خلافت کے غلاموں کو جو شیطاں نےستایا ہے
خدا نے بارہا پہلے بھی ان کو آزمایا ہے
کھرا ہے کون اور کھوٹا یہاں پر کون ہے ان میں
خدا نے ابتلاؤں میں یہی سب کو دکھایا ہے
کہیں سستی نہ ہوجائے، کہیں منزل نہ کھو جائے
کچھ ایسے زلزلوں نے ہی تو غفلت سے جگایا ہے
خدا کا قرب پانے کا وسیلہ ایک ہی ہے بس
خلافت ہی کے قدموں میں یہ دل ہم نے بچھایا ہے
تھی قربت بھی خلافت سے، نجابت بھی تھی دو طرفہ
تجھے یوں شامتِ اعمال نے نیچے گرایا ہے
مسیحا کی جماعت کو ہو کیسا خوف فتنوں سے
خلافت کے توسط سے خدا کا سر پہ سایا ہے
خلافت نورِ یزدانی ازل سے جس کا وعدہ ہے
کہاں اس کو کبھی کافر نے پھونکوں سے بجھایا ہے
خلیفہ اس جہاں میں اک نمائندہ خدا کا ہے
خدائی عرش دنیا میں خلافت نے دکھایا ہے
نبوت امر ربی ہے خلافت سلسلہ اس کا
ہوئی تھی تخم ریزی جو تو اس کا پھل بھی پایا ہے
نظامِ آسمانی سے زمینی آگ ڈرتی ہے
خس و خاشاک تھا اس آگ نے جس کو جلایا ہے
ترے ایماں کا ہے پھر امتحاں مطلوب مولیٰ کو
نئے اک سامری نے جھوٹ کا بچھڑا بنایا ہے
یہ منصب ہے خلافت کا، سیاست مت اسے سمجھو
وہ بندہ ہے مگر اس میں خدا کا نور آیا ہے
(ابن الواحد)