تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت میاں نظام الدین رضی اللہ عنہ۔ جہلم
حضرت میاں نظام الدین صاحب ولد میاں ولی محمد صاحب محلہ ملاحاں جہلم کے رہنے والے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے ٹیلر ماسٹر تھے۔ 1902ء میں آپ نے حضرت اقدس کی زیارت و بیعت کی اور پھر ساری زندگی اس عہد بیعت پر استقامت دکھائی۔ بیعت کے بعد ایک عرصہ آپ افریقہ میں بھی رہے، بالآخر ہجرت کر کے قادیان آگئے اور یہیں وفات پائی۔ آپ کے احمدیت قبول کرنے کا باعث ایک مولوی صاحب کی حضرت مسیح موعود کے متعلق غلط بیانی تھی جس کی تصدیق کے لیے آپ نے خود قادیان کا سفر کیا اور مولوی صاحب کے بیان کو خلاف واقعہ پاکر حضرت اقدس کی بیعت کر لی، آپ اپنی قبول احمدیت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’1902ء کے جلسہ سالانہ (مرادجلسہ انجمن اسلامیہ لاہور۔ ناقل) میں لاہور آیا، جلسہ کے بعد نماز کے لئے جب نکلے تو ایک مولوی صاحب وعظ کر رہے تھے کہ مرزا صاحب (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کوڑھی ہوگئے ہیں کیونکہ نبیوں کی ہتک کرتے ہیں۔ میں حضرت صاحب کے دیکھنے کے لیے قادیان آیا، میرے ساتھ دو اور شخص بھی تھے حبیب اللہ حلوائی، محمد بخش خیاط جہلمی۔ جب قادیان آئے تو عصر کا وقت تھا، نماز ہو چکی تھی، لوگوں سے حضرت صاحب کے متعلق پوچھا کہ وہ نماز کے لئے آئیں گے؟ لوگوں نے کہا کہ پہلے چلے جاؤ مسجد مبارک میں اُن کے پاس جگہ مل جائے گی، ہمیں چونکہ تحقیق کا شوق تھا کہ بات سچی ہے یا غلط۔ لہٰذا میں اس جگہ پر جہاں حضرت صاحب کھڑے ہوا کرتے تھے، بیٹھ گیا۔ مغرب کے وقت حضرت صاحب تشریف لائے اور مسجد مبارک کی چھت پر میرے سامنے کھڑے ہوگئے، جب تکبیر ہوئی میں نے آپ کو سر سے پاؤں تک دیکھا پھر مولوی عبدالکریم صاحب کی امامت میں نماز شروع ہوئی۔ حضرت صاحب نماز کے بعد بیٹھ گئے، مفتی محمد صادق صاحب کو مخاطب کر کے حالات دریافت کیے، اس کے بعد طاعون کا ذکر ہوا کیونکہ طاعون ابھی نئی نئی تھی، اس کے بعد فرمایا : میں نے ان لوگوں کو پہلے سے متنبہ کر دیا تھا کہ پنجاب میں طاعون آنے والی ہے لیکن لوگوں نے غور نہیں کیا بلکہ مخالفت کی، مخلوق اب اس کے نتیجہ میں ہلاک ہو رہی ہے، ٹیکہ کی غلطی سے جو آدمی ملکوال میں مرگئے اُس سے مخالفت اور بڑھ گئی۔
فرمایا: مولوی صاحب کہاں ہیں؟ حضرت مولوی نور الدین صاحب حضرت صاحب سے پچھلی صف میں تھے وہاں سے اُٹھ کر آگے آگئے، مولویوں کی مخالفت اور طاعون کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر حضور عشاء کی نماز کے بعد تشریف لے گئے۔ صبح کے وقت مولوی صاحب کے پاس پوچھنے کی تجویز کی کہ کیا مرزا صاحب یہی ہیں یا کوئی اور؟ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ہمارا مولوی غیر احمدی قرآن اٹھا کر جھوٹ بولنے والا نہیں ہے۔
