• 25 اپریل, 2024

اہل مصر بلیوں کی پرستش کیوں کرتے تھے؟

اہل مصر بلیوں کی پرستش کیوں کرتے تھے؟
ایسا توہّم جس کے باعث ملک ہاتھ سے جاتا رہا

اىک لاکھ تىس ہزار سال قبل انسانوں نے گروہ کى صورت مىں مل جل کر رہنا شروع کىا۔تقرىباً 12,000 سال پہلےہمارے شکارى اجداد نے کھىتى باڑى مىں اپنا ہاتھ آزمانا شروع کر دىا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے جنگلى اقسام کى فصلىں جىسے مٹر، دال اور جَو اگائى اور جنگلى جانوروں جىسے بکرىوں اور جنگلى بىلوں کو چرانا اور پالنا شروع کىا اورانہىں کھىتى باڑى مىں بھى استعمال کرنے لگے۔انسان کى قدىم ترىن باقىات کے ساتھ ہى اس بات کے آثار بھى ملتے ہىں کہ وہ بے شمار چىزوںکى پرستش کىا کرتے تھے۔حتمى طور پر اس بارے مىں کچھ نہىں کہا جا سکتا البتہ ملنے والے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں نے جانوروں کى پرستش 3100 قبل مسىح مىں کرنا شروع کى۔ىہ اہل مصر ہى تھے جنہوں نے پہلے پہل جانوروں کو پوجنا شروع کىا۔

مصرى تہذىب کئى حوالوں سے اپنى منفرد پہچان رکھتى ہےجس کا شمار دنىا کى قدىم ترىن تہذىب کے طور پر ہوتا ہے۔تہذىبِ مصر نے کئى عروج و زوال دىکھے ہىں۔اپنے عروج مىں تہذىب مصر تجارت،سائنس،فن تعمىرات، علم و فن کا گہوارہ سمجھى جاتى تھى۔اس کے باوجود اہل مصرکئى طرح کے توہّمات کا بھى شکار تھے۔جب بھى ہمارے سامنے مصر کا ذکر ہوتا ہے تو چشم تصور مىں اہرام مصر سمىت عقل کو خىرہ کر دىنے والى منفرد طرز تعمىر کى حامل قدىم عمارتىں اور مورتىاں آتى ہىں۔ان مورتىوں مىں سے اىک بلى کى مورتىاں اور حنوط کى گئى لاشىں بھى شامل ہىں۔قدىم مصرى بلىوں کى پوجا بھى کىا کرتے تھے اور ىہ امر حىرت انگىز ہے۔ابتداء مىں انسان جب اپنے سے طاقتور مظاہر دىکھتا جو ان کے قابو سے باہر ہوتےىا ان کے لىے فائدہ مند ہوتےىا انہىں ناقابل تلافى نقصان پہنچانےپر قادر ہوتے تو انہىں دىوتا جانتے اور ان کى پوجا پاٹ شروع کر دىتے۔جىسا کہ آگ جو انہىں جلا دىتى تھى،ان کے لىے کھانا پکاتى تھى،روشنى اور حدت کا سامان کرتى تھى قابل پرستش ٹھہرى۔ہوا، جو انہىں گرمى سے فرحت بخشتى،بھپرتى تو انہىں اڑا لے جاتى تھى۔پانى جو پىاس بجھاتا،ان کى صفائى ستھرائى کرتا اور ان کى فصلوں کو شاداب کرتا اور کبھى بصورت طوفان ىا سىلاب ان پر غضبناک ہوتا اور انہىں سزا دىتا تھا۔درىا جو انہىں مچھلىاں دىتا اور دور دراز کے سفروں مىں سہولت فراہم کرتا۔سورج جو انہىں روشنى اور گرمى دىتا اور ان کى فصلوں کو پکاتاتھا،چاند جو ان کى اندھىرى راتوں مىں روشنى کا سامان کرتا تھا اور اپنے حسن کے سحر مىں مبتلاء کرتا تھا۔ستارے جو ان کے راہنما تھےان کے نزدىک قابل پرستش تھے۔سانپ جو انہىں ڈس کر موت کے گھاٹ اتار دىا کرتا اوردہشت کى علامت تھا،بىل جو ان کے لىے زمىن سىنچتا اور دودھ اور گوشت مہىا کرتاتھا مقدس ٹھہرا۔پہاڑ جو ان پر بلند اور سر کرنے مىں مشکل تھے،غضبناک ہوتے تو ان پر پتھر برساتےتھےپوجےگئے تاکہ وہ ان پر رحم کرىں،علىٰ ھٰذالقىاس۔لىکن بلىوں مىں اىسى کىا قابلىت تھى کہ ان کى پرستش کى جائے؟

