• 20 اپریل, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 21)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 21

اس عنوان کے تحت درج ذىل تىن عناوىن پر حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہىں۔

  1. اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں؟
  2. نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں؟
  3. بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں؟

اللہ تعالىٰ کے حضور ہمارے کىا فرائض ہىں

سوال۔ جب خدا محبت ہے۔ عدل ہے۔ انصاف ہے۔ تو کىا وجہ کہ نظام دنىا مىں ہم دىکھتے ہىں کہ اس نے بعض چىزوں کو بعض کى خوراک بنا دىا ہے۔ اگر محبت اور عدل ىا انصاف و رحم اس کے ذاتى خاصے ہىں تو کىا وجہ کہ اس نے مخلوق مىں سے بعض مىں اىسى کىفىت اور قوىٰ رکھ دىئے ہىں کہ وہ دوسروں کو کھا جائىں حالانکہ مخلوق ہونے مىں دونو برابر ہىں۔

جواب۔ ’’جب محبت کا لفظ خدا تعالىٰ کى نسبت بولا جاتا ہے تو اس کو انسانى محبت پر قىاس کر لىنا بڑى بھارى غلطى ہے۔ محبت کا لفظ جس طرح انسانوں مىں اطلاق پاتا ہے اور جو مفہوم اس کا انسانى تعلقات کى حىثىت مىں سمجھا جاتا ہے وہ ہر گز ہر گز خدا تعالىٰ پر اطلاق نہىں پا سکتا۔ اور نہ ہى وہ معنے اور مراد خدا تعالىٰ پر صادق آتے ہىں۔ انسان مىں محبت اور غضب کى قوت ہے مگر جو مفہوم ان کا انسان کے متعلق بولتے وقت ہمارے ذہن مىں آتا ہے وہ خدا تعالىٰ پر ہر گز ہر گز اطلاق نہىں پا سکتا۔ ىہ غلطى ہے۔ فطرت انسانى مىں ىہ رکھا گىا ہے کہ جب کسى سے محبت کرتا ہے تو اس کے فراق سے اس کو صدمہ بھى پہنچتا ہے۔ ماں اپنے بچّے سے محبت کرتى ہے۔مگر اگر اس کا بچّہ اس سے جُدا ہو جاوے تو اس کو کىسا صدمہ ہوتا ہے اور کتنا دُکھ اور رنج پہنچتا ہے۔ اسى طرح سے جو شخص کسى دوسرے پر غضب کرتا ہے اوّل وہ خود اپنے آپ مىں اس کا صدمہ اور اثر پاتا ہے گوىا دوسرے کو سزا دىنے کے ساتھ ہى خود اپنى جان کو بھى سزا دىتا ہے۔ غضب اىک دُکھ ہے جس کا اثر پہلے اپنى ہى ذات پر پڑتا ہے اور اىک قسم کى تلخى پىدا ہو کر طبىعت مىں سے راحت اور چىن نِکل جاتا ہے۔ مگر خدا تعالىٰ ان باتوں سے پاک ہے۔ پس اس سے صاف نتىجہ نکلتا ہے کہ ان الفاظ کا اطلاق اس رنگ مىں جس رنگ مىں ہم انسان پر کرتے ہىں اور جو مفہوم ان کا انسانى تعلق مىں ہو سکتا ہے اس رنگ مىں خدا تعالىٰ پر نہىں بول سکتے اور نہ ہى وہ خدا پر صادق آتے ہىں۔ اس واسطے ہم ان الفاظ کو پسند نہىں کرتے۔ ىہ ان لوگوں کا بناىا ہوا لفظ ہے۔ جو خدا کو محض انسانى حالت پر قىاس کرتے ہىں۔ وہ پاک ذات ہے۔ جو اس کى رضا کے موافق چلتا ہے اس سے اس کا تعلق زىادہ سے زىادہ ہوتا جاتا ہے ہاں البتہ استعارہ کے رنگ مىں محبت اور غضب کا لفظ خدا تعالىٰ کے لئے بھى بولا جا سکتا ہے۔

