• 9 جولائی, 2025

قرآن کریم میں مذکور حضرت ابراہیمؑ کی شاندار خوبیاں (قسط دوم۔ آخری)

قرآن کریم میں مذکور
حضرت ابراہیمؑ کی شاندار خوبیاں
قسط دوم۔ آخری

کامل وفا داری

اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ کی وفا داری کی بھی خاص تعریف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو بطور اعلیٰ مثال بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ ہم بھی اپنے تمام عہدوں کو پورا کریں۔

حضرت مسیح موعودؑ اس وفا داری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بناء پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ابراہیم وہ جس نے ہمارے ساتھ وفا داری ،کی آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کے لیے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب و دانہ جنگل میں چھوڑ آ۔ انہوں نے فی الفور اس کو قبول کر لیا ،ہر ایک ابتلا کو انہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گو یا عاشق اللہ تھا۔ درمیان میں کوئی نفسانی غرض نہ تھی۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ383-384 ایڈیشن 2016ء)

حضرت ابراہیمؑ کی یہ تعریف ہر واقف زندگی کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ اسی وقف کی روح کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنے پیغام میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ سے بے وفائی نہ کریں بلکہ ہمیشہ اپنے پروردگار کے وفا دار رہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ اسی لئے خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں درج ذیل الفاظ میں تعریف فرمائی ہے: وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔

یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمیشہ اپنے خدا کے وفا دار رہے اور ہمیشہ اپنے عہد کی پاسداری کی۔ پس آپ نے بھی وقف کا عہد باندھا ہے اور اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، اس لیے آپ کو بھی اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سخت تکالیف برداشت کیں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کیا کیونکہ آپ کامل طور پر خدا کی محبت میں مخمور تھے۔ آپ کی کوئی ذاتی خواہش نہیں تھی اور یہی وقف کی حقیقت ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28؍جون 2019ء صفحہ12)

پھر کامل وفا داری دکھانے کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ فرمایا:
’’ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا۔ کیا یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی کی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے طیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے اور عمل دکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ دیکھو۔ ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری طیاری کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ86-87 ایڈیشن 2016ء)

قبولیتِ دعا کے عظیم الشان نظارے

قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کے قبولیت دعا کے نظارے بھی پیش کیے ہیں۔ یہاں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
آپؑ نے جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ میں چھوڑا تو جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر کہ یہ دعا مانگی: رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡزُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۸﴾ (ابرہیم: 38) اے ہمارے رب! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔ اے ہمارے رب! تا کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں۔

اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم الشان ذرائع سے قبول فرمایا۔ آج مکہ میں دنیا کے ہر خطے سے لوگ آتے ہیں اور لوگ روز اسلام کی طرف مائل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد دنیا میں آپؑ کی جماعت اسلام کا نام اور توحید کا پیغام مسلسل پھیلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر بھی اس دعا کو قبول فرمایا اور مکہ جو ایک بے آب و دانہ شہر تھا آج ہر قسم کے پھلوں سے دستیاب ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ، جن کو 1912ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، فرماتے ہیں کہ انہوں نے وہاں ایسے پھل کھائے جو نہ ہندوستان میں کھائے نہ شام میں نہ اٹلی میں اور نہ فرانس میں۔

(تفسیر کبیر جلد3 صفحہ486)

یہ دعا آنحضرتﷺ کی صورت میں بھی پوری ہوئی کیونکہ آپﷺ کی بعثت سے پہلے صرف عرب ہی مکہ آیا کرتے تھے مگر آپﷺ کی بعثت کے بعد اب نہ صرف دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں بلکہ مکہ توحید کا ایک عظیم مرکز بن گیا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں بھی کسی خود غرضی پر مبنی نہ تھیں۔ آپؑ کو انسانیت کی ہدایت کے لئے ہی فکر تھی۔ آپؑ نے یہ دعا کی کہ: رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۳۰﴾ (البقرہ: 130)

اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔ یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

