• 19 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 27؍ نومبر 2020ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ نومبر 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

ایک روایت کےمطابق حضرت علیؓ نے حضرت خدیجہؓ کے قبولِ اسلام کے اگلے روز آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ کونمازپڑھتے دیکھا
حضرت علیؓ نے وہ رات گزاری اور اگلی صبح اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر13 برس تھی
چار مرحومین مکرم ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید مڑھ بلوچاں ننکانہ صاحب پاکستان، مکرم جمال الدین محمودصاحب آف سیرالیون،
محترمہ امة السلام صاحبہ اہلیہ چوہدری صلاح الدین صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد اور مشیرِ قانونی،ربوہ اور مکرمہ منصورہ بشریٰ صاحبہ والدہ ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ راشد حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 27؍ نومبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج حضرت علیؓ بن ابوطالب کےذکرسے خلفائے راشدین کا ذکرشروع کروں گا۔ آپؓ کے والد کا نام عبدمناف اور کنیت ابوطالب تھی۔ آپؓ کی والدہ کانام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم تھا۔حضرت علیؓ بعثتِ نبوی سے دس برس قبل پیدا ہوئے تھے۔ آپؓ کا قددرمیانہ،آنکھیں سیاہ،جسم فربہ اور کندھے چوڑے تھے۔ حضرت علیؓ کےتین بھائی طالب، عقیل اور جعفر جبکہ دو بہنیں ام ہانی اور ام جمانہ تھیں۔ ان میں سے طالب اور ام جمانہ کے علاوہ سب نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ علیؓ کی کنیت ابوالحسن،ابوسبطین اور ابو تراب تھی۔

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے تو حضرت علیؓ گھر پر نہ تھے۔ علم ہوا کہ آپؓ مسجد میں سو رہے ہیں۔ جب آنحضرتﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علیؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے اور ان کے پہلو سے چادر ہٹی ہوئی تھی جس کی وجہ سے آپؓ کے پہلو پر کچھ مٹی لگ گئی تھی۔آنحضرتﷺ نے وہ مٹی پونچھی اور فرمایا اٹھواےابوتراب!اٹھو اے ابوتراب۔ یوں آپؓ اس کنیت سے پکارے جانے لگے۔
حضرت ابوطالب بہت باعزت مگر غریب اور کثیرالعیال تھے چنانچہ آنحضرتﷺ نے اپنے خوش حال چچا حضرت عباس کے ساتھ مل کر حضرت ابوطالب کی عیال داری میں کمی کے متعلق سوچا۔جب آپؐ اور حضرت عباس ،حضرت ابوطالب کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ عقیل کو میرے پاس رہنے دواس کے علاوہ جو مرضی کرو۔ چنانچہ حضورِاکرمﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ نے جعفر کو اپنے زیرِ کفالت لے لیا۔اس وقت حضرت علیؓ کی عمر چھ سات برس تھی۔

ایک روایت کےمطابق حضرت علیؓ نے حضرت خدیجہؓ کے قبولِ اسلام کے اگلے روز آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ کونمازپڑھتے دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ یہ کیاہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ اللہ کا چنیدہ دین ہے پس مَیں تمہیں لات اور عزیٰ کے انکار اور اللہ کی عبادت کی طرف بلاتاہوں۔ حضرت علیؓ نے وہ رات گزاری اور اگلی صبح اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر13 برس تھی۔

مَردوں میں سب سےپہلےاسلام قبول کرنےوالے کون تھے؟ اس کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ اور زید بن حارثہ آنحضرتﷺ کے گھر میں بچوں کی طرح ساتھ رہتے تھے۔ ان دونوں کو تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی۔ پس حضرت ابوبکرؓ مسلمہ طورپر مقدم اور سابق الایمان تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت خدیجہؓ کے بلاتأمل،بلاتوقف اور بلا پس و پیش آنحضرتﷺ کے دعوے کی تصدیق کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کو تو اللہ تعالیٰ سےمانگنے پر ایک مددگار ملاتھا مگرمحمدرسول اللہﷺ کی شان دیکھو کہ آپؐ کو بن مانگے مددگار مل گیا۔ جب آپؐ کے گھر میں خداتعالیٰ کی وحی کےمتعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جو آپؐ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور ایمان لے آیا۔ حضرت علیؓ جن کی عمر دس گیارہ سال تھی، وہ دروازے کے ساتھ کھڑے ہوکر آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی گفتگو کو سُن رہےتھے۔ وہ شرماتے ہوئے آگے بڑھے اورعرض کی کہ جس بات پرمیری چچی اور زید ایمان لائے ہیں مَیں بھی اس پر ایمان لاتا ہوں۔

حضرت علیؓ رسول کریمﷺ کے ساتھ اپنے والد اور باقی تمام قوم سے چھپ کر مکّے کی گھاٹیوں میں نماز ادا کیا کرتے۔ ایک روز ابوطالب نے ان دونوں کو نماز پڑھتے دیکھ کر رسول اللہﷺ سے اس نئے دین کی بابت دریافت کیا۔آپؐ نے فرمایا کہ یہ دینِ ابراہیم ہے اور مختصراً اسلام کی دعوت دی۔ حضرت ابوطالب نے جواب دیا کہ مَیں اپنے آباؤاجداد کے دین کو چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اللہ کی قسم!جب تک مَیں زندہ ہوں تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں پہنچےگی جسے تُو ناپسند کرتا ہو۔

