• 10 مئی, 2025

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 44)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 44

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں کہ اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو۔ اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جبتک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے۔ مگر مصیبت اور دقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اُس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔ اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کیلئے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جبتک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا۔ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا۔ کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں۔ کہ

ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو

تم اُن راہوں سے آؤ۔ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔ لیکن اُن سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے، پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہوگا۔ جو وفاداری کو چھوڑ کر غدّاری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا۔ اور نہ کوئی اُسے فریب دے سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔

تم پر خدا تعالیٰ کی حجّت سب سے بڑھ کر پوری ہوئی ہے۔ تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ہے۔ پس تم خدا تعالیٰ کے الزام کے نیچے ہو، اس لئے ضروری ہے کہ تقویٰ اور خشیت تم میں سب سے زیادہ پیدا ہو۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں مختلف طریقوں اور پہلوؤں سے اس سلسلہ کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور بتایا ہے یہانتک کہ ہر ایک قصہ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ذوالقرنین کا قصہ ہے۔ اس میں اس کی پیشگوئی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف گیا تو اُسے آفتاب غروب ہوتا نظر آیا یعنی تاریکی پائی اور ایک گدلا چشمہ اس نے دیکھا۔ وہاں پر ایک قوم تھی۔ پھر مشرق کی طرف چلتا ہے تو دیکھا کہ ایک ایسی قوم ہے جو کسی اوٹ میں نہیں اور وہ دُھوپ سے جلتی ہے۔ تیسری قوم ملی جس نے یاجُوج ماجُوج سے بچاؤ کی درخواست کی۔ اب یہ بظاہر تو قصہ ہے لیکن حقیقت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس زمانہ سے متعلق ہے۔ خدا تعالیٰ نے بعض حقائق تو کھول دیئے ہیں اور بعض مخفی رکھے ہیں اس لئے کہ انسان اپنے قویٰ سے کام لے اگر انسان نرے منقولات سے کام لے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا۔ ذوالقرنین اس لئے نام رکھا کہ وہ دو صدیوں کو پائے گا۔ اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو بھی جمع کر دیا۔ کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دو صدیوں کا صاحب ہو جاوے۔

ہندوؤں کی صدی بھی پائی اور عیسائیوں کی بھی۔ مفتی صاحب نے تو کوئی 16 یا 17 صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں۔

غرض ذوالقرنین کے معنے ہیں۔ دو صدیاں پانے والا۔ اب خدا تعالیٰ نے اس کے لئے تین قوموں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی قوم جو مغرب میں ہے اور آفتاب وہاں غروب ہوتا ہے اور وہ تاریکی کا چشمہ ہے۔ یہ عیسائیوں کی قوم ہے۔ جس کا آفتاب صداقت غروب ہو گیا اور آسمانی حق اور نور ان کے پاس نہیں رہا۔

دوسری قوم اس کے مقابل میں وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے مگر آفتاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ یہ مسلمانوں کی قوم ہے۔ جن کے پاس آفتاب صداقت قرآن شریف اس وقت موجود ہے۔ مگر دابۃ الارض نے اُن کو بے خبر بنا دیا ہے۔ اور وہ اس سے اُن فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے بجز جلنے اور دکھ اٹھانے کے جو ظاہر پرستی کی وجہ سے اُن پر آیا۔ پس یہ قوم اس طرح پر بے نصیب ہو گئی۔ اب ایک تیسری قوم ہے جس نے ذوالقرنین سے التماس کی کہ یا جُوج ماجُوج کے درے بند کر دے تاکہ وہ اُن کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں۔

وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا۔ خدا تعالیٰ کی تائیدات سے میں ان حملوں سے اپنی قوم کو محفوظ کر رہا ہوں۔ جو یاجُوج ماجُوج کر رہے ہیں۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ تم کو تیار کر رہا ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو۔ اور اپنی سچائی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرو۔ تاکہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو۔ اور تاریکی کے چشمہ کے پاس جانے والے نہ ٹھہرو اور نہ تم اُن لوگوں سے بنو جنہوں نے آفتاب سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ پس تم پورا فائدہ حاصل کرو اور پاک چشمہ سے پانی پیو تا خدا تم پر رحم کرے۔

وہ انسان بدقسمت ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان لا کر وفاداری اور صبر کے ساتھ ان کا انتظار نہیں کرتا اور شیطان کے وعدوں کو یقینی سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس لئے کبھی بےدل نہ ہو جاؤ اور تنگی اور عُسر کی حالت میں گھبراؤ نہیں۔ خدا تعالیٰ خود رزق کے معاملہ میں فرماتا ہے۔ وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ (الذاریات: 23)۔

انسان جب خدا کو چھوڑتا ہے تو پھر شیطان کا غلام بن جاتا ہے۔ وہ انسان بہت ہی بڑی ذمہ داری کے نیچے ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھ چکا ہو۔ پس کیا تم میں سے کوئی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں۔ کہ لاکھوں کروڑوں انسان ان کے گواہ ہیں۔ جو ان نشانوں کی قدر نہیں کرتا اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو دشمن سے پہلے ہلاک کرے گا۔ کیونکہ وہ شدید العقاب بھی ہے۔ جو اپنے آپ کو درست نہیں کرتا وہ نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بلکہ اپنے بیوی بچوں پر بھی ظلم کرتا ہے کیونکہ جب وہ خود تباہ ہو جاوے گا تو اس کے بیوی بچے بھی ہلاک اور خوار ہوں گے۔ خدا تعالیٰ اس کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے۔ وَ لَا یَخَافُ عُقۡبٰہَا (الشمس: 16)۔

