• 28 اپریل, 2024

قادیان دارالامان کی چند مساجد کا تعارف

قادیان کا نام اس کے بانی مرزا ہادی بیگ صاحب نے سولہویں صدی میں الٰہی مشیت سے ’’اسلام پور‘‘ رکھا تھا۔ اس میں یہ الٰہی مشیت پوشیدہ تھی کہ اس بستی سے اسلام کی احیا کے لئے موعود امام نے ظاہر ہونا تھا۔ ’’اسلام پور‘‘ کے نام میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ اسلام کے جملہ ارکان کی ازسرنو تکمیل کےسامان اس مقدس بستی سے وابستہ ہیں۔

چنانچہ قادیان دارالامان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احیاء کا اس کو مرکز بنایا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک رکن پنج وقتہ نماز کا با جماعت مسجد میں ادا کرنا ہے۔ احادیث شریف میں بھی نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔نماز کی باجماعت ادائیگی کے لئے مساجد بنانے کا حکم بھی قرآن مجید سے ملتاہے۔

اسلام میں مساجد کو جو خاص روحانی مقام حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔یہ وہ مرکزی نقطہ ہے۔جس کے ارد گرد اسلامی سوسائٹی کے تمام نیک اعمال چکر لگاتے ہیں۔ یہ اس مقدس کعبۃ اللہ کا عکس ہے جو دنیا میں خدااور انسان کا پہلا گھر قرار دیا گیاہے۔ یہ تصویری زبان اس روحانی تعلق کا ظاہری اور مادی نشان ہےجو ایک نیک بندے کو اس کے آسمانی آقا کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ اسلامی مساوات کی ایک بولتی ہوئی تصویر ہے۔جس کے سامنے کسی سرکش اور متکبر انسان کو اپنے کسی غریب اور عاجز بھائی کے مقابل پر بڑائی کا دم بھرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی اور نہ ہونی چاہئے۔ یہ وہ چوبیسوں گھنٹے کھلا رہنے والا روحانی ہسپتال ہے۔جس میں ہر دکھتے ہوئے دل پر رحمت کا ہاتھ رکھا جاتا ہے۔یہ وہ امن و عافیت کا حصارہے جس میں داخل ہو کر انسان دنیا کی فکروں اور اس سفلی زندگی کی پریشانیوں سے نجات پاتا ہے۔

اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں احمدیہ مسلم جماعت کے ساتھ مساجد حرمت کے قیام اور اس کی عظمت کو دوبالا کرنا خاص طور پر وابستہ کر دیا گیا ہے۔ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر، جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن 1984ء)

مساجد کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک مقام پرفرماتے ہیں:
’’جماعت احمدیہ کی مساجد کا شمار اُن مساجد میں نہیں ہوتا جو وقتی جوش اور جذبے کے تحت بنا دی جاتی ہیں اور صرف مسجدوں کی ظاہری خوبصورتی کی طرف توجہ ہوتی ہے نہ کہ اس کے باطنی اور اندرونی حسن کی طرف۔ ہماری مساجد وہ نہیں ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی مساجد کا حُسن ان کے نمازیوں سے ہوتا ہے، اس میں عبادت کے لئے آنے والے لوگوں سے ہوتا ہے۔ ہماری مساجد کی بنیادیں تو ان دعاؤں کے ساتھ اٹھائی جاتی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدا کے گھر کی بنیادیں اٹھاتے وقت کی تھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍جون 2005ء صفحہ5-6)

قادیان دارالامان اور اس کے ساتھ ملحق دو دیہات جو اب قادیان کے حلقہ میں شمار ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لیکر اب تک بننے والی مسجد وں کی کل تعداد 17 ہے۔ ان مساجد کے علاوہ 4 نماز سینٹر بھی موجود ہیں۔

مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی تعمیر شدہ ہیں۔یہ دونوں ہی مساجد ایسی ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کثرت کے ساتھ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانہ میں دو مسجدیں تعمیر و آباد ہوئیں یعنی مسجد نور اور مسجد فضل۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں آٹھ مساجد بنیں لیکن تقسیم ملک کے بعد ان میں سے تین مساجد ایسی ہیں جو ابھی تک جماعت کو نہیں ملی ہیںیعنی مسجد سٹار ہوزری فیکٹری،مسجد دارالسعۃ اور مسجد دارالفضل۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے عہد خلافت میں ایک مسجد تعمیر و آباد ہوئی یعنی مسجد ننگل باغباناں۔