پس ىاد رکھو کہ ىہ اىک دنىا کا کارخانہ ہے جس کے واسطے خدا تعالىٰ نے اپنى کامل حکمت سے موجودہ نظام مقرر فرماىا ہے۔ اور ىہ اس نظام کے ماتحت اس طرح سے چل رہا ہے۔ البتہ اس کے واسطے ىہ الفاظ موزون نہىں ہىں۔ محبت کا لفظ اىک درد اور گداز رکھتا ہے۔ اگر فرض بھى کر لىں کہ خدا محبت ہے اور اس کى صفت غضب بھى ہے(انسانى حالت کے خىال سے) تو پھر ساتھ ہى ىہ بھى ماننا پڑے گا کہ خدا کو بھى اىک قسم کى تکلىف اور رنج و دُکھ ہوتا ہے۔ مگر ىاد رکھو اىسے ناقص الفاظ خدا تعالىٰ کى طرف منسوب نہىں کئے جا سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ427 تا 429، اىڈىشن 1984ء)

*’’وَبَشِّرِ الَّذِىۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ (البقرۃ: 26)۔ اس آىت مىں اىمان کو اعمال صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے جنّات اور انہار۔ ىعنى اىمان کا نتىجہ تو جنّت ہے اور اعمال صالحہ کا نتىجہ انہار ہىں۔ پس جس طرح باغ بغىر نہر اور پانى کے جلدى برباد ہو جانے والى چىز ہے اور دىر پا نہىں اسى طرح اىمان بے عمل صالح بھى کسى کام کا نہىں۔ پھر اىک دوسرى جگہ پر اىمان کو اشجار (درختوں) سے تشبىہ دى ہے اور فرماىا ہے کہ وہ اىمان جس کى طرف مسلمانوں کو بُلاىا جاتا ہے وہ اشجار ہىں اور اعمال صالحہ ان اشجار کى آبپاشى کرتے ہىں۔

غرض اس معاملہ مىں جتنا جتنا تدبّر کىا جاوے اسى قدر معارف سمجھ مىں آوىں گے۔ جس طرح سے اىک کسان کاشتکار کے واسطے ضرورى ہے کہ وہ تخمرىزى کرے۔ اسى طرح روحانى منازل کے کاشتکار کے واسطے اىمان جو کہ رُوحانىات کى تخمرىزى ہے ضرورى اور لازمى ہے اور پھر جس طرح کاشتکار کھىت ىا باغ وغىرہ کى آبپاشى کرتا ہے اسى طرح سے روحانى باغِ اىمان کى آبپاشى کے واسطے اعمال صالحہ کى ضرورت ہے۔

ىاد رکھو کہ اىمان بغىر اعمال صالحہ کے اىسا ہى بے کار ہے جىسا کہ اىک عمدہ باغ بغىر نہر ىا دوسرے ذرىعہ آبپاشى کے نکمّا ہے۔ درخت خواہ کىسے ہى عمدہ قسم کے ہوں۔ اور اعلىٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشى کى طرف سے لاپروائى کرے گا تو اس کا جو نتىجہ ہو گا وہ سب جانتے ہىں۔ ىہى حال روحانى زندگى مىں شجر اىمان کا ہے۔ اىمان اىک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمال صالحہ روحانى رنگ مىں اس کى آبپاشى کے واسطے نہرىں بن کر آبپاشى کا کام کرتے ہىں۔ پھر جس طرح ہر اىک کاشتکار کو تخمرىزى اور آبپاشى کے علاوہ بھى محنت اور کوشش کرنى پڑتى ہے اسى طرح خدا تعالىٰ نے رُوحانى فىوض و برکات کے ثمرات حَسَنہ کے حصول کے واسطے بھى مجاہدات لازمى اور ضرورى رکھے ہىں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70)۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ395 تا 396، اىڈىشن 1984ء)

نفس کے ہم پر کىا حقوق ہىں

’’اسى طرح سے خوب سمجھ لو کہ عبادت بھى کوئى بوجھ اور ٹىکس نہىں اس مىں بھى اىک لذّت اور سرُور ہے۔ اور ىہ لذّت اور سرُور دُنىا کى تمام لذتوں اور تمام حظوظ نفس سے بالاتر اور بالا تر ہے۔ جىسے عورت اور مرد کے باہم تعلقات مىں اىک لذّت ہے اور اس سے وہى بہرہ مند ہو سکتا ہے جو مرد ہے اور اپنے قوىٰ صحىحہ رکھتا ہے۔ اىک نامرد اور مخنّث وہ حظ نہىں پاسکتا اور جىسے اىک مرىض کسى عمدہ سے عمدہ خوش ذائقہ غذا کى لذّت سے محروم ہے اسى طرح پر ہاں ٹھىک اىسا ہى وہ کم بخت انسان ہے جو عبادت الہٰى سے لذّت نہىں پا سکتا۔

