• 19 جولائی, 2025

حضور انور کی شفقتیں

مکرم عابد وحىد خان صاحب لکھتے ہىں:

احباب جماعت کے ساتھ محبت بھرے چند لمحات

21اکتوبر 2019ء کى صبح کو حضور انور کا بىت السبوح جرمنى مىں قىام اختتام پذىر ہوا اور حضور انور کے دورے کا دوسرا حصہ جو برلن مىں دو دن کے قىام پر مشتمل تھا شروع ہوا۔ صبح11:50پر روانگى سے قبل حضور انور نے سىنکڑوں احمدىوں کے ساتھ چند لمحات گزارے جن کادورانىہ 15منٹ تھا جو آپ کو الوداع کرنے کىلئے آئے تھے۔ اس دوران بہت سے احمدىوں کو حضور انور سے ملنے کا موقع ملا اور قرب خلافت نصىب ہوا۔

جن لوگوں سے حضور انور نے ملاقات فرمائى ان مىں اىک بڑى عمر کے بزرگ تھے جن کى لمبى داڑھى تھى۔ مىں نے ان کو دورہ جرمنى کے دوران کئى مواقع پر دىکھا تھااور دىگر ىورپىن ممالک کے دورے پر بھى۔ وہ اکثر لمبا سفر کر کے حضور انور کى اقتداء مىں نما ز پڑھنے کىلئے آتے ہىں۔ اور ہمىشہ حضور انور کو خوش آمد کہنے والوں مىں ىا الوداع کرنے والوں کى صف اول مىں کھڑے ہوتے ہىں۔جب کبھى بھى اور جہاں کہىں بھى وہ حضور انور کو دىکھتے ہىں تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہىں رکھ پاتے اور بلند آواز سے نعرے لگاتے ہىں جبکہ ان کى آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہىں۔خاص طور پر اس دن کى مناسبت سے وہ اولىن لوگوں مىں تھے جو حضور انور کو الوداع کرنے پہنچے تھے۔ حضور انور کو آپ کى رہائش گاہ سے باہر آتا دىکھ کر انہوں نے نعرہ تکبىر بلند کىا۔ ان کى حىرت کى انتہا نہ رہى جب حضور انور ان کے پاس تشرىف لے گئے اور چند لمحوں کىلئے ان سے گفتگو فرمائى۔ حضور انور نے ان سے درىافت فرماىا کہ کىا وہ نعرے کے لفظ کے spelling بتا سکتے ہىں۔ اس بزرگ کى خوشى کى انتہا نہ تھى تاہم انہوں نے spellings بتانے کى کوشش کى مگر خوشى کے اثرات خوب عىاں تھے۔ىہ بزرگ اىک نومبائع ہىں اور بہت سادہ ہىں اور زىادہ پڑھے لکھے اور گفتگو کے ماہر معلوم نہىں ہوتے۔

مىں بہت آسانى سے، دنىا کے راہنماؤں ىا اىسے لوگوں کو جو خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہىں دىکھ سکتا ہوں کہ وہ اىسے لوگوں کى طرف التفات نہ کرىں تاہم حضور انور کا پىار صر ف مالدار ىا پڑھے لکھے لوگوں کىلئے نہىں۔ بلکہ ہر اىک احمدى کىلئے ہے جو حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے پىروکار ہىں خواہ وہ امىر ہوں ىا غرىب، پڑھے لکھے ہوں ىا ان پڑھ، کالے ہوں ىا سفىد۔

بعد ازاں جب حضور انور تشرىف لے جا رہے تھے تو حضور انور کى شفقتوں سے حصہ لىنے والے بزرگ کہنے لگے‘ مجھے اىسا لگا کہ اس دنىا مىں اللہ کا نمائندہ مىرے پاس تشرىف لاىا ہے جو روحانى طور پر کمزور اور ان پڑھ ہے۔ ان لمحات نے مجھے تسکىن عطا کى اور وہ لمحات دنىا کے جملہ خزانوں سے بڑھ کر ہىں۔ مىں ان لمحات کو کبھى نہىں بھولوں گا اور ىہ لمحات مجھے سکون اور خوشى فراہم کرتے رہىں گے۔

