• 10 اکتوبر, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍اکتوبر 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍اکتوبر 2022ء بمقام مسجد بیت الاکرام ڈیلس (Dallas) امریکہ

’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی …لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد آپ نے خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بنائی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے فیض پانے والے ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے ویسا ہی گھر بنائے گا

اللہ تعالیٰ کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اس کے حکموں پر چلنے والا ہو، اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہو، حقوق العباد ادا کرنے والا ہو، وفا اور اخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو، اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو۔

اس مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپس میں پیارو محبت سے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔
اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے

مسجد بیت الاکرام ڈیلس (Dallas) امریکہ کے افتتاح کے موقعہ پر احبابِ جماعت کو بطور احمدی مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی تلقین

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

قُلۡ اَمَرَ رَبِّیۡ بِالۡقِسۡطِ ۟ وَاَقِیۡمُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ؕ کَمَا بَدَاَکُمۡ تَعُوۡدُوۡنَ ﴿ؕ۳۰﴾ فَرِیۡقًا ہَدٰی وَفَرِیۡقًا حَقَّ عَلَیۡہِمُ الضَّلٰلَۃُ ؕ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَیَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿۳۱﴾ یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۳۲﴾

(الاعراف: 30 تا 32)

ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ تُو کہہ دے کہ میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات (اللہ کی طرف) سیدھی رکھو اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم (مرنے کے بعد) لوٹو گے۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت بخشی اور ایک گروہ پر گمراہی لازم ہوگئی۔ یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

آج آپ کو اپنی مسجد کے افتتاح کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے۔ گو اس کی تعمیر تو کچھ عرصہ پہلے مکمل ہو گئی تھی لیکن اس کا اب رسمی افتتاح ہو رہا ہے۔ یہاں مسجد کے طور پر شروع میں ایک ہال بنایا گیا تھا لیکن اب باقاعدہ مسجد آپ نے بنائی ہے۔ بہرحال اب ایک خوبصورت اچھی مسجد بن گئی ہے اور گنجائش کے لحاظ سے بھی کافی وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد آپ نے خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بنائی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے فیض پانے والے ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے ویسا ہی گھر بنائے گا۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد باب فضل بناء المسجد … حدیث 1189)

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بنائی ہوئی مسجد کا کام مسجد کی تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ

اللہ تعالیٰ کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اس کے حکموں پر چلنے والا ہو، اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہو، حقوق العباد ادا کرنے والا ہو، وفا اور اخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو، اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والا ہو۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مانا ہے۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا اور آپؑ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہمارا کام آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ختم نہیں ہو گیا بلکہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ تبھی ہم ان انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیا ہے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا۔

اس مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپس میں پیارو محبت سے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

تبھی ہم مسجد کا حق بھی ادا کر سکیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا ہو وہاں مسجد بنا دو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن 1984ء) اب اس مسجد کے بننے سے ظاہری طور پر تو اسلام کا تعارف اس علاقے میں ہو جائے گا۔ بعض ہمسائے آئے بھی اور انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار بھی کیا باوجود آج کل زیادہ لوگوں کے آنے اور رَش اور پھر شور کے۔ ایک بالکل ساتھ والے ہمسائے چند دن ہوئے ملنے آئے تھے تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہمیں آپ لوگوں کی ہمسائیگی مل گئی لیکن ہمیں بہرحال اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے اور غیر ضروری شور اور ہنگامہ یہاں نہیں کرنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہ کر سب کام کرنے چاہئیں۔ تو بہرحال مسجد سے تعارف ہمسایوں کو بھی ہو گا اور یہاں سڑک پر سے گزرنے والوں کو بھی ہو گا اور یہ جو تعارف کا راستہ کھلا ہے اس سے آپ کے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ پس

ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا اور بننا چاہیے۔ دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہیے کہ اس دنیا دار معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کام کرتے ہوئے پھر دین کو دنیا پر مقدم کرنےو الے بھی ہیں

اور اپنے پیدا کرنے والے قادر و توانا خدا سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور مخلوق کی ہمدردی کرنے والے بھی ہیں اور مخلوق کے کام آنے والے بھی ہیں۔ جب یہ چیز دنیا دار دیکھتے ہیں تو ان میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی اسلام کی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اب ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے۔

