• 9 مئی, 2024

جنوبی کوریا کا تعارف اور احمدیت کے قیام کی مختصر تاریخ (قسط اول)

جنوبی کوریا کا تعارف اور احمدیت کے قیام کی مختصر تاریخ
قسط اول

جزیرہ نما کوریا جنوبی اور شمالی حصہ پرمشتمل دو ملکوں میں منقسم ہے۔ جزیرہ نما کوریا کے جنوبی حصہ پر مشتمل جنوبی کوریا مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ جنوبی کوریا کا سرکاری نام جمہوریہ کوریا (The Republic of Korea) ہے۔ ملک کی آبادی51 ملین سے زائدہے اور رقبہ 1003ء 63مربع کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں مشرقی بحیرہ ہے جس کو بحیرہ جاپان بھی کہا جاتا ہے، مغرب میں بحیرہ اصفر ہے اور جنوب میں مشرقی بحیرہ چین ہے۔ جنوبی کوریا کے شمال میں شمالی کوریا وہ واحد ملک ہے جس کے ساتھ زمینی سرحد ملتی ہے اور جنوب مشرق میں آبنائے کوریا ہے جو جاپان اور کوریا کے مابین سمندری گزرگاہ ہے اور اس آبنائے سے دوسو کلومیٹر کے فاصلہ پرجاپان کے جزائر ہونشو (Hunshu) اور کیوشو (Kyushu) واقع ہیں۔ مغرب میں 190 کلو میٹرکی دوری پرچین کا جزیرہ شاندونگ (Shandong) ہے۔

جنوبی کوریا کادار الحکومت

ملک کا دار الحکومت سئیول (Seoul) ہے۔ فلک بوس عمارتوں پر مشتمل اس شہر کی تاریخی حثییت ہے۔ یہ شہر پہاڑوں میں گھرا ہوا دریائے ہان کے طاس پر ملک کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ سیئول کےوسط میں بہتا ہوا دریائے ہان (Han) شہر کو جنوبی اور شمالی حصہ میں تقسیم کر دیتا ہے۔ سئیول سے شمالی کوریا کی سرحد صرف 50 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سئیول ملک کا اقتصادی، سیاسی، تعلیمی اور ثقافتی مرکز ہے۔

جنوبی کوریا کے خوبصورت جزائر

جنوبی کوریا میں 3358ء چھوٹے بڑے جزائر ہیں۔ اگر ایک دن ایک جزیرہ پرگزاراجائے تو تمام جزائر کو دیکھنے کے لئے نوسال سے زائد کا عرصہ لگےگا۔ سب سے زیادہ مشہور اور زبان زدعام جیجو جزیرہ (Jeju Island) ہے۔ جنوبی کوریا کا سب سے بلند ہلہ (Halla) نامی پہاڑاس جزیرہ میں واقع ہے جو سطح سمندر سے 1940ء میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے خوبصورت جزائر ہیں جن کی فہرست کافی طویل ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح ان جزائر کی سیرسے لطف اندوز ہونے کے لئے جنوبی کوریا آتے ہیں۔ جزیرہ دکدو (Dokdo) جسےجاپان میں تیک شیما (Takeshima) کہا جاتا ہے جنوبی کوریا اور جاپان کے درمیان باعث نزاع ہے۔ دونوں مما لک اس جزیرہ کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔

پہاڑوں اوردریاؤں کی سر زمین

جنوبی کوریا پہاڑوں اورمتعدد چھوٹے بڑے دریاؤں کی سر زمین ہے۔ زیادہ تر دریا مشرق سے مغرب اور جنوب کی طرف بہتے ہوئے بحیرہ اصفر اور جنوبی بحیرہ میں گرتے ہیں کیونکہ زیادہ تر بلند پہاڑ ملک کے مشرقی حصہ میں واقع ہیں جنکی بلندی مغرب اور جنوب کی طرف آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ ملک کا بیشتر حصہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ دو طویل پہاڑی سلسلے ہیں۔ کوہ تیبک (Taebaek Mount) اور کوہ سوبیک (Sobaek Mount)۔ کوہ تیبک بحیرہ جاپان کے ساحل کے ساتھ ساتھ جزیرہ نما کوریا کےمشرق میں پھیلا ہوا ہے۔ کوہ تیبک کا ایک سرا شمالی کوریا اور دوسرا سرا جنوبی کوریا کے مشہور شہر بوسان (Busan) پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 500 کلو میٹر ہےاور اوسط اونچائی 1000ء میٹر ہے۔ اس سلسلہ کے پہاڑوں کی چوٹیاں 1500ء میٹر سے زائد بلند ہیں۔ ملک کے جنوب میں دوسرا طویل پہاڑی سلسلہ سوبیک ہے۔ اس سلسلہ کے پہاڑ سطح سمندر سے 1000ء میٹر سے زائد بلند ہیں۔ دریائے ہان اور نکتنگ (Naktong) دو بڑے دریا ہیں جن کی لمبائی300 میل سےزائد ہے۔ ان کا دونوں دریاؤںکا منبع کوہ تیبک ہے۔

جزیرہ نما کوریا کی تاریخ

خیال کیا جاتا ہےکہ تقریباً دس ہزار سال قبل انسان جزیرہ نما کوریا میں آباد ہوئے۔ نیولیتھک دور (Neolithik Era) جسے جدید پتھر کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ کوریا میں نیولیتھک دور کا آغاز چھ ہزار سال قبل مسیح ہوا۔ اس دورکی باقیات میں پتھر سے بنے ہل اور درانتی سے کاشتکاری اور فارمنگ کے آغازکا پتہ چلتا ہے۔ اس دور میں پتھر سے بنے بھالے، نیزے، نوک دار تیر، ہڈی سے بنے کانٹےاور ماہی گیری کے لیے پتھر سےبنے اوزان استعمال ہوتے تھے۔ کورین کنگھی نما نقوش پر مشتمل ظروف نیولیتھک دور میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے تھےاور اس کےآثار شمال مشرقی ایشیا میں ملتے ہیں۔ پتھر سے بنی خاص شکل کی کلہاڑیاں اور دیگر اوزارسےچاول کی فارمنگ کاپتہ چلتاہے۔ کوریا میں کانسی عہد غالباً آٹھویں صدی قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ کانسی عہد میں لوگ پہاڑوں میں غارنماگھروں میں رہائش پذیر تھے اور کانسی سےبنے خنجر اور نوک دارتیرکے استعمال سے اس دور کا تعین ہوتا ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں تقریباً چار صدی قبل مسیح لوہے کے استعمال کا آغازہوا۔ اس دور میں جزیرہ نما کوریا میں لوہے سے بنے ہل، درانتیاں اور فارمنگ میں جانوروں کا استعمال کاشتکاری کےزیادہ موئژاور بہترطریقےکی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دور کےلوہے سے بنے ہتھیار ملتے ہیں۔ اس دور میں لکڑی کے بنےگھر سطح زمین پر تعمیر کئے گئے۔

