• 21 جون, 2025

قرآنی انبیاء (قسط 15)

قرآنی انبیاء
دجلہ کنارے
قسط 15

کشتی لمحہ بہ لمحہ نینو اسے دور ہو تی چلی جارہی تھی۔ سمندر بالکل پر سکون تھا اور یہ سفربڑے آرام سے کٹ جانے کی امیدتھی کہ اچانک تندوتیزہواؤں نے حملہ کر دیا۔ شدید طغیانی پیدا ہوگئی اور اُونچی اُونچی موجوں میں کشتی ایک کھلونے کی طرح محسوس ہونے لگی۔ ملاحوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کشتی کو طوفان سے نکال کرلے جائیں لیکن یہ معاملہ ان کے بس سے باہر تھا۔ بالآخر فیصلہ یہ ہواکہ قرعہ اندازی کرلی جائے کہ یہ طوفان کس مسافر کی وجہ سے آرہاہے تا کہ اس مسافر کو سمندر کے حوالے کر کے باقی لوگوں کی جان بچائی جاسکے۔ قرعہ اندازی ہوئی تو حیران کن طورپر حضرت یونسؑ کانام نکل آیا اور آپ کو سمندر میں پھینک دیاگیا۔

خداتعالیٰ کے ایک نبی کے واقعات جو دریائے دجلہ کےکنارے واقع نینوانامی شہرکی طرف مبعوث کئے گئے تھے۔

ملک عراق سے ہم سب واقف ہیں اسی ملک میں دریائے دجلہ کےکنارے ایک بستی آبادہواکرتی تھی جس کانام نینواتھا۔ یہ آج سے قریباً تین ہزارسال پہلے کا واقعہ ہے جو اس بستی میں پیش آیا اور ہمیشہ کےلئے محفوظ ہوگیا۔ آج بستی موجود نہیں ہے لیکن عراق شہر ’’موصل‘‘ کے قریب اس کے کھنڈرات اب بھی محفوظ ہیں۔تین ہزارسال قبل یہا ں اشوری قوم رہا کرتی تھی جوایک ترقی یا فتہ اور طاقتور قوم تھی۔ اس قوم کا دارالسلطنت ’’نینوا‘‘ بھی اپنی مثال آپ تھا جوقریباً 60میل کے علاقے پر پھیلا ہواایک خوبصورت شہرتھا۔ اشوری قوم بتوں کی پوجاکیا تی تھی اور خداتعالیٰ سے بالکل غافل ہو چکی تھی۔ ان کی اسی بری حالت پرر حم کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کی لئے ایک نبی ان کی طرف مبعوث کیا۔یہ نبی حضرت یونس علیہ السلام تھے جنہیں بائبل میں ’’یوناہ‘‘ نبی کے نام سے متعارف کروایا گیا ہے

حضرت یونسؑ خداتعالئ کے حکم کے ماتحت اشوریوں کو تبلیغ کرنے لگے۔ انہیں بتو ں کی پرستش سے روکااور بتایا کہ یہ بہت ادنیٰ اور حقیرہیں یہ خدانہیں ہو سکتے اس لئے اے قوم! خداتعالیٰ کی عبادت کرو جوسب طاقتوں کا مالک قادر وتوانا خدا ہے۔ آپ نے ہرطرح سے قوم کو بتوں کی کمزوری اور خداتعالیٰ کی عظمت کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرڈالی لیکن قوم تھی کہ ماننے کےلئے تیارہی نہ ہوتی تھی۔

آپ نے تبلیغ کا فریضہ پورے طور پر ادا کر دیا لیکن قوم نے آپ کی ایک نہ مانی اور آپ سے ہنسی اور مذاق کرنے لگی۔ آپ کی تعلیمات کو ٹھکرا کر ان کے ساتھ استہزاء کرنے لگی۔ یہ بات بہت تکلیف دہ تھی کہ قوم کی بھاری اکثریت نے آپ کا انکار کر دیا تھا۔ اوریوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سزا کے حقداربن گئے تھے۔ بالآخر سزا کا وقت قریب آگیا اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر حضرت یونسؑ نے اپنی قوم کو عذاب کی خبر دے دی۔ آپ نے انہیں بتا دیا کہ تم نے خدا کے بھیجے ہوئے ایک نبی کا انکار کیا ہے اس لئے جلد ہی اس کی پکڑ تمہیں آلے گی اور تباہ و برباد کردے گی۔

آپ قوم کو عذاب کی خبردے کر نینوا سےباہرنکل گئے۔اور شہر سے باہرایک مقام پر بیٹھ رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی خبرکے مطابق اس قوم کاانجام دیکھ سکیں۔آپ وہاں بیٹھے ہرآنے جانے والےسے پوچھتے کہ نینوا کا کیاحال ہے؟ان پرعذاب ابھی آیا کہ نہیں؟

دوسری طرف نینواکے رہنے والے حضرت یونسؑ کی دی ہوئی خبر اور پھر ان کی ہجرت کی وجہ سے ڈرگئے اور جان گئے کہ وہ شخص خداتعالیٰ کا سچانبی تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی حالت میں فوری تبدیلی پیداکی۔ اپنی بری حرکتیں اور بت پرستی وغیرہ چھوڑکر وہ خداتعالیٰ کے حضور جھک گئے۔ رورو کر فریادیں کیں اور عرض کیا کہ اے خدا ہم کو معاف کر دے ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کی یہ فریادیں اور التجائیں رنگ لائیں اور رحیم وکریم خداتعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا اور عذاب سے ان کو بچالیا۔

حضرت یونسؑ کو قوم کی حالت میں اس تبدیلی کی خبرنہ تھی۔ اس لئے انہوں نے جب یہ دیکھاکہ وعدےکے مطابق مقررہ دنوں میں قوم پرعذاب نہیں آیا تو بہت حیران ہوئے۔ آپ اس بات پر پریشان بھی تھے کہ قوم کے لوگ تو پہلے ہی مجھے جھوٹا کہتے تھے اب جو وعدے کے مطابق عذاب بھی نہیں آیا تو ان کو یقین ہوگیا ہوگا کہ میں واقعی جھوٹا تھا اور خداتعالیٰ کانبی نہیں ہوں۔ اس بات نے آپ کو غمگین کر دیا اور آپ نے نینوا سے دور چلےجانے کا فیصلہ کرلیا۔ تاکہ نینوا کے لوگوں کے سامنے نہ جاناپڑے۔ آپ ایک کشتی میں سوار ہوگئے جوترسیس نامی شہر کی طرف جارہی تھی۔ آپ نے کرایہ ادا کیا اور کشتی میں بیٹھ گئے۔ کشتی روانہ ہوگئی اور سمندر میں چلتی ہوئی لمحہ بہ لمحہ نینوا سے دور ہونے لگی۔ آپ پیشگوئی کے پورانہ ہونے کی وجہ سے بہت غمگین تھے اور غالباً اس میں ایک غم اس بات کا بھی ہوگاکہ اب وہ لوگ خداتعالیٰ سے بالکل غافل ہوجا ئیں گے اور کھل کرگناہ کریں گے۔جب کہ حقیقت اس کے بر عکس تھی۔ بہر حال کشتی چلتی رہی اور آپ سب مسافروں سے الگ تھلگ ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے۔ ابھی تھوڑا سا سفر ہی طے ہوا تھا کہ سمندر میں تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے کشتی ڈولنے لگی۔ یہ طوفان وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا اوریہ کشتی جس میں حضرت یونسؑ سوار تھے تندوتیزلہروں پر کسی تنکے کی طرح محسوس ہورہی تھی۔ طوفانی موجیں کشتی کو اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ ابھی چند لمحوں میں یہ کشتی ٹوٹ پھوٹ کر غرق ہوجائے گی۔ ملا حوں نے کشتی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ معاملہ ان کے بس سے باہر تھا۔ تب انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق یہ سوچاکہ ہمارے ساتھ کشتی میں کوئی ایسا غلام موجود ہے جو اپنے آقا کی اجازت کے بغیر گھر چھوڑ آیا ہے اس کی وجہ سے عذاب ہم پر آرہا ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس شخص کو سمندر کے حوالے کردیں تاکہ باقی لوگ بچ سکیں۔

یہ بات سوچ کر انہوں نے قرعہ اندازی کرنے کافیصلہ کیا اور طے یہ پایا کہ قرعے میں جس مسافر کا نام نکلے گا اسے سمندر کے حوالے کر دیا جائے گا۔ قرعہ اندازی ہوئی اور حیران کن طورپر اس میں حضرت یونسؑ کا نام نکل آیا۔ حضرت یونسؑ سمجھ گئے کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلاء ہے جو میری ہی ایک غلطی کی وجہ سے مجھ پر آیا ہے۔ آپ نینوا سے بغیر وحی الٰہی کا انتظار کئے نکل آئے تھے اس لئے آپ سمجھ گئے کہ اس کے نتیجے میں یہ مشکل مجھ پرآن پڑی ہے۔

آپ دعاؤں میں لگ گئے اور اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر کے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے لگے اور ساتھ ہی آپ نے کشتی والوں کو کہہ دیا کہ اگر خداتعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ میں سمندرمیں پھینک دیا جاؤں تو ٹھیک ہے تم ایساہی کرو۔ چنانچہ کشتی کے لوگوں نے قرعہ اندازی کے مطابق آپ کو سمندر کے حوالے کر دیا۔

اللہ تعالیٰ اپنے اس نیک بندے یونسؑ کےحالات سے پوری طرح واقف تھا۔ اور عذاب اوراس سزاکے طورپر آپ کو سمندر کے حوالے نہیں کروایا تھا بلکہ اس تقدیر سے مقصد یہ تھا کہ آپ کو واپس نینوا پہنچایا جائے اور جو غلطی آپ سے ہوئی تھی اس کے بداثر کو مٹا دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کویہ بھی احساس دلایا جائےکہ آپ نے نینوا سے بغیر اجازت نکل کرغلطی کی تھی۔ اسی لئے جونہی آپ سمندر میں گرے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک بہت بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور آپ صحیح سالم اس مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ آپ بڑے درد اور الحاح کے ساتھ اپنے خداتعالیٰ سے دعائیں کر رہےتھے اور اس سے مددمانگ رہےتھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول کیا اور وہ مچھلی آپ کو سمندر کے کنارے آکر باہر اگل گئی۔

آپ مچھلی کے پیٹ سے باہر آچکے تھے لیکن ان تمام واقعات نے جو آپ پر گزرےتھے آپ کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ اور آپ خودکو بیمار محسوس کر رہے تھے تب وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ آپ کی صحت کے لئے انتظامات فرما دیئے اور آپ بالکل صحت یاب ہوگئے۔ اب آپ پریہ بات پورے طورپر کھل چکی تھی کہ قوم پر عذاب کیو ں نہیں آیا تھا۔ چنانچہ وحی الٰہی کے ماتحت آپ ایک مرتبہ پھر نینوا کی طرف روانہ ہوگئے۔

نینوا کے لوگ جو دل سے توبہ کر کے خدائے واحد پر ایمان لے آئے تھے آپ کی واپسی سے بےانتہا خوش ہوئے اور آپ کے تمام دعاوی پر ایمان لے آئے۔ ایمان لانے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یوں حضرت یونسؑ خداتعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ یہاں رہنے لگے اور قریباً 31برس کے بعد یہیں وفات پائی اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

حضرت امام ابو حنیفہؒ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022