• 27 اپریل, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 42)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 42

نماز کے اندر دعا

نماز کے اندر ہی اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو۔ سجدہ میں، بیٹھ کر، رکوع میں، کھڑے ہوکر، ہر مقام پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو۔ بیشک پنجابی زبان میں دعائیں کرو۔ جن لوگوں کی زبان عربی نہیں اور عربی سمجھ نہیں سکتے۔ ان کےواسطے ضروری ہے کہ نماز کے اندر ہی قرآن شریف پڑھنے اور مسنون دعائیں عربی میں پڑھنے کے بعد اپنی زبان میں بھی خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگے اور عربی دعاؤں کا اور قرآن شریف کا بھی ترجمہ سیکھ لینا چاہئے۔ نماز کو صرف جنتر منتر کی طرح نہ پڑھو بلکہ اس کے معانی اور حقیقت سے معرفت حاصل کرو۔ خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے تو ہم کو معاف کر اور دنیا اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔

آجکل لوگ جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں مانگنے بیٹھتے ہیں۔ یہ بدعت ہے۔ جس نماز میں تضرع نہیں۔ خدا تعالےٰ کی طرف رجوع نہیں۔ خدا تعالیٰ سے رقت کے ساتھ دعا نہیں وہ نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی نماز ہے۔ نماز وہ ہے جس میں دعا کا مزا آجاوے…دیکھو بخیل سے بھی انسان مانگتا رہتا ہے تو وہ بھی کسی نہ کسی وقت کچھ دے دیتا ہے اور رحم کھاتا ہے۔ خدا تعالےٰ تو خود حکم دیتا ہے کہ مجھ سے مانگو اور میں تمہیں دوں گا۔ جب کبھی کسی امر کے واسطے دعا کی ضرورت ہوتی تو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ وضو کرکے نماز میں کھڑے ہوجاتے اور نماز کے اندر دعا کرتے۔

دعا کے معاملہ میں حضرت عیسیٰؑ نے خوب مثال بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اس کے دروازے پرآتی اور اس سے انصاف چاہتی۔ وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہانتک کہ قاضی تنگ آگیا اور اس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اس کا انصاف اسے دیا۔ دیکھو کیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اورتمہیں تمہاری مراد عطا کرے۔ ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہئے۔ قبولیت کا وقت بھی ضرور آہی جائے گا۔ استقامت شرط ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ40-41 ایڈیشن 1984ء)

اصول دعا

جب تک انسان کو کسی کے حالات کے ساتھ پورا تعلق نہ ہو تب تک وہ رقت اور درد اور توجہ نہیں ہوسکتی جو دعا کے واسطے ضروری ہے۔ اور اس قسم کے حضور اور توجہ کا پیدا کرنا در اصل اختیاری امر نہیں ہے۔دعا میں کوشش ہر دو طرف سے ہونی ضروری ہے۔ دعا کرنے والا خدا تعالیٰ کے حضور میں توجہ کرنےمیں کوشش کرے اور دعا کرانے والا اس کو توجہ دلانے میں مشغول رہے۔ بار بار یاد دلائے خاص تعلق پیدا کرے۔ صبر اور استقامت کے ساتھ اپنا حالِ زار پیش کرتا رہے۔ تو خواہ مخواہ کسی نہ کسی وقت اس کے لئے درد پیدا ہوجائے گا۔ دعا بڑی شے ہے جبکہ انسان ہر طرف سے مایوس ہوجائے تو آخری حیلہ دعا ہے جس سے تمام مشکلات حل ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسی توجہ کی دعا ضرور ایک وقت چاہتی ہے اور یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں کہ کسی کے واسطے دل میں درد پیدا کرلے۔

ایک صوفی کا ذکر ہے کہ وہ راستہ میں جاتا تھا کہ ایک لڑکا اس کے سامنے گر پڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ صوفی کے دل میں درد پیدا ہوا۔ اور اسی جگہ خدا تعالیٰ کے آگے دعا کی اور عرض کی کہ اے خدا تو اس لڑکے کی ٹانگ کو درست کر دے ورنہ تو نے اس قصاب کے دل میں درد کیوں پیدا کیا۔

