• 29 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 2)

حیاتِ نورالدینؓ
عشق قرآن شریف
قسط 2

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: قرآن شریف کے ساتھ مجھ کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے زلفِ محبوب نظر آتے ہیں۔ اور میرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتا ہے۔ اور میرے سینے میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے۔ بعض وقت تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان کروں۔

(حیات نور صفحہ516)

مارچ 1913ء میں ایک معزز غیر احمدی میاں محمد اسلم صاحب قادیان تشریف لائے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں قادیان کا جو نقشہ کھینچا، اس کا ایک حصہ پیش خدمت ہے۔

میاں محمداسلم صاحب لکھتے ہیں: اگر حقیقی اسلام قرآن مجید ہے تو قرآن مجید کی صادقانہ محبت جیسی کہ مولوی صاحب موصوف میں میں نے دیکھی ہے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ یہ نہیں کہ وہ تقلیداً ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ نہیں۔بلکہ وہ ایک زبردست فیلسوف انسان ہے اور نہایت ہی زبردست فلسفیانہ تنقید کے ذریعہ قرآن مجید کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ کیونکہ جس قسم کی زبردست فلسفیانہ تفسیر قرآن مجید کی میں نے ان سے درس قرآن مجید کے موقعہ پرسنی ہے غالباً دنیا میں چند آدمی ایسا کرنے کی اہلیت اس وقت رکھتے ہوں گے۔ مجھے زیادہ تر حیرت اس بات کی ہوئی کہ ایک اسی سالہ بوڑھا آدی صبح سویرے سے لے کر شام تک جس طرح لگا تار سارا دن کام کرتا رہتا ہے۔ وہ متحدہ طور پر آج کل کے تندرست وقوی ہیکل دو تین نوجوانوں سے بھی ہونا مشکل ہے۔ میں کام کرنے کے متعلق مولوی صاحب کو غیر معمولی طاقت کا انسان تو نہیں سمجھتا لیکن اپنے فرض کی ادائیگی میں اسے خیر القرون کے قدسی صفت صحابہ کا پورا پیرو کہنے میں اگر منافقت کروں تو یقین میں صداقت کا خون کرنے والا ہو جاؤں۔

(حیات نور صفحہ612)

قرآنی علوم کی تحصیل کے پانچ ادوار

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک ہم نے ایک راہ کا تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی دل میں سچّی تڑپ اور پیاس علومِ قرآنی کے حصول کے واسطے پَیدا کر کے تقوٰی تام سے دعائیں کرے اور اِس طرح سے قرآن شریف شروع کرے۔

دَور اوّل : خود تنہا ایک مترجَم قرآن شریف لے کر جس کا ترجمہ لفظی ہو انسان کی اس میں اپنی ملاوٹ کچھ نہ ہو اور اس کے واسطے مَیں شاہ رفیع الدین صاحب علیہ الرحمۃ کا ترجمہ پسند کرتا ہوں لے کر ہر روز بقدر طاقت بلاناغہ کچھ حصّہ قرآن کا پڑھا کرے اور لفظوں کے معنوں میں غور کرے پھر جہاں آدم اور شیطان کا حال مذکور ہو اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا مَیں آدم ہوں یا کہ ابلیس۔ موسٰی ہوں کہ فرعون۔ مجھ میں یہودیوں کے خصائل ہیں یا کہ مسلمانوں کے اور اِسی طرح سے عذاب کی آیات سے ڈرے اور پناہ مانگے اور رحمت کی آیات سے خوش ہو اور اپنے کو رحمت کا مورَد بننے کے واسطے دعائیں کرے۔ ہر روز درود، دعا، استغفار اور لاحَول پڑھ کر شروع کرے اور اِسی طرح ختم کرے۔ اِسی طرح سے دَورِ اوّل ختم کر دیوے اور اس دَور میں ایک نوٹ بُک پاس رکھے مشکل مقامات اس میں نوٹ کرتا جاوے۔

