رمضان اور فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ کے تحت معیارِ زندگی
نوٹ از ایڈیٹر: مضمون نگار نے یہ مضمون نئے سال کی مناسبت سے تحریر کیا ہے۔ لیکن ادارہ کو تاخیر سے ملنے کی وجہ سے الفضل میں جگہ نہ بنا پایا۔ اب جبکہ ایک مؤمن کا روحانی سال رمضان سے شروع ہو تا ہے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ جس کا رمضان خیریت سے گزر گیا،گویا اس کا سارا سال خیریت سے گزر گیا۔ اس ناطے یہ مضمون قارئین کے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
قرآن شریف نے ہمیں کسی کام کی ابتداء یا اختتام کے متعلق متعدد آیات میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کسی کام کا بھی آغاز کرو اس کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرو اور اس کے بخیریت انجام پذیر ہونے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح ؑ کی کشتی میں سوار ہوتے وقت کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَقَالَ ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَجۡؔرٖٮہَا وَمُرۡسٰٮہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
(ھود: 42)
اور اس نے کہا کہ اس میں سوار ہو جاؤ۔ اللہ کے نام کے ساتھ ہی اس کا چلنا اور اس کا لنگر انداز ہونا ہے۔ یقیناً میرا رب بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سورۃ بنی اسرائیل میں دعا سکھائی ہے کہ جب کسی بھی مقام میں داخل یاخروج کرو اور کسی کام کا آغاز یا اختتام کرو تو اللہ تعالیٰ سے سچائی پر قائم رہنے کے لئے مدد مانگو۔
وَقُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۱﴾
(بنی اسرائیل: 81)
ترجمہ: اور تو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لئے طاقتور مددگار عطا کر۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے نئے سال کا آغاز دعاؤں سے کرنے کی ہدایت فرمائی۔چنانچہ نئے سال یا مہینے کی آمد پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے:
اے اللہ! ہمیں اس میں امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ داخل فرما۔ شیطان کے حملوں سے بچا اور رحمٰن کی رضامندی عطاء فرما۔
(الطبراني الأوسط: 6241)
پس ہم سب کو چاہئے کہ ہم اس نئے سال کا آغاز بھی خداتعالیٰ کے نام کے ساتھ کریں۔ زندگی جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دیئے گئے وقت کا نام ہے اس کو خدا تعالیٰ کی رضا اور منشاء کے مطابق گزارنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کامل اور پاک نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات با برکات کی صورت میں ہمیں عطا کیا۔ لہذا ہمیں آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں اپنی زندگی اور اپنے قیمتی وقت کو گزارنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
چنانچہ جب ہم آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں آپ ﷺ کی ذات چار اہم امور کو بڑھانے کے لئے مصروف عمل نظر آتی ہے۔ ان میں سے پہلا امر روحانی معیار کو بلند کر نا ہے۔ پھر اخلاقی، علمی اور جسمانی معیاروں کی بھی آنحضرت ﷺ ہمیشہ سے حفاظت فرماتے اور ان کو بلند کرنے کی کوشش کرتے۔ خاکسار اس مضمون میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ان چار امور کو قائم کرنے اور ان کے معیاربلند کرنے سے متعلق تعلیمات پیش کرے گا تا کہ سال رواں کے آغاز سے ہی ہم ان سے فائدہ حاصل کر کے بہتر انسان اور کامل مومن بن سکیں۔
روحانی معیار
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی ساری زندگی ہی اپنے روحانی معیاروں کو بلند کرتے ہوئے گزری۔ اس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ان الفاظ میں گواہی دی کہ
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
(الانعام: 163)
ترجمہ: تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
*عبادات میں ارکان اسلام کی ترتیب کے مطابق،اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے کے بعد سب سے پہلا فرض پنجوقتہ نماز باجماعت ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کی نمازوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ تو آپؐ سے عرض کیا گیا کہ آپؐ اتنی مشقت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں جب کہ آپؐ کو تو یہ نوید مل چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکے لیے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: تو کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
(شمائل ترمذی باب ما جاء فی عبادۃ رسول اللہ ﷺ)
*ادائیگی نماز کے بعد دوسرا اہم رکن روزہ ہے۔ ہمارے پیارے آقا رمضان المبارک کے علاوہ سال بھر میں متعدد نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ جیسا کہ عید الاضحی کے دن سے پہلے نو دن روزے رکھنا بھی باعثِ ثواب ہے، حدیثِ مبارک میں ان میں سے ہر دن کے روزے کواجر میں ایک سال کے روزوں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔(سنن ترمذی) رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتاہے۔ (ترمذی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دتیا ہے۔ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشور کا روزہ خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری و مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر ان کے بعد چھ شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا یعنی پورے سال کا۔ (نسائی) ایک حدیث میں ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ (طبرانی) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ان میں سے ایک یہ کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھوں۔ (بخاری و مسلم) پیر اور جمعرات کے روزے، پسندیدہ روزوں میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’پیر اور جمعرات کو اعمال (بارگاہ خداوندی میں) پیش ہوتے ہیں۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کر کے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف)