قرآن کریم نے اس دعا کی قبولیت کی شہادت خود دی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الجمعہ میں فرماتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ (الجمعہ: 3)

وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کا جواب انہی الفاظ میں کیا۔ آنحضرتﷺ خود فرمایا کرتے تھے کہ: أَنَا دَعْوَةُ أَبِيْ إِبْرَاهِيْمَ (المستدرک علی صحیحین الحاکم جلد2 صفحہ453 تفسیر سورۃ الاحزاب:47 حدیث نمبر 3566)۔ یعنی میں وہ شخص ہوں جو اپنے باپ ابراہیمؑ کی دعاؤں کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا گیا ہوں۔ پس یہ ایک زبردست دعا تھی جس کے مصداق آنحضرتﷺ ٹھہرے اور آپ کی شریعت اسی دعا کے سبب نازل ہوئی۔ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو جاری کیا اور اس کے بعد محمدی سلسلہ جاری کیا جس کی آخری کڑی حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے پوری ہوئی۔ اسی دعا کی قبولیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا بھی ایک زبردست نشان دنیا کو دیا۔ کہ ایک شخص کی دعا کے نتائج کس شان سے 2,500 سال بعد ظہور میں آئے۔

حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے زمانہ میں مجھے بعض دوستوں نے قرآن کریم پڑھانے کو کہا۔ درس کے دوران جب میں حضرت ابراہیمؑ کی مذکورہ بالا دعا پر پہنچا کہ اے اللہ ان میں انہی میں سے ایک نبی پیدا کر تو آپؓ فرماتے ہیں کہ: ‘‘یکدم میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا۔ کہ یہ آیت اس سورۃ [یعنی سورۃ البقرہ – ناقل] کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورت کے تمام مضامین اس آیت کی تشریح ہیں۔ بلکہ انہیں بیان بھی اسی ترتیب سے کیا گیا ہے جس ترتیب سے دعائے ابراہیمی میں ان کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر مزید یہ امر کھولا کہ سورۂ کوثر دعائے ابراہیمی کا جواب ہے جس کا سورۃ بقرہ میں ذکر آتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ191)

پھر حضرت ابراہیمؑ نے مکہ شہر کے لئے خاص دعا بھی کی کہ: رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ (البقرہ: 127) اے میرے رب! اس جگہ (یعنی مکہ) کو ایک پُر امن اور امن دینے والا شہر بنا دے اور اس کے بسنے والوں کو جو ان میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطا کر۔

آج تک کوئی بیرونی دشمن مکہ پر حملہ نہیں کر پایا اور گو بہت سے لوگوں نے کوشش کی مگر یہ حرمت والا شہر ہمیشہ کے لئے مفسدوں کے لئے بند کر دیا گیا۔ یہ دعا اور مذکورہ بالا دعا جو آنحضرتﷺ کے حق میں قبول ہوئی ایک نہایت عظیم الشان رنگ میں بیک وقت بھی پوری ہوئیں۔ جس سال آنحضرتﷺ کی ولادت ہوئی، اسی سال واقعہ اصحاب الفیل وقوع پذیر ہوا جب ابرہہ نے مکہ پر حملہ کرنا چاہا اور وہ ناکام و نا مراد رہا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی ان دونوں دعاؤں کو نہایت حیرت خیز رنگ میں پورا کیا۔ اصحاب الفیل کا واقعہ بیان کر کے قرآن کریم نے اس کی شہادت خود بھی دے دی کہ مکہ امن میں ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (آل عمران: 98) جو بھی مکہ میں داخل ہو گا وہ امن میں ہو گا۔ اس شہر میں کوئی لڑائی نہیں ہو گی۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًاکا جواب وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا دیا۔

پھر آپؑ کی ایک اور دعا کا ذکر قرآن کریم میں درج ہے۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی: وَاجْعَل لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِيْنَ (الشعراء: 85)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس دعا کا یوں ترجمہ کیا ہے:
’’اے میرے خدا! تو آخری زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں میرے لئے دعا کی تحریک پیدا کر دے۔ لیکن وہ دعا عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو اور پھر وہ تعریف صرف لوگوں کی زبانوں پر ہی نہ ہو بلکہ واقعہ میں میرے بیک کام دنیا میں قائم رہیں اور اس طرح مجھے ظاہری اور باطنی طور پر اچھی تعریف حاصل ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ188)

اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں لکھ چھوڑا: وَتَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ۖ سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿۱۱۰﴾ (الصافات: 109-110) اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضرت ابراہیمؑ پر سلامتی بھیجی بلکہ ہر روز مسلمان ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے آپؑ پر سلامتی بھیجتے ہیں۔ مسلمان ہی ہیں جو آپ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہتے اور لکھتے ہیں۔ اس دعا نے آج مسلمانوں اور خصوصاً افراد جماعت احمدیہ کی صورت میں قبولیت پائی۔ کیونکہ مسلمان پچھلے تیرہ سو سال سے، ہر روز، ہر نماز میں، آپؑ پر درود بھیج رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ خصوصاً درود شریف پر زور دیتی چلی آ رہی ہے۔ اسی ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: ’’دنیا کے لوگ عزت چاہتے ہیں۔ اولاد چاہتے ہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں۔ ذکر خیر چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں سے ابراہیم کو متمتع کیا۔ ان کو دیکھو کہ کوئی حساب نہیں۔ عظمت کا یہ حال ہے کہ مسلمان، یہودی، صابی، پارسی، عیسائی باوجود بہت سے اختلاف کے ان کو یکساں معزز و مکرم مانتے ہیں ……تورات میں ہے کہ جو تیری بے ادبی کرے گا میں اسے ذلیل کروں گا۔ جو تیرے لئے برکت مانگے گا میں اسے برکت دوں گا اسی لئے اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ پڑھنے کی ہدایت کی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ235)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ (الصافات: 110) کی آواز جو آئندہ نسلوں سے اٹھنی ہے اس نے محسنین کا یہ معنی بھی ہمیں دکھا دیا۔ ابراہیمؑ بہت بڑا محسن تھا، اس کی کوکھ سے، اس کی نسل سے وہ عظیم نبی برپا ہونا تھا جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا ہے۔ وہ عظیم نبی برپا ہونا تھا جس نے قربانیوں کے لا متناہی سلسلے قیامت تک جاری کر دینے تھے۔ پس اتنا بڑا محسن انسانیت کا یعنی براہ راست نہ سہی اللہ کے حوالے سے سہی مگر اس کے دل کی آرزوؤں کو آسمان نے قبول کیا اور آسمان سے وہ رحمت برسائی جس کا نام رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ہے۔ یہ بھی تو ابراہیمؑ کے احسانات میں سے ایک ہے جو انسانیت پر کیے گئے، آئندہ ہونی تھی اور اس آزمائش پر اسے پورا اترنے کی توفیق بھی ہم نے عطا کرنی تھی اور جب وہ آزمائش پر اتر جاتا تو مقدر تھا کہ آئندہ اس کی آنے والے دور کی نسلوں میں بھی وہ قربانی جاری رہے اسی جذبے کے ساتھ جاری رہے اور ہر قربانی کے دل سے یہ آواز اٹھے سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ اے ابراہیم! تجھ پر سلام ہو، بڑا عظیم الشان وجود تھا۔‘‘

(خطبات طاہر خطبات عیدین صفحہ621-622)

پھر آپؑ کی ایک ایسی دعا بھی ہے جس کو تعجب آمیز ذریعہ سے قبولیت نصیب ہوئی۔ قرآن کریم نے آپ علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا ہے کہ: رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ (البقرہ: 129)۔ یعنی اے ہمارے رب! ہمیں اپنے حضور مسلمان قرار دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک بڑی امت کو اپنے حضور مسلمان قرار دے۔

پس اسی دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِیۡ ہٰذَا (الحج: 79) یہ وہ ملت ہے جو تمہارے بزرگ باپ حضرت ابراہیمؑ کی ملت ہے۔ اس نے (یعنی اللہ نے) تمہیں مسلمان قرار دیا اور اس سے پہلے (یعنی ابراہیم کے وقت) اور اس میں بھی (یعنی قرآن کریم میں بھی)۔

