے۔ پس جو شخص اُن مقامات کا ادب کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال کااظہار ہوا ہو یا اُن ہستیوں کا ادب کرتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام اُترا ہو یا اُس کے نشانات کی حامل ہوں تو چونکہ یہ ادب اُس کے دل کے تقویٰ اور خشیت الہٰی کی وجہ سے ہوگا۔ اس لئے طبعی طور پراُس کی دلی پاکیزگی کا اس کے ظاہر پر بھی اثر پڑے گا اور اس طرح وہ ظاہری اور باطنی دونوں طور پر نیکیوں سے آراستہ ہو جائیگا۔

یہ آیت گو چھوٹی سی ہے لیکن انسان کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کو اِس میں ایسے کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سمجھ اور عقل سے کام لینے والا ہو تو وہ اِسی کے ذریعہ اپنے تمام اعمال کو درست کرسکتا ہے۔ انسان کی تمام تر سعادت اِسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا ادب کرے اور ان کی عظمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے۔ ورنہ اُس کا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا۔

(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 46-47)

قبلہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبلہ کی تعظیم اور اس کی طرف پاؤں کرکےسونےکےحوالہ سےفرماتےہیں:
’’یہ ناجائز ہے کیونکہ تعظیم کے برخلاف ہے۔ سائل نے عرض کی کہ احادیث میں اس کی ممانعت نہیں آئی۔ فرمایا کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اسی بناء پر کہ حدیث میں ذکر نہیں ہے اور اس لئے قرآن شریف پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا ہے تو کیا یہ جائز ہو جاوے گا؟ ہرگز نہیں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد3 صفحہ 307)

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’پاؤں قبلہ کی طرف کرکے سونا تعظیم کعبہ کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ اور تعامل اسلام میں ہم کسی کو نہیں پاتے کہ قبلہ کی طرف مُنہ کرتے ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ148)

قرآن کریم

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’قرآن کریم کی بہت تعظیم ہے کہ یہ شعائر اللہ میں سے اعظم ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 148)

پھر فرمایا:۔
’’جن چیزوں سے اللہ پہچانا جاتا ہے ان کی بے حرمتی مت کرو۔ ہم نے قرآن مجید سے خدا کو پہچانا۔ اس لئے اس کی بے حرمتی جائز نہیں۔ بھلا یہ حرمت ہے کہ اس پر پاؤں رکھ لو یا اور کتابوں کے نیچے رکھو یا یونہی صفوں پر ڈال دیا جاوے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ74)

بیت اللہ

حقیقت میں بیت اللہ نے دنیائے اسلام کو ہر جہت سے مرکزیت میں پرو رکھا ہے اس لئے بعض نے اسے سب سے بڑا شعیرہ قرار دیا ہے جن میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی شامل ہیں۔ حقیقت میں حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی کا ذکر ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کو اللہ کے حکم پہ بے یارومددگار وادی مکہ میں چھوڑ آئے تھے اور حضرت حاجرہؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی پیاس بجھانے کی خاطر صفا ومروہ کے سات چکر لگائے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ کے ذریعہ پانی مہیا کیا تھا۔ ان مقامات کو اللہ تعالیٰ نے نشانیاں قرار دیا اور کہا کہ جو طاقت رکھیں وہ ان جگہوں پر اس تاریخ کو سامنے رکھ کر جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شعور حاصل کرکے اس کا شکر ادا کریں۔ یہ ہے فلسفہ ان شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کا۔

یوم النحر

اگر مکہ جانے کی طاقت نہ ہو یا اور رکاوٹیں حائل ہوں تو عید الاضحیہ پر قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر اور اس کے فلسفہ کو جان کر ان کی حیثیت، حقیقت اور تاریخ پر غور کریں تو واقعی اللہ کی یاد دلانے والی، اللہ کا شوق پیدا کرنے والی، اس کے دین کی طرف مائل کرنے والی اور اس کے راستے میں سرفروشی کا جذبہ پیدا کرنے کا جذبہ اُبھرتا اور دوسرے پر بازی لے جانے کو دل کرتا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے یوم النحر (عید الاضحیہ) کو شعائر اللہ میں داخل فرمایا ہے۔ ایک دفعہ مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طلبہ کو عید کے روز کھیل کے لئے قادیان سے باہر بھجوایا جارہا تھا۔ جب اس کی اطلاع حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کو ہوئی تو حضور کو یہ اطلاع سخت ناگوار گزری اور فرمایا:
’’میں تو ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا اور جائز نہیں سمجھتا کہ عید کے دن سفر کیا جائے اور پھر سفر بھی کھیلوں کے لئے ہرگز نہیں جانا چاہیئے……… یہ دن سنت ابراہیمی کا ایک ایسا دن ہے جو شعائر اللہ میں داخل ہے اس کی عظمت مومن کا فرض ہے۔‘‘

