• 8 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 23)

قرآنی انبیاء
حضرت الیاسؑ
قسط 23

حضرت الیاسؑ کا قرآن کریم میں ذکر

حضرت الیاس علیہ السلام کا قرآن کریم میں دو جگہ سورہ انعام اور سورہ صافات میں ذکر ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَزَکَرِیَّا وَیَحۡیٰی وَعِیۡسٰی وَاِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۸۶﴾

(الانعام: 86)

اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی (ہدایت دی تھی) (یہ) سب کے سب نیکوں میں سے تھے۔

اسی طرح سورہ صافات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِنَّ اِلۡیَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۲۴﴾ؕ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۲۵﴾ اَتَدۡعُوۡنَ بَعۡلًا وَّتَذَرُوۡنَ اَحۡسَنَ الۡخَالِقِیۡنَ ﴿۱۲۶﴾ۙ اللّٰہَ رَبَّکُمۡ وَرَبَّ اٰبَآئِکُمُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۲۷﴾ فَکَذَّبُوۡہُ فَاِنَّہُمۡ لَمُحۡضَرُوۡنَ ﴿۱۲۸﴾ۙ اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۱۲۹﴾ وَتَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾ۙ سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۲﴾ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾

(الصافات: 124-133)

اور الیاس یقیناً رسولوں میں سے تھا۔ (یاد کرو) جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم تقویٰ نہیں کرتے۔ کیا تم بعل بت کو پکارتے ہو؟ اور جو بہترین پیدائش کرنے والا ہے (یعنی اللہ) اسے چھوڑتے ہو۔ جو تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا بھی رب ہے۔ (یہ سن کر) اس کی قوم نے اس کو جھٹلایا۔ پس وہ یقیناً عذاب کے لئے پیش کیے جائیں گے۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے (کہ ان سے یہ معاملہ نہیں ہوگا)۔ اور ہم نے اس (یعنی الیاس) کے لئے آخری قوموں میں ذکر خیر چھوڑا۔ الیاسین پر ہمیشہ ہمیش سلامتی ہوتی رہے۔ ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ وہ(یعنی پہلا الیاس) ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

نام: الیاس، ایلیا، ایلیجاہ اور تشبی

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں آیا ہے: ’’بقول جوالیقی الیاس ایک عجمی کلمہ ہے لیکن بعض لوگوں کو اس سے اختلاف ہے کیونکہ عرب عام طور پر غیر عربی الفاظ کو معرب کر لیا کرتے تھے۔ بہر حال اس میں شبہ نہیں کہ یہ کلمہ عبرانی نام ایلیا یا ایلیجاہ ہی ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’یہوہ میرا رب‘‘، (یہوہ: یہودیوں کے ہاں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے)۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اسم مذکور میں یہ اقرار مضمر ہے کہ اس کے حامل نے بعل کے پرستاروں کے خلاف یہوہ کے نام پر جہاد کیا اور اس سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ ایلیجاہ نے یہ نام خود اختیار کیا تھا۔ تورات میں ایلیا کو ’’تشبی‘‘ کہا گیا ہے جس سے قیاس ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق ’’تشبہ‘‘ نام کے کسی مقام یا گھرانے سے تھا۔ آپ نے جلعاد میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ولہاوزن (Wellhausen) نےآپ کے بارے میں اپنی کتاب ہسٹری آف اسرائیل (صفحہ 462) میں لکھا ہے: ’’وہ تن تنہا پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنے دور پرچھائے ہوئے ہیں لیکن ان کی شخصیت تاریخ کی بجائے افسانوی روایات میں محفوظ ہے‘‘

(اردودائرہ معارف اسلامیہ، زیر انتظام دانش گاہ پنجاب لاہور، زیر لفظ ’’الیاس‘‘،
جلد3 صفحہ213، طبع اول، نقش ثانی، سال 1980ء)

حضرت الیاس علیہ السلام کا زمانہ اور بعثت

حضرت الیاس علیہ السلام جلعاد کے رہنے والے تھے جو اردن کے مشرقی کنارے پر واقع ایک جگہ تھی آپ کا زمانہ 900 ق م کا ہے (جیوش انسائیکلو پیڈیا تحت کلمہ ’’ELIJAH‘‘)