جزیرہ نما کوریا کی پہلی ریاست

آغاز میں چھوٹے چھوٹے قبائل پر مشتمل معاشرہ وجود میں آیااور بہت سے طاقتور قبائل ضم ہو کر ایک بڑے قبیلہ میں تبدیل ہوئے اور آہستہ آہستہ ابتدائی ریاست کی شکل اختیار کر لی۔ ’’کوجوسن‘‘ (kojoseon) نامی پہلی ریاست جزیرہ نما کوریا میں 2333ء ق۔ م وجود میں آئی جو چین کےموجودہ صوبہ لیاؤننگ (Liaoning)، منچوریا (Manchria) اور جزیرہ نما کوریا کے شمالی حصہ پر مشتمل تھی۔ جزیرہ نما کوریا کے جنوبی حصہ پرجن ریاست (Jin State) کا اقتدار تھا جو کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے اتحاد پر مشتمل تھی۔ تاریخ میں ’’جن ریاست‘‘ کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ تیسری صدی قبل مسیح کے اختتام پر کوجوسن ریاست اور چین کےہان شاہی خاندان (Han dynasty) کے درمیان 108 – 109ق۔ م جنگ ہوئی اور ’’کوجوسن‘‘ کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور اسکے بعد چین کے ہان شاہی خاندان نے جزیرہ نما کوریا کے شمالی حصہ پر ا پنا اقتدار مضبوط کیا۔ کوجوسن ریاست نے زراعت کےشعبہ کو بہتر کیا۔ زراعت کے علاوہ اس ریاست کاانحصار سونا، چاندی، کاپر، ٹن اورزنک معدنیات پر تھا۔ زیر زمین ہیٹنگ سسٹم (Heating System) کی ایجاد جسے مقامی زبان میں اندول (Ondol) کہا جاتا ہے اورپہلا کورین گرے سٹون وئیر (Grey stone ware) اس دور میں متعارف ہوا۔

تین بادشاہتوں کا دور (37ق م تا668ء)

کوجوسن بادشاہت کے بعد 37 قبل مسیح میں چھوٹی چھوٹی قبائلی ریاستوں کےآپس میں ایک دوسرے میں ضم ہو نے سے ’’کوگوریو بادشاہت‘‘ (koguryo) وجود میں آئی اور جزیرہ نما کوریا کے شمال میں بڑی طاقتور ریاست بن گئی۔ جنوب مغرب میں دریائے ہان کے ساتھ ساتھ 18 قبل مسیح میں بیکجےبادشاہت (Baekje) قائم ہوئی۔ جنوب اور مرکز میں کوگوریو اور بیکجے سلطنت کے ساتھ 57 ق۔ م میں شلاّ بادشاہت (Silla) کا قیام ہوا۔ جزیرہ نماکوریا 57 ق۔ م سے لیکر668ء تک تین بادشاہتوں شلا، کوگوریو اور بیکجے میں منقسم رہا۔ یہ بادشاہتیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہتیں اورحالات کے پیش نظرانکا ایک دوسرے کے ساتھ اور خطے کی بڑی طاقتوں چین اور جاپان کے ساتھ اتحادادلتا بدلتا رہتا۔ جزیرہ نما کوریا کی ان بادشاہتوں کے چین کے ساتھ تناؤ اور کشمکش کے باوجودآپس میں تجارت جاری رہتی۔ جزیرہ نما کوریا چین کوسونا،لوہا اور گھوڑے برآمد کرتااور کوریا چین سےریشم، چائے اور تحریری مواد درآمد کرتا تھا۔ جزیرہ نما کوریا کے جنوب مغرب میں واقع بیکجے بادشاہت کا تمدن وثقافت جاپان میں متعارف ہوا۔ اس دور میں آپس میں مسلسل جنگ کی وجہ سےملٹری سسٹم کو منظم کیا گیا۔ ہر ریاست میں اداروں کی پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ بادشاہ کی اتھارٹی کو مضبوط کیا گیا اور موروثی سیاست کا عمل دخل بتدریج بڑھ گیا۔ ہر بادشاہت میں اشرافیہ کو خاص مراعات حاصل تھیں۔

متحدہ شلا بادشاہت کا دور (668ء – 935ء)

چین کے تانگ شاہی خاندان (Tang Dynasty) کی مدد سے شلا بادشاہت نے اپنی ہم عصر بادشاہتوں کو زیر کر کے جزیرہ نما کوریا پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ 066ء میں بیکجے بادشاہت اور 668ء میں کوگوریوبادشاہت کو اپنے زیر تسلط کیا اور اس طرح پہلی بارجزیرہ نما کوریا شلا بادشاہت کے تحت متحد ہو گیا۔ صدیوں کی آپس میں مخاصمت کے بعدیہ تاریخی طور پرپہلا موقع تھا کہ جزیرہ نما کوریا مقامی لیڈرشپ کے تحت متحد ہوا۔ اس دور میں بدھ مت کے بہت شاندار ٹمپل تعمیر کئے گئے۔ بدھ مت کو سٹیٹ آئیڈیالوجی کے طور پر اپنایا گیا۔ اس بادشاہت کے دور میں جزیرہ نما کوریا میں تقریباَسو سال امن رہا۔ یہ سلطنت نویں صدی میں اندرونی طور پر اشرافیہ اور کسانوں کے درمیان کشمکش کےنتیجہ میں زوال پزیر ہوئی۔

کوریوبادشاہت کا دور (918 – 1392ء)

آٹھویں صدی کے اواخرمیں متحدہ شلا بادشاہت اقتدار کی کشمکش کی وجہ سے اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہو گئی۔ جزیرہ نما کوریا میں خانہ جنگی شروع ہو گی اور بعض طاقتور اشرافیہ نے بغاوت کر دی۔ جزیرہ نما کوریا کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئےایک بار پھر ویسے ہی طاقت کا کھیل شروع ہو گیا جیسے پہلے تین الگ بادشاہتوں کے دورمیں تھا۔ ایک مقامی لیڈر WangGeon نے 918ء میں کوریو بادشاہت (Koryo Dynasty) کی بنیاد رکھی۔ وانگ نے جزیرہ نما کوریا کو ایک بارپھر سے متحد کر دیا۔ آج اسی ’’کوریو شاہی خاندان‘‘ کے نام سے کوریا موسوم ہے۔ کوریو بادشاہت نے کنفیوشش ازم کو پولیٹیکل آئیڈیالوجی کے طور پر اپنایا اور ایک موئژ تعلیمی نظام دیا۔ جاپان، چین، وسطی اورجنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کئے۔

