• 17 جولائی, 2025

خلیفۂ وقت سے ملاقات کے احوال

نوٹ از ایڈیٹر:۔ مکرم چوہدری منیر مسعود نے مبارک صدیقی صاحب کی پیارے حضور سے ملاقات اور اس میں حضور کی ایمان افروز گفتگو سے متاثر ہوکر حضورانور سے ملاقاتوں کی اپنی چند ذاتی یاداشتیں قارئین الفضل کے ذہنوں کو جلا بخشنے کے لئے لکھی ہیں جنہیں مضمون کی شکل میں ہدیہ قارئین پیش کیا جارہا ہے۔

ایسے خوش نصیب احباب و خواتین سے جو کسی خلیفة المسیح سے ملاقات کا شرف پا چکے ہوں ملاقات کے ایسے احوال قارئین الفضل کے لئے لکھنے کی درخواست ہے۔ جو دوستوں کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہوں۔

حضور نے پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا؟

مکرم چوہدری منیر مسعود تحریر کرتے ہیں کہ غالباً دسمبر 2005ء کا واقعہ ہے۔ خاکسار اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر جہانزیب سے ملاقات کے لئے اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ کے سفر پر تھا اور پیارے آقا سے بغرض دعا اور ملاقات یوکے رکا۔ خاکسار اپنی بیٹی کے ہاں قیام پذیر تھا۔ ملاقات کے روز شدید سردی کے باعث اور کوٹ پہن رکھا تھا۔ خاکسار نے اپنی سابقہ روایت کے مطابق پیارے آقا کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کر اور حسب توفیق کچھ نذرانہ کی رقم لفافہ میں رکھ لی کہ مصافحہ اور دست بوسی کے وقت حضور انور کے میز پر رکھ دوں گا۔ کیونکہ ایک ڈیڑھ منٹ کی ملاقات میں اپنے اور جملہ عزیز و اقارب کے پیغامات بیان کرنا ممکن نہیں ہو سکتا ہے اور پیغامات بیان کرنے کے چکر میں پیارے آقا کی نصائح سے ہی محروم نہ رہ جاؤں۔ اس ملاقات سے پہلے ایک واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ جب میں ملاقات کے لئے اپنی حاضری لگوانے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچا تو محترم بشیر احمد صاحب نے ملاقات کرنے والے احباب کی فہرست اپنے سامنے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے میرے نام کے آگے ٹک کا نشان لگایا تو میرے نام کے ساتھ تنظیمی عہدہ میں ناظم انصار اللہ تحریر شدہ نظر آیا جو ملاقات کے لئے فون پر وقت لیتے ہوئے پوچھا گیا تھا۔ مجھے اچانک اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی اور یک دم ذہنی دباؤ میں آ گیا کہ اگر پیارے آقا نے مجھ سے ضلع کے انصار اللہ کی تعداد ہی پوچھ لی تو کیا جواب دونگا؟ جو حقیقتاً ذہنی دباؤ میں آ کر میں بھول بھی گیا تھا۔ اسقدر خوف زدہ ہوا کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ استغفار، درود شریف اور دعاؤں کا ورد شروع کر دیا چند منٹ انتظار گاہ میں اسی کیفیت میں بیٹھنے کے باوجود جب اس کیفیت پر قابو نہ پاسکا تو انتظار گاہ سے باہر نکل کر ٹہلنے لگا۔دعاؤں کیساتھ اس کیفیت سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہا-

