• 14 مئی, 2024

’’لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو‘‘

’’لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو‘‘
(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام کو سمجھتے ہیں، ہم تو اس حدیث کو صرف مسلمانوں تک محدودنہیں رکھتے بلکہ ہمارے نزدیک تو اس کی وسعت دنیا کے ہر امن پسند انسان تک ہے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان مسلمان سے محفوظ ہے لیکن حضرت مصلح موعود نے اس کی وسعت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ صرف مسلمان تک محدودنہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر سلامتی پسند اور امن پسند شخص محفوظ رہتا ہے۔ پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حقیقی اِدراک جو تقویٰ سے ملتا ہے۔ اُن علماء کے پاس تو یہ تقویٰ ہے نہیں۔ وہ تو اپنی اَناؤں اور مفادات کے مارے ہوئے ہیں۔ نتیجۃً اس فہم و ادراک سے بھی محروم ہیں۔ پس جب تک ان کے ذاتی مفادات ختم نہیں ہوتے، جب تک ان میں قربانی کا مادہ پیدا نہیں ہوتا اور قربانی کا مادہ پیدا ہوتا ہے رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی روح کو سامنے رکھ کر اور اس پر عمل کرتے ہوئے، اُس وقت تک چاہے کوئی جتنا بھی بڑا جُبّہ پوش ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مومن نہیں ہے۔ اور جو حقیقی مومن نہیں ہے اُس نے دوسروں کی رہنمائی کیا کرنی ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک مولوی صاحب نے بیان دیا کہ احمدی ناسور ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کے ناسور بیان کرنا چاہتا تھا، ملک کے یا کہاں کے؟ بہرحال احمدی تو ناسور نہیں ہیں۔ احمدی تو اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروا کر شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ احمدی وہ ہیں جن کی باتیں سن کر غیر مسلم بھی کہتے ہیں، اسلام کے خلاف لکھنے اور بولنے والے بھی کہتے ہیں کہ تمہارے اسلام اور دوسرے اسلام یا دوسرے علماء کے اسلام میں فرق ہے۔ یہ کیوں ہے؟ تب ہمیں بتانا پڑتاہے کہ ہمارا اسلام وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا۔ ہمارا اسلام وہ ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہے۔ اس کے مقابلے میں مولویوں کا جو اسلام ہے وہ ان کا خود ساختہ اسلام ہے اور مذہب کے نام پر ذاتی مفادات کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم اُمّہ کی آنکھیں بھی کھولے، اُن کے سینے بھی کھولے اور اُنہیں حقیقی اسلام سے روشناس کروائے جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کے ذریعہ سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔

بہر حال ان باتوں کے علاوہ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اپنے بارے میں بھی سو فیصد ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہم ہر طرح، ہر سطح پر یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ پر عمل کرنے والے ہیں یا اس کی مثال کہلانے والے ہیں۔ اگر ہر کوئی اپنے جائزے لے تو اس کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہ صورت نظر آئے گی کہ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بڑے پیمانے پر نہ سہی، چھوٹے پیمانے پر ہی، اپنے ماحول میں ہی ہمیں اپنی یہ حالت نظر نہیں آتی اور جب چھوٹے پیمانے پر اس قسم کی حرکتیں شروع ہو جائیں تو پھر یہی بڑے بگاڑ بن جایا کرتی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اُس کی رحمت کے اپنے لئے تو خواہاں ہوتے ہیں لیکن دوسروں پر رحم کرنا اور معاف کرنا نہیں جانتے۔ اگر ہم رحم کے جذبے سے دوسروں کا خیال رکھنے والے ہوں تو جماعت کے بہت سے تربیتی مسائل اور قضائی مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ وَلۡیَعۡفُوۡا وَلۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (النور: 23) کہ پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
’’لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو غفور و رحیم ہے‘‘۔

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ387)

پس اللہ تعالیٰ کی بخشش کا کون ہے جو خواہشمندنہ ہو۔ ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتا ہے جس کو اِس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل کی ضرورت ہے اور اگلے جہان میں بھی، وہ تو اللہ تعالیٰ سے اپنے قصوروں کے معاف کرانے کا ہر وقت حریص ہوتا ہے۔ اگر یہ ٹھیک بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو تو پھر تم بھی میری اس صفت کو اپناؤ اور میرے بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں رحم کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ ابھارو۔

(خطبہ جمعہ یکم مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر39)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2022