عورت اور مرد کا جوڑا تو باطل اور عارضى جوڑا ہے۔ مىں کہتا ہوں حقىقى ابدى اور لذت مجسم کا جو جوڑا ہے وہ انسان اور خدائے تعالىٰ کا ہے۔ مجھے سخت اضطراب ہوتا ہے اور کبھى کبھى ىہ رنج مىرى جان کو کھانے لگتا ہے کہ اىک دن اگر کسى کو روٹى ىا کھانے کا مزا نہ آئے، طبىب کے پاس جاتا اور کىسى کىسى منتىں اور خوشامدىں کرتا اور روپىہ خرچ کرتا اور دُکھ اُٹھاتا ہے کہ وہ مزا حاصل ہو۔ وہ نامرد جو اپنى بىوى سے لذّت حاصل نہىں کر سکتا بعض اوقات گھبرا گھبرا کر خود کشى کے ارادے تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اکثر موتىں اس قسم کى ہو جاتى ہىں۔ مگر آہ! وہ مرىض دل وہ نامرد کىوں کوشش نہىں کرتا جس کو عبادت مىں لذّت نہىں آتى۔ اس کى جان کىوں غم سے نڈھال نہىں ہو جاتى؟ دُنىا اور اس کى خوشىوں کے لئے تو کىا کچھ کرتا ہے مگر ابدى اور حقىقى راحتوں کى وہ پىاس اور تڑپ نہىں پاتا کس قدر بے نصىب ہے۔ کىسا ہى محرُوم ہے! عارضى اور فانى لذّتوں کے علاج تلاش کرتا ہے اور پا لىتا ہے۔ کىا ىہ ہو سکتا ہے کہ مستقل اور ابدى لذّت کے علاج نہ ہوں؟ ہىں اور ضرورى ہىں۔ مگر تلاش حق مىں مستقل اور پوىا قدم درکار ہىں۔ قرآن کرىم مىں اىک موقع پر اللہ تعالىٰ نے صالحىن کى مثال عورتوں سے دى ہے۔ اس مىں بھى سِرّ اور بھىد ہے۔ اىمان لانے والے کو آسىہ اور مرىم سے مثال دى ہے۔ ىعنى خداىتعالىٰ مُشرکىن مىں سے مومنوں کو پىدا کرتا ہے۔ بہر حال عورتوں سے مثال دىنے مىں در اصل اىک لطىف راز کا اظہار ہے۔ ىعنى جس طرح عورت اور مرد کا باہم تعلق ہوتا ہے اسى طرح پر عبُودىّت اور ربُوبىّت کا رشتہ ہے۔ اگر عورت اور مرد کى باہم موافقت ہو اور اىک دوسرے پر فرىفتہ ہو تو وہ جوڑا اىک مبارک اور مفىد ہوتا ہے ورنہ نظام خانگى بگڑ جاتا ہے اور مقصود بالذات حاصل نہىں ہوتا ہے۔ مرد اور جگہ خراب ہو کر صدہا قسم کى بىمارىاں لے آتے ہىں۔ آتشک سے مجذوم ہو کر دُنىا مىں ہى محروم ہو جاتے ہىں۔ اور اگر اولاد ہو بھى جائے تو کئى پُشت تک ىہ سلسلہ چلا جاتا ہے اور اُدھر عورت بے حىائى کرتى پھرتى ہے اور عزّت و آبرُو کو ڈبو کر بھى سچّى راحت حاصل نہىں کر سکتى۔ غرض اس جوڑے سے الگ ہو کر کِس قدر بد نتائج اور فتنے پىدا ہوتے ہىں۔ اسى طرح پر انسان رُوحانى جوڑے سے الگ ہو کر مجذوم اور مخذول ہو جاتا ہے دُنىاوى جوڑے سے زىادہ رنج و مصائب کا نشانہ بنتا ہے جىسا کہ عورت اور مرد کے جوڑے سے اىک قسم کى بقاء کے لئے حظ ہے اسى طرح پر عبُودىّت اور ربُوبىّت کے جوڑے مىں اىک ابدى خدا کے لئے حظ موجود ہے۔ صُوفى کہتے ہىں کہ ىہ حظ جس کو نصىب ہو جائے۔ وہ دُنىا اور ما فىہا کے تمام حظوظ سے بڑھ کر ترجىح رکھتا ہے۔ اگر سارى عمر مىں اىک بار بھى اُس کو معلوم ہو جائے تو وہ اس مىں ہى فنا ہو جائے لىکن مشکل تو ىہ ہے کہ دُنىا مىں اىک بڑى تعداد اىسے لوگوں کى ہے جنہوں نے اس راز کو نہىں سمجھا اور ان کى نمازىں نرى ٹکرىں ہىں اور اوپرے دل کے ساتھ اىک قسم کى قبض اور تنگى سے صرف نشست و برخاست کے طور پر ہوتى ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ4 تا 6، اىڈىشن 1984ء)