علامہ ابن کثیر کی کتاب ’’البدایہ والنہایہ‘‘ سے ماخوذ قصص الانبیاء کے ترجمہ اردو میں ذکر ہے: ’’ان کا نام الیاس بن یس بن فنحاص بن عیزار بن ہارون بن عمران ہے جبکہ دوسرے قول کے مطابق ان کا نام الیاس بن العازر بن الیعزر بن ہارون بن عمران ہے۔ آپ کو دمشق کے شمال مغرب میں واقع شہر بعلبک کی طرف (موجوده تقسیم میں یہ شہر لبنان میں واقع ہے) رسول بنا کر بھیجا گیا تھا تا کہ انہیں بعل نامی بت کی عبادت سے منع کریں تو اس جگہ کے لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کی مخالفت کی بلکہ آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کر لیا حتی کہ آپ ان لوگوں کو چھوڑ کر چلے گئے اور روپوش ہو کر دس سال تک ایک غار میں رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو موت دی اور دوسرا شخص بادشاہ بن گیا۔ تب حضرت الیاس علیہ السلام نے اس کو دعوت ایمان دی تو اس کے ساتھ بے شمار تعداد میں وہ قوم ایمان لے آئی‘‘

(قصص الانبیاء از ابن کثیر، ترجمہ عطاء اللہ ساجد فاضل مدینہ یونیورسٹی، صفحہ542-543)

الیاسین کہنے سے مراد

سورہ صافات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾

(الصافات: 131)

مفسرین کے نزدیک وہاں صرف ایک الیاس مراد ہیں آخر میں یاء اور نون کا اضافہ قافیہ بندی کے لیے کیا گیا ہے مگر ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ میں صرف وقف کے لیے یاء اور نون کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ ہماری جماعت کا اعتقاد ہے الیاس کی بجائے الیاسین کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہاں ایک سے زیادہ الیاس مراد ہیں۔ ایک تو وہ الیاس ہیں جو اسرائیلی انبیاء کے وسط میں گزر چکے ہیں دوسرے الیاس یوحنا (حضرت یحیی علیہ السلام) ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے معا پہلے آئے اور تیسرے الیاس حضرت سید احمد صاحب بریلوی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام سے پہلے آئے۔ چونکہ نزول قرآن سے پہلے دوالیاس اس دنیا میں آچکے تھے اور ایک الیاس نے ابھی آنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسٍ‘‘ کی بجائے ’’سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ‘‘کہہ کران سب کی طرف اشارہ کر دیا‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ170)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں ’’الیاس‘‘ کی بجائے ’’الیاسین‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس کا مفسرین ایک معنیٰ تو یہ کیا کرتے ہیں کہ تین الیاس تھے کیونکہ تین سے کم کی تعداد پر ’’الیاسین‘‘ (جمع) کا صیغہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن عبرانی طرز کلام میں واحد کے لئے بھی عزت کی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ان کی کتب میں آنحضرت ﷺ کا نام محمد نہیں بلکہ ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے۔ چونکہ ایلیاء (الیاس) نے بھی غیر معمولی قربانی سر انجام دی تھی اس لئے آپ کا بھی جمع کے صیغہ میں ذکر فرمایا گیا‘‘۔ (ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تحت آیت سَلٰمٌ عَلٰۤی اِلۡ یَاسِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾

(الصافات: 131)

روحانی مردوں کو زندہ کرنا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’انبیاء بے شک مردے زندہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ ایلیاہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے (روحانی) مردے زندہ کئے۔ (نمبر1 سلاطین باب 17 آیت 22 ونمبر2 سلاطین باب 4 آیت 35)‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ62)

حضرت الیاسؑ کے مثیل حضرت یحییؑ تھے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی آیتیں موجود ہیں جن کے اگر ظاہر معنے کئے جائیں تو کچھ بھی مطلب نہیں نکل سکتا۔ جیسے فرمایا:

وَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَاَضَلُّ سَبِیۡلًا

(بنی اسرائیل: 73)