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی مساجد کے ساتھ منسلک ہونے والوں کی بعض ذمہ داریوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ سب سے پہلے تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انصاف قائم کرو اور انصاف کرنے کے بارے میں دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دور نہ کرے۔ اب یہ معیار جو انصاف کا قائم کرنے والا ہے وہ کسی دوسرے کے متعلق غلط سوچ رکھ ہی نہیں سکتا۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ایسا شخص تو موقع تلاش کرے گا کہ میں کس طرح دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں اور ایسے حقوق قائم کرنے والا جب انسان ہو تو یقیناً ماحول پر ایک نیک اثر ڈالتا ہے اور یہی نیک اثر پھر تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومنوں کو، مسجد میں آنے والوں کو مسجد کے حوالے سے پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے سامان کرو اور اس کے لیے سب سے اہم چیز انصاف قائم کرنا ہے۔ اب جہاں اللہ تعالیٰ غیروں اور دشمنوں سے بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہا ہے تو اپنوں سے کس قدر پیارو محبت سے ہمیں رہنا چاہیے اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے لوگوں پر پڑتی ہے۔ جب یہ لوگ مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کو قبول فرماتا ہے لیکن اگر ایک شخص اپنے گھر میں اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں کر رہا، ہر وقت اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہوا ہے، بچے اس سے علیحدہ خوف زدہ ہیں اور پھر وہ اپنے عمل سے بچوں کو دین سے دُوری کا باعث بھی بن رہا ہے تو پھر ایسے شخص کے نہ ہی جماعتی کام اور نہ ہی عبادتیں اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول ہوتے ہیں۔ اس دو عملی کی وجہ سے دھوکا ہے جو انسان کسی اَور کو نہیں دے رہا ہوتا بلکہ اپنے آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔

پس حقیقی مومن وہی ہے جو اندر اور باہر انصاف قائم کرنے والا ہے، جس کا قول و فعل اندر اور باہر ایک جیسا ہے اور یہی لوگ وہ ہیں جو حقیقت میں مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے والے ہیں کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پُر ہیں۔

پس یہ معیار حاصل کرنا ہمارا کام ہے ورنہ صرف مسجد بنا دینا اور یہاں آ کر اپنے سر سے بوجھ اتارنے کے لیےجلدی جلدی نمازیں پڑھ لینا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور جب انسان یہ معیار حاصل کر لیتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک معصوم بچے کی طرح ہے، اس کا انجام بخیر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ بندوں کے حق بھی ادا کر رہا ہے۔ پس کسی کو اس بات پر ہی ناز نہیں ہونا چاہیے کہ میں بہت نماز پڑھنے والا ہوں۔ پانچ وقت مسجد میں آ جاتا ہوں اور جماعت کے کام بھی کر رہا ہوں تو یہ کافی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی حق اد انہیں کرتا۔

(جامع الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر … حدیث 1954)

پس کسی خوش فہمی میں ہمیں نہیں رہنا چاہیے۔ حقیقی عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہی ہے جو خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے اندر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زور دے کر فرمایا کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کیا، دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے ہوئے اپنی حالتوں کو صحیح راستوں پر چلانے کے لیے بھرپور کوشش نہ کی، توبہ اور استغفار کی طرف مستقل توجہ نہ کی تو شیطان تم پر غالب آ جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے توبہ اور استغفار کی طرف مستقل توجہ رکھو۔ آج کل کے اس دنیا داری کے ماحول میں تو خاص طور پر اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے تبھی کامیابی ملے گی، تبھی ایک معصوم بچے کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گے۔

مسلمانوں کی حالت بگڑنے کی وجہ سے ہی اسلام کا زوال شروع ہوا جب انہوں نے انصاف اور عبادتوں کو دکھاوا بنا لیا یا اس کا حق ادا نہیں کیا اور پھر سب کچھ ضائع ہو گیا۔

خوبصورت مسجدیں تو بےشک بناتے رہے اور بنا رہے ہیں اور احمدیوں کی مسجدوں کو آج کل پاکستان میں تو گرانے کا بھی زور ہے اس لیے کہ احمدیوں کی مساجد کی ہماری مسجدوں جیسی شکل نہ ہو، ان کے منارے نہ ہوں، ان کی محرابیں نہ ہوں لیکن عبادالرحمٰن ان میں نہیں پید اہوئے۔ اسی بات کو یہ فخر سمجھتے ہیں کہ ہم احمدیوں پر ظلم کر رہے ہیں یا ان کے زعم میں ان کو صحیح راستے پر چلانے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال پہلے زمانے میں بھی یہ زوال ہوا، اسی لیے ہوا کہ مسجدوں کی آبادی ظاہری تھی۔ خال خال بعض جگہوں پر حقیقی مسلمان بھی نظر آتے تھے لیکن عمومی طور پر زوال تھا۔ بہرحال یہ سب کچھ ہونا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں آگاہ فرما دیا تھا لیکن اس ظلمت کے زمانے کے بعد جو روشنی کا زمانہ مسیح موعودؑ کی آمد سے آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلامِ صادق کی ہم نے بیعت کی توفیق پائی ہے اس عہد کے ساتھ کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور قرآنِ کریم کے حکموں پر چلیں گے تو ہمیں پھر جیساکہ میں نے کہا بہت توجہ اپنی حالتوں پر دینی ہو گی۔ ان غیروں جیسی مسجدوں کی حالت سے اپنی مسجدوں کو بچانا ہو گا جس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے۔

