سورۃ المرسلات، النبا، النازعات، عبس اور التکویر کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ المرسلات
یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی اکاون آیات ہیں۔
اس سورت کے آغاز ہی میں پھر مستقبل کے وہ واقعات جو دورِ آخرین سے تعلق رکھتے ہیں بیان فرمائے گئے ہیں اور اس زمانہ کی سائنسی ترقی کے ذکر کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے کہ جس اللہ نے ان غیبی امور کی خبر دی ہے وہ ہر قسم کے انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ چنانچہ کچھ ایسے اُڑنے والوں کا ذکر ہے جو آغاز میں آہستہ آہستہ اڑتے ہیں اور پھر تیز آندھیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ فی زمانہ تیز ترین جہازوں کا بھی یہی حال ہے کہ آہستہ آہستہ روانہ ہوتے ہیں اور پھر ان کی رفتار میں بے حد سرعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ان جہازوں کے ذریعہ دشمن سے لڑائی کے دوران کثرت سے اشتہار پھینکے جاتے ہیں اور یہ فرق ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ ہو تو ہم تمہارے مدد گار ہوں گے ورنہ ہماری پکڑ سے تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔
پھر فرمایا: پس جب آسمان کے ستارے ماند پڑ جائیں گے اور جب آسمان پر صعود کے لئے انسان مختلف تدابیر اختیار کرے گا۔ یہاں ستارے ماند پڑنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب صحابہ رضوان اللہ علیہم کا دَور بھی گزر چکا ہو گا اور وہ روشنی جو ان ستاروں سےآپؐ کی امّت حاصل کیا کرتی تھی وہ بھی ماند پڑ چکی ہو گی۔
پھر فرمایا: جب بڑی بڑی پہاڑوں جیسی قوتیں جڑوں سے اکھیڑ دی جائیں گی اور تمام رسول مبعوث کئے جائیں گے۔ اس آیت کے متعلق علماء یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ قیامت کا نظارہ ہے۔ لیکن قیامت میں تو کوئی پہاڑ اکھیڑے نہیں جائیں گے اور رسول تو اس دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن تو مبعوث نہیں کئے جائیں گے۔ پس مراد لازماً یہی ہے کہ قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل غلامی اور اطاعت کے نتیجہ میں ایک ایسا نبی برپا ہو گا جس کا آنا گزشتہ سب رسولوں کا آنا ہو گا۔ یعنی اس کی سعی سے ہر گزشتہ رسول کی امّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں داخل ہو گی۔
جن آئندہ جنگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ تین شعبوں والی ہوں گی یعنی برّی بھی، بحری بھی اور فضائی بھی۔ اور آسمان سے ایسے شعلے برسیں گے جو قلعوں سے مشابہ ہوں گے، گویا وہ جوگیا رنگ کے اونٹ ہیں۔ ان دونوں آیات نے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ یہ باتیں تمثیلی رنگ میں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی ایسی جنگ کا تصور موجود نہیں تھا جس میں آسمان سے شعلے برسیں۔ اس لئے لازماً یہ اُس علیم و خبیر ہستی کی طرف سے ایک پیشگوئی ہے جو مستقبل کے حالات بھی جانتا ہے۔
آسمان سے قیامت کے دن تو شعلے نہیں برسائے جائیں گے۔ اس لئے یہ خیال بھی باطل ہوا کہ یہ قیامت کے دن کی خبر ہے۔ یہاں ایک ایٹمی جنگ کی پیشگوئی معلوم ہوتی ہے جس کا ذکر سورۃ دخان میں بھی ملتا ہے کہ اس دن آسمان اُن پر ایسی ریڈیائی لہریں برسائے گا کہ اس کے سائے تلے وہ ہر اَمن سے محروم ہو جائیں گے۔
اس کے بعد پھر اُخروی زندگی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جب ان قرآنی پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں یہ علامتیں ظاہر ہو جائیں تو اس بات پر بھی یقین کرو کہ ایک اُخروی زندگی بھی ہے۔ اگر اس دنیا میں تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرو گے تو اُس دنیا میں سزا کے طور پر بڑا عذاب مقدر ہے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1111-1112)
سورۃ النّبا
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی اکتالیس آیات ہیں۔
اس سے پہلے سورۃ المرسلات میں ایک بنیادی سوال کفار کی طرف سے یہ اٹھایا گیا تھا کہ یومُ الفصل کب آئے گا جو کھرے کھوٹے میں تمیز کر دے گا۔ سورۃ النبا میں اس کے جواب میں یہ نَباِ عظیم دی جا رہی ہے کہ وہ یوم الفصل آچکا۔ اسی سورت میں فرمایا کہ یوم ُ الفصل ایک نہ ٹلنے والا قطعی وعدہ تھا جو وقت مقررہ پر ضرور پورا ہونا تھا۔