اب آپ وزیر آباد میں ہی حافظ عبدالمنان سے جواس سلسلہ كا سخت دشمن ہے دریافت كریں كہ كیا اس آیت كا یہی مطلب ہے كہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جائیگا؟ یا ظاہر پر اس سے مراد نہیں لی جاتی، کچھ اور مطلب ہے۔ یقینا اس کویہی کہنا پڑے گا کہ بیشک اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ہر اندھا اور نابینا قیامت کو بھی اندھا اور نابینا اٹھے بلکہ اس سے مراد معرفت اور بصیرت کی نابینائی ہے۔

جب یہ ثابت ہے کہ ا لفاظ میں استعارات بھی ہوتے ہیں اور خصوصاً پیشگوئیوں میں۔ تو پهر مسیح كے نزول كے متعلق جو پیشگوئیوں میں الفاظ آئے ہیں، ان کو بالکل ظاہر ہی پرحمل کر لینا کونسی دانشمندی ہے؟ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ظاہر پرستی سے کام لیتے ہیں اور ظن سے كام لیتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ: اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (النجم: 29) اور بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ (الحجرات: 13)

پس اگر بدظنی سے کام لیتے ہیں اورظاہر معنوں ہی پر حمل کرتے ہیں تو پھر نابینوں کو تونجات سے جواب ہوگا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ كیوں ناحق ایك ایسی بات پر زور دیتے ہیں جس كیلئے ان كے پاس كوئی یقینی ثبوت نہیں ہے۔ یہ لوگ خد اتعالیٰ کی کتابوں کی زبان سے محض ناواقف ہیں۔ اگر واقف ہوتے تو سمجھتے کہ پیشگوئیوں میں کس قدراستعارات سے کام لیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ یہودیوں کو یہی مشکل اور آفت تو پیش آئی کیونکہ حضرت مسیح کے لیے لکھا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے ایلیا آئے گا۔ چنانچہ ملا کی نبی كی کتاب میں یہ پیشگوئی بڑی صراحت سے درج ہے۔ یہودی اس پیشگوئی کے موافق منتظر تھے کہ ایلیا آسمان سے آوے لیکن جب مسیح آگیا او رایلیا آسمان سے نہ اترا تو وہ گھبرائے۔

اور یہ ابتلا ان کو پیش آگیا کہ ایلیا کا آسمان سے آنا مسیح کے آنے سے پہلے ضروری ہے اب انصاف شرط ہے۔ اگر یہ فیصلہ کسی جج کے سامنے پیش ہو تو وہ بھی یہودیوں کہ حق میں ڈگری دے گا کیونکہ یہ صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ ایلیا آئے گا اوراس سے پہلے کوئی نظیر اس قسم کے بروز کی ان میں موجود نہ تھی جو مسیح نے یوحنا کو ایلیا بنایا۔ اب اگر چہ ہم ان کتابوں کی بابت تو یہی کہتے ہیں کہ لَا تُصَدِّقُوْا وَلَا تُکَذِّبُوْا لیکن یہ بھی ساتھ ہی ضروری بات ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیا ہے۔ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (النحل: 44)

علاوہ بریں اس قصہ ایلیا کی قرآن شریف نے کہیں تکذیب او رتردید نہیں کی اوریہودی اور عیسائی دونوں قومیں بالاتفاق اس کو صحیح مانتی ہیں۔ اگر یہ قصہ نہ ہوتا تو عیسائیوں کا حق تھا کہ وہ بول پڑتے اور اس کی تکذیب کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ اگر اس قصہ کو غلط کہا جائے تو عیسائیوں کے لیے مشکلات سے نجات اور مخلصی ہے۔ جواس کو صحیح مان کر ان کو پیش آتی ہیں لیکن جبکہ انہوں نے تکذیب نہیں کی اوراس کوصحیح تسلیم کر لیا ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ ہم بلاوجہ تکذیب پر آمادہ ہوں۔ حق یہی ہے کہ یہودیوں میں یہ خبر صحیح موجود تھی کہ مسیح كےآنے سے پہلے ایلیا آئے گا۔