اس کے ساتھ ہى اس بزرگ نے حضور انور کو ہاتھ ہلا کر الوداع کىا اور اپنى وىن مىں بىٹھ گئے جو برلن جانے کو تىار تھى تاکہ وہاں جا کر شام کو حضور انور کو خوش آمدىد کہہ سکىں۔

(عابد خان ڈائرى، حضور انور کا دورہ ٔ ىورپ2019ء صفحہ59-58)

ابا! آپ کى وفات کے بعد
ىہ متبرک گھڑى مىں لے سکتا ہوں

(حضور انور کے دورہ جات کے دوران) ملاقات کے مابىن جب اکثر اوقات نہاىت مصروف اور کام مىں گزرتے ہىں تو بسا اوقات اىسے لمحات ہوتے ہىں جب حضور انور اپنے کام کے دوران اىک منٹ ىا دو منٹ کا وقفہ بھى فرماتے ہىں۔ اىسے ہى اىک وقفہ کے دوران حضور انور نے خاکسار سے مىرے بچوں کے بارے مىں استفسار فرماىا۔اس پر مىں نے عرض کى کہ مىرا بڑا بىٹا ماہد نہاىت رشک کى نگاہ سے اس گھڑى کو دىکھتا ہے جو حضور انور نے مجھے چند سال قبل تحفہ مىں دى تھى۔ مىں نے ماہد کى اس سے اگلى درخواست کا ذکر بھى حضور انور سے کہا جب چھ سال کى عمر مىں ماہد نے نہاىت حقىقت پسند تبصرہ ىوں کىا کہ ’’ابا جب آپ فوت ہو جائىں گے تو کىا مىں حضور کى دى ہوئى گھڑى لے سکتا ہوں۔‘‘ ماہد کا تبصرہ سن کر حضور انور نے خوب تبسم فرماىا اور اس کى معصومىت کا خوب مزہ لىا۔ اس پر حضور انور نے فرماىا ’’تمہارے گھر مىں ماہد ہى ہے جو بغىر خوف اور احتىاط کے جرات مندانہ تبصرہ کرتا ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہى حضور انور نے اپنى کرسى ىوں گھمائى کہ آپ اب اپنى کتابوں اور المارىوں کى طرف دىکھ رہے تھے اور مجھے ىوں لگا جىسے حضور انور کسى حوالہ کى تلاش مىں کوئى کتاب تلاش کر رہے ہىں۔ تاہم مىرى خوشى اور حىرت کى انتہا نہ رہى جب دو سے تىن منٹ کے بعد حضور انور نے اپنى کرسى گھمائى جىسے بالعموم ہوتى ہے اور رخ انور مىرى طرف کىا تو آپ کے ہاتھ مىں اىک سلور گھڑى تھى۔

حضور نے فرماىا ’’ىہ گھڑى مىرى طرف سے ماہد کو دىنا۔‘‘ ہنستے ہوئے حضور انو رنے فرماىا ’’اب کم ازکم اس کو تمہارے مرنے کا انتظار نہىں کرنا پڑے گا۔‘‘ مىں حضور کى شفقت سے اور اپنے بچے کىلئے حضور کى محبت سے بے حد ممنون تھا۔ مىں نے چند لمحات کىلئے گھڑى کو دىکھا تو مجھے احساس ہوا کہ اس کى بىٹرى ٹھىک کام نہىں کر رہى تھى تو مجھے خىال ہوا کہ اس کى بىٹرى بدل لوں گا۔ تاہم مىرے ذہن کو پڑھتے ہوئے حضور انور نے فرماىا۔
’’اس کى بىٹرى ٹھىک ہے ىہ کىونکہ بالکل نئى گھڑى ہے۔ اس لئے اس مىں اىک پن لگائى گئى ہے تاکہ اس کى بىٹرى کى زندگى کو محفوظ رکھا جا سکے اور استعمال کے وقت اس سے کام لىا جائے۔حضور انور نے وہ گھڑى واپس لى اور خود وہ پن باہر نکال دى اور پھر مجھے واپس کر دى۔ اب وہ گھڑى بالکل ٹھىک کام کر رہى تھى۔‘‘