باقی چار مسجدیں حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہد خلافت میں تعمیر و آباد ہوئیں۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تمام مسجدوں میں پانچ وقت باجماعت نمازیں ہوتی ہیں۔

قارئین کرام! اس مختصر تمہید کے بعد قادیان دار الامان میں موجود چند مساجد کا مختصر تعارف و تاریخ پیش خدمت ہے۔ اس مضمون میں قادیان دارالامان کی مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک کا تعارف شامل نہیں ہے۔ ان دونوں مساجد کا تعارف ایک دوسرے مضمون میں شامل اشاعت ہے۔

مسجد نور

مسجد نور قادیان کی اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اور دارالعلوم (موجودہ حلقہ دارالسلام کوٹھی) کی آبادی کا آغاز مسجد نور سے ہوا۔ اس تاریخی مسجد کی بنیاد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے 5؍مارچ 1910ء کو بعد نماز فجر اپنے دست مبارک سے رکھی اس موقعہ پر احمدیوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اکبر شاہ خان نجیب آبادی کے ہاتھ سے پہلی اینٹ لے کر اپنے ہاتھ سے گارا لگا کر متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ رکھی اور اینٹوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ کر عمارتوں اور مسجدوں کے حقیقی فلسفہ پر ایک پُر معارف تقریر فرمائی۔

23؍اپریل 1910ء کو جبکہ مسجد کا ایک کمرہ تیار ہوچکا تھا آپؓ نے نماز عصر پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا۔ اور اس کے بعد سورہ انبیاء کے چھٹے رکوع کا در س بھی دیا۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ311)

مسجد نور پرپانچ ہزار روپیہ کے قریب صرف ہوا جس میں سےاڑھائی ہزار روپیہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے جماعتوں میں گھوم کر بطور چندہ وصول کیا اور بقیہ اڑھائی ہزار ڈاکٹر سید محمدحسین شاہ صاحب کی ہمشیرہ کی ایک وصیت سے آگیا۔ مسجد کی تکمیل کے بعد فضل صاحب مختار خلیفہ ریاست پٹیالہ نے اگست 1910ء میں تین سو روپیہ اس کے فرش کے لئے اور پچاس روپے نلکا لگوانے کے لئے بھجوائے اور یکم نومبر 1910ء سے اس کےلئے ایک مستقل خادم مقرر ہوا۔ 13؍1912ء میں اس کا وسیع صحن تیار کرایا گیااور جلسہ سالانہ یہیں منعقد ہونے لگے۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ312)

1913ء سے لے کر 1923ء تک جلسہ سالانہ قادیان مسجد نور کے وسیع صحن میں ہی منعقد ہوتا رہا۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلداول صفحہ442)

اسی مسجد میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد مؤرخہ 14؍مارچ 1914ء کو جماعت نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ  کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفۃ ثانی منتخب کیا۔ بعد انتخاب اسی مسجد میں تقریباً دو ہزار افراد نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی تعمیل میں خلافت سے وابستہ رہنے کا عہد کیا تھا۔

تقسیم ملک کے بعد اس مسجد کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا لیکن خلافت رابعہ کے دور میں دوبارہ 1990ء کو کھول دیا گیا۔اور یہاں نماز جمعہ ادا کی جاتی رہی۔

(بحوالہ میری پسند دیدہ بستی قادیان دارالامان صفحہ122)

2006ء میں جب دارالسلام کوٹھی میں انجمن کے کواٹر تعمیر ہونے شروع ہوئے اور اس علاقہ میں احمدی آبادی بڑھنے لگی تو اس مسجد میں بھی پنجوقتہ نماز ادا کی جانے لگی۔

مسجد فضل

مسجد فضل خلافت ثانیہ کی یادگار ہے۔اس کی بنیاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے دست مبارک سے 12؍اپریل 1914ء کو رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ پیشتر یہاں مسجد ہی تھی۔ مگر غیر احمدی ترک نماز سے اس قدر غافل ہوئے کہ اپنے مویشی باندھنے لگے۔ آخر بعض بوڑھوں کے شور کرنے پر سرکاری معائنہ ہوا اور احمدیہ جماعت کو مسجد بنانے کی اجازت مل گئی۔ اس مسجد کے حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی پیش امام مقرر تھے۔

(بحوالہ قادیان گائیڈ صفحہ76-77)