دوران ملازمت حضور کی دعاؤں سے معجزانہ طور پر مدد

اسی طرح ایک اور واقعہ جو سال 2003ء کا کچھ اسطرح ہے کہ میری ملازمت سے ریٹائر ہونے میں چند ماہ رہ گئے تھے اور میں ایک سیمی گورنمنٹ ادارہ میں بطور مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیپوٹیشن فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ اسکا عرصہ بھی اختتام پذیر ہو چکا تھا مگر واپس میرے محکمہ میں تعیناتی نہ ہو رہی تھی۔ جس کا باعث میرے محکمہ کے سیکرٹری حکومت پنجاب کا معاندانہ رویہ تھااور مجھے خدشہ تھا کہ سروس بریک آ جائے گی اور پنشن ملنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان صاحب سے ملاقات کرکے واپس محکمہ میں تعیناتی کی بار ہا کوشش کی مگر بے سود۔ ہر سول حکومت کے محکمہ پر ایک فوجی افسر نگران مقرر کی گیا تھا ۔ ایک دن اس فوجی نگران آفسر کے اسٹاف افسر سےملکر اپنا ماجرا بیان کیا اور اسکے خلاف اپنے مذکورہ ثبوت پیش کرکے اپنی مشکل بتائی اور نگران آفیسر سے ملاقات کروانے کو کہا تو اسٹاف آفیسر نے بتایا کہ اس معاند آفیسر نے آپ کو ملازمت سے برخواست کرنے لئے کیس بنا کر گورنر کو بھیج رکھاہے جو کہ زیر کاروائی ہے۔ اچھا ہوا آپ خود آگئے ۔اپنے ثبوتوں والی فائل مجھے دے جائیں میں خود ہی بریگیڈئیر صاحب سے بات کرلونگا پھر جیسے وہ حکم دینگے آپ کو بتا دونگا۔ جب اسٹاف آفیسر سے ملاقات کرکے اپنے دفتر واپس آ رہا تھا تو راستہ میں خیال آیا کہ اگر بامر مجبوری مجھے کور کمانڈر صاحب سے ملنے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے میری نالش سننے کے بعد اگر پوچھا کہ در پیش مشکل میں نے سیکرٹری صاحب کو بتائی ہے تو کیا جواب دونگا ؟ کیونکہ اس مشکل کا علم تو مجھے آج میجر صاحب سے ملاقات کے دوران ہوا۔ اس سوچ کے تابع دفتر پہنچ کر میں نے مذکور ہ افسرکو فون کیا اور ملاقات کا وقت مانگا انہوں نے فوراًآ نے کو کہا جس سے اندازہ ہوا کہ میجر اسٹاف آفیسر کی ان سے ضرور بات ہوئی ہوگی جو انہوں نے نرم لہجہ اور منیر کہنے کی بجائے منیر جی کہہ کر پکارا۔ میں نے اگلے روز ملاقات کا وقت مانگا۔اگلے روز جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے گورنر صاحب کے نام لکھی گئی درخواست کی سمری پڑھائی جس کے مطابق میرا تبادلہ واپس محکمہ میں کرنے کی منظوری دئیے جانا تحریر کیا گیا تھا۔میں نے پڑھ کر فوراً اسے حضور انور کی قبولیت دعا کا نشان قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز ہی تبادلہ ہوگیا۔ فوری طور پر پیارے آقا کو اس کی تحریر ی اطلاع بذریعہ فیکس دی اور دعا کی درخواست کی۔

محکمہ میں آ کر پنشن کے کاغذات
کی تیاری شروع کروا دی

ریٹائر منٹ سے پہلے منظور ہونے کیساتھ قابل ادا واجبات کا بھی تعین ہو گیا جو ریٹائر ہونے کے فوری بعد مل بھی گئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد پیارے آقا کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کے لئے رخت سفر باندھا۔ خلافت خامسہ کے دربار میں پہلی بار حاضر ہوا۔ خلافت کا رعب دل میں تھا جوں ہی مسکراتے رخ انور پر نظر پڑی تو عجیب شفقت کا اظہار ملا۔ مصافحہ اور بیٹھ جانے کو کہنے کے بعد فوراً ارشاد فرمایا آپ کا مسئلہ حل ہوگیا واجبات مل گئے ۔ عاجز نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا ’’ اب آپ کا کیا کر لیں گے؟عرض کیا پیار ےآقا میرے ساتھ تو آپ کی دعائیں تھیں اس لئے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائےگا جو اس نے فرمائی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