مىرے پاس ماہد کى خوشى کو بىان کرنے کىلئے الفاظ نہىں ہىں جب اسى شام مىں گھر پہنچا اور حضور کا تحفہ اسے پہنچاىا تو اس کے بعد سے اس کى سب چىزوں مىں ىقىناً وہ سب سے قابل فخر چىز ہے۔

ىقىناً پىارے آقا ہر عمر، ہر قوم اور ہر جگہ کے احمدىوں کے جذبات اور خوشىوں کا خىال رکھتے ہىں۔

(حضور انور کا دورۂ ىورپ2019ء، عابد خان کى ڈائرى، صفحہ50-47)

اس نے اپنى کشتىاں جلادىں

اىک دوسرے موقع پرفرصت کے چند لمحات مىں، مىں نے خدام کى اىک وىڈىو کا تذکرہ کىا جو ان دنوں سوشل مىڈىا پر گردش مىں تھى۔ جس مىں Chinese Whispersr کى طرز پر کچھ کھىل کھىل رہے تھے۔بجائے زبانى پىغام آگے پہنچانے کے انہىں کچھ actions کر کے دکھانے تھے۔ اىک سے دوسرے تک ىہ actions زىادہ عجىب و غرىب اور اصل سے مزىد دور ہوتے جاتے تھے۔ حضور انور نے بذات خود اس وىڈىو کو دىکھا اور اس سے لطف اندوز ہوئے۔

اس پر حضور انور نے فرماىا ’’اىک مرتبہ حضرت مصلح موعود ؓ نے ذکر فرماىا کہ Chinese Whispers کى اىک کھىل مىں اصل محاورہ جو دىا گىا تھا وہ The Prince of Wales is coming تھا جبکہ اس کھىل کے اختتام تک وہ محاورہ ىوں ہو گىا کہ Give me two pence۔ اس پر مىں نے حضور انور سے پوچھا کہ کىا حضرت مصلح موعود ؓ انگرىزى زبان بول اور سمجھ سکتے تھے۔ حضور انور نے فرماىا۔
‘‘ہاں، آپ انگرىزى بہت اچھى طرح سمجھ لىتے تھے بلکہ بول بھى سکتے تھے۔ مثال کے طور پر Wembley Conference جو 1924ء مىں منعقد ہوئى۔ اس مىں جب آپ کا لىکچر حضرت چوہدرى ظفر اللہ خان صاحب ؓ نے پڑھ کر سناىا تو اس سے قبل حضرت مصلح موعودؓ نے چند لمحے انگرىزى مىں گفتگو فرمائى۔‘‘

حضور انور نے مزىد فرماىا ’’اىک دوسرے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اىک اىسى تقرىب کى صدارت فرمائى جہاں انگرىزى بولى جارہى تھى۔ اس پروگرام کے دوران مقررىن مىں سے اىک نے نہاىت متکبرانہ انداز مىں تقرىر کى۔ اس نے اپنى کامىابىوں کا ذکر نہاىت متکبرانہ انداز مىں کىا اورىہ محاورہ استعمال کىا کہ I burnt my boats ىعنى مىں نے اپنى کشتىاں جلادىں۔ اس تقرىر کے اختتام پر مہمانان اس کى متکبرانہ تقرىر کے باعث پرىشان تھے۔ تاہم حضرت مصلح موعودؓ نے اختتامى کلمات سے نوازا تو آپ نے ىوں آغاز فرماىا کہ ’’موصوف نے ممکنہ طور پر اپنى کشتىاں جلائى ہوں گى مگر وہ انا اور تکبر کو نہىں جلا سکے۔‘‘

اس تبصرہ کا ذکر فرماتے ہى حضور انور نے تبسم فرماىا اور اس انداز سے مسکرائے کہ آپ کى حضرت مصلح موعودؓ سے محبت خوب عىاں تھى۔

(حضور انور کا دورۂ ىورپ2019ء، عابد خان کى ڈائرى، صفحہ50-47)

(ترجمہ و کمپوزنگ: وقار احمد بھٹى)

(عابد خان ڈائری)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں سالانہ کھیلوں کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021