بدھ مت کے صحائف ٹرائپٹیکا (Tripitaka) کو وڈ پرنٹنگ بلاکس (Wood Printing Blocs) ٹیکنالوجی کے ذریعہ اسی ہزار سے زائدوڈپرنٹنگ بلاکس پرکندہ کرنے کا کام اس دورمیں ہوا۔ اسی دورمیں 1230ء میں چھپائی کےلئے دنیا کی پہلی دھاتی موویبل ٹائپ (Movable Type) جزیرہ نما کوریا میں ایجاد ہوئی جبکہ تقریباً دو سو سال بعد ایک جرمن شہری Johannes Gutenberg نے 1439ء میں یوروپی موویبل ٹائپ پرنٹنگ ٹیکنالوجی ایجاد کی۔ چونکہ لکڑی کے بلاک کے مقابلے میں یہ طریقہ سہل اور تیز رفتار تھا اس لئے صرف ایک دہا ئی میں یوروپی پرنٹنگ ٹیکنالوجی نے ایک نئی بلندی کو چھولیا۔ اس دور میں ملک کی تاریخ کو دستاویزی بنایا گیا۔ شاندارسیلڈون سرامکس (کوزہ گری) اس دور کی اہم خصوصیت ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں ایک طویل عرصہ تک چینی کرنسی مستعمل رہی۔ کوریو بادشاہت کے دورمیں996ء میں مقامی کرنسی کا اجراء ہوا اور یہ کرنسی کاپر اور لوہے سے بنائے گئے سکوں پر مشتمل تھی۔ حکمران طبقہ کی بد عنوانی کی وجہ سے عوام میں اضطراب اور بےچینی پیدا ہوئی۔ عشروں پر محیط اندرونی خلفشار اورچپقلش کے نتیجے میں یہ سلطنت کمزور ہوگئی اور پھرمنگولوں کے مسلسل حملوں نےاس سلطنت کو مزیدکمزور کردیا۔

جزیرہ نما کوریا پر منگولوں کی یلغار

تیرھویں صدی کے آغاز میں چین میں اچانک سیاسی صورتحال تبدیل ہوئی اور چینگیز خان کی قیادت میں متحد منگول قبائل نے چین کا جن شاہی خاندان (Jin Dynasty) فتح کر لیا۔ 1231ء میں چینگیز خان کے بیٹے نے جزیرہ نماکوریا کی جانب رخ کیا۔ منگولوں نے جزیرہ نما کوریا پر1231ء سے لیکر1259ء تک سات بار چڑھائی کی۔ کوریو بادشاہت نے بھرپور مزاحمت کی۔ دونوں کے درمیان بعض شرائط پر معاہدہ ہوا لیکن اس معاہدہ کے باوجودمنگول قبائل کے ساتھ مزاحمت بھی جاری رہی۔ 1273ء تک تقریباً41 سال کوریوبادشاہت کی منگولوں کے خلاف مزاحمت نے کوریو سلطنت کو کمزور کر دیا۔ اس مزاحمت کے دوران بہت سے کورین مارے گئے اور منگولوں نے کوریا کے ثقافتی ورثہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ آخرکار جزیرہ نماکوریا منگولوں کی vassal state بن گیا۔ 1392ء میں جوسن شاہی خاندان کے قیام تک جزیرہ نماکوریا کو مکمل آزادی نہ ملی۔

جوسن بادشاہت کا دور (1392ء – 1910ء)

کوریو بادشاہت اندرونی طور پراشرافیہ کی آپس میں اقتدارکی کشمکش، ریڈ ٹربن (Red Turban) اور واکو قزاق (Wako Pirates) کے بیرونی حملوں سے زوال پذیر ہوگئی۔ بیرونی حملہ آوروں کوپسپاکرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت جنرل ایسنگے (YiSeonggye) کی تھی جسےاس کارنامہ پر کافی مقبولیت ملی۔ جنرل ایسنگے نے کوریو بادشاہت کو ختم کرکے 1392ء میں جوسن شاہی خاندان (Joseon Dynasty) کی بنیاد رکھی۔ نیوکنفیوشش ازم فلاسفی کو سٹیٹ آئیڈیالوجی کے طور پر اپنایا گیا۔ اس دور میں بدھ مت کے بہت سے ٹمپل منہدم کئے گئے اور بدھ راہبوں کو پہاڑوں پر نکال دیا گیا۔ جوسن دور میں بدھ مت کو کافی دباؤ کا سامنا پڑا جو کئی صدیوں تک محیط رہا۔ ایک طویل مدت کے بعد جب جاپان نے کوریا پر اپنا تسلط قائم کیا تو بدھ مت کو دوبارہ پذیرائی ملی۔ جوسن خاندان کے بادشاہ سیجونگ (Sejong) کے دور میں1443ء میں کورین حروف تہجی کا نظام متعارف کروایا گیا اور گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن کے لئے بیوروکریسی کا نظام وضع کیا گیا۔ یہ آخری شاہی خاندان تقریباً500 سو سالہ اقتدار کے بعد 1910ء میں جاپان کے کوریا پرقابض ہونے تک برسر اقتدار رہا۔

جزیرہ نما کوریا جاپان کے زیر تسلط (1910ء – 1945ء)