9 بجے مولوی صاحب مطب میں بیٹھا کرتے تھے۔ ایک مولوی نے اعتراض کیا تھا کہ مرزا صاحب پلاؤ اور زردہ کھاتے ہیں! مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن میں پلاؤ زردہ حلال ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مولوی شرمندہ ہوگیا اور کہا کہ سُنا ہے کہ ایسے لوگ پہلے فاقہ کیا کرتے تھے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ اپنے اپنے وقت پر ہر شخص کو لازم آتا ہے، کرتاہے۔ جب ہر ایک نعمت موجود ہو تو خدا نے کھانے سے منع نہیں کیا۔ تب میں نے سوال کیا اور اشتہار نکال کر دکھایا کہ ہمارا مولوی یہ کہتا تھا اور ہم نے اس جگہ پر آکر مرزا صاحب کو تندرست دیکھا ہے، کیا یہی وہ مرزا صاحب ہیں کیونکہ ہمیں آپ پر اعتبار ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ سے پہلے مجھے یہ اشتہار مل چکا ہے، یہی مرزا ہے خود ہی دیکھ لو کہ یہ مرزا سچا ہے یا تمہارا مولوی سچا ہے۔
ظہر کے وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو مولوی کا اس قدر جھوٹ دیکھ کر مرزا صاحب کی بیعت کر لوں گا، تمہارا کیا خیال ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم بھی کر لیتے ہیں۔ ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں سارا واقعہ پیش کر دیا اور عرض کیا کہ چونکہ ہمیں واپس جانا ہے لہذا بیعت لے لیں۔ آپ نے فرمایا کہ مولوی لوگ میرے مقابلہ میں جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں۔ میں اس وقت زار زار رو رہا تھا، فرمایا: ’’کم از کم ایک ماہ تک رہو ورنہ مولوی تمہیں دھوکہ دے کر مرتد کر لیں گے۔‘‘ میں نے کہا کہ کام زیادہ ہے صرف حضور کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ پھر فرمایا کہ کم از کم ایک ہفتہ تک رہو، دنیا کے کاموں کے لئے تو برسوں رہتے ہو، یہ دین ہے خوب غور سے باتیں سُن کر مانو۔ آخر بڑے اصرار سے تین دن رہنے کی تجویز کی۔ تین دن کے بعد میں نے اور میرے ساتھیوں نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ میں نے عرض کی کہ حضور کو حضرت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے السلام علیکم پہنچے کیونکہ ایسا ہی حدیث میں لکھا ہے۔ آپ نے وعلیکم السلام فرمایا۔ پھر عرض کی کہ مخالفت ہوگی، دعا فرماویں۔ آپ نے دعا فرمائی اور ہم واپس چلے گئے۔
کرم الدین کے مقدمہ میں جب جہلم گئے، جماعت نے تجویز کی کہ سب چندہ کریں اور کھانے کا انتظام کیا جائے، دریائے جہلم کے کنارے پر ایک کوٹھی ہے اُس میں کبھی سیشن جج اجلاس کیا کرتاتھا، اُس میں حضور کو اُتارنے کی تجویز کی۔ حضور جب جہلم اسٹیشن پر آئے تو بے شمار آدمیوں کا ہجوم تھاحتیٰ کہ بھیڑ کی وجہ سے حضور گاڑی سے اُتر نہیں سکتے تھے، اس جگہ ایک انگریز اور میم نے حضرت صاحب کا فوٹو بڑی مشکل سے لیا۔ بعد میں حضور کو گاڑی پر بٹھلا کر کوٹھی پر لے جایا گیا۔ وہاں ایک شخص غلام حیدر تحصیلدار تھا جو غیر احمدی تھا، وہ ہنٹر لے کر حضرت صاحب کی گاڑی کے پائیدان پر کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو حضرت صاحب کے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔ آخر کوٹھی پہنچے، ہجوم زیادہ تھا اور اُن کا اصرار تھا کہ حضرت صاحب کو دیکھنا ہے، آخر کوٹھی کے اوپر کرسی بچھا دی، آپ آدھ گھنٹہ تک رونق افروز رہے، آخر لوگ آپ کو دیکھ کر واپس چلے گئے۔ حضور رات وہیں رہے، جماعت نے حسب مقدور خاطر کی، میں نے بھی اس کوٹھی میں رات گزاری۔