پس یہاں صریح الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ کو مسلمان قرار دیا۔ آپ علیہ السلام کی صفات ایک مسلمان کی صفات تھیں اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، قرآن کریم نے یہ بھی کہا کہ مسلمان آپ علیہ السلام کی پیروی کریں۔ غرض حضرت ابراہیمؑ کی تمام اداؤں کا خلاصہ قرآن کریم نے اسلام بیان کیا ہے۔

پھر قرآن کریم نے واضح الفاظ میں بھی آپؑ کے مسلمان ہونے کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا: مَا کَانَ اِبۡرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّلَا نَصۡرَانِیًّا وَّلٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَمَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۶۸﴾ (آل عمران: 68)۔ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھا لیکن وہ ہمیشہ خدا کی طرف جھکے رہنے والے مسلم تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ جب بھی دعا مانگتے تو اللہ تعالیٰ سے ہی مانگتے۔ در حقیقت قبلہ رو ہو جانے کا نام اسلام ہی ہے اور خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا یہی مطلب ہے کہ اسلام ہمیشہ خدا کی طرف قبلہ رو ہونے کا نام ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بھی آپ کی سات عظیم الشان دعائیں اور ان کی قرآن کریم میں مذکور قبولیت کا ذکر کیا ہے۔

(نور الدین صفحہ249-250)

مہمان نوازی

قرآن کریم نے دو مقامات پر آپؑ کی مہمان نوازی کا ذکر کیا ہے۔ بعض لوگ آپ علیہ السلام کے گھر آئے جو حضرت لوطؑ کی قوم کی طرف ان کے غلط کاموں کے سبب ان کو عذاب الٰہی کے آنے کے وقت کی خبر دینے جا رہے تھے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کا یوں ذکر کیا ہے: ہَلۡ اَتٰٮکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ﴿ۘ۲۵﴾ اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ ﴿ۚ۲۶﴾ فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ ﴿۲۷﴾ (الذاریات: 25-27) کیا تجھ تک ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام! انہوں نے بھی کہا سلام! (اور جی میں کہا) اجنبی لوگ (معلوم ہوتے ہیں)۔ وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک موٹا تازہ (بھنا ہوا) بچھڑا لے آئے۔

یہ لوگ گو حضرت ابراہیمؑ کو جانتے تو نہ تھے مگر آپؑ نے ان کی حاجت کی فکر کر کے کہ مسافر ہیں بھوک پیاس نہ لگی ہو فوراً کھانا لائے بغیر پوچھے کہ کھائیں گے یا نہیں۔ صرف سلام دعا ہوئی اور آپ علیہ السلام نے بات شروع کرنے سے پہلے کچھ پیش کرنا مناسب سمجھا۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ آپؑ کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَلَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنۡ جَآءَ بِعِجۡلٍ حَنِیۡذٍ ﴿۷۰﴾ فَلَمَّا رَاٰۤ اَیۡدِیَہُمۡ لَا تَصِلُ اِلَیۡہِ نَکِرَہُمۡ وَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً (ہود: 70-71)

اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوش خبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ اُس (کھانے) کی طرف بڑھ نہیں رہے تو اس نے انہیں غیر سمجھا اور ان سے ایک خوف سا محسوس کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ اسی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لوگ اکرام تو کرتے ہیں مگر اکرامِ ضیف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر حضرت ابراہیم نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کو بٹھایا اور خاموشی اور خفیہ طریق سے اپنے اہل کی طرف گئے۔ رَاغَ کے معنی ہوتے ہیں خفیہ جانا اور یہ لفظ شکاریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان اصل معنوں کو چھوڑ کر اور معنی کیے ہیں مگر میرے نزدیک اصل معنوں سے شان بڑھتی ہے۔ پس جس طرح شکاری شکار پر جاتا ہے کہ کہیں شکار کو خبر نہ ہو جائے اسی طرح ابراہیم بھی چپکے سے کھسک گئے اور فوراً ایک موٹا تازہ عجل (بچھڑا) ذبح کر کے اور کھانے کے لئے تیار کر کے لے آئے …