بیسویں صدی کے آغاز میں روس اور جاپان کے مابین ایک بڑی جنگ (1904ء – 1905ء) جزیرہ نما کوریا اور شمال مشرقی چین کے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے لڑی گئی۔ اس جنگ کو The Russo- Japanese War کہا جاتاہے۔ جاپان نے روس کو شکست دے کرجزیرہ نماکوریا پر قبضہ کر لیا۔ جاپان نے فتح کے چند سال بعد 1910ء میں کوریا کی آزادی مکمل طور پر سلب کرلی۔ کوریا کے لئے مصائب اور مشکلات کا نیا دور شروع ہو گیا اور اس کے باشندوں کے لئے ان کی اپنی زمین تنگ کر دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جزیرہ نما کوریا جاپان کے تحت رہا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین نے جزیرہ نما کوریا پر کنٹرول حاصل کرکے دوحصوں میں تقسیم کر دیا۔ سوویت یونین کے زیر اثر شمالی اور امریکہ نے جنوبی حصہ پرکنٹرول حاصل کیا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے باعث مذاکرات ناکام ہوئے اور ایک متحد اور آزاد کوریا کی تشکیل نہ ہوئی۔ 1948ء میں دونوں حصے جنوبی اور شمالی الگ ملک کے طور پر وجود میں آئے۔ ایک جنوبی کوریا اور دوسرا شمالی کوریا کے نام سے دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین جنگ 25 جون 1950ء کو شروع ہوئی اور27 جولائی 1953ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس خونریز جنگ کے نتیجے میں 2.5 ملین سے زائد لوگ لقمہءاجل بنے۔ تین سال کی خونی جنگ کے بعد ایک معاہدہ کے ذریعہ دونوں ملکوں کے ما بین 4 کلومیٹر کا بفر زون قائم کرنے پر اتفاق ہوا جو کورین ڈی ملیٹرائزڈ زون (Korean Demilitarized Zone) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ تھے جبکہ شمالی کوریا کو چین اور سابقہ سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ 1953ء میں جنگ بندی عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دونوں کوریائی ریاستیں 38 عرض بلد پر مستقل تقسیم ہو کر رہ گئیں۔

جنوبی کوریا میں مذاہب

کورین کی روزمرہ زندگی میں بدھ ازم اور کنفیوشس ازم کا ایک اہم کردار ہےاور تقریباَ نصف ثقافتی ورثہ ان دو مذاہب کےساتھ جڑا ہوا ہے۔ جزیرہ نما کوریاکاروایتی مذہب شمن/شیمن ازم جسے کورین زبان میں ’’شن کیو‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج بھی کورین کی روزہ مرہ زندگی کا اہم جزہے۔ مذاہب سے وابستہ لوگوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کسی مذہب کےساتھ منسلک نہیں ہے۔ جنوبی کوریا کے 2015ء کے ادارہ شماریات کے مطابق56% لوگ غیرمذہبی ہیں۔ 2005ء میں غیرمذہب والوں کی تعداد 46% تھی۔ پروٹسٹنٹ عیسائی ملکی آبادی کا 19.7%، بدھ مت15.5% اور کیتھولک7.9% ہیں۔ جنوبی کوریا میں ان مذاہب کے علاوہ اسلام کے پیروکار اور دیگرمقامی کورین مذاہب کے پیروکار موجود ہیں۔

کوریا کا ایک اہم تہوار

دنیا کی ہر تہذیب میں تہوار ایک اہم عنصر رہا ہے۔ چوسک (Chuseok) کاتہوارکوریا کےسماجی وثقافتی تہواروں میں سے ایک اہم تہوارہےجوموسم خزاں کے آغاز پر ستمبر یا اکتوبر کے اوائل میں منایا جاتا ہے یہ تہوار کوریا میں چینی قمری سال کےآٹھویں ماہ کی 15تاریخ کو چاند کے پورا ہونےپہ منایا جاتا ہے۔ چُوسک فصل کی کٹائی کا موسم ہے جو گرمیوں کے اختتام اور خزاں کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ چُوسک کا تہوار دوسری صدی عیسوی میں شلا بادشاہت دور میں شروع ہوا تھا جب دو ٹیموں کے درمیان کپڑا بننےکا یا فصل کی کٹائی کا مقابلہ ہوا تھا جسےگابے (Gabae) کا نام دیا گیا۔ اس تہوار میں فصل کی کٹائی کے ساتھ کپڑوں کی بُنائی، تیر اندازی، مارشل آرٹس، کشتی، لوک رقص اور متعدد دوسری گیمزاس تہوار کا حصہ بن گئیں۔ یوں چُوسک ایک اہم تہوار کادرجہ اختیار کرگیا۔ اس تہوار کی جڑیں کوریا کے قدیم مقامی روایتی مذہب شمن پرستی سےبھی ملتی ہیں۔ چاند کے پورا ہونے پر فصل کی کٹائی کی شمن تقریبات منعقدہوتی تھیں۔ اس تہوار کی تاریخ بدھ ازم اور کنفیوشش ازم میں بھی پائی جاتی ہے۔ چوسک والے دن لوگ اپنے گزرے ہوئےآباؤ اجداد کی رسومات ادا کرنے کےلئے شہروں سے اپنے آبائی گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ گھروں میں چاول کے آٹے سے تیا ر کیک جسے songpeyon کہاجاتا ہےاورپین کیک اوربڑے گوشت کی ڈش جسے Bulgogi کہتے ہیں، تیار کیا جاتا ہے۔ کورین روایتی لباس زیب تن کیا جاتا ہےجسے Hanbok کہتے ہیں۔ چوسک کے تہوار پر ایک دوسرے کو تحائف دئیے جاتے ہیں۔ تحائف میں زیادہ تر عام روز مرہ استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں۔ چوسک تہوار کے ساتھ دو اہم رسومات منسلک ہیں۔ ایک تو گھر میں فوت شدہ آبا و اجداد کیلئے رسومات ادا کی جاتی ہیں جسے Charye کہتے ہیں اور دوسر ااپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر جا کر رسومات ادا کرتے ہیں جسے Seongmyo کہتے ہیں۔ فوت شدگان کی یاد میں قبر کے قریبی علاقے کی اچھی طرح صفائی کرتے ہیں اور اس میں پودے اوردرخت لگاتے ہیں۔

جنوبی کوریا کا پستی سے بلندی کا سفر

1960ء کی دہائی میں جنوبی کوریاکی جی ڈی پی فی کس آمدنی 64 ڈالر زتھی اور جی ڈی پی صرف 2.78بلین ڈالرز تھا جو کہ اب 2.418ٹریلین، کھرب، ڈالر ہے اور فی کس آمدنی 46451 ڈالر ہے۔ جنوبی کوریا دنیا کی چوتھی بڑی میٹروپولیٹن اکانومی ہے۔ جنوبی کوریا برآمدات کے لحاظ سے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ 1960ء کے بعد جنوبی کوریا نےصرف بیس سال کے دوران اپنی حیثیت کو فقید المثال وسعت دی جسے تاریخ میں دریائے ہان کا معجزہ (Miracle of Han River) کہا جاتا ہے۔ متعدد عالمی معیار کی جامعات اور تحقیقی ادارے قائم ہیں۔ الیکٹرونکس،آلات انجینئرنگ، جہاز سازی، گاڑیاں بنانے کے کارخانے اور دیگر صنعتیں ان اداروں کی بدولت ہیں۔ جنوبی کوریا کا پستی سے بلندی کا سفر تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق و جدت طرازی پر ہے۔ جنوبی کوریا دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں کے گروپ جی ٹوئنٹی (G20) میں شامل ہے۔ جنوبی کوریا کے پرائیویٹ شعبہ میں کار کی صنعت قابل ستائش ہے۔ جس میں مشہور کمپنیاں ’’ہنڈائی‘‘ (Hyundai) اور ’’کییا‘‘ (Kia) موٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ الیکڑانک کے شعبہ میں ’’سام سنگ‘‘ (Samsung) اور ’’ایل جی‘‘ (LG) کے نام ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ایس کے‘‘ (SK) اور ’’کے ٹی‘‘ (KT) سیلولرکمپنیاں ہیں۔ انکی سروسسزپر ریگولیڑری کنٹرول ہے، جس کی وجہ سے جرائم کم ہیں۔ بڑے ڈیپارٹمنٹ سٹور کے شعبہ میں ’’لوٹے‘‘ (Lotte) اور ’’ہوم پلس‘‘ (Homeplus) مشہور ہیں۔