تقسم ملک کے بعدبھی اس مسجد میں درویشانِ کرام نمازیں ادا کرتے رہے۔ بعد میں نامساعد حالات کی وجہ سے مسجد کو عارضی طور پر بند کر دیاگیا۔ لیکن جب اس مسجد کے قرب وجوارمیں احمدی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تواس مسجد میں باجماعت نمازیں ادا کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ پھر اپریل 2012ء میں اس کی از سر نو تعمیر شروع ہوئی اور اسے پہلے سے زیادہ کشادہ کردیا گیا۔ از سر نوتعمیر کے دوران ملبہ قادیان کے خدام نے وقار عمل کے ذریعہ سے نکالا۔

مسجد ناصر آباد

اس مسجد کی تعمیر 1913ء میں ہوئی۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے 1911ء میں محلہ دورالضعفاء (ناصر آباد) میں غرباء کے لئے مکانات تعمیر کرنے شروع کئے۔ 1913ء تک 8 گھر تعمیر ہو چکے تھےجن کے لئے ایک مسجد کی بھی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔چنانچہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی ہی کوششوں سے مسجدکا تعمیری کام شروع ہوا۔

(بحوالہ الفضل 23؍جولائی 1913صفحہ1 ایضاً قادیان گائیڈ صفحہ77)

دارالضعفاء کے پاس جناب قبلہ میر ناصر نواب صاحب کی مساعی جمیلہ نے ایک مسجد (پختہ) کی بنیاد رکھی ہے۔ جس کی دیواریں نصف کے قریب تیار ہو چکی ہیں۔ امید ہے ان شاء اللّٰہ بہت جلد یہ خانۂ خدا مکمل ہوکر قبلہ میر صاحب کے لئے اجر عظیم کا موجب ہوگا۔

(الفضل قادیان دارالامان 23؍جنوری 1916ءصفحہ1)

روزِتعمیر سے لیکر آج تک اس مسجد میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی ہو رہی رہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَلِکَ

خلافت رابعہ کے دور میں اس کی توسیع عمل میں آئی اور اسے پہلے سے زیادہ وسیع اور کشادہ کر دیا گیا۔

مسجد رحمٰن

اس مسجد کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دعاؤں کے ساتھ مؤرخہ 2؍اپریل 1927ء کو اپنے دست مبارک سے رکھی۔

(بحوالہ الفضل 8؍اپریل 1927ء صفحہ1)

محلہ دارالرحمت میں ہونے کی وجہ سے یہ مسجد دار الرحمت کہلاتی رہی۔ اس مسجد کے لئے ایک کنال زمین خاندان حضرت مسیح موعودؑ نے وقف کی تھی۔جماعت کے بعض مخیر احباب کے چندہ سے یہ مسجد بن کر تیار ہوئی۔

(بحوالہ الحکم 14تا21 جنوری 1940ء صفحہ14)

تقسیم ملک کے بعد اس مسجد کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا لیکن خلافت رابعہ کے دور میں محلہ دارالرحمت میں احمدی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے دوبارہ کھول دیا گیا۔

ابتداء سے لیکراب تک (یعنی25؍جنوری 2016ء تک) مسجدرحمن کا نام مسجد دارالرحمت چلا آرہا تھا۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26؍جنوری 2016ء کو مسجد دارالرحمت کا نام بدل کر مسجدرحمٰن تجویز فرمایا۔

مسجد سبحان

اس مسجد کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دعاؤں کے ساتھ مؤرخہ 18؍فروری 1935ء میں اپنے دست مبارک سے رکھی۔

(بحوالہ الفضل 21؍فروری 1935ء صفحہ1)

محلہ دار البرکات میں ہونےکی وجہ سے یہ مسجد دارالبرکات کہلاتی رہی۔اس مسجد کے لئے ایک کنال زمین خاندان حضرت مسیح موعودؑ نے عطیہ کی تھی۔

(بحوالہ الحکم14تا 21 جنوری 1940ء صفحہ14)

تقسیم ملک کے بعد اس مسجد کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔جب محلہ دار البرکات میں احمدی آبادی میںاضافہ ہوگیا تو اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔

ابتداء سے لیکراب تک (یعنی25؍جنوری 2016ء تک) مسجد سبحان کا نام مسجد دارالبرکات چلا آرہا تھا۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26؍جنوری 2016ء کو مسجد دارالبرکات کا نام بدل کر مسجدسبحان تجویز فرمایا۔