پھر دَورِ دوم شروع کرے اور اس میں اپنی بیوی کو سامنے بٹھا کر سناوے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دونوں کے واسطے نازل ہوا ہے بیوی خواہ توجّہ کرے یا نہ کرے یہ سُنائے جاوے اور پہلے دَور کی نسبت کسی قدر بسط کرتا جاوے اور پہلے طریق کی طرح اِس دَور کو بھی ختم کرے اور وہ پہلی نوٹ بُک پاس رکھے اور اسے دیکھتا رہے پھر اِس دَور میں یہ دیکھے گا کہ بہت سے وہ مشکل مقامات جو دَورِ اوّل میں نہیں سمجھتا تھا اِس دَور میں حل ہو جائیں گے۔ اِس دَورِ ثانی کی بھی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے۔

پھر اِسی طرح سے دَورِ ثالث شروع کرے اور گھر کے بچّوں، عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی اِس دَور میں شامل کرلے مگر وہ لوگ ایسے ہوں کہ کوئی اعتراض نہ کریں اور پہلی اور دوسری دونوں نوٹ ُبکیں اپنے سامنے رکھے اِس طرح اِس دَور میں دیکھے گا بہت سے مُشکلات جو پہلے دونوں دَوروں میں حل نہ ہوئے تھے اِس دفعہ حل ہو جاویں گے۔ اِس دَور کی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے۔

دَورِ ثالث کے بعد چوتھا دَور عام مجمع کے سامنے شروع کرے مگر سامعین ہوں۔ ان کے اعتراضات وغیرہ کے اگر جواب آتے ہوں تو دیتا جاوے ورنہ نوٹ بُک میں نوٹ کرتا جاوے اور ان کے حل کے واسطے اﷲ تعالیٰ کے حضور دردِ دل سے دعائیں کرتا رہے

اور پانچواں دَور شروع کردے اور بِلاامتیاز مسلمان و مشرک، کافر و مومن کو سُنانا شروع کر دے اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل اور فیضان اس کے شامِل حال ہو گا اور ایک بہت بڑا حِصّہ قرآن شریف کا اسے سکھا دیا جاوے گا۔اور باریک در باریک حقائق و معارف اور اسرار کلامِ ربّانی اس پر کھولے جاویں گے۔ غرض یہ ہمارا مجرّب اور آزمودہ طریقہ ہے پس جس کو قرآن سے محبّت اور علومِ قرآن سیکھنے کی پیاس اور سچّی تڑپ ہو وہ اِس پر کار بند ہو کر دیکھ لے۔

یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اِس لئے کہ اس پر عمل ہو۔ ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جاؤ اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم کِس گروہ میں ہو۔ کیا مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ ہو یا مغضوب ہو یا ضالّین ہو اور کیا بننا چاہیئے۔ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ بننے کے لئے سچّی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لئے دعائیں کرو۔ جو طریق اﷲ تعالیٰ نے انعامِ الٰہی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو۔ اِس طریق پر اگر صرف سُورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو مَیں یقینا ًکہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی۔

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ2 تا 4)

قرآنی علوم سے مسلمانوں کے نابلد رہنے کا درد اور غم

حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں: اس وقت کیسی مصیبت کے دن ہیں۔ سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں۔ چھ کروڑ کے کان میں قرآن کبھی نہیں گیا ایک کروڑ ہو گا جو یہ سُنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں۔پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید باترجمہ پڑھتے ہیں۔ اب یہ دیکھو کہ عمل درآمد کے لئے کِس قدر تیار ہیں۔ مَیں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا مَیں بھی شاگرد تھا۔ وہ ایک پُرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے۔ ساری عمر اسی میں گذار دی اور قرآنِ مجیدنہ سُنایا حالانکہ علم تھا، ذہین و ذکی تھے، نیک تھے، دُنیا سے شاید کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ پھر ان کی اولاد کو بھی مَیں نے دیکھا وہ بھی اسی خطبہ پر اِکتفا کرتی۔ مَیں نے آنکھ سے روزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا۔

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ143-144)