*روزہ کے بعد روحانی معیاروں کو بلند کرنے کے لئےزکوٰۃ اور مالی قربانی کا اہم کردار ہے۔ حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کرلو اور صدقہ و خیرات سے اپنے بیماروں کا علاج کرو۔ (ابو داؤد)
زکوٰۃ کے بعد صاحب استطاعت پر حج بھی فرض ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا شدید مرض نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے (یعنی یہ شخص یہود و نصاری کے مشابہ ہے)۔ (الدارمی)
*اسی طرح با ترجمہ تلاوت قرآن پاک کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنی چاہیئے۔ قرآن شریف کے 540 رکوع ہیں اور سال کے 365 ایام ہوتے ہیں۔ اگر ہم روز انہ دو رکوع با ترجمہ قرآن پاک کی تلاوت کریں گے تو تقریباًدس ماہ میں ایک دور باترجمہ قرآن پاک مکمل کر سکیں گے۔ قرآن کریم کے ایک حرف کو پڑھنے پر دس نیکیوں کے ثواب کا وعدہ موجود ہے جو ہمارے لئے توجہ کا باعث ہے۔
اب رمضان کے مبارک مہینہ میں تو ہر احمدی کو کم از کم ایک بار قرآن ناظرہ کا دور مکمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے۔
اخلاقی معیار
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
(القلم: 5)
ترجمہ: اور یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔
ام المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے متعلق گواہی دیتے ہوئے فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔
(صحیح بخاری وحی کا بیان)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہر انسان 360جوڑوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے جس شخص نے اللّٰہ اکبر، الحمدللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، سبحان اللّٰہ اور استغفراللّٰہ کہا۔ لوگوں کے راستہ سے کوئی پتھر ہٹایا، کوئی کانٹا یا کوئی ہڈی راستہ سے ہٹائی، نیکی کاحکم دیا، یا برائی سے روکا تو یہ360 جوڑوں کی تعداد (کے برابر شکر) ہے اور اس دن وہ اس حال میں چل رہا ہوگا کہ جہنم سے آزا دہوگا۔
(مسلم کتاب الزکوۃ)
اخلاق تو بہت سے ہیں اس موقع پر خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بیان فرمودہ پانچ بنیادی اخلاق کو بیان کرے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے پانچ بنیادی اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’سچائی، نرم زبان کا استعمال، وسعتِ حوصلہ، دوسروں کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنا اور مضبوط عزم و ہمت۔ اگر ہم ان بنیادی اخلاق کو اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنانے والے ہوں گے آئندہ سینکڑوں سالوں تک جماعت کی ترقیات کی بنیاد کو انہی اخلاق پر متمکن دیکھیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 24نومبر 1989ء)
علمی معیار
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں علم اور جسم میں فراخی کو امتیازی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ۔
(البقرہ: 248)
ترجمہ: اس (نبی) نے کہا یقیناً اللہ نے اسے تم پر ترجیح دی ہے اور اسے زیادہ کر دیا ہے علمی اور جسمانی فراخی کے لحاظ سے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بڑا نصیبہ اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے۔
(ترمذی کتاب العلم باب فی فضل فقہ)
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ361)
آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا۔ اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو، تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ403)
جسمانی معیار
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دو نعمتیں انسان پر ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ ان میں غفلت کر جاتے ہیں ایک صحت اور دوسرے فارغ البالی۔
(صحیح بخاری،کتاب الرقاق باب ما جاء في الرقاق)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے۔‘‘
(سنن ابن ماجه كتاب السنة)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’حکماء کہتے ہیں کہ جس قوت کو چالیس دن استعمال نہ کیا جائے، وہ بےکار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک ماموں صاحب تھے، وہ پاگل ہو گئے۔ ان کی فصدلی گئی اور ان کو تاکید کی گئی تھی کہ ہاتھ نہ ہلائیں۔ انہوں نے چند مہینے تک ہاتھ نہ ہلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ لکڑی کی طرح ہو گیا۔ غرض یہ ہے کہ جس عضو سے کام نہ لیا جائے، وہ بے کار ہو جاتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ150)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سال رمضان میں اپنے روحانی، اخلاقی، علمی اور جسمانی معیار کو بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر وہ عمل بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے جو خدا کی رضا کا باعث ہو۔ آمین
(ابن زاہد شیخ)