جنوبی کوریا میں احمدیت کے قیام کی مختصر تاریخ

23مارچ 1889ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےمقدس ہاتھوں سے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ 23 مارچ 1989ء میں جماعت کے قیام کو ایک صدی مکمل ہوئی۔ اس صدی کے دوران احمدیت قادیان کی بستی سے نکل کر دنیا کے کناروں تک جا پہنچی۔ دنیا کے ان کناروں میں سے ایک کنارہ جنوبی کوریا کے ہمسایہ میں ملک جاپان ہے جسے چڑھتے سورج کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ 1989ء میں جماعت کے قیام پرسو سال مکمل ہونے کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےجن ممالک کا دورہ فرمایا ان میں ملک جاپان کوعزت و برکت عطا فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 24جولائی 1989ء کو جاپان میں ورود فرمایا۔ پہلی مرتبہ خلیفۃ المسیح نے سر زمین جاپان پرمبارک قدم رکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورہ جاپان کےوقت تک جنوبی کوریا میں جماعت موجود نہ تھی تاہم گاہے بگاہےجاپان سے احمدی احباب تبلیغ اور ویزا کی غرض سےجنوبی کوریاآتےتھے جو وہاں پر مختصر قیام کے بعد جاپان واپس چلےجاتے۔ حضور رحمہ اللہ کے ملک جاپان کے دورہ کی برکت سےکچھ عرصہ بعد مختلف ممالک بالخصوص پاکستان سے احمدی احباب روزگارکے لئے جنوبی کوریا آنا شروع ہوئے۔ 1993ء میں جنوبی کوریا میں انتخاب کے ذریعہ لوکل جماعتی عاملہ کےچند عہدیدران کاتقرر ہوا اور اس طرح باقاعدہ جماعتی نظام کے قیام سےجماعت احمدیہ جنوبی کوریاکا قیام عمل میں آیا۔ 1995ء تک جماعت احمدیہ جنوبی کوریا احمدیہ مشن جاپان کے ماتحت تھی۔ مکرم سیف اللہ قمر صاحب جنوبی کوریا کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔ بعدہ مکرم منیر نواز صاحب، مکرم محمد اعظم ندیم صاحب، مکرم کاشف عظیم عارف صاحب، مکرم حمید نواز کاہلوں صاحب، مکرم احسان احمد باجوہ صاحب، مکرم ملک داؤد احمد صاحب کو بطور صدر جماعت جنوبی کوریا خدمت کی توفیق ملی۔ آجکل مکرم خواجہ طارق شمیم صاحب بطورنیشنل صدر جماعت جنوبی کوریا خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

جاپان سے جزیرہ نماکوریامیں وفود کی آمد

جزیرہ نماکوریا کے ہمسایہ ملک جاپان میں احمدیت کا نفوذ جنگ عظیم دوم سے پہلےہوا۔ جاپان میں احمدیہ مشن کا قیام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں 1935ء میں عمل میں آیاتھا۔ مکرم صوفی عبد القدیر نیاز صاحب پہلے مبلغ سلسلہ کی حیثیت سے 4 جون 1935ء کو جاپان پہنچے اور 10 جنوری 1937ء کو مکرم مولوی عبد الغفور ناصر صاحب دوسرے مبلغ کی حیثیت سے جاپان تشریف لے گئے اور وہاں احمدیت کے پیغام پہنچانے کا سلسہ جاری رہا۔ آپ 1941ء میں واپس قادیان تشریف لے آئے۔ پھر جنگ عظیم دوم کے بعد ستمبر 1969ء میں مکرم میجر عبدالحمید صاحب بطور مبلغ جاپان پہنچے۔ آپ 1975ء تک وہاں قیام پذیر رہے۔ 1975ء میں مکرم امام عطاء المجیب راشد صاحب جاپان تشریف لائے اور 1983ء تک جاپان میں مقیم رہے۔ ماہ جنوری 1982ء میں جاپان سے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب (سابق امیر ومبلغ انچارج جاپان) نے تبلیغی جائزہ کے لئے جنوبی کوریاکا دورہ کیا۔ خاکسار کی درخواست پر امام صاحب نے جنوبی کوریا میں اپنے اس تبلیغی سفر اوردیگر ابتدائی سفروں کے بارے میں تحریر فرمایاکہ انہیں 10فروری 1975ء میں جاپان آنے کے بعد وہاں پر بطور مبلغ قیام کا ویزا حاصل کرنے کی غرض سے 1975ء میں چند روز کےلئے دوبارجنوبی کوریاجانے کا موقع ملا۔ ایک بارپوری تفصیلی درخواست جاپانی سفارت خانہ میں داخل کرنے کے لئے اور دوسری بار اس کے تین ماہ بعد ویزا لگوانے کے لئے۔ ماہ جنوری 1982ء میں آپ نےحضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشاد کی تعمیل میں جنوبی کوریا کا دورہ کیا اور آپ کےاس دورہ کا دورانیہ سات آٹھ روز تھا۔ آپ نے اس دورہ کے دوران وہاں کے ماحول کا جائزہ لیا۔ آپ کودارالحکومت سئیول میں واقع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ چند سال پہلےجنوبی کوریا کی حکومت نے مقامی مسلمانوں کی ضرورت کے پیش نظر اسلامک سینٹر بنانے کے لئے زمین کا عطیہ دیا اور بالخصوص سعودی عرب نے وہاں پر مسجد کی تعمیر کے لئے خرچ ادا کیا۔ اس مرکز میں نمازوں کے علاوہ بچوں کی اسلامی تدریس کا انتظام اور لائبریری بھی ہے۔ وہاں انہیں لوگوں سےبات چیت میں معلوم ہوا کہ کورین لوگ معاشی ضروریات کے پیش نظر کافی تعداد میں سعودی عرب جاتے ہیں۔ وہاں اسلام بھی قبول کر لیتے ہیں اوررفتہ رفتہ مسلمان کو رین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس طرح دونوں ممالک میں باہم سوشل تعلقات بھی بڑھ رہے ہیں۔ پھر آپ کوجنوبی کوریا کے جنوبی شہر بوسان کے قریب ایک اور مسجد بھی دیکھنے کا موقع ملا جس کے ساتھ مدرسہ بھی تھا۔ 1983ء میں ایک بار پھر انہیں جنوبی کوریا جانے کا موقع ملا۔ اس سفر میں آپ کوایک اہم خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ جنوبی کوریا جاتے ہوئےآپ اپنے ساتھ انگریزی اور جاپانی زبان میں شائع شدہ اسلام و احمدیت کےتعارف کی چند کاپیاں لے گئے اوروہاں جا کر خیال آیا کہ یہاں کے لوگوں کو احمدیت سے متعارف کروانے کے لئے اس فولڈر کا کورین زبان میں ترجمہ کروانا چا ہئے۔ امام صاحب نے دعا کے بعد اس کام کا عزم کرکےکافی محنت سے ایک یونیورسٹی پروفیسر سے رابطہ کیا۔ وہ کورین زبان کےماہر تھے۔ ان سے فولڈر کا ترجمہ کروایا اور اس کی اشاعت سے قبل ایک اور ماہر زبان سے اس ترجمہ کے بارہ میں رائے لی۔ انہوں نے بغور پڑھ کر رائے دی کہ ترجمہ عمدہ ہے اور اصلی مضمون کے مطابق ہے۔ اس کے بعد یہ فولڈر 5 ہزار کی تعداد میں شائع کروالیا۔ یہ فولڈر کورین زبان میں شائع ہونے والا پہلا تبلیغی فولڈر تھااورانہیں جنوبی کوریا میں اپنے مختصر قیام کےدوران یہ فولڈرسڑک کے کنارے کھڑے ہو کر تقسیم کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اور ایک شاپنگ سینٹر میں بھی کثرت سے تقسیم کرنے کا موقع ملا۔ یکم جون 1983ء کو جانے والے تبلیغی وفدکے ممبران نے بھی یہ فولڈر تقسیم کیا۔ الحمدللہ علی ذالک۔ یہ وفد تین افراد پر مشتمل تھا جو سب ٹوکیو میں رہنے والے تھے جبکہ اس وقت تک جماعت احمدیہ جاپان کا مر کز ’’احمدیہ سینٹر‘‘ ناگویا میں منتقل ہو چکا تھا۔