 بلىوں کا انسانوں سے تعلق قرىب 10 سے 12 ہزار سال پرانا ہے۔ بلىوں کو مصرى تہذىب مىں اىک خاص مقام حاصل تھا۔حتى کہ وہ خود سے زىادہ بلىوں کى حفاظت کرتے اور ان کا خىال رکھا کرتے تھے۔اگر کسى گھر مىں آگ لگ جاتى تو مصرى سب سے پہلے بلىوں کو گھر سے نکالتے۔جب کسى کى بلى مر جاتى تو گھر کے تمام افراد اپنى بھوىں منڈوا لىتے اور سر کے بال کاٹ دىتےاور تب تک بلى کے مرنے کا سوگ مناتے جب تک ان کى بھوىں دوبارہ نمودار نا ہو جاتىں۔ لىکن وہ بلىوں کو اتنى زىادہ اہمىت کىوں دىتے تھے؟اس کى وجہ ىہ تھى کہ بلىاں چوہوں اور دىگر اناج کھانے والے حشرات سے ان کے غلہ کى حفاظت کرتى تھىں۔قرىب دس ہزار سال قبل قدىم مصرىوں نے بلىوں کو پالنا شروع کىا تھا۔ابتداء مىں جب انہوں نے اناج اگانا شروع کىا تو انہىں چوہوں اور دوسرے غلہ کھانے والے حشرات اور زہرىلے سانپوں سے بہت پرىشانى اٹھانا پڑتى تھى۔بلىاں ان سے غلہ کى حفاظت کىا کرتىں اور سانپوں کو بھگا دىا کرتى تھىں جس وجہ سے اہل مصر مىں انہىں خاص مقام حاصل ہوتا گىا۔انہوں نے جان لىا تھا کہ بلىاں اس معاملہ مىں ان کى پرىشانى کا مداوا کر سکتى ہىں۔انہوں نے اپنا غلہ گھروں مىں کھلے عام رکھنا شروع کر دىا اور بلىوں کو گھروں مىں آزادانہ آمدورفت کے مواقع فراہم کىے۔تاکہ وہ اناج مىں چھپے چوہوں اور غلہ کھانے والے حشرات کو بھگا دىا کرىں۔بلى ہر گھر کى ضرورت بن چکى تھى اور اس وقت کوئى گھر بھى اىسا نہىں تھا جہاں بلىاں نہ ہوں وہ انہىں گھر کا ہى اىک فرد خىال کرتے تھے۔اس طرح بلىوں کے لىے بھى خوراک کا حصول آسان ہو گىا اور وہ مصرىوں کے ساتھ گھل مل گئىں۔رفتہ رفتہ اہل مصر مىں بلىوں کو روحانى درجہ حاصل ہونے لگا۔مصرى خىال کرتے تھے کہ بلىوں کا خواب مىں آنا اچھا شگون ہوتا ہے۔بلى کو خواب مىں دىکھنے والاشخص خود کو خوش قسمت خىال کرتا اور ىقىن کرتا کہ اس کى زندگى مىں ضرور کچھ اچھا ہونے والا ہے۔

باسىٹ مصرىوں کے نزدىک اىک جنگجو دىوى تھى جو سورج اور چاند کى بىٹى تھى۔ جس کا سر شىرنى اور دھڑ عورت کا تھا جسے انصاف کرنے والى دىوى کے طور بھى پوجاجاتا تھاجو بعد ازاں اىک بلى مىں تبدىل ہو گئى۔بلى مىں تبدىل ہونے کے بعد اس کى جنگجوىانہ فطرت ىکسر بدل گئى۔اب ىہ دىوى گھروں کى رکھوالى کرتى ہے اور بىمارىوں اور آفات سے بھى بچاتى ہے۔اس دىوى مىں ممتا والى صفات کا ظہور ہوا اور اب ىہ بانجھ عورتوں کو اولاد سے بھى نوازتى ہےاور خواتىن کو خوبصورتى عطاء کرتى ہے۔فصلوں کو زرخىز بناتى ہے اور خوشحالى لاتى ہے۔

