• 27 اپریل, 2024

فقہی کارنر

وباء جس سبب سے آئی ہے اسی سے جائے گی

لاہور میں جو لوگ طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے نماز پڑھنے کے واسطے زیارتیں لے کر نکلتے ہیں۔ ان کا ذکر ہورہا تھا۔

اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:۔
جو لوگ اب باہر جا کر نمازیں پڑھتے ہیں اور زیارتیں نکالتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صفائی نہیں کرتے۔ سچی تبدیلی کا ارادہ نہیں معلوم ہوتا۔ ورنہ پھر وہی شوخی اور بیباکی کیوں نظر آ رہی ہے۔ اگر سچی تبدیلی ہو ممکن نہیں کہ طاعون نہ ہٹ جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف جب کہتا ہوں کہ سچی تبدیلی کرو اور استغفار کرو۔ خدا تعالیٰ سے صلح کرو تو میری ان باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور اب خود بھی دعا ہی اس کا علاج بتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ طاعون ان کے ہی سبب سے آیا ہے کیونکہ انہوں نے جھوٹے دعوے کئے تھے۔ مجھے ان کی اس بات پر بھی تعجب اور افسوس آتا ہے کہ میں تو جھوٹے دعوے کر کے سلامت بیٹھا ہوں، حالانکہ بقول ان کے طاعون میرے ہی سبب سے آیا ہے اور مجھے ہی حفاظت کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ یہ عجیب معاملہ ہے۔ یہ بات تو ان عدالتوں میں بھی نہیں ہوتی کہ صریح ایک مجرم ہو وہ چھوڑ دیا جاوے اور بے گناہ کو پھانسی دے دی جاوے۔ پھر کیا خدا تعالیٰ کی خدائی ہی میں یہ اندھیر اور ظلم ہے کہ جس کے لئے طاعون بھیجا جاوے وہ محفوظ رہے اور اس کو سلامتی کا وعدہ دیا جاوے اور وہ ایک نشان ہو اور دوسرے لوگ مرتے رہیں؟ میں کہتا ہوں اسی ایک بات کو لے کر کوئی شخص انصاف کرے اور بتادے کہ کیا ہوسکتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر افترا کرے وہ سلامت رہے اور اس کو یہ وعدہ دیا جائے کہ تیرے گھر میں جو ہوگا وہ بھی بچایا جاوے گا۔ اور دوسروں پر چُھری چلتی رہے؟

(الحکم 10 جون 1904ء صفحہ3)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

حضرت امام ابو حنیفہؒ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022