• 3 مئی, 2024

بیعت کی حقیقت کو جاننے اور بیعت کو جاننے کی ضرورت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ حقیقت ہے بیعت کی اور آپ کے آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی، کہ بیعت کی حقیقت کو جاننے اور بیعت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے بیعت کی حقیقت اُس وقت معلوم ہو گی جب آپ کی بیان فرمودہ دس شرائطِ بیعت پر غور ہو گا اور اُن پر عمل ہو گا۔ مَیں نے ابھی ایک مثال دی کہ کس طرح افریقہ کے دور دراز علاقے میں بیٹھے ہوئے لوگ بیعت کر کے اپنے ماحول میں نمونہ بن رہے ہیں اور مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حقیقی مسلمان دیکھنا ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو۔

پس یہ نمونے ہیں جو ہم نے قائم کرنے ہیں۔ نئے بیعت کرنے والوں کی بعض اَور مثالیں بھی میں دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شرائطِ بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ آپ سے تعلق محبت اور اخوت تمام دنیوی تعلقوں سے بڑھ کر ہو گا۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ160) جب موقع ملے تو آج بھی دور دراز بیٹھے ہوئے لوگ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو ایمان سے بھرا ہوا ہے۔

رشین ممالک میں بیعت کرنے والے احباب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان اور اخلاص میں غیرمعمولی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک گزشتہ سال قادیان کے جلسہ میں بھی شامل ہوئے اور واپس آنے کے بعد، اپنے ملک پہنچنے کے بعد جو اپنے تاثرات انہوں نے بھجوائے اُن میں سے ایک صاحب نے لکھا کہ: اس مبارک جگہ کے بارے میں کتب میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا تھا لیکن جب ہمارے قدم اس زمین پر پڑے تو وہی ماحول جو مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تھا ہم پر بھی طاری ہو گیا۔ یہاں پر سانس لینا بہت آسان تھا اور آدمی دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ حتی کہ اس کے خیالات تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مستغرق ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور محسوس کیا اس کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔

پھر ایک دوست نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے قادیان جانے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مہدی آخر الزمان کو سلام پہنچانے کی توفیق ملی۔ مَیں نے پہلی مرتبہ احمدیہ مسجد سے اذان کی آواز سنی، کیونکہ وہاں روس میں بھی پابندیاں ہیں، مسجد میں اذان نہیں دے سکتے۔ میں نے اپنا سامان جلدی سے رکھا اور وضو کرتے ہوئے یہ سوچتے سوچتے مسجد پہنچا کہ یہ مسیح موعود کی مسجد ہے اور دو رکعت نماز ادا کر کے ایک احمدی بھائی سے پوچھا کہ کیا یہ امام مہدی علیہ السلام کی ہی مسجد ہے؟ تو اُس نے کہا نہیں، یہ مسجد دارالانوار ہے۔ اس پر مَیں کچھ غمگین سا ہو کر اپنے بھائیوں کی طرف گیا اور اُن کو بتایا۔ بہر حال ہم نے فجر کی نماز اُسی مسجد میں ادا کی اور پھر ہم امام مہدی علیہ السلام کے مزار پر گئے اور دعا کی۔ اُس وقت میں اللہ کے حضور شکر کے ایسے جذبات سے بھرا ہوا تھا کہ جن کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کے بعدہم قادیان میں ہر طرف گھومے۔ امام مہدی کی مسجد بیت الفکر، بیت الدعا، وہ گھر جہاں امام مہدی علیہ السلام پیدا ہوئے اور رہے، جہاں انہوں نے روزے رکھے، اور مسجدنور بھی گئے۔ ان جگہوں پر دعا کی توفیق ملی اور ایسی حالت طاری ہوئی جو ناقابلِ بیان ہے۔ ایسے لگا جیسے دماغ چکرا گیا ہو۔ ہم تمام اہم جگہوں پر گئے اور میں اس وجہ سے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔ پس یہ لوگ ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ موقع نہیں ملا کہ قادیان جا سکیں۔ لیکن یہ لوگ بھی اخلاص و وفا سے پُر ہیں جن لوگوں کے خطوط آتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے ان کی وفا اور اخلاص کو دیکھ کر۔ اپنی دنیاوی ضروریات سے زیادہ اپنی روحانیت کی فکر ان میں ہے۔

مَیں گزشتہ دنوں میں جب سنگاپور گیا ہوں، وہاں انڈونیشیا سے بھی بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے اور بڑا لمبا سفر کر کے آئے تھے۔ بعض غریب لوگ ایسے بھی آئے تھے کہ جن کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے تو اگر اُن کی تھوڑی سی کوئی جائیداد زمین یا جگہ تھی، تو وہ بیچ کر انہوں نے کرایہ پورا کیا اور سنگاپور پہنچے ہوئے تھے۔ اور جب بھی انہوں نے کوئی دعا کے لئے کہا، تو یہ نہیں تھا کہ دنیاوی ضروریات پوری ہوں، بلکہ یہ تھا کہ ہمارے بچے دین پر قائم رہیں اور جس انعام کو ہم نے پا لیا ہے یہ ہم سے ضائع نہ ہو۔ یہ عورتوں کے بھی جذبات تھے اور مَردوں کے بھی۔ پھر خلافت سے محبت بے انتہا تھی۔ وہی محبت و اخوت کا اظہار تھا جو محض لِلّٰہ تھا

(خطبہ جمعہ 11؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022