مرد چونکہ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء: 35) کا مصداق ہے اس لئے اگر وہ لعنت لیتا ہے تو وہ لعنت بیوی بچّوں کو بھی دیتا ہے اور اگر برکت پاتا ہے تو ہمسائیوں اور شہر والوں تک کو بھی دیتا ہے۔ اس وقت کُل ملک میں طاعون کی آگ لگ رہی ہے۔ وہ لوگ غلطی کر رہے ہیں جو اس کو ملعون کہتے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو اس وقت ایک خاص کام کے لئے مامُور کیا گیا ہے۔ اس کا علاج خدا تعالیٰ نے مجھے یہی بتایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12)۔ یہ طاعون بدکاریوں اور فسق و فجور اور میرے انکار اور استہزاء کا نتیجہ ہے۔ اور یہ رُک نہیں سکتا جب تک لوگ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی نہ کریں۔ اورسبّ و شتم سے زبان کو نہ روکیں پھر فرماتا ہے۔

اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ

اس گاؤں کو پریشانی اور انتشار سے حفاظت میں لے لیا۔ کیا اس گاؤں میں ہر قسم کے لوگ چوہڑے چمار، دہریہ اور شراب پینے والے اور بیچنے والے اور اور قسم کے لوگ نہیں رہتے مگر خدا نے میرے وجود کے باعث سارے گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ اور اس افراتفری اور موت الکلاب سے اُسے محفوظ رکھا۔ جو دوسرے شہروں اور قصبوں میں ہوتی ہے۔

غرض یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں ان کو عزت اورعبرت کی نگاہ سے دیکھو اور اپنی ساری قوتوں کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے نیچے استعمال کرو۔ توبہ اور استغفار کرتے رہو تا خدا تعالیٰ تم پر اپنا فضل کرے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ188-192 اشاعت 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتا بھی ہے۔ تو پھر جان لینے ہی کے لئے پکڑتا ہے۔ مگر مومن کے حق میں اس کی یہ عادت نہیں ہے۔ اُن تکالیف کا انجام اچھا ہوتا ہے اور انجام کار متقی کے لئے ہی ہے۔ جیسے فرمایا۔

وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ

(القصص: 84)

اُن کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتے ہیں تاکہ ان کو تجربہ ہو جاوے۔ اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے شکنجہ کے دن آتے ہیں اس پر بہائمی زندگی کا اثر نہیں رہتا۔ اس پر ایک موت ضرور آ جاتی ہے اور خدا شناسی کے بعد وہ لذتیں اور ذوق جو بہائمی سیرت میں معلوم ہوتے تھے، نہیں رہتے۔ بلکہ ان میں تلخی اور کدورت و کراہت پیدا ہوتی ہے اور نیکیوں کی طرف توجہ کرنا ایک معمولی عادت ہو جاتی ہے۔ پہلے جو نیکیوں کے کرنے میں طبیعت پر گرانی اور سختی ہوتی تھی وہ نہیں رہتی۔

پس یاد رکھو کہ جب تک نفسانی جوشوں سے ملی ہوئی مُرادیں ہوتی ہیں۔ اس وقت تک خدا ان کو مصلحتاً الگ رکھتا ہے اور جب رجوع کرتا ہے تو پھر وہ حالت نہیں رہتی۔ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ دنیا روزے چند آخر کار با خداوند۔ اتنا ہی کام نہیں کہ کھا پی لیا اور بہائم کی طرح زندگی بسر کر لی۔ انسان بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے۔ اس لئے آخرت کی فکر کرنی چاہئے اور اس کی تیاری ضروری ہے۔ اس تیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج و تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کا مزہ چکھانا چاہتا ہے۔ وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمان: 47)۔ مصائب آتے ہیں تاکہ ان عارضی امور کو جو تکلّف کے رنگ میں ہوتے ہیں۔ نکال دے۔ مولوی رُومیؔ نے کیا اچھا کہا ہے۔

؂ عشق اوّل سرکش و خُونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود

سید عبد القادر جیلانی بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن، مومن بننا چاہتا ہے تو ضرور ہے کہ اس پر دکھ اور ابتلا آویں اور وہ یہاں تک آتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو قریب موت سمجھتا ہے۔ اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتا ہے تو رحمت الٰہیہ کا جوش ہوتا ہے۔ تو

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا

(الانبیاء: 70)

کا حکم ہوتا ہے۔ اصل اور آخری بات یہی ہے۔ مگر نہ شنیدۂ کہ خداداری چہ غم داری۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ207-208 ایڈیشن 1984ء)

شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں۔ لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جبتک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے۔ اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: 119)۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جبتک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو۔ کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ221، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

جب اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کرنا چاہئے۔ لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہوں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا۔ اُس وقت عذاب الٰہی کو دیکھ کر توبہ استغفار شروع کی اس سے کیا فائدہ ہوگا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا۔

یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اور کسی دولتمند کے گھر جا کر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہونے کے اس سے مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں۔ اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے۔ لیکن ایک گھر والا اپنی چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی کی بجائے شربت اور خشک روٹی کی بجائے پُلاؤ دے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی بجائے اپنی خاص پوشاک اس کو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ دراصل تو بادشاہ تھا۔ اب ان لوگوں سے کیا سلوک کرے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا۔ اور اس سے بدسلوکی کی سخت سزا دے گا۔ اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر سلوک کیا وہ دے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔

اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا۔ مجھے کھانا نہ دیا۔ میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں پیاسا تھا مگر مجھے پانی نہ دیا۔ وہ کہیں گے کہ یا رب العالمین کب؟ وہ فرمائے گا۔ فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا۔ اس کو دینا ایسا ہی تھا جیسا مجھ کو۔ اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تو نے روٹی دی کپڑا دیا۔ وہ کہے گا کہ تُو تو ربّ العالمین ہے تو کب گیا تھا کہ میں نے دیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ264۔265، سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

حضرت امام ابو حنیفہؒ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022