منیر صاحب! الفضل میں
آپ کا مضمون پڑھا بہت پیارا تھا

ملاقات کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ خاکسار اپنے بیٹے ڈاکٹر جہانزیب مسعود کی شادی میں شمولیت کے لئے امریکہ گیا۔ انکی نسبت مکرم چوہدری منیر احمد واقف زندگی جو ایم ڈی ٹیلی پورٹ امریکہ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں کی دختر نیک اختر سے طے پائی ہوئی تھی ۔ اس سفر میں بیٹے کی ریاست ویسٹ ورجینا جانے سے قبل عزیزہ کے تحائف پہنچانے کے لئے میری لینڈ گیا جہاں سے بائی ائیر اوہایو ویسٹ ورجینیا جانا تھا۔ اس سفر کے لئے مکرم منیر احمدمجھے ڈیلس ائیر پورٹ چھوڑنے گئے۔ سامان بک کرواتے ہوئے میں نے ہینڈ کیری بھی بک کروا دیا ۔یہ بات ذہن سے محو ہوگئی کہ اس میں ضروری ادویات کے علاوہ ٹیلیفون ڈائریکٹری بھی رکھی ہوئی تھی ۔ بک کرواتے وقت اس امر کا خیال ہی نہ رہا کہ خدا نخواستہ دوران سفر انکی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔سکیورٹی چیک پر حکام نے اتنا وقت صرف کر دیا کہ جب فلائٹ روانہ ہونے والے گیٹ پر پہنچا تو فلائٹ ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں کسٹمر سروسز کاؤنٹر پہنچا۔ اپنا ماجرا بیان کیا (جس کی تفصیل الفضل ربوہ کی 2007ء میں بیان کر چکا ہوں) لیڈی آفیسر نے میری بپتہ سننے کے بعد کمپیوٹر پر کام کرنا شروع کر دیا اور ہنس کر مجھے کہا گڈ لک جنٹلمین۔ اوہایو کے لئے اگلی آخری فلائٹ رات دس بجے ہے اور اس میں صرف ایک ہی سیٹ باقی ہے۔ اس میں آپ جاسکتے ہیں کہہ کر بورڈنگ کارڈ دے دیا۔ میں پریشان کہ مس ہونے والی فلائٹ پر مجھےآگے لینے کے لئے آنے والے جب مجھے نہ پا ئیں گے تو ہر متعلقہ عزیز کے لئے یہ امر باعث تشویش ہوگا۔ اور مشکل یہ کہ میرے پاس کسی کا بھی فون نمبر نہ تھا اور نہ ہی زبانی یاد تھا۔ تین گھنٹے ڈیلس ائیر پورٹ پر انتظار میرے لئے کسی ذہنی عذاب سے کم نہ تھا۔ اور دعا کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بس درود شریف اور دوسری دعاؤں کا ورد کرتا رہا اور ان دعاؤں کے ساتھ بیٹے کے فون نمبر کو یاد کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ فون بوتھ پر جا کر با لآخر جو نمبر بار بار ذہن میں ملایا تو درست نکلا اور بیٹے سے بات ہوگئی۔ انہیں صورتحال سے آگاہ کرکے منیر صاحب کو میری لینڈ اور عزیزم ڈاکٹر انوار الدین کو اوہایو اطلاع دینے کی گزارش کی اس طرح یہ پریشانی قدرے رفع ہوئی۔ جب آئندہ سال پیارے آقا سے ملاقات ہوئی۔ سلام، مصافحہ کرنے کے بعد مسکرا کر حضور فرمانے لگے۔ منیر صاحب !الفضل میں آپ کا مضمون پڑھا بہت پیارا تھا۔ اللہ اللہ !قربان جاؤں اپنے پیارے امام پر کہ اتنی مصروفیت کے باوجود الفضل کا مطالعہ اور اس پر تقصیر نابکار کا مضمون یاد رکھنا۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنے خلفاء کو کیا اچھا قوت حافظہ عطاء فرمایا ہے۔ ما شاء اللّٰہ۔

