• 11 مئی, 2025

سورۃ بنی اسرائیل کا تعارف ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع

سورۃ بنی اسرائیل کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ بنی اسرائیل

یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو بارہ آیات ہیں۔ اسے سورۃُ الْاِسْرَآء بھی کہا جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی ارتقاء کا مضمون جو گزشتہ سورت میں جاری تھا اسی کا ذکر اس سورت میں مذکور ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دکھایا گیا کہ جن نبوتوں کا اختتام فلسطین پر ہوا تیرا سفر وہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ وہاں سے اور بلندیوں کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کا ذکر فرمایا گیا کہ گو حضرت موسیٰ ؑ بھی بہت بلندیوں تک پہنچے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتقاء اس سے بھی بہت بلند تر تھا۔

یہ سورت اب یہود کے ذکر کو اس طرح بیان کر رہی ہے کہ ان کو اپنے جرائم کی بنا پر اپنے وطن فلسطین سے نکال دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے بہت ہی سخت نگراں بندے ان پر مسلط کئے گئے تھے جو اُن کے شہر کی گلیوں میں داخل ہو کر تیزی سے آگے بڑھے اور تمام شہر کو ملیا میٹ کر دیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر ان پر رحم فرمائے گا اور ایک اور موقع انہیں دے گا کہ وہ دوبارہ فلسطین پر قابض ہو جائیں جیسا کہ فی زمانہ ہو چکا ہے ۔لیکن یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ رحم کے ساتھ پیش نہ آئے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں فلسطین سے خود نکالے گا نہ کہ مسلمانوں سے جنگ کے نتیجہ میں، اور ان کی بجائے اللہ اپنے صالح بندوں کو فلسطین کا بادشاہ بنا دے گا۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو تب تک فلسطین پر غلبہ عطا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس شرط کو پورا نہ کریں کہ اللہ کے صالح بندے بن جائیں ۔

اس کے بعد ان برائیوں کا ذکر ہے جو یہودیوں میں ان کی سخت دلی کے زمانہ میں راسخ ہو گئی تھیں یعنی بخل، فضول خرچی، زنا، قتل و غارت، یتیم کا مال کھانا، بد عہدی، تکبر وغیرہ اور مسلمانوں کو ان سے باز رہنے کی تلقین کی ہے۔

پھر اس سورت میں فرمایا گیا کہ جب تُو اس عظیم قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو یہ اس کو سمجھنے سے عاری رہتے ہیں اور ان میں شرک اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جب تُو صرف اللہ کی وحدانیت کا ذکر کرے تو پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ ان کو کلمہ توحید میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ چونکہ ان کے دلوں میں دہریت گھر کر جاتی ہے اس لئے یوم ِآخرت پر سے بھی ان کا ایمان کلیۃً اٹھ جاتا ہے۔ اور جو قوم آخرت پر یقین نہ رکھے اور اپنی جوابدہی کی قائل نہ ہو وہ اپنے جرائم اور گناہوں میں ہمیشہ بلا روک ٹوک بڑھتی چلی جاتی ہے۔

اس کے بعد اُسی رؤیا کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کشف کے ذریعہ فلسطین کی حالت دکھائی گئی اور پھر مزید روحانی بلندیوں کی طرف کا اِسرآء ہوا۔

پھر جس شجرہ ٔ ملعونہ کا ذکر ہے اس سے مراد یہودی ہیں جن کا سورہ فاتحہ کی آخری آیات میں ذکر ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کے غضب کے نیچے بھی رہیں گے اور بندوں کے غضب کے نیچے بھی۔ جو لوگ غضب اور انتقام کے عادی ہوں ان کی مثال آگ کی سی ہے جو نشو نما کو بھسم کر دیتی ہے اور جو منکسر مزاج بندے طِیْن کی خاصیت رکھتے ہیں ،ہر قسم کی نشو نما انہی کے ذریعہ ہوتی ہے ۔پس اس ذکر کا یہ مطلب بنتا ہے کہ یہود ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیری کوششوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور یہ سوچیں گے کہ یہ مٹی سے نشو نما پانے والے کیسے ہمارا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ مگر تمام دنیا کی نشو نما اس بات کا ثبوت ہے کہ آگ کبھی اللہ کی قدرت سے پیدا ہونے والی نشو نما کو بھسم نہیں کر سکی ۔ تمام لہلہاتے ہوئے باغات اور سبزہ زار اس بات کے گواہ ہیں۔

اس کے بعد قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جو اَقِمِ الصَّلوٰۃَ سے شروع ہوتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ محمود کا ذکر کرتی ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین جو کوشش آپ کو مذموم کرنے کی کر سکتے ہیں کرتے چلے جائیں مگر اس کے نتیجہ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کو بلند تر مقام کی طرف اٹھاتا چلا جائے گا۔ گویا آپؐ کے روحانی ارتقاء کو اس رنگ میں بھی اونچا فرمایا یہاں تک کہ آپ اس مقامِ محمود تک پہنچ جائیں گے جس تک کسی دوسرے کی رسائی نہیں ہوئی ۔ مگر یہ مقام یونہی نصیب نہیں ہوا کرتا اس کے لئے فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ فرما دیا کہ اس کے لئے راتوں کو اٹھ کر ہمیشہ دعائیں کرتا چلا جا۔

یہ دعویٰ کہ آپ واقعی مقام ِ محمود تک پہنچائے جائیں گے عملاً بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دشمن نے پورا ہوتا ہوادیکھ لیا کہ جب آپ بظاہر مغلوب ہو کر مکہ سے نکلے تو اسی سورت میں ایک دعا کی صورت میں یہ پیشگوئی تھی کہ تُو دوبارہ اس شہر میں داخل ہو گا اور یہ اعلان کرے گا کہ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا کہ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل کے مقدر میں ہی بھاگنا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے روشنی آجائے تو اندھیرا بھاگ جاتا ہے۔

اس کے بعد آیت نمبر86 روح کے متعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب لوگوں نے کہا کہ ہمیں بتا کہ روح کیا چیز ہے اللہ تعالیٰ نے یہ جواب عطا فرمایا کہ ان سے کہہ دے کہ روح میرے ربّ کے امر کے سوا اور کچھ نہیں۔

عیسائی حضر ات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو رُوْحُ اللّٰہ مانتے ہیں اور یہی لقب مسلمان بھی آپؑ کو دیتے ہیں مگر اس بات میں حضرت عیسیٰ کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں کیونکہ آپؑ بھی محض اسی طرح امرِ الہٰی سے پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ آغاز میں تمام زندگی امرِ الہٰی سے پیدا ہوئی ہے۔

سورت کے آخر پر اس مضمون کو مزید کھول دیا ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو محض اس لئے کہ وہ بن باپ کے تھا اللہ کا بیٹا قرار دینا بہت بڑا ظلم ہے ۔ پس تمام حمد اللہ ہی کی ہے جس کو کسی بیٹے کی ضرورت نہیں اور نہ اس کا کوئی ملکیت میں شریک ہے اور اسے کبھی ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں پڑی جو گویا کمزوری کی حالت میں اس کا مدد گار بنتا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ،صفحہ462-461)

(مرسلہ: عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2021