پھر یومُ الفصل کی مختلف صورتیں اس عظیم سورت میں بیان ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کے اس نظام کا ذکر دہرایا گیا ہے جو آسمان سے پانی برساتا اور زمین سے غذا نکالتا ہے۔ پھر متوجہ کیا گیا ہے کہ اس سے بنی نوع انسان فائدہ نہیں اٹھاتے اور یہ نہیں سوچتے کہ اصل آسمانی پانی تو روحانی ہدایت کا پانی ہے۔ اس انکار کے نتیجہ میں ان پر جو آفات ٹوٹتی ہیں یا ٹوٹیں گی ان کا اس سورت میں ذکر ملتا ہے
اس سورت کے آخر پر ایک بہت بڑا انتباہ فرما یا گیا ہے کہ اگر انسان نے اسی طرح غافلانہ حالت میں زندگی گزار دی تو انجام کار وہ بڑے درد سے اس حسرت کا اظہار کرے گا کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مٹی ہو جاتا اور مٹی سے انسان کی صورت میں اٹھایا نہ جاتا۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1117)
سورۃ النّازِعات
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی سینتا لیس آیات ہیں۔
قرآنی اسلوب کے مطابق ایک دفعہ پھر اس سورت میں دنیاوی عذابوں اور جنگ و جدال کا تذکرہ ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ ایسی جنگوں کا ذکر ہے جن میں آبدوز کشتیاں استعمال ہوں گی۔
والنَّاِزِعَاتِ غَرْقَاً کا ایک معنی یہ ہے کہ وہ لڑائی کرنے والیاں اس غرض سے ڈوب کر حملہ کرتی ہیں کہ دشمن کو غرق کر دیں اور پھر اپنی ہر کامیابی پر خوشی محسوس کرتی ہیں اور اسی طرح جنگ و جدال کی یہ دوڑ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں صرف ہو جاتی ہے اور دونوں طرف سے دشمن بہت بڑی بڑی تدبیریں کرتا ہوں۔
وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا سے تیرنے والیاں مراد ہیں خواہ وہ سمندر کے اندر غرق ہو کر تیریں یا سطح سمندر پر اور بسا اوقات آبدوز کشتیاں اپنی فتح کے بعد سطح سمندر پر اُبھر آتی ہیں۔
غرضیکہ ان جنگوں سے ایسا لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ دل اس کے خوف سے دھڑکنے لگتے ہیں اور نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ اس دنیاوی تباہی کے بعد انسان کا ضمیر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہم پھر دوبارہ مُردوں سے جی اٹھیں گے جبکہ ہماری ہڈیاں گل سڑ چکی ہوں گی ؟ فرمایا یقیناً ایسا ہی ہو گا اور ایک بہت بڑی تنبیہ کرنے والی آواز گونجے گی تو اچانک وہ اپنے آپ کو میدان حشر میں پائیں گے۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر شروع فرمایا گیا ہے کیونکہ آپؑ کو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا جو خود خدائی کا دعویدار اور آخرت کا بشدّت منکر تھا۔ جب حضرت موسیٰ ؑ نے اسے پیغام دیا تو اُس نے جواباً یہی تعلّی کی کہ تمہارا ربّ اعلیٰ تو میَں ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایسا پکڑا کہ وہ اوّلین و آخرین کے لئے عبرت کا ایک نمونہ بن گیا۔ اوّلین نے تو اسے اور اس کی فوجوں کو غرق ہوتے دیکھا اور آخرین نے اس کے غرق شدہ جسم کو، جسے اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے ظاہری موت سے اس حال میں بچایا کہ لمبی عمر تک وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر اس حال میں مرا کہ اُس کی لاش کو آئندہ نسلوں کے لئے عبرت کے طور پر ممی (Mummy) کی صورت میں محفوظ کر دیا گیا۔
اس کے بعد اس سورت کا اختتام اس سوال کے ذکر پر ہوتا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب اور کیسے آئے گی؟ فرمایا جب وہ آئے گی تو خوب واضح ہو جائے گا کہ ہر چیز کا منتٰہی اس کے ربّ ہی کی طرف ہے اور اے رسول! تُو تو محض اسی کو ڈرا سکتا ہے جو اس بھیانک گھڑی سے ڈرتا ہو۔ اور جس دن وہ اسے دیکھیں گے تو دنیا کی زندگی یوں محسوس ہو گی جیسے چند لمحے سے زیادہ نہیں رہی۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1123)
سورۃ عبس
یہ ابتدائی دَور کی مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی تینتالیس آیات ہیں۔
اس سورة میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ایک متکبر منکر کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کے لئے آیا تھا۔ چونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے انتہا خواہش تھی کہ کسی طرح کوئی ہدایت پا جائے اس لئے اس کے تکبر کے باوجود اس کی طرف کمال شفقت سے متوجہ رہے یہاں تک کہ ایک نابینا مومن آپ ؐ سے کوئی سوال کرنے کے لئے حاضر ہوا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس کی دخل اندازی پسند نہ فرمائی۔ لیکن اس کے نتیجہ میں اپنی نا پسندیدگی کا اظہار اس رنگ میں فرمایا کہ وہ شخص جو مباحثہ کر رہا تھا وہ تو دیکھ سکتا تھا لیکن اس نابینا کی دل شکنی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اسے کچھ پتہ نہ تھا۔ اس ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرماتا ہے کہ جو اخلاص اور شوق سے تیرے پاس آئے اس سے کبھی غافل نہ ہو اور جو تکبر سے کام لینے والا جستجو کے لئے حاضر ہو خواہ وہ دنیا کا بڑا آدمی ہو اس کو مفلوک الحال مخلص پر کسی نوع کی ترجیح نہ دے۔