مکرم امام عطاء المجیب راشد صاحب کے بعد مکرم مولانا مغفور احمد منیب صاحب (سابق امیر و مبلغ انچارج جاپان) 1979ء تا 1995ء جاپان میں قیام پذیر رہے۔ آپ کی زیر نگرانی بھی جاپان سے جنوبی کوریا میں تبلیغی وفود کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ کی زیر نگرانی جماعت احمدیہ جاپان کے دوممبران پر مشتمل ایک وفد نے دسمبر 1984ء میں جنوبی کوریا کا دورہ کیا۔ وفد نے جنوبی کوریا میں دعوت الی اللہ کے لئے ماحول کا مکمل جائزہ لیا اورمختلف طبقہ ہائےفکر کے لوگوں سے ملاقات کی اورجماعتی لٹریچر تقسیم کیا۔ مکرم مولانا مغفور احمد منیب صاحب بھی بعض تبلیغی وفود کے ساتھ جنوبی کوریا آتے رہے۔ 1993ء میں آپ کو جنوبی کوریا میں عاملہ کےعہدیداران کا انتخاب بھی کروانے کی توفیق ملی۔ انتخاب کے ذریعہ سے لوکل مجلس عاملہ کے عہدیداران کا تقررہوا اور اس طرح لوکل عاملہ کے عہدیداران کے تقرر سے باقاعدہ جماعت احمدیہ کوریا کا قیام عمل میں آیا۔

دراصل جاپان سے احمدی احباب کے جنوبی کوریا میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اور دیگر کئی ممالک کے شہریوں کے لئے جاپان آنے کا ویزہ نہ تھا اورجاپان داخلہ کے وقت تین ماہ کی انٹری دے دی جاتی تھی۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے جاپان کے نزدیک ترین ملک جنوبی کوریا کا سفر اختیار کرتے اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد پھر دوبارہ واپس جاپان آ جاتے۔ احمدی احباب بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا کرجاپان سے جنوبی کوریا آکر مختصر قیام کے بعدواپس دوبارہ جاپان آجاتےتھے۔ جاپان سے احباب جماعت کے جنوبی کوریا جانے اور واپس آنے کے عمل کو باقاعدہ وقف عارضی کے نظام میں ڈھال لیا گیا۔ اس طور پر جاپان سے کئی وفود جنوبی کوریا آئے۔ احمدی احباب جنوبی کوریا میں مختصر قیام کے دوران اپنا وقت کورین احباب کو تبلیغ کرنے میں گزارتے۔ یہ وفود جنوبی کوریا میں دعوت الی اللہ کے لئے پروفیسرز، طلباء، کلرک، ورکرز اور دیگر مختلف طبقہ ہائےفکر کے لوگوں سے ملاقات کرکےان کو لٹریچر بھی تقسیم کرتے۔ انکی ان تبلیغی سرگرمیوں سے مقامی کورین احباب سے اچھے روابط بھی قائم ہوئے۔ جاپان سےجنوبی کوریا آنے والےاحباب جماعت میں مکرم مبشر احمد صاحب زاہد، مکرم مرزا ظفر احمد صاحب، مکرم سید طاہر احمد صاحب، مکرم طلعت محمود صاحب، مکرم محمود احمد صاحب، مکرم انصر احمد صاحب اور مکرم شاہد رضوان صاحب و دیگر شامل ہیں۔ ان میں سے بعض احباب کو جنوبی کوریا میں وقف عارضی کرنےاور بعض کو تبلیغی وفود میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ خاص طور پر مکرم مقبول احمد شاد صاحب قابل ذکر ہیں۔ ان کو لمبا عرصہ بار بار وقف عارضی کی توفیق ملی۔

پہلے تبلیغی وفد کی ایمان افروز رپورٹ

1983ء میں جو پہلا تبلیغی وفد11 مئی کوجنوبی کوریا روانہ ہوا۔ اس وفد کی رپورٹ روزنامہ الفضل یکم جون 1983ء میں دفتروکالت تبشیر ربوہ کی طرف سےان الفاظ میں شائع ہوئی کہ:
’’مکرم عطاالمجیب راشد صاحب امیرو مبلغ انچارج جاپان اطلاع دیتے ہیں کہ حضورکے ارشاد کی تعمیل میں پچھلے سال جنوری میں جنوبی کوریا کا دورہ کرکے تبلیغی جائزہ لیا۔ اب حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہ سو ممالک میں مشن قائم کئے جائیں۔ پہلا تبلیغی وفد گیارہ مئی کو جنوبی کوریا کے لئے روانہ ہو گیا۔ یہ وفد مشتمل ہے مبشر احمد زاہد قائد خدام الاحمدیہ ٹوکیو،سید الطاف احمد صاحب اور مکرم مرزا ظفر احمد صاحب صدر جماعت ٹوکیوپر۔ محترم مرزا ظفر احمد صاحب امیر وفد ہیں۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اہل کوریا کے سینوں کو اسلام کے لئے کھول دے۔ اور یہ زمین بھی اسلام کے نور سے جلد منور ہو جائے۔ ۔‘‘

(روزنامہ الفضل یکم جون 1983ء)

1983ء میں جنوبی کوریا جانے والے پہلے تبلیغی وفدمیں مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہیدامیر وفد تھے جو دارالذکر لاہور میں 28 مئی 2010ء کو دہشتگردی کے سانحہ میں شہید ہوئے۔ مکرم مرزا ظفر احمد صاحب نےجاپان میں اکیس سال قیام کیا اور وہاں پرجماعتی خدمات کی توفیق پائی۔

اس پہلے تبلیغی وفدکے ممبران کی ایمان افروز رپورٹ روز نامہ الفضل 9 جون 1983ء کے فرنٹ پیچ پردرج ذیل الفاظ کے ساتھ شائع ہوئی۔ وفد کے ممبران نے لکھا کہ:
’’اس سفر کے انتظامات کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بے شمار نظارے ہم نے دیکھے پیسے نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمادیا۔ ویزے نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی انتظام فرما دیا۔ کوریا پہنچنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ ہے اُس نے اپنے فضل سے سب انتظامات فرمائے۔ ہمیں ذرا بھی دقت نہیں ہوئی۔ ایسا ملک جہاں ہمیں کوئی نہ جانتا تھا، جہاں کی زبان ہم نہ جانتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسے انتظامات فرمائے کہ از خود ہمارے لئے ترجمان اور رہبر بھجوادیے۔ ہم کچھ اور سوچتے تھے اور ہمیں کہیں اور لے جاتے تھے۔ اور وہیں پر ہمیں ہمارے مطلب کے آدمی مل جاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ایک دوست مسٹر پارک شروع سے آخر تک ہمارے ساتھ رہے اپنا کاروبار چھوڑ کر ہمیں کار میں لئے پھرتے رہے۔ ایک یونیورسٹی کے پروفیسر مسٹر Jung جو پی ایچ ڈی ہیں اُنہوں نے نہایت مفید معلومات بہم پہنچائیں۔ ایک طالب علم مسٹر CHO نے بہت وقت دیا۔ ۔ ۔ ۔ سلسلہ کے متعلق جسے لٹریچر دیا اُس نے بخوشی قبول کیا۔‘‘

(الفضل 9جون 1983ء)

ابتدائی احباب جماعت کی تبلیغی مساعی

جنوبی کوریا میں نوے کی دہائی کے آغاز میں احمدی احباب بالخصوص پاکستان سے روزگار کے لئے جنوبی کوریا آنا شروع ہوئے اور بتدریج احمدی احباب کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی۔ ابتداء میں جنوبی کوریا میں مکرم اطہر محمود صاحب، مکرم محمد اشرف صاحب بھلی،، مکرم محمد رفیق صاحب ڈھلوں، مکرم خالد ناصر صاحب، مکرم مختار احمد صاحب، مکرم چوہدری وسیم احمد صاحب،مکرم اعجاز احمد صاحب، مکرم سیف اللہ قمر صاحب، مکرم انعام اللہ عابد صاحب، مکرم عارف محمود صاحب، مکرم سید فرحان شکور صاحب، مکرم منیر نواز صاحب،مکرم اسلم علی صاحب اور دیگر چند احمدی احباب تھے۔ 1990ء کے آخر میں مکرم اطہر محمود صاحب نے حضور انور کی خدمت میں جنوبی کوریا میں وقف عارضی کرنے کی اجازت عنایت کرنے کی درخواست کی۔ حضور رحمہ اللہ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اجازت عنایت فرمائی۔ 1991ء میں مکرم اطہر محمود صاحب فیملی کےساتھ وقف عارضی کے لئے جاپان سےجنوبی کوریا تشریف لائے۔ مکرم محمد اشرف بھلی صاحب کو کورین مترجم کے طور پہ فرائض کی توفیق ملتی رہی۔ مکرم اطہر صاحب نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اطہر صاحب کے جنوبی کوریا میں قیام کے بعد اس مکان کو باقاعدہ جماعتی سینٹر میں تبدیل کردیا گیا۔ قرآن کریم کے کورین ترجمہ کی طباعت ہوچکی تھی اور اسکی ترسیل کےلئے اطہر صاحب نے کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ بعد میں کورین ترجمہ قرآن کریم پبلک اوریونیورسٹی لائبریریوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں رکھوائے گئے۔ جنوبی کوریا میں کیوبو (Kyobo) نامی ایک بڑا بک سٹور ہے۔ اس بک سٹورمیں احباب جماعت نے متعددبارقرآن کریم کے سٹال لگا ئے اور کورین احباب کو لٹریچر کی تقسیم کے ساتھ تبلیغ کرنے کی توفیق پائی۔ ابتداء میں ایک مقامی کورین کے تعاون سےاس بک سٹور پر قرآن کریم کے کورین ترجمہ کے نسخے رکھوائے جاتے تاکہ کورین افراد اسلام کی تعلیمات سے براہ راست بہرہ مند ہو سکیں۔ احمدی احباب ہر ہفتہ و اتوار کی سرکاری تعطیل پر جماعتی پروگرامز میں شامل ہوتےاور کورین میں ترجمہ شدہ پمفلٹس پبلک مقامات پر لوگوں میں تقسیم کرتے۔ آغاز میں احمدی احباب کی کوششوں سے بعض مقامی کورین سے تبلیغی روابط بنے اور بعض بیعتیں بھی ہوئیں۔ ان میں سے ایک مسٹر ’’چی‘‘ تھے جن کا اسلامی نام محمد علی رکھا گیا۔ موصوف پیشہ کے اعتبار سے پراپرٹی ڈیلر تھے۔ ایک اور کورین مکرم ابراہیم لی صاحب نے احمدیت قبول کی تھی۔ لی صاحب ربوہ بھی تشریف لائے۔ 1995ء میں لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہومیو پیتھک کلاس میں شامل ہوئے اور حضور انورنے موصوف کے تعارف کے بعد ہومیوپیتھی کےنظام کا جامع اور تفصیلی تعارف کروایا۔