میرا مذہب یہ ہے کہ کیسی ہی مشکلات مالی یا جانی انسان پر پڑیں۔ ان سب کا آخری علاج دعا ہے۔ خداتعالےٰ ہر شے کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے اور ہر شئے پر اس کا قبضہ ہے۔ انسان کسی حاکم یا افسر کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرتا ہے اور اس کو راضی کرتا ہے تو وہ اسے بہت سا فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ کیا خدا تعالیٰ جو حقیقی حاکم اور مالک ہے اس کو نفع نہیں دے سکتا؟ مگر دعا کا معاملہ ایسا نہیں کہ انسان دور سے گولی چلادے اور چلا جائے بلکہ جس شخص سے دعا کرانی چاہئے اس کے ساتھ تعلق پیدا کرنا چاہئے۔ دیکھو بازار میں آپ کو ایک شخص اتفاقیہ طور پر مل جاوے اور آپ اس کو پکڑ لیں اور کہیں کہ تو میرا دوست بن جا تو وہ کس طرح دوست بن سکتا ہے؟ دوستی کے واسطے تعلقات کا ہونا ضروری ہے اور وہ رفتہ رفتہ ہوسکتے ہیں۔

ہم تو چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے واسطے دل میں سچا درد پیدا ہوجاوے مگر یہ امر اپنے ہاتھ میں نہیں۔ نہ اپنے واسطے، نہ عزیزو اقارب کے واسطے، نہ بیوی بچے کے واسطے ایسے درد کا پیدا ہونا محض خدا تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ لیکن تعلقات کا ہونا بہت ضروری ہے۔

کہتے ہیں کہ کوئی شخص شیخ نظام الدین صاحب ولی اللہ کے پاس اپنے کسی ذاتی مطلب کے لئے دعا کرانے کے واسطے گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے واسطے دودھ چاول لے آ۔ اس شخص کے دل میں خیال آیا کہ عجیب ولی ہے۔ میں اس کے پاس اپنا مطلب لے کر آیا ہوں تو اس نے میرے آگے اپنا ایک مطلب پیش کردیا ہے مگر وہ چلا گیا اور دودھ چاول پکا کر لے آیا۔ جب وہ کھا چکے تو انہوں نے اس کے واسطے دعا کی اور اس کی مشکل حل ہوگئی۔ تب نظام الدین صاحب نے اس کو بتلایا کہ میں نے تجھ سے دودھ چاول اس واسطے مانگے تھے کہ جب تو دعا کرانے کے واسطے آیا تھا تو میرے واسطے بالکل اجنبی آدمی تھا اور میرے دل میں تیرے واسطے کوئی ہمدردی کا ذریعہ نہ تھا۔ اس واسطے تیرے ساتھ ایک تعلق محبت پیدا کرنے کے واسطے میں نے یہ بات سوچی تھی۔

ایسا ہی توریت میں حضرت اسحاقؑ کا قصہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا کہ جا تو میرے واسطے شکار لے آ اور پکا کر مجھے کھلا تاکہ میں تجھے برکت دوں اور تیرے واسطے دعا کروں۔ اس قسم کے بہت سے قصے اولیاء کے حالات میں درج ہیں اور ان میں حقیقت یہی ہے کہ دعا کرنے والے اور کرانے والے کے درمیان تعلق ہونا چاہئے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ49-51 ایڈیشن 1984ء)

طبیب کے واسطے مناسب ہے کہ
اپنے بیمار کے لئے دعا کیا کرے

طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ مؤثر حقیقی خدا تعالےٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہئے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلادیتا ہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتا ہے۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتادیتا ہے۔ یہ اس کا فضل ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ53 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

بگاں بی زوجہ بدر دین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2022