حضرت ابراہیمؑ نے کھانا لا کر رکھا مگر اُنہوں نے نہیں کھایا۔ ان کے کھانا نہ کھانے پر حضرت ابراہیمؑ نے بُرا نہیں منایا جیسا کہ ایسے موقع پر بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے تو ان کے لئے یہ کچھ تیاری کی پر اُنہوں نے قدر نہ کی مگر ابراہیمؑ کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنہوں نے مہمانوں کے اس فعل سے بُرا نہیں منایا کہ اُنہوں نے کھانا کیوں نہ کھایا بلکہ فرماتا ہے فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً۔ اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ابراہیم اپنے دل میں ڈر گئے کہ کہیں یہ ڈاکو نہ ہوں مگر میں کہتا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خوف اس بات کا ہوا کہ کہیں مجھ سے مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ابراہیمؑ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مہمانوں کو ڈاکو سمجھ کر ڈر گئے غلطی ہے کیونکہ ابراہیمؑ تو وہ ہیں جو اکیلے بادشاہ کے جھگڑے سلجھانے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ وہ ڈاکوؤں سے کیا ڈرتے۔ ان کو جو خوف ہوا وہ یہی تھا کہ کہیں مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ مہمانوں پر ناراض نہیں ہوئے نفس کو الزام دیا کہ تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی…

ابراہیم ابو الانبیاء ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جدّ امجد ہیں اگر وہ مہمان فرشتہ بھی تھے تاہم ابراہیم خدا کے نبی تھے اور اگر وہ انسان تھے تو بھی حضرت ابراہیم سے نیچے تھے مگر وہ مہمان ہو کر ابراہیم کے لئے مکرم ہو گئے اس لئے کوئی مہمان ہو فطرت کے اقتضاء، شریعت کے منشاء کے ماتحت مہمان کی عزت ہی کرنا چاہیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 5؍دسمبر 1919ء مطبوعہ خطبات محمود جلد6 صفحہ349، 351)

پس ان آیات میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کا بھی ایک اعلیٰ سبق سکھلایا گیا ہے۔ اسلام میں مہمان نوازی کو بہت قدر دی جاتی ہے اور حضرت ابراہیمؑ میں بھی یہ اعلیٰ وصف پایا جاتا تھا۔

اہل و عیال کے حقوق کی ادائیگی

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی فیملی کی دیکھ بال کا بھی حق ادا کیا۔ جہاں آپ علیہ السلام خود حق ادا نہ کر پاتے اور ان کی دیکھ بال نہ کر پاتے وہاں آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسی سے دعائیں کیں کہ وہ ان کی دیکھ بال کرے۔ آپؑ کی اس دعا کا ذکر ہو چکا ہے جو بیوی بچے کو مکہ میں چھوڑنے پر آپ علیہ السلام نے کی۔ پس گو ان کو اکیلا چھوڑا مگر ان کا خیال رکھنا نہ چھوڑا بلکہ ان کے لئے دعائیں کرتے رہے اور تین چار دفعہ لمبے سفر کاٹ کر ان کو دیکھنے بھی آئے۔

اس کے علاوہ آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت بھی کی۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ: وَوَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَیَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ (البقرہ: 133) اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو تاکیدی نصیحت کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے پیارے بچو! یقیناً اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے۔ پس ہر گز مرنا نہیں مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔

پس آپؑ نے اپنی وفات سے پہلے اپنی ذریت کی تربیت کرتے ہوئے ان کو توحید پر قائم رہنی کی وصیت کی۔ صرف ان کو نصائح نہ کیے بلکہ ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہے۔ قرآن کریم آپؑ کی دعا جس کا ذکر اوپر بھی ہو چکا ہے آپؑ کے بچوں کے حق میں ایسے بیان کرتا ہے: وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ (البقرہ: 129) ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر دے۔