(الفضل انٹرنیشنل 10 فروری، 1995ءصفحہ1)

بد قسمتی سے بعد میں ان کورین احباب کا تعلق نظام جماعت سے نہ رہا۔ جنوبی کوریا کے اوئی جنگبو شہر کے علاقہ سے جمیلہ کم نامی کورین خاتون نے برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کی سعادت پائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اگست 1997ء میں اس خاتون کاذکر فرمایاکہ:
’’ابھی چند دن ہوئے کوریا کے نمائندے یہاں تشریف لائے ہوئے تھےان سے گفتگو ہوئی وہاں ایک کورین خاتون ہیں جنہوں نے واقعتاً اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا ہےاپنےخرچ پر یہاں تشریف لائیں مجھے مشورے دے رہی تھیں کہ کیا کیا ہم ہوشیاریاں کریں تو کوریا میں کثرت کے ساتھ پھیل سکتے ہیں۔ جب وہ بات کر چکیں تو میں نے کہا جس طرح عیسائیت۔ انہوں نے کہاہاں عیسائیت دیکھو کتنی پھیل گئی ہے۔ لکھوکھا انسان (millions) دیکھتے دیکھتے عیسائی بن گئےتو آپ بھی کچھ ان سے ملتی جلتی باتیں کریں۔ انہوں نے مدرسے بنائےاتنے، کوئی کالج ہسپتال بنائے،رفاہ عامہ کے یہ کام کئے اور اس کے نتیجے میں دیکھو ملینز عیسائی بن گئے۔ جب وہ بات کر چکیں تو میں نے انہیں کہا ان ملین عیسائیوں میں کیا پاک تبدیلی آپ نے دیکھی ہے۔ ؟کتنے ہیں جنہوں نے خدا کی خاطر دنیا کے مسلک چھوڑے ہیں۔ کتنے ہیں جو بہتر انسان بن گئے اور خدا کے سامنے سر جھکانے والے ہوگئے؟ کچھ دیر تک وہ خاتون سوچتی رہیں اور پھر ان کا جواب صفر نکلاکہ میرے علم میں کوئی نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سیاست ہے یہ مذہب نہیں ہے۔ یہ وہ دین ہےجس کو دین اللہ نہیں ہم کہہ سکتے اور ہمیں تو دین اللہ میں دلچسپی ہے۔ اس لئے اگر آپ اکیلی بھی کوریا میں احمدی مسلمان بن کراپنے آپ کو خدا کے حضور جھکا دیں تو وہاں احمدیت کامیاب ہےاور عیسائیت ناکام ہےکیونکہ عیسائیت اگرمذہب لے کروہاں پہنچی ہےتو مذہب میں دھوکہ دیا ہے۔ عیسائیت دراصل امریکہ کی سیاسی حیثیت کا ایک دوسرا چہرہ ہے‘‘

(الفضل انٹرنیشنل، 19 ستمبر تا25 ستمبر1997ء صفحہ7)

جماعت احمدیہ کوریا کی مالی قربانی

جماعت کوریا نے آغاز میں بڑھ چڑھ کر خدا کی راہ میں اموال پیش کئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 11 نومبر 1994ء میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں کوریا کی جماعت کی مالی قربانی کا ذکر کرکےدرج ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش فرمایا:
’’تحریک جدید کے چندوں کے سلسلے میں ایک وضاحت بھی ضروری ہے۔ مجھے کوریا کی جماعت کی طرف سےیہ جائز شکوہ موصول ہوا ہےکہ آپ نے کوریا کا با لکل ذکر نہیں کیا حالانکہ یہاں ایک نئی جماعت اٹھتی ہوئی جماعت پیدا ہوئی ہےاللہ کے فضل کے ساتھ۔ اور ایک پہلو سے وہ سب سے دنیا میں سبقت لے گئی ہے کیونکہ اس کا فی کس چندہ سوئٹزرلینڈ کے چندے سے بھی بقدرسو پاؤنڈ فی کس زیادہ ہے۔ توجہاں ہم نے سوئٹزرلینڈ کا ذکر تحسین اور تعریف سے اس لئے کیاتھا کہ لوگوں کے دل میں شوق بھی پیدا ہواور ان کے لئے خصوصیت سے دعا کی تحریک ہو،یہ بالکل چھوٹی سی جماعت ہے اور وہ بہت سے ایسے مہاجرین ہیں یہاں جن کو ابھی تک قانونی طورپر بھی کوئی تسلی نہیں کہ وہ کچھ رہ بھی سکیں گے کہ نہیں وہاں۔ چھوٹی موٹی تجارتیں کرتے ہیں یا بعض مزدوریاں کر کےگزارا کر رہے ہیں۔ لیکن خدا نے وسعت قلبی عطا فرمائی ہے اور اس پہلو سے تحریک جدید کے چندے میں فی کس کے حساب سے وہ دنیا پر سبقت لے گئے ہیں۔۔۔جماعت کوریا کا جو میں نے بیان کیا تھا اس کے اعدادو شمار اب میرے کاغذات میں سے نکل آئے ہیں ان کی فی کس ادائیگی دو سو پاؤنڈ اکاسی پنس ہے۔ سو سے کچھ کم فرق ہےسوئٹزرلینڈ کی ایک سو چوہتر پاؤنڈز اڑتیس پنس تھی اور ان کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 260 پاؤنڈز81 پنس ہے جو خدا کے فضل سے سوئٹزرلینڈ کے مقابل پر بہت نمایاں طور پر آگےبڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال ان کی قربانی بھی بہت معیاری تھی 136 پاؤنڈز فی کس کے حساب سے تھی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل، 9 دسمبر1994ء صفحہ5)

(باقی 6؍ستمبر 2022ء ان شاءاللہ)ٰ

(محمد داؤد ظفر)

پچھلا پڑھیں

اعلان دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اگست 2022