مسجد ممتاز

اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 1935ء میں ہوا۔ بعض معاندین احمدیت نے رُکاوٹ پیدا کرنےکی کوشش کی مگر عارضی رُکاوٹ کے بعد 1936ء میں اس کی تکمیل ہوئی اور مؤرخہ 23؍مارچ یوم مسیح موعودؑ کے بابرکت دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عصر کی نماز اس مسجد میں پڑھاکر اس کا افتتاح فرمایا۔

(بحوالہ الفضل 26؍مارچ 1936ء صفحہ2)

تقسیم ملک کے وقت یہ مسجد عارضی طور پر بند کر دی گئی تھی۔ریتی چھلّہ میں نورہسپتال کی جدید عمارت کے بعد اسے دوبارہ کھو ل دیا گیا۔

ابتداء سے لے کر اب تک (یعنی25؍جنوری 2016ء تک) مسجد ممتاز کا نام مسجد دارالفتوح چلا آرہا تھا۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26؍جنوری 2016ء کو مسجددارالفتوح کا نام بدل کر مسجد ممتاز تجویز فرمایا۔

مسجد دارالفضل

10 اپریل 1930ء کو صبح 8بجے حضور نے محلہ دارالفضل میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور مع شاندار مجمع کے دیر تک دعا فرمائی۔

(الفضل قادیان 15؍اپریل 1930ءصفحہ1)

تقسیم ملک کے وقت یہ مسجد غیروں کے قبضہ میں چلی گئی اور اب تک جماعت کے قبضہ میں نہیں آئی۔مسجد دارالفضل کے بارہ محترم حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’محلہ دارالفضل میں واقعہ ہے۔ایک کنال اراضی خاندان نبوت نے از راہ کرم اس کی تعمیر کے واسطے وقف فرمائی۔پانچ ہزار تراسی روپیہ کے صرف سے پایۂ تکمیل کو پہنچی۔کنواں اور وضو کا انتظام ہے۔اب قاضی سید غلام حسین صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محکمہ وٹرنری نے دس مرلہ اراضی اور مسجد کے ساتھ اپنی طرف سے وقف فرمائی ہے۔

(بحوالہ الحکم قادیان 14 تا 21 جنوری 1940ء صفحہ14)

مسجد سٹار ہوزری فیکٹری

مسجد سٹار ہوزری فیکٹری بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عہد خلافت میںبنی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آباد ہوئی۔تقسیم ملک کے وقت یہ مسجد غیروں کے قبضہ میں چلی گئی۔موجودہ پربھاکر نیوز ایجنسی کے عقب کا حصہ سٹار ہوزری فیکٹری ہواکرتی تھی۔ اور تقسیم ملک سے قبل اس جگہ مسجد سٹار ہوزری ہواکرتی تھی۔اس مسجد کے بارہ میں محترم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’احمدیہ بازار کے دوستوں نے محنت اور کوشش کرکے چبوتری سے مسجد بنا کرکھڑی کی۔ اراضی زیر مسجد خاندان نبوت کی عطا ہے۔ جو انہوں نے اپنے مختار عام مرحوم شیخ نور احمد صاحب کو بطور ہبہ علاوہ اور اراضی عطا فرما ئی تھی۔ سات سو دو مربع فٹ رقبہ مع سقف و صحن ہے۔ کنواں اور غسل خانہ برابر موجود ہے۔‘‘

(بحوالہ الحکم قادیان 14تا 21 جنوری 1940ء صفحہ14)

مسجد دارالسعۃ

مسجد دارالسعۃ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عہد خلافت میں بنی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آباد ہوئی۔ تقسیم ملک کے وقت یہ مسجد غیروں کے قبضہ میں چلی گئی اور اب تک جماعت کے قبضہ میں نہیں آئی۔مسجد دارالسعۃ کے بارہ میں محترم حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانیؓ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ بارہ مرلہ اراضی زیر مسجد اہل محلہ کی محنت کوشش اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔جس کے لئے خواجہ معین الدین صاحب لائق صد آفرین و مرحبا ہیں کہ انہوں نے ادھر سے، کچھ ادھر سے کوشش کرکراکے ایک ننھی سی خوبصورت مسجد کھڑی کر دی۔ جس میں زیرسقف قریباً چالیس آدمی بآسانی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور اس کی ڈیوڑھی صحن میں باقی اراضی محدود بہ چار دیواری باغیچہ یا زمانہ ترقی میں وسعت مسجد کے لئے محفوظ ہے۔‘‘

(بحوالہ الحکم قادیان 14 تا 21جنوری 1940ء صفحہ14)

مسجد طاہر

یہ مسجد تقسیم ملک کے بعد ننگل میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ اس کی تعمیر1997ء میں ہوئی۔ اور مؤرخہ15؍فروری 1997ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور نے اپنے دست مبارک سے اس کا افتتاح فرمایا۔

(بحوالہ الفضل 7؍اگست1997ء صفحہ9)

حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 25؍مارچ 2011ء کو مسجد احمدیہ ننگل کا نام بدل کر مسجد طاہر تجویز فرمایا۔

(ماخذ از ریکارڈ دفترلوکل عمومی)

مسجد انوار

مسجد انوار کی تعمیر 1939ء کے آغاز میں ہوئی۔

(الفضل 30؍مئی 1939ء صفحہ2)

22؍مارچ 1940ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ومصلح موعودؓ نے اس کا افتتاح مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھا کر کیا۔

(الفضل 24؍مارچ 1940ء صفحہ2)

تقسیم ملک کے بعد اس مسجد کو عارضی طور پر بندکر دیا گیا تھا۔ خلافت رابعہ کے دورمیں اسے دوبارہ کھول دیا گیا۔ اور 1991ء میں جبکہ جدید گیسٹ ہاؤس دارالانوار کی تعمیر ہوئی اس کے ساتھ ہی اس مسجد کو بھی ضروری مرمت اور رنگ و روغن کرواکر استعمال کیا جانے لگا۔جامعہ احمدیہ کے سرائے طاہر میں منتقل ہونے پر یہ مسجد بہت تنگ محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ اگست2007ء میں اس کی از سر نو تعمیر شروع ہوئی اور اسےپہلے سے زیادہ کشادہ کردیا گیا۔ دسمبر 2008ء تک اس کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔ اور اس کا نام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد انوار‘‘ تجویز فرمایا۔ الحمد للّٰہ علی ذٰلک

مسجد محمود (کاہلواں)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے مسجد محمود کے لئے مسٹر سردار گیات سنگھ صاحب سے10مرلہ زمین خرید ی گئی۔ مسجد بن جانے کے بعد مزید 3مرلہ زمین مکرم محمود احمد صاحب سابق خادم مسجد مبارک و اقصیٰ سے خریدی گئی۔ 9؍نومبر 2011ء کو محترم ناظر صاحب اعلیٰ (مولانا محمد انعام صاحب غوری) نے بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی بعدازاں دیگر ناظران و درویشان نے بنیادی اینٹیں رکھیں۔ مسجد محمود میں زیادہ تر کام وقارعمل کے ذریعہ سے کیا گیا۔ نیز اس مسجد کو بنانے کے لئے جو اخراجات ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے احباب قادیان سے بطور عطیہ وصول کئےگئے۔ احباب قادیان نے اس بابرکت تحریک میں دل کھول کر حصہ لیا جس سے مبلغ 50لاکھ روپے تک وصولی کی گئی۔ جو کہ دومساجد (یعنی مسجد محمود اور مسجد بشارت) کی تعمیر میں صرف ہوا۔ اور اس طرح مکرم مبارک احمد صاحب شیخوپوری اور مکرم حافظ شریف الحسن صاحب کےزیر نگرانی یہ مسجد 2012ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

18؍جولائی 2012ء کو محترم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے مسجد محمود کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد میں 200 نمازیوں کی گنجائش ہے۔

(بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان 23؍اگست 2012ء صفحہ14)

مسجد بشارت

مسجد بشارت تقسیم ملک سے قبل بھی مسجد ہی تھی لیکن تقسیم ملک کے وقت جب احمدیوں کو قادیان چھوڑ کر جانا پڑا تو یہ مسجدقبضہ سے چلی گئی۔لیکن 2011ء میں جب حضور انور نے قادیان میں مسجد بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو یہ زمین جو مسٹر جرنیل سنگھ ولد پیارا سنگھ کے قبضہ تھی جماعت احمدیہ نے خرید کر اس جگہ از سرنو مسجد کا تعمیر ی کام شروع کر دیا۔ 11؍دسمبر 2011ء کو محترم ناظر صاحب اعلیٰ (مولانا محمد انعام صاحب غوری) نے بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی بعدازاں دیگر ناظران و درویشان نے بنیادی اینٹ رکھی۔