بنى نوع کے ہم پر کىا کىا حقوق ہىں

’’اور بىوى اسىر کى طرح ہے اگر ىہ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء: 20) پر عمل نہ کرے تو وہ اىسا قىدى ہے جس کى کوئى خبر لىنے والا نہىں ہے۔

غرض ان سب کى غور و پرداخت مىں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور اُن کى پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشىن بنانے کے واسطے بلکہ وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان: 75) کا لحاظ ہو کہ ىہ اولاد دىن کى خادم ہو۔ لىکن کتنے ہىں جو اولاد کے واسطے ىہ دعا کرتے ہىں۔ کہ اولاد دىن کى پہلوان ہو۔ بہت ہى تھوڑے ہوں گے جو اىسا کرتے ہوں۔ اکثر تو اىسے ہىں کہ وہ بالکل بے خبر ہىں کہ وہ کىوں اولاد کے لئے ىہ کوششىں کرتے ہىں اور اکثر ہىں جو محض جانشین بنانے کے واسطے اور کوئى غرض ہوتى ہى نہىں صرف ىہ خواہش ہوتى ہے کہ کوئى شرىک ىا غىر ان کى جائداد کا مالک نہ بن جاوے مگر ىاد رکھو کہ اس طرح پر دىن بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

غرض اولاد کے واسطے صرف ىہ خواہش ہو کہ وہ دىن کى خادم ہو۔ اسى طرح بىوى کرے تاکہ اس سے کثرت سے اولاد پىدا ہو اور وہ اولاد دىن کى سچى خدمت گزار ہو۔ اور نىز جذباتِ نفس سے محفوظ رہے۔ اس کے سوا جس قدر خىالات ہىں وہ خراب ہىں رحم اور تقوىٰ مد نظر ہو تو بعض باتىں جائز ہو جاتى ہىں۔ اس صورت مىں اگر مال بھى چھوڑتا ہے اور جائداد بھى اولاد کے واسطے چھوڑتا ہے تو ثواب ملتا ہے۔ لىکن اگر صرف جانشىن بنانے کا خىال ہے اور اس نىّت سے سب ہم و غم رکھتا ہے تو پھر گناہ ہے۔ اس قسم کے قصور اور کسرىں ہوتى ہىں جن سے تارىکى مىں اىمان رہتا ہے لىکن جب ہر حرکت و سکون خدا ہى کے لئے ہو جاوے تو اىمان روشن ہو جاتا ہے اور ىہى غرض ہر مسلمان مومن کى ہونى چاہىئے کہ ہر کام مىں اس کے خدا ہى مد نظر ہو۔ کھانے پىنے۔ عمارت بنانے۔ دوست دشمن کے معاملات غرض ہر کام مىں خدا تعالىٰ ملحوظ ہو تو سب کاروبار عبادت ہو جاتا ہے لىکن جب مقصود متفرق ہوں پھر وہ شرک کہلاتا ہے مگر مومن دىکھے کہ خدا تعالىٰ کى طرف نظر ہے ىا اور قصد ہے۔ اگر اور طرف ہے تو سمجھے کہ دُور ہو گىا ہے۔ صىد نزدىک است و دور انداختہ بات مختصر ہوتى ہے مگر اپنى بد قسمتى سے لمبى بنا کر محروم ہو جاتا ہے۔

خدا تعالىٰ کى طرف تبتل کرنا اور اس کو مقصو د بنانا اہل و عىال کى خدمت اسى لحاظ سے کرنا کہ وہ امانت ہے۔ اس طرح پر دىن محفوظ رہتا ہے کىونکہ اس مىں خدا کى رضا مقصود ہوتى ہے لىکن جب دنىا کے رنگ مىں ہو اور غرض وارث بنانا ہو تو اس طرح پر خدا کے غضب کے نىچے آجاتا ہے۔