صبح کی نماز سے فارغ ہوکر حضور صبح ہی کچہری چلے گئے، مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی آپ کے ساتھ تھے، بہت سے علماء کی ٹولیاں درختوں کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں جو لوگوں کو آپ کے پاس جانے سے منع کر رہے تھے۔ حضرت صاحب کچہری میں تشریف رکھتے تھے، ڈپٹی سنسار چند کے پاس مقدمہ تھا، خواجہ صاحب وکیل تھے۔ پہلے بات اس پر چلی کہ کیا مولوی کرم الدین جو مولوی محمد حسین کا سالا ہے کیا وہ محمد حسین کے بیٹے کی موجودگی میں (مولوی محمد حسن کی) ہتک کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ خواجہ صاحب نے ثابت کیا کہ یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا۔ حضرت صاحب کرسی پر تھے اُس وقت تمام مجسٹریٹ اپنے اپنے کام بند کر کے حضرت صاحب کو دیکھنے کے لئے اس کمرے میں چلے آئے، ڈپٹی سنسار چند نے تقریر سن کر کہا کہ آپ تشریف لے جائیں مَیں چند منٹوں میں اس کا فیصلہ سنا دیتا ہوں۔
باہر آکر ظہر کی نماز پڑھی، حضور نے فرمایا ’’دعا کا موقع مل گیا ہے، سب دعا کریں۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد ڈپٹی نے بلایا، خواجہ صاحب وغیرہ اندر گئے۔ اُس نے فیصلہ سنایا کہ سالا دعویٰ نہیں کر سکتا اور دعویٰ خارج کر دیا۔ حضور پھر واپس کوٹھی تشریف لے گئے….‘‘
(الحکم 14؍مئی 1935ء صفحہ3)
سیرت المہدی میں بھی اپنی بیعت کے متعلق آپ کی بیان کردہ روایت موجود ہے جس میں مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ یہ درج ہے کہ
’’میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی ثم افریقوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ….جہلم میں حضور کے ساتھ شہزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی تھے۔ حضور احاطہ کچہری میں ان کے ساتھ فارسی میں گفتگو فرما رہے تھے اور اردگرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں تقریر فرمائیں تاکہ عام لوگوں کو بھی کچھ فائدہ ہو۔ اس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع کر دی۔ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کے تمام فرقے مہدی کے منتظر ہیں۔ مگر مہدی نے تو بہرحال ایک شخص ہی ہونا تھا اور وہ مَیں ہوں۔ اگر مَیں شیعوں کو کہوں کہ مَیں تمہارا مہدی ہوں جو کچھ تمہاری روایات میں درج ہے۔ وہ صحیح ہے اور اسی طرح سنّیوں اور وہابیوں کو بھی کہوں تاکہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں تو یہ ایک منافقت ہے۔ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ مہدی کا نام حَکم عَدل ہے۔ وہ تو سب فرقوں کا صحیح فیصلہ کرے گا۔ جس کی غلطی ہو گی اس کو بتائے گا تب وہ سچا ہو گا۔ بس یہی و جہ ہے کہ سب فرقے ہمارے دشمن ہو گئے ہیں۔ ورنہ ہم نے ان کا اور کیا نقصان کیا ہے اور حضور دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔
اسی روز حضور نے کوٹھی پر عورتوں میں بھی ایک تقریر فرمائی۔ جس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو میں نے جو تم کو نصیحت کی ہے یہ میری آخری نصیحت ہے جس طرح کوئی مرنیوالا اپنے لواحقین کو آخری وصیت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میں واپس لوٹ کر نہ آئوں گا۔ اسی طرح مَیں بھی کہتا ہوں کہ تم پھر مجھے اس شہر میں نہ دیکھو گے۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ میری نصیحت کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرو۔ چنانچہ ابھی مقدمہ کی پہلی ہی تاریخ تھی اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ کتنی اور پیشیاں ہوں گی اور کتنی مرتبہ حضور کو جہلم آنا پڑے گا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس کے بعد مقدمہ ہی گورداسپور میں تبدیل ہو گیا۔ پھر حضور کو جہلم نہ جانا پڑا۔ اس کے بعد جہلم میں میری سخت مخالفت ہوئی۔ مَیں نے قادیان آ کر حضور سے افریقہ جانے کی اجازت طلب کی۔ حضور نے فرمایا۔ کہ جب انسان سچائی قبول کر لیتا ہے تو پہلے ضرور ابتلاء آتے ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس قدر ابتلائوں میں مبتلا کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے ڈر ہے کہ باہر کہیں اس سے زیادہ ابتلاء نہ آجائے۔ میرے خیال میں آپ صبر سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ایک دوست نبی بخش افریقہ سے آئے۔ مَیں نے اُن سے حالات کا تذکرہ کیا۔ وہ مجھے افریقہ لے جانے پر رضا مند ہو گئے۔ اس وقت مَیں نے حضور سے پوچھا اور حضور نے اجازت دیدی اور مَیں ان کے ہمراہ چلا گیا اور خدا نے وہاں مجھے بیوی اور بچے بھی دئیے اور ہر طرح سے اپنا فضل کیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ678 روایت نمبر753)
آپ شعر و شاعری کا بھی شغف رکھتے تھے، آپ کی ایک اردو نظم اخبار الحکم میں درج ہے، یہ نظم آپ نے 29جنوری 1920ء کو قادیان میں ہونے والے ایک مشاعرہ میں پڑھی:
؎نورِ توحید کا جس وقت اُجالا ہوگا
کفر مٹ جائے گا اسلام دوبالا ہوگا
دیکھ لے گا اسی دنیا میں وہ فردوس بریں
جس نے ہر فتنہ میں ایمان سنبھالا ہوگا
ہوگی تیار جو لندن میں ہماری مسجد
مونہہ ہر اک حاسد و بد خواہ کا کالا ہوگا
یہی مسجد ہے جو دنیا کی ہوا بدلے گی
اس کا ثانی کوئی گرجا نہ شوالا ہوگا
(الحکم 14فروری 1920ء صفحہ10)
اپنے بیٹے بشیر احمد کی وفات پرآپ کی کہی گئی نظم اخبارالفضل 4جنوری 1919ء صفحہ10 کالم 3 پر شائع شدہ ہے۔
آپ نے 30؍ اکتوبر 1939ء کو قادیان میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’افسوس! میاں نظام الدین صاحب جہلمی جو حضرت مسیح موعود کے مخلص (رفیق) تھے، بعمر 65سال وفات پاگئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی، نعش کو کندھا دیا اور مرحوم مقبرہ بہشتی کے قطعہ رفقاء میں دفن کیے گئے۔ احباب بلندیٔ درجات کے لئے دعا کریں۔‘‘
(الفضل 2؍ نومبر 1939ء صفحہ1)
حضرت مصلح موعود جنازے کے ساتھ بہشتی مقبرہ بھی تشریف لے گئے اور آپ کی تدفین تک قبر پر کھڑے رہے اور سب سے پہلے مٹی کی تین مٹھیاں بھر کر ڈالیں۔
(الفضل 5؍نومبر 1939ء صفحہ2)
آپ کی وفات پر آپ کے چند دوستوں نے اخبارات میں کالم لکھے، حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس جو آپ کی وفات کے وقت آپ کے محلہ دارالرحمت کی مسجد کے امام تھے، نے لکھا:
’’مرحوم رفیق حضرت مسیح موعود تھے، جہلم کے رہنے والے تھے۔ بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود سے ملنے کو ہم تیرہ آدمی(پہلی روایتوں میں آپ سمیت تین آدمی بیان ہوا ہے۔ ناقل) جہلم سے آئے، حضور سے شرف ملاقات کرتے ہی حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے واپس گئے اور کاروبار کے سلسلہ میں نیروبی چلے گئے جہاں خیاطی کی دوکان اور کپڑے کی تجارت شروع کی جس میں خوب ترقی ہوئی۔ نیروبی کی جماعت کے آپ امام الصلوٰۃ تھے، آپ کی دیانت اور امانت کی قدر اغیار تک کرتے تھے۔ آریوں کا خوب مقابلہ کیا کرتے تھے۔ آخر قادیان آگئے، بعض لوگوں نے منع کیا کہ آپ کی دوکان خوب چل رہی ہے اس کو مت چھوڑو مگر دوکان بیچ دی اور روپیہ لے کر قادیان آگئے اور سب سے پہلے انہوں نے وصیت کا دہم حصہ ادا کیا پھر تین مکان بنائے۔ چونکہ یہاں اتنا کاروبار نہ تھا کہ گزارہ ہو سکے اس لئے با دلِ ناخواستہ ان کو باہر جانا پڑا اور میرے پاس ماریشس پہنچے، ان کو سینٹ پیئر میں مولوی عبیداللہ صاحب مرحوم کی جگہ رکھا گیا، یہ دو سال وہاں رہے، بڑے اخلاص سے تبلیغ کرتے تھے۔ شعر بھی کہہ لیتے تھے۔ آریوں کے خلاف خوب پرچار کرتے تھے اس لئے ان کا نام وہاں سوامی جی پڑ گیا۔ برجستہ تقریر کرتے تھے، بڑے فہیم اور سمجھدار تھے۔ پنجابی کے ان کو بہت شعر یاد تھے۔ میرے ہی ساتھ ماریشس سے واپس آئے پھر کچھ مدت کے بعد افریقہ گئے مگر وہاں کے حالات بالکل بدل چکے تھے، ان کی دوکان پر مخالفوں نے پہرہ لگادیا کہ کوئی ان سے معاملہ نہ کرنے پائے۔ اسی سفر میں تھے جب ان کی پہلی بیوی فوت ہوئی، اب اُن کے پسماندگان میں ایک بیوی معہ ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے اور دو بیٹیاں اور دو بیٹے بیوی اول سے ہیں۔‘‘
(الفضل 2؍ نومبر 1939ء صفحہ6)
اسی طرح کینیا میں مقیم ایک احمدی دوست حضرت عبداللہ صاحب نے لکھا:
’’بھائی نظام الدین صاحب ٹیلر کی وفات کی خبر اخبار میں پڑھ کر از حد افسوس ہوا۔ مرحوم اس ملک میں شاید 1905ء میں تشریف لائے تھے، مرحوم پہلے تو یوگنڈا گئے اور پھر کچھ مدت کے بعد نیروبی تشریف لے آئے جہاں دوکان کھول لی اور کام کرنا شروع ہوگیا۔
بھائی نظام الدین صاحب کوتبلیغ کا از حد شوق تھا، آپ کی دوکان پر تبلیغ کا سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہتا، احمدیت کی کتابیں دوکان پر موجود رہتیں۔ اس زمانہ میں ہماری باقاعدہ جماعت نہ تھی اور احمدی بھی دو تین ہی تھے، بھائی نظام الدین صاحب چندہ جمع کرکے بھجوا دیا کرتے تھے، مَیں چونکہ چندہ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے نام ہی روانہ کیا کرتا تھا لیکن بھائی مرحوم پلٹن میں آکر کئی دفعہ چندہ لے جایا کرتے اور کہا کرتے کہ علیحدہ چندہ بھیجنے میں برکت نہیں ہوتی۔
بھائی نظام الدین صاحب نہایت ہی پُر جوش احمدی تھے۔ جب آپ کا بڑا لڑکا عبدالحمید نیروبی میں فوت ہوا تو انہوں نے اُف تک نہ کی، نہایت صبر سے میت کے پاس بیٹھے رہے پھرمسجد میں آکر نماز پڑھائی، اس کے بعد ہم لوگ جنازہ اٹھا کر قبرستان لے گئے۔
جب آپ نے1916ء یا 1917ء میں ہندوستان جانے کا ارادہ کیا تو دوکان کو بند کر دینے کا فیصلہ کیا، میں اکیلا ہی اس بات کے مخالف تھا اور میں نے صلاح دی کہ بند نہ کریں لیکن مرحوم کو قادیان جانے کا از حد شوق تھا، ایک نہ مانی اور دوکان فروخت کر دی، …..