مسیح علیہ السلام کا فیصلہ

اور اسی لیے جب مسیح آگیا تو وہ مشکل میں پڑ ے اور انہوں نے مسیح سے ایلیا کے متعلق سوال کیا اور مسیح نے یوحنا کی صورت میں اس كے آنے کوتسلیم کر لیا۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگریہ پیشگوئی صحیح نہ ہوتی تو سب سے پہلے مسیح کا یہ حق تھا کہ وہ بجائے اس كےکہ یہ کہتے كہ آنے والا ایلیایوحنا ہی ہے، یوں جواب دیتے کہ کوئی ایلیا آنے والا نہیں ہے۔ مسیح نے اگر اس کو صحیح تسلیم نہ کیاہوتا تو وہ یوحنا کی شکل میں ایلیا کو نہ اتارتے۔ یہ چھوٹی اور معمولی سی بات نہیں۔ مسیح کا یہودیوں کے اس اعتراض کو مان کر اس کا جواب دینا بھی اس امر کی روشن دلیل ہے کہ وہ بجائے خود اس امر کوصحیح اوریقینی سمجھتے تھے۔ یہودیوں کایہ عذر بہر حال قابل پذیرائی تھا اورمسیح نے اس کو قبول کر کے یہی جواب دیا ہے کہ آنے والا ایلیا یوحنا ہی ہے چاہو تو قبول کر و۔ اب اگر استعارات کوئی چیز نہیں اور خداتعالیٰ کی پیشگوئیوں میں یہ جزو اعظم نہیں ہوتے تو پھر جیسے یہودیوں نے حضرت مسیح ؑ کی اس تاویل کو تسلیم نہیں کیا، یہ بھی انکا ر کریں کہ وہ فیصلہ صحیح نہیں تھا کیونکہ یہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ ایلیا والے قصہ کی مسلمان تکذیب تو کر نہیں سکتے کیونکہ قرآن شریف نے کہیں اس کی تکذیب نہیں کی اور تکذیب کے اول حق دار تو حضرت مسیحؑ اور ان کے متبعین ہوسکتے ہیں۔ جبکہ یہ بات ہے کہ استعارات کوئی چیز نہیں اور ہر پیشگوئی لازماً اپنے ظاہری الفاظ ہی پر پوری ہوتی ہے تو پھر ان کو گویا مانناپڑے گا یہودیوں کی طرح کہ مسیح ابھی نہیں آئے گا۔ اورجب مسیح کے آنے کا بھی انكارہی ہواتو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی انکارکرنا پڑا اوراس طرح پر اسلام ہاتھ سے جاتا ہے۔ اسی لیے میں بار بار اس امر پر زور دیتا ہوں کہ میری تکذیب سے اسلام کی تکذیب لازم آتی ہے۔