اولاد تو نىکوکاروں اور ماموروں کى بھى ہوتى ہے۔ ابراہىم علىہ الصلوٰۃ والسلام کى اولاد بھى دىکھو کس قدر کثرت سے ہوئى کہ کوئى گِن نہىں سکتا۔ مگر کوئى نہىں کہہ سکتا کہ اُن کا خىال اور طرف تھا؟ بلکہ ہر حال مىں خدا ہى کى طرف رجوع تھا۔ اصل اسلام اسى کا نام ہے جو ابراہىم کو بھى کہا کہ اَسْلِمْ۔ جب اىسے رنگ مىں ہو جاوے تو وہ شىطان اور جذباتِ نفس سے الگ ہو جاتا ہے ىہانتک کہ خدا کى راہ مىں جان تک کے دىنے مىں بھى درىغ نہ کرے۔ اگر جاں فشانى سے درىغ کرتا ہے تو خوب جان لے کہ وہ سچّا مسلم نہىں ہے۔ خدا تعالىٰ چاہتا ہے کہ بے حد اطاعت ہو اور پورى عبودىت کا نمونہ دکھا وے ىہانتک کہ آخرى امانت جان بھى دىدے۔ اگر بخل کرتا ہےتو پھر سچا مومن اور مسلم کىسے ٹھہر سکتا ہے؟ لىکن اگر وہ جانبازى کرنے والا ہے تو پھر خدا تعالىٰ کو بڑا ہى پىارا اور محبوب ہے وہ اللہ تعالىٰ کى رضا پر راضى ہو جاتا ہے۔ صحابہؓ نے ىہى کىا۔ انہوں نے اپنى جان کى پروا نہ کى اور اپنے خون بہا دىے۔ شہىد بھى وہى ہوتا ہے جو جان دىنے کا قصد کرتا ہے اگر ىہ نہىں تو پھر کچھ نہىں۔

ىہ چند کلمے نا گہانى آفات سے بچنے اور سچا مسلم بننے کے لئے ہىں اور اگر انسان ان پر عمل کرے تو طا عون سے بچانے کا ىہ بھى اىک ذرىعہ ہىں۔

ىاد رکھو قہر الٰہى کو کوئى روک نہىں سکتا وہ سخت چىز ہے۔ خبىث قوموں پر جب نازل ہوا ہے تو وہ تباہ ہو گئى ہىں۔ اس قہر سے ہمىشہ کامل اىمان بچا سکتا ہے۔ ناقص اىمان بچا نہىں سکتا بلکہ کامل اىمان ہو تو دعائىں بھى قبول ہوتى ہىں اور اُدۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) خدا تعالىٰ کا وعدہ ہے جو خلاف نہىں ہوتا کىونکہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (اٰل عمران: 10)۔ اس کا فرمان ہے۔ پس اىسے وقت مىں کہ آفت نازل ہو رہى ہے اىک تو ىہ چاہىئے کہ دعائىں کرتے رہىں۔ دوسرے صغائر کبائر سے جہاں تک ممکن ہو بچتے رہىں۔ تدبىروں اور دعاؤں مىں لگے رہىں۔ گناہ کا زہر بڑا خطرناک ہے۔ اس کا مزا اسى دنىا مىں چکھنا پڑتا ہے۔ گناہ دو طرح پر ہوتے ہىں۔ اىک گناہ غفلت سے ہوتے ہىں جو شباب مىں ہو جاتے ہىں۔ دوسرے بىدارى کے وقت مىں ہوتے ہىں۔ جب انسان پختہ عمر کا ہو جاتا ہے اىسے وقت مىں جب گناہوں سے راضى نہىں ہو گا اور ہر وقت استغاثہ کرتا رہے گا تو اللہ تعالىٰ اس پر سکىنت نازل کرے گا اور گناہوں سے بچائے گا۔

گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے بھى اللہ تعالىٰ ہى کا فضل درکار ہے جب اللہ تعالىٰ اس کے رجوع اور توبہ کو دىکھتا ہے تو اس کے دل مىں غىب سے اىک پڑ جاتى ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اس حالت کے پىدا ہونے کے لئے حقىقى مجاہدہ کى ضرورت ہے۔

جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا

(العنکبوت: 70)

جو مانگتا ہے اس کو ضرور دىا جاتا ہے۔ اسى لئے مىں کہتا ہوں کہ دعا جىسى کوئى چىز نہىں۔ دنىا مىں دىکھو بعض خر گدا اىسے ہوتے ہىں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہىں۔ ان کو آخر کچھ نہ کچھ دىنا ہى پڑتا ہے اور اللہ تعالىٰ تو قادر اور کرىم ہے جب ىہ اَڑ کر دعا کرتا ہے تو پا لىتا ہے کىا خدا انسان جىسا بھى نہىں۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ381تا385، اىڈىشن 1984ء)

(ترتىب و کمپوزنگ: خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد۔ لٹوىا)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں سالانہ کھیلوں کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021