اللہ تعالیٰ آپؑ کی ایک اور دعا بیان کرتا ہے: وَاجۡنُبۡنِیۡ وَبَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ (ابراہیم: 36)۔ مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔

پس آپؑ کی اولاد میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ صرف بنی اسرائیل میں تقریباً 400 انبیاء مبعوث ہوئے۔ آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی قبولیت دعا کے ثمرات آپؑ کی اولاد میں بھی ظاہر ہوتے رہے اور آج تک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ نے بھی تبلیغ کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ: اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۳۸﴾ وَاتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا (یوسف: 38-39)۔ یقیناً میں اس قوم کے مسلک کو چھوڑ بیٹھا ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے تھے اور وہ آخرت کا انکار کرتے تھے اور میں نے اپنے آباء و اجداد ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی۔ ہمارے لئے ممکن نہ تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتے۔ یہ اللہ کے فضل ہی سے تھا جو اس نے ہم پر کیا۔

حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ یا چچا کا احترام بھی کیا کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو شریعت دی تو آپؑ کو کہنا پڑا کہ: یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿۴۴﴾ (مریم: 44)۔ اے میرے باپ! یقیناً میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا۔ پس میری پیروی کر۔ میں ٹھیک راستے کی طرف تیری رہنمائی کروں گا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ: ’’میں سمجھتا ہوں سب سے بڑا ابتلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہی تھا کہ ……وہ ان کو پالنے والا تھا اسے جا کر آپ کو یہ کہنا پڑا کہ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ (مریم: 44) اور یہ دعویٰ کرنا پڑا کہ مجھے وہ علم حاصل ہے جو آپ کو حاصل نہیں۔ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنی بڑی دوبھر ہوتی ہے پس میرے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہت بڑے ابتلاؤں میں سے ایک ابتلا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ا ن کو ایسے زمانہ میں مبعوث کیا جب ان کو پالنے والا یا جننے والا باپ موجود تھا اور اسے بتانا پڑا کہ تمہاری غلطی ہے اور کہنا پڑا کہ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا (مریم: 44)۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ275-276)

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کو بھی بہت تبلیغ کی کہ وہ بھی توحید کے عالمی پیغام کو قبول کر لے۔ جب اس نے انکار کر دیا تو آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پہلے اپنے باپ کو تبلیغ کرنی پڑی جو آپ کے لئے ایک ابتلا تھا۔ پھر جب اس نے اعراض کیا تو آپؑ نے وعدہ کیا کہ آپ ان کے لئے دعا کریں گے تا کہ وہ سچائی قبول کر لیں۔ قرآن کریم اس ضمن میں فرماتا ہے: قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِہَتِیۡ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَاہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا ﴿۴۷﴾ قَالَ سَلٰمٌ عَلَیۡکَ ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا ﴿۴۸﴾ (مریم: 47-48) اس نے کہا کیا تو میرے معبودوں سے انحراف کر رہا ہے اے ابراہیم! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو مجھے لمبے عرصہ تک تنہا چھوڑ دے۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا تجھ پر سلام۔ میں ضرور اپنے رب سے تیرے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ یقیناً وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔

اس گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ  باوجود اس کے کہ شرک سے شدید متنفر تھے مگر آپؑ نے تبلیغ کے دوران مناظرے کے تمام آداب کو ملحوظ خاطر رکھا۔ پس آپؑ نے اپنے وعدہ کے موافق اپنے باپ کے لئے دعائیں شروع کر دیں۔ گو مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہ تھا، آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے خاص اجازت دی کہ وہ اپنے وعدہ کو پورا کر لیں۔ مگر پھر صاف معلوم ہو گیا کہ وہ ہدایت سے دور ہے اور اللہ نے واضح کر دیا کہ وہ دشمن ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو اس کے لئے دعا کرنے سے منع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ؕ اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۱۴﴾ (التوبہ: 114) ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لئے محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا۔ پس جب اس پر یہ بات خوب روشن ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا۔ یقیناً ابراہیم بہت نرم دل اور بردبار تھا۔