18؍جولائی 2012ء کو محترم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے مسجد بشارت کابھی افتتاح فرمایا۔ اس مسجد میں 100نمازیوں کی گنجائش ہے۔

(بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان 23؍اگست 2012ء صفحہ14)

مسجد مسرور

تقسیم ملک کے بعد خلافت رابعہ کے دور میں مسجد نور کودوبارہ 1990ءمیں کھول دیا گیا تھا لیکن2006ء کو آباد کیا گیا۔ جب کوٹھی دارالسلام میں صدر انجمن احمدیہ کے کواٹر تعمیر ہوئے اور محلہ احمدیہ سے نیز دارالمسیح سے آبادی کو یہاں شفٹ کیاگیا اس وقت مسجد نور میں باقاعدہ نمازوں کی ادائیگی ہونے لگی۔مگر چونکہ کوٹھی دارالسلام اور مسجد نور کے درمیان اس وقت سکھ نیشنل کالج آجاتا ہے اور بعض مخالفین کی ریشہ دوانیاں بڑھ جانےپر ایک علیحدہ مسجد بنانے کے لئے حضور انور ایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بغرض منظوری لکھا گیا۔حضور انور نے ازراہ شفقت کوٹھی میں نئی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے کوٹھی دارالسلام میں 36 مرلے زمین پرمشتمل ایک مسجد کی تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد اکتوبر2013ء؍ کومحترم وکیل صاحب تعمیل وتنفیذنے رکھا بعد ازاں محترم ناظر صاحب اعلیٰ (محمد انعام صاحب غوری) نے بنیادمیں اینٹ رکھی اس کے بعد سہ انجمنو ں کےناظران و درویشان کرام نے بنیادمیں اینٹ رکھی۔مسجد کے لئے حضور انو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسرور نام تجویز فرمایا۔

اپریل 2015ء کویہ مسجد بفضلہ تعالیٰ پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس مسجد میں ساڑھے چار صد نمازی بآسانی نماز ادا کر سکتے ہیں۔مسجد کے چاروںاطراف چھوٹے چھوٹے خوبصورت منار بھی بنائے گئے ہیں۔ جس سے مسجد اور بھی زیادہ خوبصورت ہوگئی ہے۔2016ء سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے مسجد مسرور میں بھی نماز جمعہ ادا کی جانے لگی ہے۔

مسجد مہدی

حلقہ کاہلواں میں احمدی آبادی میں اضافہ ہونےپر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سےمنظوری حاصل ہونے کے بعد 2003ء میں ’’مسجد مہدی‘‘ کے لئے ایک لاکھ بیس ہزارروپئے (1,20,000) میں 12مرلہ زمین مکرم مولوی مظفر احمد صاحب ظفر سے ستمبر2003ء کو خریدی گئی۔ موضع کاہلواں میں بننے والی یہ مسجد پہلی مسجد ہے۔ تقسیم ملک سے قبل موضع کاہلواں سالم سکھوں کا گاؤں تھا۔ اسی وجہ سے یہاں پہلے کسی مسجد کے آثار نہیں پائے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدیت کی برکت سے خلافت رابعہ کے دور میں اس گاؤں (یعنی حلقہ کاہلواں) میں بھی جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق ملی۔ الحمدللّٰہ علی ذلک

2004ء کو محترم مولانا محمد انعام صاحب غوری ناظر اعلیٰ وامیر مقامی قادیان نے اس مسجد کی بنیاد کے لئے پہلی اینٹ رکھی (2004ء میں آپ بطور ناظر اصلاح و ارشاد خدمت بجالارہے تھے) بعد ازاں مکرم مولانا محمد کریم الدین صاحب شاہد صدر صدر انجمن احمدیہ نے بنیادی اینٹ رکھی (2004ء میں آپ بطور ناظم وقف جدید بیرون خدمت بجا لا رہے تھے)۔ نیز مکرم تنویر احمد خادم صاحب، مکرم منیر احمد خادم صاحب اور مکرم اطہرالحق صاحب نے بھی بنیاد میں اینٹ رکھی۔ اس مسجد کی لمبائی 25فٹ ہے اور چوڑائی بھی 25فٹ ہی ہے۔ مسجد میں تقریباً 75؍نمازیوں کی گنجائش ہے۔

اللہ تعالیٰ ان مساجد کو ہمیشہ آباد رکھے۔آمین

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

ٹبورا، تنزانیہ میں پہلی مسجد کی تعمیر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2022