• 3 مئی, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر39)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر39

اس سبق میں ہم وقت یا زمانہ کے لحاظ سے افعال یعنی Verb کی اقسام کے بارے میں بات کریں گے۔

ماضی

1۔ ماضی مطلق 2۔ ماضی ناتمام 3۔ ماضی تمام 4۔ شرطیہ 5۔ احتمالی

ماضی مطلق: اس میں صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ایک فعل یا کام گزشتہ زمانے میں ہوا ہے۔ جیسے احمد گیا، اکبر بھاگا۔

ماضی مطلق بنانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ فعل یعنی Verb کے آخر میں الف بڑھا دیا جاتا ہے۔ جیسے بھاگ سے بھاگا۔ اگر فعل کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو بجائے الف کے یا بڑھادیتے ہیں۔ مثلاً رو سے رویا، کھا سے کھایا۔ ہونا سے ہو اس قاعدے سے آزاد ہے۔ یعنی یہ نہیں کہیں گے کہ فلاں کام ہویا جبکہ فعل کہ آخر میں واؤ ہے بلکہ کہیں گے فلاں کام ہوا۔ اسی طرح جا سے گیا، کر سے کیا، اور مر سے مرا بھی بے قاعدہ یعنی Irregular verbs ہیں۔پرانی اردو میں مرا سے موا بھی استعمال ہوتا تھا مگر اب مر سے مرا استعمال ہوتا ہے البتہ موا بطور صفت Adjective استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ادھ موا، موئی مٹی وغیرہ۔

ماضی ناتمام: اس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ گزشتہ زمانے میں کام جاری تھاجیسے وہ کھا رہا تھا، یا کھاتا تھا۔ ان دونوں مثالوں میں سے جو دوسری مثال ہے وہ عادت یا مستقل رویےکو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے دو اور بھی طریقے ہیں جیسے کھایا کرتا تھا۔ کھاتا رہتا تھا۔اس کے علاوہ ماضی ناتمام ایک اور طرح سے بھی ظاہر کی جاتی ہے۔ مثلاً کہتا رہا، کھاتا رہا، تکتا رہا اکثر یہ صورت فعل یعنی Verb کے جاری رہنے کو ظاہر کرتی ہے یا کسی ایسی حالت کو بتاتی ہے جبکہ دو کام ماضی میں ایک ساتھ ہوتےرہے ہوں مثلاً میں ہر طرح منع کرتا تھا مگر وہ کھیلتا رہا۔ بارش ہوتی رہی اور وہ نہاتا رہا۔ ان صورتوں کے علاوہ ماضی ناتمام کی ایک چوتھی صورت بھی ہے۔ جیسے پکارا کیا، بکا کیا، سنا کیا، اور یہ صورت بھی وہی معنی دیتی ہے جو گزشتہ صورت دیتی ہے۔

پہلی صورت کے جملے

وہ (مذکر، واحد)کھا رہا تھا۔ یہاں فاعل ایک ہے اور مذکر ہے۔ وہ (مونث، واحد) کھا رہی تھی۔ یہاں فاعل ایک ہے اور مونث ہے اور اس وجہ سے رہا بدل کر رہی ہوگیا اور تھا بدل کر تھی ہوگیا۔آپ نے ان باتوں کو ذہن نشیں کرنا ہے کہ مذکر اور مونث کی تبدیلی سے جملے کی ساخت میں کہاں کہاں تبدیلی ہوتی ہے۔ اگلا جملہ دیکھتے ہیں۔ وہ (مذکر، جمع)کھارہے تھے۔ یہاں فاعل ایک سے زائد ہیں اور مذکر ہیں اس لئے رہا بدل کر رہے ہوگیا اور تھا بدل کر تھے ہوگیا۔ ایک اور جملہ دیکھئے۔ وہ (مونث، جمع)کھارہی تھیں۔ یہاں فاعل ایک سے زائد ہیں اور مونث ہیں پس اس کے مطابق ہی امدادی فعل جسے انگریزی میں helping verbs کہا جاتا ہے میں تبدیلی آگئی ہے۔ ان فقرات میں رہا، رہی، رہے، تھا، تھی، تھے، تھیں امدادی فعل ہیں۔ ہم (مذکر، جمع)کھارہے تھے۔میں کھا رہا تھا۔

منفی جملے: اب اگر ہم نے ماضی ناتمام میں منفی جملے بنانے ہوں تو فعل سے پہلے نہیں کا اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسے ان جملوں میں کھانا فعل ہے تو اس سے پہلے نہیں کا اضافہ کردیں گے۔ جیسے وہ نہیں کھارہا تھا۔ ہم نہیں کھا رہے تھے۔

سوالیہ جملے: سوالیہ جملہ بنانے کے لئے جملے کے شروع میں یا فاعل کے بعد کیا، کیوں،کب، کیسے،کہاں وغیرہ لگاتے ہیں۔ تاہم ان الفاظ کی جگہ بدلنے سے مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔جیسے کیا وہ کھا رہا تھا؟ کیا وہ کھا رہی تھی؟ کیا وہ کھا رہے تھے؟ کیا وہ کھا رہی تھیں؟ کیا تم کھا رہے تھے؟ کیا آپ کھارہے تھے؟ اب اگر کیا کی جگہ بدل دیں اور اسے فاعل کے بعد لے جائیں جو کہ ان جملوں میں وہ ہے۔ تو پوچھنے والا اس چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہوگا جو کھائی جارہی ہے۔ جیسے وہ کیا کھا رہا تھا؟