(ارشادات نور جلد دوم صفحہ278-279)

شعائر اللہ میں وسعت

پس جو بھی شعائر اللہ کی تعظیم کرے۔ انہیں برتر جانے اور احترام کرے یہ تمام امور خود اس کے متقی ہونے کے ثبوت ہیں۔ یہی مفہوم ہے فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ کا۔ اس لئے مفسرین نے شعائر اللہ کو بہت وسعت دی ہے۔ تمام ارکان ، مقامات اور اشیاء جو اللہ کی یاد دلاتی ہیںان کی تعظیم و تکریم بذات خود تقویٰ و پرہیزگاری کی علامت ہے اور مناسک حج کے علاوہ رمضان، عید الفطر، عید النحر، ایام تشریق، جمعہ، اذان، اقامت، نماز عیدین کو شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ ان کی عزت و تکریم کرنے کا حکم ہے۔ لیکن اس دن میں یہ سبق موجود ہے کہ گو یہ شعائر ہیں لیکن مقصود ان کی عبادت نہیں بلکہ عبادت تو اللہ ہی کی ہے۔ یہ شعائر اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔ مثلاً حجر اسود کو ہاتھ لگانا اور چومنا سنت رسول ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بندہ اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے میثاق اطاعت کی تجدید کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں اس پتھر کے سامنے کھڑے ہوکر اسے مخاطب ہوکر فرمایا تھا:
’’اے حجر اسود!تو صرف ایک سیاہ پتھر ہے تو نہ مجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تجھے اللہ کے رسولؐ نے نہ چوما ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔‘‘

(صحيح البخاري،كِتَابُ الحَجِّ،بَابُ الرَّمَلِ فِي الحَجِّ وَالعُمْرَةِ)

یہ تو وہ شعائر اللہ ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے۔ چونکہ شعائر کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں جو مذہب سے باہر دوسرے اداروں، فرقوں یا ملکوں کی ہوسکتی ہے۔ جیسے سرکاری جھنڈے، کرنسی نوٹ یا اسٹامپ پیپر۔ سکھوں کے شعائر کیس،کڑا، کرپان ہیں۔ عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے اپنے اپنے شعائر ہیں۔ اسلام کے ذیل میں قادیان میں جماعت احمدیہ کے مقدس مقامات بھی شعائر الہٰی ہیں۔ جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چِلّے کاٹے۔ نمازیں اور عبادات ادا کیں۔ اللہ تعالیٰ کے نشانات کی اطلاعات موصول کیں۔ اسلام کی فتوحات کے نظارے نہ صرف دیکھے بلکہ ان کا اعلان کیا جو آج پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پھر صرف مقامات یا ارکان ہی شعائر اللہ نہیں ہوتے بلکہ نیک صالح وجود بھی شعائر اللہ میں سے ہوتے ہیں۔ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ؓ زوجہ محترمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ دالان میں کچھ تبدیلی کروانی چاہی۔ جس کی بعض اصحاب نے مخالفت کی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان کی خواہش کو مقدم رکھتے ہوئے فرمایا کہ
«اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کئے جو شعائر اللہ میں سے ہیں۔ اس واسطے اس کی خاطرداری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت عرفانی کبیر صفحہ 368)

خلافت علی منہاج النبوۃ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک شعیرہ ہے جو علامت، نشانی اور پہچان ہے جماعت احمدیہ مسلمہ کی اور حسبِ ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں شعور اور علم عطا کرتی ہے اس لئے اس کی قدر کرنا، احترام کرنا اور دربار خلافت سے جاری فرمان پر لبیک کہناہم میں سے ہر ایک کا اولین فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور خلیفۃ المسیح کی ہدایات کو ماننا بھی شعائر اللہ کی تعظیم میں شامل ہے۔ جو اللہ کی یاد تازہ کرواتے ہیں۔ اس طرح اللہ کی طرف ہمارے سفر کو آسان کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:۔
’’اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا ،اس کے شعائر کی عظمت بجالانا۔ اس کی مقرر کردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم کرنا اور اس کے نشانات کی حرمت کو قائم رکھنا خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ بلکہ اس سے خود انسان کے اپنے دل میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ میں وہ ترقی کرنے لگتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ46)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 30 جولائی 2020ء