اللہ تعالیٰ یہاں آپؑ کی رافت اور رحمت کا بھی ذکر کر رہا ہے۔

تذلل اور عاجزی

خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا کام اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے سپرد کیا تھا۔ آپؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی۔ اس دوران انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی عاجزانہ دعا کی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کو یہ دعا یاد دلواتا ہے اور آپؑ کا نمونہ پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَاِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَاِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾ (البقرہ: 128) اور جب ابراہیم اس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے) کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقیناً تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: یہ انبیاء ہی کی شان ہے کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی کرتے چلے جاتے ہیں…… حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھو کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ بڑا ہوتا ہے۔ تو اسے ایک ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کھانے کا کوئی سامان تھا نہ پینے کا …… بیت اللہ کی تعمیر کے ساتھ وہ خانہ کعبہ کے ساتھ باندھ دیئے گئے گویا خانہ کعبہ کی ہر اینٹ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بزبان حال کہہ رہی تھی کہ تم نے اب اسی جنگل میں اپنی تمام عمر گزارنا ہے۔ یہ کتنی بڑی قربانی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ مگر اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کہتے ہیں کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اے اللہ! ہم ایک حقیر ہدیہ تیرے حضور لائے ہیں تو اپنے فضل سے چشم پوشی فرما۔ اسے قبول فرما لے…… پس وہ کہتے ہیں کہ تو خود ہی رحم کر کے اس قربانی کو قبول فرما لے حالانکہ یہ اتنی بڑی قربانی تھی کہ اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قربان کر رہا تھا اور خانہ کعبہ کی ہر اینٹ ان کو بے آب و گیاہ جنگل کے ساتھ مقید کر رہی تھی۔ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کی ایک ایک اینٹ کے ساتھ ان کے جذبات و احساسات کو دفن کر رہے تھے۔ مگر دعا یہ کرتے ہیں کہ الٰہی یہ چیز تیرے حضور پیش کرنے کے قابل تو نہیں مگر تو ہی اسے قبول فرما لے۔ یہ کتنا بڑا تذلل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اختیار فرمایا اور در حقیقت قلب کی یہی کیفیت ہے جو انسان کو اونچا کرتی ہے۔ ورنہ اینٹیں تو ہر شخص لگا سکتا ہے مگر ابراہیمی دل ہو تب وہ نعمت میسر آتی ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ کہے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ179-180)

حضرت ابراہیمؑ جب اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کر رہے تھے تو آپؑ نے یہ بھی فرمایا: وَالَّذِیۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لِیۡ خَطِیۡٓئَتِیۡ یَوۡمَ الدِّیۡنِ﴿۸۳﴾ (الشعراء: 83) اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا سزا کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔

گو آپؑ اس وقت دنیا میں اللہ تعالیٰ کے چنیدہ نبی تھے، آپؑ میں ایک ذرہ تکبر نہ تھا۔ کتنی عاجزی ہے کہ نبی اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونے کے باوجود آپؑ کو صرف امید تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ معاف کر دے۔

آنحضرتؐ سے مماثلت

آنحضرتؐ گو حضرت موسیٰؑ کے مثیل ہیں مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی روحانی مشابہت حضرت ابراہیمؑ کے مطابق تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ: اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۶۹﴾ (آلِ عمران: 69) یعنی یقیناً ابراہیم سے قریب تر تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی بھی اور وہ لوگ بھی جو (اس پر) ایمان لائے اور اللہ مومنوں کا ولی ہے۔

اسی طرح آپؐ نے معراج کی رات کا واقعہ سنایا تو فرمایا کہ میرا چہرہ حضرت ابراہیمؑ کے چہرہ سے مشابہت رکھتا ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب35 حدیث نمبر 3394)

اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں کے درجات اتنے بلند کیے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرتﷺ دونوں ساتویں آسمان پر ہیں۔

(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق باب6 حدیث نمبر 3207)