سوالیہ نفی جملے: ان جملوں میں سوال بھی ہوتا ہے اور اپنے موقف کی تصحیح بھی کروائی جاتی ہے۔ جیسے کیا وہ نہیں کھا رہا تھا؟ وہ کیوں نہیں کھا رہا تھا؟ وہ کیسے کھا رہا تھا؟

دوسری صورت کے جملے

اس صورت میں عادت یا مستقل رویے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسے وہ کھاتا تھا۔وہ کھایا کرتا تھا۔ وہ کھاتا رہتا تھا۔ان تینوں صورتوں میں کہنے والا یہ نہیں کہ رہا کے جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کھا رہا تھا۔ بلکہ اس کی ایک مستقل عادت کی بات ہورہی ہے کہ وہ کھاتا تھا۔ دوسرے جملے میں یہ بتایا جارہا ہے کہ فلاں چیز وہ کھایا کرتا تھا مگر اب نہیں معلوم کہ وہ کھاتا ہے یا نہیں۔ تیسری صورت میں یہ کہا گیا ہے کہ کھانا اس کی ایک پسندیدہ عادت تھی یعنی وہ بہت کھاتا تھا۔ باقی آئندہ ان شاء اللہ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
یورپین لوگ ایک قوم سے معاہدہ کرتے ہیں۔ اس کی ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں کہ دراز عرصہ کے بعد بھی نئی ضرورتوں اور واقعات کے پیش آنے پر بھی اس میں استدلال اور استنباط کا سامان موجود ہوتا ہے۔ ایسا ہی قرآن شریف میں آئندہ کی ضرورتوں کے مواد اور سامان موجود ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ225 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

معاہدہ: وہ قرارداد جو فریقین کے مابین ہو اور جس کی رو سے ہر فریق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اقرار کرے، باہمی عہد و پیمان، عہدنامہ، قول وقرار، قانون۔ Treaty

ترکیب عبارت: ترکیب یعنی بناوٹ، ساخت، وضع۔ عبارت یعنی (زبانی یا تحریری) بیان، مضمون، تحریر، اسلوب (معنی یا مفہوم کے مقابل)، املا، تسوید، تحریر، متن، مضمون۔معاہدے کی تحریر کے لئے الفاظ کے چناؤ میں ایسی حکمت عملی یعنی strategy استعمال کی جاتی ہے جو بعد میں پڑنی والی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔

ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں: یہاں رکھ دینا کا مطلب ہے باقاعدہ سوچ بچار اور منصوبہ بندی سےکسی چیز کو کسی چیز کا پوشیدہ فطرتی حصہ بنادینا۔ جو بعض مخصوص مواقع یا ضرورتوں میں خودکار طور پر حرکت میں آجائے یا مدد دے مگر عام حالات میں بظاہر پوشیدہ رہے یا بے اثر رہے جیسے انگریزی میں کہتے ہیں built- in

دراز عرصہ: دراز یعنی بہت طویل، پھیلا ہوا، کئی سالوں، مہینوں پہ مشتمل۔ عرصہ یعنی وقت، مدت، زمانہ، دور، لمحہ، ساعت، منٹ وغیرہ Period/time span

پیش آنا: آگے آنا، رکاوٹ بننا۔

استدلال: دلیل پیش کرنا، سند لانا، دلیل، ثبوت، بحث۔ یعنی دو قوموں میں ایک معاہدہ ہے اور کوئی نئی صورت حال یا ضرورت پیش آگئی تو معاہدے کے الفاظ میں ایسی گنجائش یا حکمت رکھی جاتی ہے کہ بحث ہوسکے اور نئے معاملات کو نمٹایا جاسکے۔

استنباط: معلوم باتوں سے نامعلوم بات دریافت کرنے کا عمل، چند باتوں کو ملا کر عقل کی مدد سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا۔ایک مضمون جو پہلے سے موجود ہو اس عقل و تدبر اور دلیل سے اضافہ کرنے کا عمل۔

سامان: گنجائش، امکان، علامات، اسباب، محرک۔

مواد: کسی چیز کی تیاری سے پہلے اس کے خام اجزا Raw material جس سے وہ چیز بنے گی، کسی شے کی تیاری کا بنیادی سامان، کسی چیز کے اجزائے ترکیبی ingredients، ضروری اجزا، لوازم، اسباب۔ کوئی چیز جو کام کرنے یا ترقی دینے کے لیے خام شے کا کام دے۔ کسی معاملے کے وہ تمام متعلقات جن سے وہ معاملہ صورت پذیر ہو، آثار، مبادی اور دلائل، دلیل، وجوہ، براہین۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

وقت کی تبدیلی نوٹ فرمالیں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