اللہ کے حکم کے مطابق آنحضرتﷺ نے اپنے خاندان کے انذار کی خاطر ایک دعوت کا اہتمام فرمایا تھا۔ اس دعوت میں چالیس نفوس مدعو تھے۔ کھانے کےبعد جب آنحضرتﷺ نے تقریر شروع کرنی چاہی تو بدبخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہوگئے۔ اس پر ایک مرتبہ پھر دعوت کا اہتمام کیا گیا اور اس بار آنحضرتﷺ نے اسلام کا پیغام پہنچانے کےبعد فرمایا کہ بتاؤ اس کام میں میراکون مددگار ہوگا۔ اس سوال پر سب خاموش رہے مگر ایک تیرہ سال کا دُبلا پتلا بچہ اٹھا اور اس نے آپؐ کے مددگار بننے کےعزم کا اظہارکیا۔ یہ حضرت علیؓ تھے جن کی آواز سن کر آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو۔ یہ سن کر بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب لوگ ہنس پڑے ؛ابولہب نے اپنےبڑےبھائی ابوطالب سے کہا کہ محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی کرو۔

حضورِانور نے حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ واقعہ بچوں کو غور سے سننا چاہیے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے سمجھا کہ خداکےنزدیک یہی گیارہ سالہ بچہ جوان ہے، باقی بڈھے سب بچے ہیں؛ ان میں کوئی طاقت نہیں۔ علیؓ آخر تک آپؐ کے ساتھ رہےپھر آپؐ کے خلیفہ ہوئے اور آپؓ کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا اور بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیدا ہوئے۔

آنحضرتﷺ کی ہجرت کےوقت حضرت علیؓ کی قربانی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ جب اہلِ مکّہ نے باہم مشورہ کرکے رسول کریمﷺ کےگھرپر حملہ آور ہوکر آپؐ کو قید کرنے یا قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو وحی الٰہی سے آپ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہوگئی۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مدینے ہجرت کرجانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو آپؐ نے ہجرت کی تیاری شروع کی اور حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ آنحضرتﷺ کے بستر پر لیٹیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ کی سرخ حزرمی چادر اوڑھ کر رات گزاری۔ مشرکین صبح کے وقت گھر میں داخل ہوئے اور حضرت علیؓ کو بستر میں پاکر آنحضرتﷺ کے متعلق پوچھا۔ حضرت علیؓ نے لاعلمی کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے انہیں مکّے سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے۔ آپؓ اہلِ مکّہ کی امانتیں لوٹاکر تین دن کے بعد ہجرت کرکے نبی کریمﷺ کے پاس پہنچے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت علیؓ کی اس عظیم الشان قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلےمیں صرف حضرت علیؓ ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علیؓ کی اولاد بھی عزت پائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ پر پہلا فضل تو یہ فرمایا کہ انہیں رسول کریمﷺ کی دامادی کا شرف بخشا۔ دوسرا فضل یہ فرمایا کہ نبی کریمﷺ کے دل میں ان کےلیے اتنی محبت پیداکی کہ آپؐ نے بارہا ان کی تعریف فرمائی۔

حضورِانور نے ایک ہی واقعے کو مختلف ذریعوں سے پیش کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح واقعے کی تفصیل اور تشریح سے کئی نئی باتیں پتہ لگ جاتی ہیں۔مذکورہ صحابی کی شخصیت کےکئی نئے پہلوسامنے آجاتے ہیں۔ فرمایا حضرت علیؓ کاذکر چل رہا ہے باقی ان شاء اللہ آئندہ پیش کروں گا۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِجنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکرِ خیر مکرم ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید ابن طارق محمود صاحب مڑھ بلوچاں ننکانہ صاحب پاکستان کا تھا۔ آپ کو 20؍نومبر کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی کےبعدایک سولہ سالہ نوجوان نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہید مرحوم کی عمر 31 برس تھی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ دشمنی کا نیارنگ ہے کہ کم عمر لڑکوں کو انگیخت کرکے حملے کرواتے ہیں تاکہ سزا میں تخفیف یا معافی کے لیے عدالتوں میں کہہ سکیں کہ یہ تو بالغ نہیں ہے۔ اس حملے میں شہید مرحوم کے والد،تایا اور زعیم خدام الاحمدیہ بھی زخمی ہوئے۔ شہید کے والد شدید زخمی ہیں اور ابھی تک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ مرحوم تبلیغ کا شوق اور خلافت سے بےانتہا محبت رکھنے والے، جماعتی عہدےداران اور مرکزی مہمانان کا بےحد احترام کرنے والے بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ پسماندگان میں والد،والدہ، ایک بھائی اور ایک بہن شامل ہیں۔

دوسرا جنازہ مکرم جمال الدین محمود صاحب آف سیرالیون کا تھا۔آپ 3؍ نومبر کو دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم عرصہ 16 برس سے نیشنل جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ مرحوم مخلص اور فدائی خادمِ دین تھے۔ تہجدگزار، نمازوں کے پابند، اطاعت کا جذبہ اور خلافت سے عشق کا تعلق رکھنے کے ساتھ مرحوم کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ ساری دنیا کے احمدیوں کو قوم پرستی سے بچاکر ایک خاندان بنانے کے عملی مصداق تھے۔

تیسرا جنازہ محترمہ امة السلام صاحبہ اہلیہ چوہدری صلاح الدین صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد اور مشیرِ قانونی، ربوہ کا تھا جو 19؍ اکتوبر کو وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ بڑی عبادت گزار، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والی، مہمان نواز اور غریب پرور شخصیت کی مالک تھیں۔

چوتھا جنازہ مکرمہ منصورہ بشریٰ صاحبہ والدہ ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کا تھا جو 6؍ نومبر کو 97 برس کی عمرمیں وفات پاگئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ عبادت گزار،نیک اور خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھنے والی، خاموش طبع اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

چولہ بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2020