اس کے بعد قرآن کریم کی عظمتِ شان کا بیان شروع ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب کس طرح کائنات کی ابتدائی تخلیق کے رازوں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے اور اس کے اختتام اور یوم آخرت میں ہونے والے عظیم واقعات کا بھی ذکر کرتی ہے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1129)
سورة التکویر
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی تیس آیات ہیں۔
ایک دفعہ پھر قرآن کریم دنیا میں رونما ہونے والے عظیم واقعات کی خبر دیتا ہے جو قیامت کی گھڑی پر گواہ ٹھہریں گے۔ اور گواہ ٹھہرایا گیا ہے سورج کو جب اسے ڈھانپ دیا جائے گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی کو اس زمانہ کے دشمن بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے نہیں پہنچنے دیں گے اور ان کا مکروہ پروپیگنڈا بیچ میں حائل ہو جائے گا۔ اور جب صحابہؓ کے نور کو بھی دشمن کی طرف سے گدلا دیا جائے گا اور جس طرح سورج کے بعد ستارے کسی حد تک روشنی کا کام دیتے ہیں اسی طرح صحابہ کا نور بھی انسان کی نظر سے زائل کر دیا جائے گا۔ یہ وہ زمانہ ہو گا جبکہ بڑے بڑے پہاڑ چلائے جائیں گے یعنی پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے سمندری جہاز بھی اور فضائی جہاز بھی سفر اور باربرداری کے لئے استعمال ہوں گے اور اونٹنیاں ان کے مقابل پر بے کار کی طرح چھوڑ دی جائیں گی۔ یہ وہ زمانہ ہو گا جب کثرت سے چڑیا گھر بنائے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا اور اس زمانہ کے چڑیا گھر بھی اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے جانور سمندری اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ ان میں منتقل کیے جاتے ہیں کہ اس زمانہ کے انسان کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
پھر غالباً سمندری لڑائیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے جب کثرت سے سمندروں میں جہاز رانی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں دُور دُور کے لوگ آپس میں ملائے جائیں گے یعنی صرف جانور ہی اکٹھے نہیں کئے جائیں گے بلکہ بنی نوع انسان بھی ملائے جائیں گے۔ وہ دَور قانون کا دَور ہو گا یعنی تمام دنیا پر قانون کی حکمرانی ہو گی یہاں تک کہ انسان کو بھی اختیار نہیں دیا جائے گا کہ خود اپنی اولاد کے ساتھ ظلم کا سلوک کرے۔ بظاہر تو سب دنیا پر قانون ہی کی حکومت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون کے انکار کے نتیجہ میں دنیا کا قانون بھی کسی ملک سے فتنہ و فساد دُور نہیں کر سکتا۔ یہ دَور کثرت سے کتب و رسائل کی اشاعت کا دَور ہو گا اور آسمان کے رازوں کی جستجو کرنے والے گویا آسمان کی کھال ادھیڑ دیں گے۔ اس دن دوزخ بھی بھڑکائی جائے گی جو جنگ کی دوزخ بھی ہو گی اور آسمانی غضب کی دوزخ بھی ہو گی۔ اس کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے اور اس پر ثابت قدم رہیں گے ان کے لئے جنت نزدیک کر دی جائے گی۔ ہر شخص کو علم ہو جائے گا کہ اس نے اپنے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔
آیت نمبر16 اور 17میں خفیہ کاروائیاں کر کے پلٹ جانے والی ان کشتیوں کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے جو کاروائیوں کے بعد اپنے مقررہ اڈوں میں جا چھپتی ہیں۔ اس کی تکرار اس لیے ہے کہ یہاں اب روحانی طور پر انسانی نفس پر حملے کرنے والے شیطانی خیالات کا ذکر ہے جو حملہ کر کے پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اور اس رات کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے کہ جب وہ آخر دم توڑ رہی ہو گی اور طلوع فجر کے آثار ظاہر ہو جائیں گے۔ اور بالآخر یہ اندھیری رات اسلام کی صبح پر ضرور منتج ہو گی۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1134)
(عائشہ چوہدری۔ جرمنی)