قرآن کریم سے واضح ہے کہ آپؑ کی آنحضرتؐ سے ایک عجیب مماثلت تھی۔ اس مماثلت سے آپؑ کے اخلاق پر روشنی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اسی مشابہت کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’یہ محقق امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خو اور طبیعت پر آئے تھے مثلاً جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید سے محبت کر کے اپنے تئیں آگ میں ڈال لیا اور پھر قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ کی آواز سے صاف بچ گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تئیں توحید کے پیار سے اس فتنہ کی آگ میں ڈال لیا جو آنجناب کے بعث کے بعد تمام قوموں میں گویا تمام دنیا میں بھڑک اُٹھی تھی اور پھر آواز وَاللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ سے جو خدا کی آواز تھی اس آگ سے صاف بچائے گئے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان بتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا جو خانہ کعبہ میں رکھے گئے تھے۔ جس طرح حضرت ابراہیم نے بھی بتوں کو توڑا اور جس طرح حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کے بانی تھے۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ کی طرف تمام دنیا کو جھکانے والے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کی طرف جھکنے کی بنیاد ڈالی تھی لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بنیاد کو پورا کیا۔ آپ نے خدا کے فضل اور کرم پر ایسا توکل کیا کہ ہر ایک طالب حق کو چاہیے کہ خدا پر بھروسہ کرنا آنجناب سے سیکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس قوم میں پیدا ہوئے تھے جن میں توحید کا نام و نشان نہ تھا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس قوم میں پیدا ہوئے جو جاہلیت میں غرق تھی اور کوئی ربانی کتاب ان کو نہیں پہنچی تھی اور ایک یہ مشابہت ہے کہ خدا نے ابراہیم کے دل کو خوب دھویا اور صاف کیا تھا یہاں تک کہ وہ خویشوں اور اقارب سے بھی خدا کے لئے بیزار ہو گیا اور دنیا میں بجز خدا کے اس کا کوئی بھی نہ رہا۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واقعات گزرے اور باوجودیکہ مکہ میں کوئی ایسا گھر نہ تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی شعبہ قرابت نہ تھا۔ مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہو گئے اور بجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا۔ پھر خدا نے جس طرح ابراہیم کو اکیلا پا کر اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہو گئی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اکیلا پا کر بے شمار عنایت کی اور وہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دیئے جو نجوم السماء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے۔ غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکار ا گیا صلی اللہ علیہ و سلم۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ476-477)

حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہی تجزیہ پیش کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرتﷺ میں عجیب مماثلت پائی جاتی ہے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ528)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمہٴ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ518 ایڈیشن 2016ء)

الغرض حضرت ابراہیمؑ ہی وہ عظیم الشان شخصیت ہیں جن پر خدا کا نور گھٹائیں باندھ کر اترا۔ جن کی خاطر رسول اللہ ؐکو حکم ہوا کہ ملت ابراہیمی کی پیروی کرو۔ آج آسمان کے ستارے تو شاید گنے جا سکتے ہوں لیکن خدائی وعدوں کے مطابق ابراہیم ؑ کی جسمانی اور روحانی اولاد کا شمار ناممکن ہے اور ابراہیمؑ کے بروز اور ظل ہمیشہ پاک وجودوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ جن کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے امت مسلمہ دیوانہ وار خانہٴ کعبہ اور جنگلوں اور بیابانوں کا طواف کرتی رہتی ہے اور اس کی خاطر ہر سال اپنی بھی اور جانوروں کی بھی قربانیاں پیش کرتی رہتی ہے۔ ابراہیم ؑ کی رسول اللہؐ کے لئے دعائیں اور رسول اللہؐ اور ان کی امت کا درود شریف ہمیشہ ابراہیمؑ کو درجات میں بلند تر کرتا چلا جائے گا اور جب تک سورج اور چاند قائم ہیں لوح آسمان و زمین پر ابراہیمؑ کا نام ہمیشہ عظمت کے ساتھ گونجتا رہے گا۔

(جاذب محمود۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

محترمہ ماریہ آرینز کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2022