• 17 مئی, 2025

تقوٰی کیسے حاصل کر سکتے ہیں

سنو! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عِشق مَے اور جام تقویٰ

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟

تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مالِ حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقوی ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق کا اظہار کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (المومن: 97) (فرمایا ایک تو یہ کہ برائیوں سے بچنا یہ تقویٰ ہے۔ اچھے اخلاق کا اظہار کرنا یہ تقویٰ ہے جس سے دشمن بھی دوست ہو جاتا ہے۔ تقویٰ کا اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ خدا کی پہچان ہو جائے اور ہم خدا شناس ہو جائیں۔

اور پھر سوال آتا ہے کہ تقویٰ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایمان کی حالت اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی پہچان نہ ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ بھاری مرحلہ جو ہم نے طے کرنا ہے وہ خدا شناسی ہے۔ اس کو پہچاننا ہے اور اگر ہماری خداشناسی ہی ناقص اور مشتبہ اور دھندلی ہے تو ہمارا ایمان ہرگز منور اور چمکیلا نہیں ہو سکتا۔

خداشناسی کس طرح ہو گی؟

یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے جلوے سے ہو گی۔ خدا کی پہچان اللہ تعالیٰ کی جو صفت رحیمیت کی ہے اس کے ظاہرہونے سے ہوتی ہے۔ ایسا تعلق خدا تعالیٰ سے پیدا کرنے سے ہو گی جس میں خدا تعالیٰ کی رحیمیت اور فضل اور قدرت کی صفات ہمارے تجربے میں آئیں گی۔ اور یہ باتیں اس وقت تجربے میں آ سکتی ہیں جب خدا کی عبادت اور اس سے تعلق کا غیر معمولی اظہار ہو رہا ہو۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اور فضل اور قدرت کی صفات جب تجربے میں آتی ہیں تو پھر وہ نفسانی جذبات سے چھڑاتی ہیں اور نفسانی جذبات کمزوریٔ ایمان اور کمزوریٔ یقین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایمان کمزور نہ ہو، اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ہو تو نفسانی جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس دنیا کی آسائشیں، اس کی املاک، اس کی دولتیں جس قدر انسان کو پیاری ہیں اتنی اخروی زندگی کی نعمتیں اسے پیاری نہیں۔

(ماخوذ از ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد14 صفحہ244-245)

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہےجس کا کام تقویٰ

پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’ان باتوں کو نہایت توجہ سے سننا چاہئے۔ اکثر آدمیوں کو مَیں نے دیکھا اور غور سے مطالعہ کیا ہے کہ بعض سخاوت تو کرتے ہیں‘‘ (بڑے سخی ہیں۔ لوگوں کو دیتے بھی ہیں ) ’’لیکن ساتھ ہی غصہ وَر اور زُودرنج (بھی ہوتے) ہیں۔‘‘ (غصہ میں فوراً آ جاتے ہیں) ’’بعض حلیم توہیں لیکن بخیل ہیں۔‘‘ (بڑے حلیم ہیں، نرم مزاج ہیں لیکن کنجوس ہیں ) ’’بعض غضب اور طیش کی حالت میں ڈنڈے مارمار کرگھائل کردیتے ہیں مگر تواضع اور انکسارنام کونہیں۔ بعض کو دیکھا ہے کہ تواضع اور انکسار تو اُن میں پرلے درجہ کا ہے مگر شجاعت نہیں ہے۔‘‘ (یاتو غصہ میں آ گئے تو انکساری اور عاجزی کوئی نہیں۔ اگر انکساری اور عاجزی دکھائیں گے تو پھر جہاں بہادری کی ضرورت ہے وہ خُلق ان میں ختم ہو جاتا ہے پھر آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شان میں فرمایا کہ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ اور زندگی کے ہر میدان میں آپ نے اپنے خُلق کے وہ نمونے قائم کر دئیے جو اپنی مثال آپ ہیں اور جن پر اپنی طاقت اور بساط کے مطابق چلنا ہر مومن کا فرض ہے۔

آنحضرت ﷺ کے بارے میں آپ ؑ نے فرمایا کہ
’’ایک وقت ہے کہ آپ ﷺ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تقریر کی صورت حیران کر رہے ہیں۔‘‘

ایسی تقریر اور ایسی فصاحت بیانی ہے کہ بڑا مجمع جو ہے وہ متاثر ہو جاتا ہے۔ ’’ایک وقت آتا ہے کہ تیر و تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے۔ اُس کا پھل، اُس کا پھول، اُس کی چھال، اس کے پتّے غرض کہ ہر چیز مفید ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 132 تا 134 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپؑ آنحضرت ﷺ کے خُلق کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ
’’لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرتﷺ کے پاس ہوتا تھا کیونکہ آپؐ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ
’’ایک وقت آتا ہے کہ آپؐ کے پاس اس قدر بھیڑ بکریاں تھیں کہ قیصر و کسریٰ کے پاس بھی نہ ہوں۔ آپؐ نے وہ سب ایک سائل کو بخش دیں۔‘‘ (خُلق کا یہ اظہار ہے۔) ’’اب اگر پاس نہ ہوتا تو کیا بخشتے؟‘‘ (پھر ایک اَور رنگ ہے) ’’اگر حکومت کا رنگ نہ ہوتا تو یہ کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ واجب القتل کفّار مکّہ کو باوجود مقتدرتِ انتقام کے بخش سکتے ہیں۔‘‘ (قدرت رکھتے ہیں، طاقت ہے اس کے باوجود بخش دیا) ’’جنہوں نے صحابہ کرامؓ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مسلمان عورتوں کو سخت سے سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی تھیں جب وہ سامنے آئے تو آپ نے فرمایا۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم۔ میں نے آج تم کو بخش دیا۔ اگر ایسا موقع نہ ملتا تو ایسے اخلاق فاضلہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کیونکر ظاہر ہوتے‘‘۔ آپ ؑفرماتے ہیں کہ ’’کوئی ایسا خُلق بتلاؤ جو آپؐ میں نہ ہو اور پھر بدرجہ غایت کامل طور پر نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 132 تا 134 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ وہ کامل نمونے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس رسول کے اُسوہ کی تم بھی حتّی الوسع، اپنی طاقت اور اپنی استعدادوں کے مطابق پیروی کرو تو ہمیں سنّت کی پیروی کرنے کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ ایک جدوجہد کرنی ہو گی۔ صرف یہ کہہ دینا کہ اس اُسوہ پر ہم کس طرح چل سکتے ہیں؟ یہ کافی نہیں ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے رسول کے وہ اخلاقِ فاضلہ ہیں جو ہمارے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی تم نے پیروی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنانے کا حکم دیا ہے تو پھر اس کے لئے کوشش اور مجاہدے کی ضرورت ہے۔

پس یہ وہ اصولی بات ہے جو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اپنے ہر عمل کو تقویٰ کے تابع کرتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو۔ حضرت مصلح موعود ؓ کے اس دعائیہ شعر پر ختم کرتی ہوں:۔

اے خدا دل کو مرے مَزرَعِ تقوٰی کر دیں
ہوں اگر بد بھی تو تو بھی مجھے اچھا کر دیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔ اُسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے۔ اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کر نا چاہے تو ہر گر نہ ہوگا۔‘‘ (تقویٰ ایسی چیز نہیں کہ بناوٹ سے حاصل ہو جائے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا) ’’اس لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تا کید فرمائی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ492 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

(مدثرہ عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

ٹبورا، تنزانیہ میں پہلی مسجد کی تعمیر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2022