اس صورت میں عقل مند سوچ سکتا ہے کہ ایلیا کے دوبارہ آنے کے قصہ کے رنگ میں مسیح کی آمد ثانی ہے اوران کا فیصلہ گویا چیف کورٹ کا فیصلہ ہے۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے وہ نامراد رہتا ہے۔ اگر حضرت عیسیٰؑ نے خودآنا تھا توصاف لکھ دیتے کے میں خود ہی آؤں گا۔ یہودی بھی تو اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ایلیا کا مثیل آنا تھا توکیوں خدا نے یہ نہ کہا کہ ایلیا کا مثیل آئے گا۔ غرض جس قدر یہ مقدمہ ایلیا کا ہے اس پر اگر ایک دانشمند صفائی اور تقویٰ سے غور کرے تو صاف سمجھ آجاتا ہے کہ کسی کے دوبا رہ آنے سے کیا مراد ہوتی ہے اور وہ کس رنگ میں آیا کرتا ہے۔ دو شخص بحث کرتے ہیں ایک نظیر پیش کرتا ہے اور دوسرا کوئی نظیر پیش نہیں کرتا تو بتاؤ کس کا حق ہے کہ اس کی بات مان لی جاوے؟یہی کہنا پڑے گا کہ ماننے کے قابل اسی کی بات ہے جو دلائل کے علاوہ اپنی بات کے ثبوت میں نظیر بھی پیش کرتا ہے۔ اب ہم تو ایلیا کا فیصلہ شدہ مقدمہ جو خود مسیح نے اپنے ہاتھ سے کیا ہے بطور نظیر پیش کرتے ہیں۔ یہ اگر اپنے دعویٰ میں سچّے ہیں تو دو چارایسے شخصوں کے نام لے دیں جن کی آسمان سے اترنے کی نظیریں مو جود ہیں۔ سچ کے حق میں کوئی نہ کوئی نظیر ضرور ہوتی ہے۔ اس مقدمہ میں تتقیح طلب امر یہی کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کا وعدہ ہو تو کیااس سے اس شخص کا پھر آنا مراد ہوتا ہے یا اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور اس کی آمد ثانی سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی اس کا مثیل آئے گا۔ اگر اس تتقیح طلب امر میں ان کا دعویٰ سچا ہے کہ وہ شخص خود ہی آتا ہے تو پھر حضرت عیسیٰ پر جو الزام عائد ہوتا ہے اسے دور کر کے دکھائیں۔ اول یہ ان کا فیصلہ فراست صحیحہ سے نہیں ہوا۔ اور دوسرے معاذاللہ وہ جھوٹے نبی ہیں کیونکہ ایلیا تو آسمان سے آیا ہی نہیں وہ کہاں سے آگئے؟ اس صورت میں فیصلہ یہودیوں کے حق میں صادر ہوگا۔ اس کا جواب ہمارے مخالف مسلمان ہم کو ذرا دے کر تو دکھائیں۔ لیکن یہ ساری مصیبت ان پر اس ایک امر سے آتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم استعارہ نہیں مانتے۔ اصل بات یہی ہے اور وہی فیصلہ حق ہے جو مسیح نے دیا ہے کہ ایلیا کے آنے سے مرا یہ تھی کہ اس کی خو اور طبیعت پر اس کا مثیل آئے گا اس کے خلاف ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا۔ مشرق یا مغرب میں پھرو اور اس کی نطیر لاؤ کہ دو بارہ آنے والا خود ہی آیا کرتاہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ371-374 ایڈیشن 2010ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’بڑے افسوس سےکہنا پڑتا ہے کے انھوں نے اپنے گھر میں نگاہ نہیں کی۔ ورنہ اس قوم کا فرض تھا کہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺکے قبول کرنے والے یہی ہوتے، کیونکہ ان کے ہاں نظائرموجود تھے، مگر جیسے اس وقت کو انھوں نے کھودیا۔ آج بھی یہ مسیح موعود کوقبول نہیں کرتے، حالانکہ ایلیاکا قصّہ اُن میں موجودہے اور اسی پر مسیح کی صداقت کا سارا معیار ہے۔ اگر مسیح واقعۃ مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ تو کیوں پھونک مار کر ایلیاکو زندہ نہ کر دیا،یہود ابتلاسے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا، جو ایلیاکی تاویل سے پیش آئیں۔ ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے۔ وہ اس میں صاف لکھتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ ہم سے مسیح کے انکارکا سوال کرے گا،تو ہم ملا کی نبی کی کتاب سامنے رکھ دیں گے۔ کہ کیا اس میں نہیں لکھا کہ مسیح سے پہلے ایلیا آئے گا۔ اس میں یہ کہاں ہے کہ یوحنا آئے گا۔ اس پر اس نے بڑی بحث کی ہے اور پھر لوگوں کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ بتاو ہم سچے ہیں یا نہیں۔ الغرض اس قسم کی جزئیات کویہ لوگ بد نما صورت میں پیش کر کے دھوکا دیتے ہیں‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ73-74)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اگر ان کا حدیث پر اس قدر اعتبار ہے تو رفع یدین کی جو چودہ سو احادیث آئی ہیں اس پر کیوں نہیں عمل کرتے ہمارا مسئلہ خد اتعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مطابق ہے جیسے یہ آمد مسیح کے منتظر ہیں ویسے ہی یہودی الیاس کے منتظر تھے۔ ۔ ۔ یہودیوں کو الیاس کی انتظار تھی مسیح نے کہا یحییٰ الیاس ہے خواہ قبول کرو خواہ نہ کرو‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ470-471)

(مرزا خلیل احمد بیگ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022