پیارے آقا سے ایسی جرات سے سوال کرنا جیسے مبارک صدیقی صاحب نے کئے ہیں میرے چشم تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔ جب بھی دربار خلافت میں دست بوسی کے لئے حاضر ہوا ہوں، زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ پیارے حضور انور کی نظر شفقت ہے کہ خود سوال کرکے بولنے کا موقع عطاء فرماتے ہیں اور ملاقات کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے مزید دو واقعات یاد آ رہے ہیں جن کا ذکر کئے دیتا ہوں۔

خوشی دوبالا ہوگئی

ایک مرتبہ حضور انور سے ملاقات کوئی ڈیڑھ منٹ جاری رہی جس کے بعد پیارے آقا نے از راہ شفقت کھڑے ہو کر فوٹو بنوانے کا ارشاد فرمایا۔ اس سے ملاقات کی خوشی دو بالا ہوگئی۔ رخصت ہونے سے قبل ایک بار پھر امام ہمام کے ساتھ مصافحہ اور دست مبارک کو بوسہ دینا نصیب ہوا جس کےساتھ پیارے آقا نے ہمارے سلام کے جواب میں و علیکم السلام و رحمة اللہ اور خدا حافظ کی دعا کےساتھ رخصت فرمایا۔ میں حضور انور کے آفس سے باہر آ کر سوچتا رہا کہ اس دن کم ازکم تیس کے لگ بھگ ملاقات کرنے والے احباب تھے ان میں سے ہر ایک کو کھڑے ہوکر ملنا اور کھڑے ہو کر خدا حافظ کہنے سے کم از کم ساٹھ بار اٹھنے بیٹھنے سے کسقدر تھکاوٹ ہوتی ہوگی مگر اس رُخ روشن سے اندازہ لگا نا نا ممکن ہے۔ باہر گاڑی میں بیٹھ کر احساس ہوا کہ دعائیہ خط اور نذرانہ پیش کرنا تو بھول ہی گیا۔ ہوا یہ کہ کمرہ ملاقات میں داخل ہونے تک اپنے گرم لباس میں جو زیب تن تھا دعائیہ خط کا لفافہ تلاش کرتا رہا جو نہ مل سکا اور ملاقات کے دوران تو پھر اس طرف توجہ ہی نہ گئی۔ جس کا افسوس مجھے اگلی ملاقات تک رہا۔ جب اگلے سال کے موسم سرما میں یہ لباس پہنا تو وہ لفافہ ملا۔ اس سے پرانا دکھ یاد آ گیا۔ یہاں تک کہ بار بار یوکے آنے کے باوجود ملاقات کئے بغیرو اپس جانے کی بے ادبی کے خوف سے عجیب کشمکش میں مبتلا تھا کہ اسی دوران دوبارہ ملاقات کا بلاوا آ گیا ۔ کانپتی ٹانگوں کیساتھ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بیٹھا ہی تھا کہ ملاقات کے لئے دفتر حضور انور میں داخل ہونے کا حکم ہوا جونہی السلام علیکم و رحمة اللہ کا پیارے آقا کو تحفہ پیش کیا، ساتھ آپ کے مسکراتے چہرہ مبارک پر نظر پڑی۔ اللہ اکبر !باہر والی تمام کیفیت کافور ہوگئی۔ پیارے آقا نے اپنی نشست سے باہر آ کر مصافحہ کا شرف بخشا تو آپ کی شفقت بجلی کی طرح میرے جسم میں سرائیت کر گئی۔ سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ۔

(ابن جہانگیر)

پچھلا پڑھیں

وقت کی تبدیلی نوٹ فرمالیں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