قرآن کریم پر غور کرنے کے لئے
عالم فاضل ہونا لازم نہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: ایک بار وزیر آباد کے ریلوے سٹیشن پر ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن کیونکر پڑھیں۔ صرف و نحو تو آتی نہیں۔ میں نے کہا صرف و نحو کی ضرورت نہیں ہے۔قرآن شریف میں قَالَ پہلے سے موجود ہے بنانا نہیں پڑتا پھر صرف کی کیا ضرورت ہے۔رہی نحو ۔ قرآن شریف میں زیریں زبریں پہلے سے موجود ہیں۔پھر اس نے گھبرا کر کہا۔ کہ اچھا معانی بدیع کی ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ وہ امر زائد ہے۔ جب وہ اس سے بھی رُکا تو کہنے لگا۔ کہ کم از کم لغت کی تو ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ اگر تم اپنی ہی بولی پر ذرا غور کر کے قرآن شریف پڑھو تو لغت کی بھی بڑی ضرورت نہیں۔ تم کوئی آیت قرآن شریف کی پڑھو۔ میں تمہیں ترجمہ کر کے دکھا دیتا ہوں۔ خدا کی قدرت ہے اس نے یہ آیت پڑھی قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا مَیں نے کہا۔ کیسی صاف بات ہے گلأو گَلْ سِدّھی۔

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ426)

مرض الموت میں بھی درس قرآن جاری رکھنا:
یوں تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی صحت کافی عرصہ سے کمزور چلی آتی تھی لیکن فروری کے دوسرے ہفتہ میں زیادہ گرنا شروع ہو گئی۔تاہم آپ اس امر کی انتہائی کوشش فرماتے رہے کہ جب تک زبان حرکت کرسکے۔قرآن کریم کا درس جاری رہنا چاہیئے۔چنانچہ آپ کے درسوں میں شامل ہونے والے احباب بیان کرتے ہیں کہ جب آپ جنوری 1914ء کے شروع میں بیمار ہوئے تو باوجود بیماری اور کمزوری کے حسب معمول مسجد اقصیٰ میں تشریف لے جا کر ایک توت کے درخت کا سہارا لے کر درس دیتے رہے۔گو رستہ میں چند مرتبہ ناتوانی کی وجہ سے مقام بھی کرلیتے تھے۔جب کمزوری بہت بڑھ گئی اور مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھنا دشوار ہو گیا تو بعض دوستوں کے اصرار پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں درس دینا شروع فرما دیا۔ان ایام میں آپ نقاہت کی وجہ سے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تشریف لاتے تھے اور اسی طریق پر واپس تشریف لے جاتے تھے۔مگر جب ضعف اور بھی بڑھ گیا اور دوسروں کے سہارے بھی چلنا مشکل ہوگیا تواپنے صاحبزادہ میاں عبد الحیی صاحب کے مکان میں درس دیتے رہے۔اور آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ اپنے آقاو مطاع آنحضرتﷺ کی سنت کے مطابق کھڑے ہوکر درس دیا جائے مگر آخری دو تین ہفتہ جب اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہ رہی توڈاکٹروں نے درس بند کر دینے کا مشورہ دیا تو فرمایاکہ قرآن کریم میری روح کی غذا ہے۔اس کے بغیر میرا زندہ رہنا محال ہے۔لھذا درس میں کسی حالت میں بھی بند نہیں کرسکتا غالبا انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے ’’الفضل‘‘ لکھتا ہے:
’’ضعف کا یہ حال ہے کہ بغیر سہارے کے بیٹھنا تو درکنا ر سر کو بھی خود نہیں تھام سکتے۔اسی حالت میں ایک دن فرمایا کہ بول تو میں سکتا ہوں خدا کے سامنے کیا جواب دوں گا۔ درس کا انتظام کرو کہ میں قرآن مجید سنا دوں۔‘‘

(حیات نور صفحہ 692-693)

آخری وصیت اور درس قرآن

آپؓ کی آخری تحریری وصیت میں بھی درس قرآن جاری رکھنے کی نصیحت موجود ہے۔

آپؓ اس وصیت میں تحریر فرماتے ہیں: میرا جانشین متقی ہو۔ ہر دلعزیز، عالم باعمل، حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک چشم پوشی درگزر کو کام میں لاوے۔ میں سب کا خیر خواہ تھا وہ بھی خیر خواہ رہے۔ قرآن وحدیث کا درس جاری رہے۔ والسلام۔ نور الدین۔ 4؍مارچ  1914ء

(حیات نور صفحہ 703)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

حضرت امام ابو حنیفہؒ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مئی 2022