جب دوسری دفعہ اس ملک میں تشریف لائے تو آپ نے کھلے رستوں پر احمدیت کی تبلیغ شروع کردی، اس وجہ سے مخالفت بہت بڑھ گئی اور آپ کی دوکان نہ چلی اور آپ کو ہندوستان واپس جانا پڑا۔ پھر تیسری بار اس ملک میں تشریف لائے لیکن کام پھر بھی نہ چلا اور آپ کو واپس جانا پڑا۔ غرض مرحوم بھائی بڑے پایہ کے احمدی تھے، بڑے خوش خلق، طبیعت میں مذاق بھی بہت تھا لیکن گھر میں ہوں یا باہر، کسی دوست کے پاس ہوں یا کسی دشمن کے، احمدیت کی باتیں ہی سنایا کرتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ خاکسار عبداللہ احمدی کراتینا کینیا کالونی‘‘
(الفضل 9؍ جنوری 1940ء صفحہ10)
آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت تاج بی بی صاحبہ بھی صحابیات میں شامل تھیں، انھوں نے حضرت اقدس مسیح موعود کے سفر جہلم 1903ء کے موقع پر بیعت کی توفیق پائی، حضور کے اس سفر جہلم کے دوران بیعت کنندگان کے اسماء اخبار البدر میں شائع ہوئے ہیں جن میں ان دونوں میاں بیوی کا نام بھی درج ہے:
713 نظام الدین خیاط جہلم
445 تاج بی بی زوجہ نظام الدین خیاط جہلم
(البدر 23/30 جنوری 1903ء صفحہ 15,16)
حضرت تاج بی بی صاحبہ اپنے خاوند کے ساتھ ہی ہجرت کرکے قادیان آگئیں تھیں، نظام وصیت میں شامل تھیں۔ آپ نے 15 اگست 1928ء کو قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں (حضرت میاں نظام الدین صاحب ان دنوں کاروبار کے سلسلے میں ہندوستان سے باہر تھے)، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’افسوس 15 ؍اگست میاں نظام الدین صاحب جہلمی کی بیوی چند دن بیمار رہنے کے بعد فوت ہوگئیں۔ مرحومہ نے وصیت کی ہوئی تھی مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئیں، مرحومہ کئی چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئی ہیں۔ ہم اس صدمہ میں میاں نظام الدین صاحب سے جو بہ سلسلہ کاروبار ماریشس گئے ہوئے ہیں اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں خدا تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔‘‘
(الفضل 21 اگست 1928ء صفحہ1)
حضرت میاں نظام الدین صاحب نے دوسری شادی بھی کی تھی لیکن اُن کا نام اور حالات نہیں مل سکے۔ آپ کے ایک بیٹے حضرت ملک محمد صادق صاحب (پیدائش اندازاً 1891ء ) نے حضرت اقدس کے سفر جہلم کے موقع پر بیعت کی اور ان کی مختصر روایات رجسٹر رفقاء نمبر 5 میں موجود ہیں۔ یہ بیٹے پہلے دارالرحمت قادیان اور ہجرت کے بعد دارالرحمت ربوہ میں مقیم رہے اور27؍اپریل 1962ء کو بعمر 71سال وفات پاکر بوجہ موصی (وصیت نمبر 5830) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
(غلام مصباح بلوچ۔ استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا)