• 17 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 28؍جنوری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍جنوری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

٭… غزوہ حمراء الاسد ، غزوہ بنو مصطلق اور غزوہ احزاب کے دوران حضرت ابو بکرؓ کی خدمات کا تذکرہ
٭…واقعہ افک یعنی حضرت عائشہؓ بنت حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائے جانے والے واقعہ کا بیان
٭…غزوہ احزاب کے لیے خندق کھودنے کے وقت حضرت ابوبکرؓ مسلمانوں کے ایک حصّے کی قیادت کر رہے تھےاوربعد میں اس جگہ ایک مسجد بنائی گئی جسے مسجد صدیق کہا جاتا ہے
تین مرحومین مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مختار احمد گوندل صاحب، مکرم میر عبد الوحید صاحب اور مکرم سید وقار احمد صاحب آف امریکہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 28؍جنوری 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت ابوبکرؓ کا ذکر ہو رہا تھا،آج بھی یہی ذکر چلے گا۔ غزوہ حمراء الاسد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ ہفتے کے دن احد سے تشریف لائے تو اگلےہی روز علی الصبح حضرت عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی نے قریش کے دوبارہ حملے سےمتعلق مشاورت اور تیاری کی خبر دی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے مشورےکےبعد دشمن سے مقابلے کے لیے روانگی کافیصلہ کیا اور اعلان کروادیاکہ ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روز لڑائی میں شامل تھا۔اس موقعے پر آپؐ نے اپنا جھنڈا حضرت علیؓ یا ایک اور روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے سپرد فرمایا۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ ابھی مدینے سے آٹھ مِیل کے فاصلے پر حمراءالاسد ہی پہنچا تھا کہ مشرکین نےخوف محسوس کرتے ہوئے مدینے کا ارادہ ترک کردیا اور واپس مکّے روانہ ہوگئے۔

غزوہ بنونضیر چار ہجری میں ہوا۔نبی کریمﷺ دس صحابہ بشمول حضرت ابوبکرؓ بنوعامر کے دو مقتولوں کی دیت وصول کرنے یہودیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نےآپؐ کو کھانے کی پیش کش کی۔ حضورﷺ ایک دیوار کےساتھ بیٹھے تھے کہ یہودیوں نے آپس میں سازش کی کہ آنحضرتﷺ کو ختم کرنےکا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ عمرو بن جحاش نے یہ حامی بھری کہ وہ مکان کی چھت پر چڑھ کر آپؐ پر ایک بڑا پتھر گرادے گا۔ سلام بن مشکم نامی ایک سردار نے یہود کواس ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ بدعہدی ہے اور جو کچھ تم سوچ رہے ہو انہیں ضرور اس کی خبرمل جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آنحضرت ﷺ کے پاس آسمان سے اس سازش کی خبر آگئی، حضورﷺ فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر تیزی سے مدینے تشریف لے آئے۔ آپؐ نے حضرت محمد بن مسلمہ کو بنو نضیر کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ تم میرے شہر سے نکل جاؤ کیونکہ جو منصوبہ تم لوگوں نے بنایا تھا وہ غداری تھی۔ آنحضرتﷺ نے یہود کو دس روزکی مہلت دی۔یہودیوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے۔ اس پر آنحضرتﷺ نے بنونضیر کے قلعوں کاسختی کےساتھ محاصرہ کیا اور ان کی مدد کے لیے کوئی نہ آیا۔ خداتعالیٰ نے یہودیوں کے دلوں پر ایسا رعب ڈالا کہ آخر وہ جلاوطنی کے لیے تیار ہوگئے۔رسول اللہﷺ نے انصار کی اجازت سے غزوہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والا مالِ غنیمت مہاجرین میں تقسیم کر دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اے انصار کی جماعت اللہ تمہیں جزائے خیر عطا کرے۔

غزوہ بدرالموعد چار ہجری کا واقعہ ہے۔ ابوسفیان نے احد سے واپسی پر اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال ہماری ملاقات بدرالصفراء کےمقام پر ہوگی ہم وہاں جنگ کریں گے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا اسے کہو ان شاء اللہ۔ بدر مدینے سے جنوب مغرب میں 150کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اس جگہ ہرسال یکم ذی قعدہ سے آٹھ روز تک ایک بڑا میلہ لگا کرتا تھا۔ اگلے سال جب وعدے کا وقت نزدیک آیا تو ابوسفیان مقابلے سے گھبرانے لگا اور تمام عرب میں یہ بات مشہورکردی کہ وہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رہا ہے تاکہ مسلمان اس تیاری کی خبر سے گھبرا جائیں اور مقابلے کے لیے نہ آئیں۔ آنحضورﷺ پندرہ سَو صحابہ کے ساتھ بدر روانہ ہوئے لیکن ابوسفیان لشکر کے ساتھ وہاں نہ آیا ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اسلامی لشکر آٹھ دن بدر میں ٹھہرا رہا یہاں صحابہ نے میلے میں تجارت کرکے کافی نفع کمایا حتیٰ کہ اپنے راس المال کو دوگنا کرلیا۔

غزوہ بنو مصطلق شعبان پانچ ہجری میں ہوا۔ آنحضورﷺ تک یہ خبر پہنچی تھی کہ بنو مصطلق نے مسلمانوں پر حملے کا ارادہ کیا ہے اس پر حضورﷺ نے سات سَو اصحاب کے ساتھ پیش قدمی فرمائی۔ ایک روایت کے مطابق اس موقعے پر مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کے پاس تھا۔

واقعہ افک یعنی حضرت عائشہؓ بنتِ حضرت ابوبکرؓ پر منافقین کی طرف سے تہمت لگائے جانےکا واقعہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر پیش آیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے مروی روایت کے مطابق اس غزوے سےواپسی پر ایک رات حضرت عائشہؓ قضائے حاجت کے لیے گئیں۔ جب آپؓ واپس آئیں تو آپ نے اپنا اظفار کے نگینوں کا ہار گم پایا۔ آپؓ ہار تلاش کرنے گئیں اور جب واپس آئیں تو لشکر روانہ ہوچکا تھا۔ صفوان بن معطل ذکوانی جو لشکر کے پیچھے تھے انہوں نے آپؓ کو احترام کے ساتھ اونٹنی پر سوار کرایا اور لشکر سے آملے۔ مدینے پہنچ کر آپؓ بیمارہوگئیں اور منافقین میں طرح طرح کی باتیں پھیل گئیں۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ مَیں ان سب باتوں سے بےخبر تھی لیکن مجھے بیماری میں یہ بات بےچین کرتی کہ مَیں نبی کریمﷺ سے وہ مہربانی نہ دیکھتی تھی ۔جب آپؓ کو اس بات کا علم ہوا توآپؓ کی بیماری اور بڑھ گئی چنانچہ آپؓ حضورﷺ کی اجازت سے اپنےوالدین کے گھر آگئیں۔ حضورﷺ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت علیؓ سے اس معاملے کے متعلق رائے لی۔حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ مَیں سارا دن روتی رہتی اور میرے آنسو نہ تھمتے نہ مجھے نیند آتی۔ ایک مہینہ اسی طرح گزرا اور پھر ایک روز رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عائشہ! اگر تم بَری ہو تو اللہ ضرور تمہاری بریت فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی لغزش ہوگئی ہے تو اللہ سے مغفرت مانگو اور توبہ کرو۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے والدین کو خاموش پاکر عرض کیا کہ بخدا! مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ بات آپ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی ہے ۔ اللہ کی قَسم! مَیں اپنی اور آپ لوگوں کی مثال یوسف کے باپ کی سی پاتی ہوں جنہوں نے کہا تھا کہ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ۔ یعنی اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لیے مناسب ہے اور جو بات تم بیان کرتے ہو اس کے تدارک کے لیے اللہ ہی سےمدد مانگی جاسکتی ہے۔ اس کے فوری بعد رسول اللہﷺ پر وحی نازل ہوئی اور جب وحی کی کیفیت جاتی رہی تو آپؐ تبسّم فرمارہے تھے اور پھر حضورﷺ نےفرمایا کہ اے عائشہ! اللہ کی تعریف بیان کرو کہ جس نے تمہاری بریت فرمائی۔حضرت عائشہؓ کی والدہ نے کہا کہ اے عائشہ!اٹھو اور رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! مَیں آپ ﷺ کے پاس نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سِوا کسی کی حمد نہیں کروں گی۔

حضرت ابوبکرؓ جو مسطح بن اثاثہ کو بوجہ قریبی رشتےداری کے خرچ دیا کرتے تھے جب اللہ نے حضرت عائشہؓ کی بریت نازل فرمادی تو حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ مسطح بن اثاثہ کو خرچ نہیں دیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تم میں سے صاحبِ فضیلت اور صاحبِ توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔

اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مسطح کا خرچ دوبارہ شروع کر دیا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اسے توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہے۔

قریشِ مکّہ اور مسلمانوں کے درمیان تیسرا بڑا معرکہ غزوۂ احزاب شوّال پانچ ہجری میں ہوا۔بنونضیر کے یہود جلاوطنی کے بعد خیبر چلے گئے تھے۔وہاں جاکر انہوں نے قریشِ مکّہ اور دیگر عرب قبائل سے معاہدے کیے اور دس ہزار کا لشکر تیار کرلیا۔ جب یہ خبر حضورﷺ کو ملی تو آپؐ نے مشاورت کی اورحضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے مدینے کی شمالی سمت جو کھلی تھی چھ دن میں اُس جانب تقریباً ساڑھے تین مِیل خندق کھودی گئی۔ خندق کھودنے میں کوئی مسلمان پیچھے نہ رہا۔ جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو ٹوکریاں نہ ملتیں تو جلدی میں اپنے کپڑوں میں مٹی منتقل کرتے۔ حضرت ابوبکرؓ مسلمانوں کے ایک حصّے کی قیادت کر رہے تھےاور بعد میں اس جگہ ایک مسجد بنادی گئی جسےمسجدِ صدیق کہا جاتا تھا۔

حضرت ابوبکرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل تین مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا:

  1. مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مختار احمد گوندل صاحب جو 11؍جنوری کو 93برس کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ صوم وصلوٰة کی پابند، غریب پرور، نیک اور جماعتی خدمات بجالانے والی خاتون تھیں۔ آپ کے بیٹے افتخار احمد گوندل صاحب مربی سلسلہ سیرالیون میں خدمات کی توفیق پارہے ہیں۔
  2. مکرم میرعبدالوحید صاحب جو 12؍اور 13؍جنوری کی رات 58 برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کے خاندان پر ستمبر 2020ء میں توہینِ رسالت کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا تھا۔ آپ کے ایک بیٹے عبدالمجید صاحب (عمر تقریباً بیس سال) اس وقت اسیرِ راہِ مولیٰ ہیں اور وہ اپنے والد کے جنازے اور تدفین میں شریک بھی نہیں ہوسکے۔
  3. مکرم سیّد وقار احمد صاحب آف امریکہ جو 17؍ جنوری کو 58برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مرحوم کی اہلیہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی پڑنواسی اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پڑپوتی ہیں۔ مرحوم نہایت درجہ نیک،ملنسار، مخلص، سادہ مزاج، نظامِ جماعت اور مربیان کا احترام کرنے والے، خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار، مالی قربانیوں میں پیش پیش اور خلافت کی مثالی اطاعت کرنے والے تھے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں نے دیکھا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کا عہد ہمیشہ نبھاتے رہے۔ کسی رشتے کی پرواہ نہیں کی اور خلافت کی اطاعت سے کبھی باہر قدم نہیں رکھا۔

حضورانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

(بشکریہ الفضل انٹرنیشنل)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ 28؍جنوری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