مصرىوں کا خىال تھا کہ بلىاں جادوئى طاقتوں کى بھى حامل ہوتى ہىں جو انسانوں پر نازل ہونے والى آفات کا مقابلہ کرتى ہىں۔مصرى بلىوں کا بغور مشاہدہ کرتے کہ وہ کس طرح چوہوں کا شکار کرتى اور زہرىلے سانپوں کو بھگاتى ہىں۔چنانچہ جنگلى جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنے کے لىے وہ بلىوں والى طرىقے استعمال کرتے تھے۔

اہل مصر ہر سال مخصوص اىام مىں باسىٹ کا تہوار مناتے اور خصوصى عبادات کا اہتمام کرتےتھے۔ تہوار کا شمار اس وقت کے بڑے مصرى تہواروں مىں ہوتا تھا۔بلىوں کے لىے ٹىمپل مىں جگہ بنائى جاتى جہاںمرنے کے بعد انہىں حنوط کرکے ان مىں رکھا جاتا تھا۔

525 قبل مسىح مىں ہونے والى جنگ جسے بىٹل آف بلوسىا کہا جاتا ہے جس مىں فارس کے بادشاہ سائرس کے بڑے بىٹے کمبىسىس نے مصر فتح کىا۔کہا جاتا ہے کہ کمبىسىس جانتا تھا کہ مصرى بلىوں کو بہت عزىز رکھتے ہىں،ان کى پرستش کرتے اور انہىں انتہائى مقدس خىال کرتے ہىں۔چنانچہ کمبىسىس نے اپنے سپاہىوں کو حکم دىا کہ وہ جتنى ہو سکے بلىاں جمع کرىں۔حتى کہ سپاہىوں کى ڈھالوں پر بھى بلىوں کى تصاوىر بنا دى گئىں۔جب کمبىسىس اور اس کے لشکر نے بلوسىا کے شہر کى جانب پىش قدمى کى بلىاں ان کے ساتھ تھىں۔جنگ شروع ہوئى تو بلىاں کىمبىس کے سپاہىوں سے چمٹ گئىں ىا سپاہىوں نے بلىوں کو اپنى بغلوں مىں داب لىا۔مصرى جو بلىوں کو مقدس جانتے اور انہىں نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے،اس خوف سے کہ بلىوں کو نقصان پہنچے گا نہاىت بے دلى سے لڑے۔ىہاں تک کہ تىر انداز دستے نے دشمن افواج پر تىر چلانے سے بھى انکار کر دىا۔نتىجتاً مصرى کىمبىس اور اس کى فوج کے سامنے زىادہ مزاحم نہ ہوسکے،ىوں کىمبىس نے بلىوں کو ڈھال بنا کر بلوسىا پر قبضہ کر لىا۔

مصرىوں نے اپنے دور مىں بلىوں کى حفاظت کى خاطر باقاعدہ قانون سازى کر رکھى تھى۔مثلاً اگر کوئى شخص بلى کو مار دىتا خواہ غلطى سے ہى مارے اس کى سزا موت تھى۔اسى طرح بلىوں کى تجارت اور ملک سے باہر لے جانے پر سختى سے پابندى عائد تھى۔جب کوئى بلى مر جاتى تو مالک اسے حنوط کرتا اور اس کا کھانا اس کے ساتھ رکھتا۔اگر کسى بلى کا مالک بلى کى زندگى مىں ہى وفات پا گىا ہوتا تو بلى کے مرنے کے بعد اسےحنوط کر کے اس کے مالک کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔آج تک اىسى ہزاروں حنوظ شدہ بلىاں درىافت ہو چکى ہىں۔نىر ملنے والے قدىم مصرى آثار مىں جا بجا دىواروں پر بلىوں کى مورتىں کنندہ ہىں جن سے مصرىوں کى بلىوں سے بے پناہ محبت اور مصرى تہذىب مىں بلىوں کى اہمىت کا بخوبى اندازہ ہوتا ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں سالانہ کھیلوں کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021