• 16 مئی, 2024

جنوبی افریقہ میں احمدیت کا آغاز اور کیپ ٹاؤن میں مسجد کی تعمیر

تعارف

جنوبی افریقہ براعظم افریقہ کے انتہائی جنوب میں واقع ہے اور دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ہے اس کےایک طرف انڈین اوشن ہے جبکہ دوسری طرف پیسیفک اوشن، اس لحاظ سےیہ ملک براعظم افریقہ اور دنیا کا کنارہ ہے اور اس ملک کے مشہور شہر کیپ ٹاؤن سے احمدیت کا آغاز ہوا اور اس طرح یہ شہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے پورا ہونے کا موجب بنا کیونکہ اس شہر کے بعد پھر آگے سمندر ہی سمندر ہے جس کی انتہاء جزیرہ انٹار کٹیکا پر ہوتی ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

اس ملک کا رقبہ چار لاکھ اکہتر ہزار چار سو پنتالیس مربع میل ہے۔ 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی چھ کروڑ سے زائد ہے اس میں سےپانچ کروڑ کے قریب سیاہ فارم ہیں جو کہ آبادی کا قریباً 81 فیصد ہے، سفید فارم کی آبادی قریباً سینتالیس لاکھ سے زائد ہے اور مقامی افریقن قبائل اور یورپ سے ہجرت کرکے آنے والے لوگوں کے میل ملاپ اور شادی بیاہ سے جو آگے نسل چلی اسے کلرڈ لوگ کہا جاتا ہے یہ کوئی پچاس لاکھ سے زائد ہیں جبکہ ایشیائی لوگوں کی تعداد جس میں انڈونیشیا ملیشیا ہندوستان اور پاکستان وغیرہ کے لوگ شامل ہیں یہ سب ملا کر کوئی دس لاکھ سے اوپر ہیں۔

جنوبی افریقہ کے بڑے بڑے شہر درج ذیل ہیں

1۔ جوہانسبرگ Johannes Burg۔ 2پورٹ الزبتھ Port Elizabeth ۔ 3 ڈربن Durban۔4 پری ٹوریا Pretoria اور کیپ ٹاؤن Cape Town ہے۔ الحمد للّٰہ ان میں سے اکثر شہروں میں اس وقت چھوٹی بڑی جماعتیں قائم ہیں۔

جنوبی افریقہ میں احمدیت کا تعارف

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’ینصرک رجالّ نوحی الیھم من السماء‘‘ کے مطابق 1915ء میں جنوبی افریقہ کے ایک دوست مکرم علاؤ الدین صاحب نے اپنے ایک خواب کی بنا پر احمدیت قبول کی۔ انہوں نے اپنی بیعت کے خط میں لکھا:
’’حضرت مرزا صاحب جن کا حلیہ یہ ہے نے مجھے رؤیا میں فرمایا کہ تم مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ نام تو سنا ہوا ہے فرمایا وہ تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ قیامت نزدیک ہے موجودہ خلیفہ کے ہاتھ پر جلد سلسلہ میں داخل ہوجاؤ ورنہ افسوس کروگے۔‘‘

(الفضل 16؍مارچ 1915ء صفحہ1 کالم 2)

مگر جنوبی افریقہ میں احمدیت (یعنی جماعت مبائعین) کا تعارف مکرم ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب کے ذریعہ سے ہوا جو ابتدائی عمر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان آئے جہاں ان کی ملاقات مکرم خواجہ کمال الدین صاحب سے ہوئی اور Star Street لنڈن میں مقیم بعض اور احمدیوں سے بھی تعارف ہوا اور پھر 1918ء میں حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب مبلغ انگلستان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوگئے۔

(our foreign Mission P25)

ایک لمبے عرصے تک احمدیت کی آغوش میں تربیت پانے کے بعد مکرم ڈاکٹر سلیمان صاحب کے دل میں احمدیت کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا خیال پیدا ہوا۔چنانچہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ قادیان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کے موقعہ پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر ہو کر تبلیغ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے 18 مارچ 1946ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
’’ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گذاری ہے انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی ہے لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا ان کے والد امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اس پر گزارہ کرتے ہیں ان کے والد کیپ ٹاؤن کے علاقے کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندی نٹال (Natal) (صوبہ) کے اور دونوں ملکر کام کیا کرتے تھے جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندی کئی دفعہ ہمارے گھر آکر ٹھہرتے اور کئی دفعہ ہم ان کے گھر جا کر ٹھہرتے ………..میں نے کہا کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں انہیں استاذ کر کے بھیج سکتے ہیں۔ میں کہوں گا کہ مجھے اپنےلئے دین کے استاد کی ضرورت ہے اس طرح وہ میرے استاد بن کر جاسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ وہاں جائیں اور استاذ کے لئے درخواست دے دیں اجازت ملنے پرہم وہاں اپنا مبلغ بھیج دیں گے…………اب دیکھو یہ خدائی سامان ہے نہ ارادہ نہ خیال۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آرہے ہیں۔اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا اور اچانک خداتعالیٰ کی طرف سے ساؤتھ افریقہ میں تبلیغ احمدیت کے سامان پیدا ہوگئے۔‘‘

مکرم ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب قادیان سے واپس انگلستان پہنچے جہاں سے تبلیغ دین کا عزم صمیم دل میں لئے 13؍اکتوبر 1946ء کو جنوبی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ606۔607)

مکرم ڈاکٹر صاحب نے جنوبی افریقہ پہنچ کر احمدیت کی تبلیغ و اشاعت شروع کی آپ نے نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود بڑی محنت اور تندہی کے ساتھ کام کیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کی مساعی بارآور ہوئی اور چھ سال کے عرصہ میں کئی دوست احمدیت میں داخل ہوئے۔ اس طرح جنوبی افریقہ میں احمدیت آہستہ آہستہ پروان چڑھنے لگی۔

مکرم ڈاکٹر صاحب کی وفات 1952ء میں لنڈن میں ہوئی آپ کا جنازہ انگلستان سے ساؤتھ افریقہ لایا گیا جہاں کیپ ٹاؤن کے سینکڑوں مسلمانوں اور دوسرے دوستوں نے تدفین میں شرکت کی۔

مکرم ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعدا یک مخلص احمدی اور ڈاکٹر صاحب موصوف کےقریبی دوست مکرم ہاشم ابراہیم صاحب نے جماعت کے کام کو آگے بڑھایا اور تبلیغی سرگرمیوں میں احباب جماعت کی راہنمائی کرتے رہے۔

(Our Foreign Mission P26)

عارضی مشن ہاؤس اور نماز سینٹر کا قیام

ابتداء میں مکرم ہاشم ابراہیم صاحب کا گھر جماعت کا مرکز اور نمازوں اور دیگر تقریبات کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ لیکن جماعت کی سرگرمیوں میں وسعت کے پیش نظر جماعت کے مرکز کے لئے علیحدہ جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ 1967ء میں جماعت نے مسجد اور مشن کے لئے ٹاؤن کے ایک حصہ جس کا نام ایتھلون ہے میں ایک پلاٹ خریدا۔

مسجد کی تعمیر

مسجد کے لئے 1967ء میں خرید کردہ پلاٹ پر تعمیر کا آغاز 1970ء میں ہوا۔ مسجد کا سنگ بنیاد محترمہ عائشہ بٹ نے رکھا جو قدیم احمدی ہونے کے علاوہ احمدیت کا درد رکھنے والی بڑی مخلص اور نیک خاتون تھیں آپ مکرم ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب مرحوم کی ہمشیرہ تھیں۔

(فائل جنوبی افریقہ 70-84 صفحہ18)

اس مسجد کی بعد میں توسیع کی گئی اور مینار بھی بنایا گیا۔

مسجدکی تعمیر پر مبلغ 3750پونڈز خرچ آیا اس کی شکل مستطیل اور چھت مسطح ہے۔ جماعت احمدیہ ساؤتھ افریقہ کے صدر اور امام مکرم ہاشم ابراہیم صاحب نے 9؍اپریل 1971ء کو نماز جمعہ کے بعداس کا افتتاح کیا یہ مسجد نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ جماعتی اور تبلیغی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔ مسجد سے ملحق ایک مکان بھی خرید لیا گیا جو کہ بطور مشن اور مبلغ سلسلہ کی رہائش کیلئے زیر استعمال ہے۔ اس مسجد کا نام بیت الاول ہے۔ اس میں لجنہ اماءاللہ کی نمازوں کی ادئیگی کے لیے گیلری ہے جسے علیحدہ داخلی راستہ دیا گیا ہے اور اس حصہ کے نیچے مردوں کے لئے وضو کرنے کی جگہ ایک دفتر کا کمرہ مہمانوں کے استقبال کےلیے کمرہ جس میں قران کریم کے مختلف تراجم کی نمائیش اور حوالہ جات کے لئے اہم کتب بھی رکھی گئی ہیں۔

کیپ ٹاؤن میں جماعت کا مشن ہاؤس جو کہ مسجد سے ملحقہ مگر دوسرے سڑک پر واقع ہےیہ مسجد گلی کے کارنر پر ہے

قارئین الفضل سے ساؤتھ افریقہ کی جماعت کی ترقی کے لئے دعا کی عاجزانہ درخواست ہے۔

(منصور احمد زاہد۔ نمائندہ الفضل آن لائن جنوبی افریقہ)

پچھلا پڑھیں

نطم

اگلا پڑھیں

عشق جب بھی کیا والہانہ کیا