(الجامع لشعب الایمان جزء3 صفحہ318 باب فی نشر العلم حدیث 1763مکتبۃ الرشد ناشرون ریاض 2003ء)

اور یہی کچھ ہم آج کل اکثر مسلمانوں کی مساجد میں دیکھ رہے ہیں۔ تو یہ حالت جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں یہ ہمیں ہوشیار کرنے والی ہے۔ ان میں تو فتنوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ صرف زور ہے تو جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا کہ جماعت کی مسجدوں کے مینار گراؤ۔ یہ تو مسجد نہیں کہتے، عبادت گاہیں،ان کی محرابیں گرا دو اور کوئی دین کی خدمت نہیں ہے ان کی۔ کوئی انصاف نہیں۔ بہرحال یہ باتیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ کس طرح ہم نے خالص ہو کر مسجدوں کے اور بندوں کے حق ادا کرنے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان آیات میں سے پہلی آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آ گیا ہے۔ وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کو نہیں اور یہی دینی طور پر وہ بات جو مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا ہے۔

اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں۔ ان کے نزدیک مسلمان کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہیں۔ ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلمانوں کو ہلاک کریں …

اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں اور اسی غرض کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ450 ایڈیشن 1984ء)

پس ایسے حالات میں اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والے ہی ہیں جنہوں نے اپنی حالتوں کو اپنا حق بیعت نبھاتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق درست نہ کیا اور اپنی حالتوں پر ہمیشہ نظر نہ رکھی تو پھر ہم ان لوگوں میں شمار نہیں ہو سکیں گے جنہوں نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے اس دَور میں اپنی بیعت کا حق ادا کرنا تھا۔

ہم ہی ہیں جنہوں نے اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔

جو نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے یہ بہت خوفناک نقشہ ہے اور عملاً یہی نظر آتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ تم جو اسلام کو اور مسلمانوں کو حقیر سمجھتے ہو اور تمہارے نزدیک یہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں لیکن یاد رکھو یہی لوگ ہیں جن کی تعلیم پر عمل سے دنیا کی بقا ہے۔ پس مکمل خود اعتمادی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اس کے آگے جھکتے ہوئے، مانگتے ہوئے، ہمیں دنیا کی راہنمائی کا کام کرنا ہو گا۔

بعض نوجوان سوال کرتے ہیں، ایک نوجوان نے سوال کیا کہ کس طرح ہم ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں؟ اسے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ اعتماد پیدا کرو اور اس یقین پر قائم رہو کہ آج دنیا کی بقا ہمارے ہاتھوں میں ہے کیونکہ ہم اس مسیح موعودؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والے ہیں جو دنیا کو زندگی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کے پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اب اس کے ساتھ جڑنے سے ہی دنیا و آخرت سنور سکتے ہیں۔ دنیا والوں کو بتائیں کہ تم اس دنیا کی چمک دمک اور ترقیات پر خوش نہ ہو جاؤ۔ مرنے کے بعد کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے اور وہاں اگر انسان خالی ہاتھ جائے پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا کرنا ہو گا اور پھر وہ کیا سلوک کرتا ہے وہ بہتر جانتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں ہمیشہ اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ جب ہم دنیا کو اس تفصیل سے ہوشیار کریں گے تو ہمارا اپنا ہر قول و فعل اس تعلیم کے مطابق ہو، ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوں اور ہمارے حقوق العباد کے معیار بلند ہوں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے پھر اسی بارے میں مسلمانوں اور اسلام کا نقشہ کھینچتے ہوئے مزید فرمایا کہ ’’اس وقت اسلام جس چیز کا نام ہے اس میں فرق آ گیا ہے۔ تمام اخلاق ذمیمہ بھر گئے ہیں۔‘‘ یعنی اعلیٰ اخلاق کی تو کوئی حالت نہیں رہی۔ ’’اور وہ اخلاص جس کا ذکر مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ میں ہوا ہے آسمان پر اٹھ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق، وفاداری، اخلاص، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سرے سے ان قوتوں کو زندہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ352-353 ایڈیشن 1984ء)

پس ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ اسلام کی اس گری ہوئی حالت کو سنبھالا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کے ساتھ ہم منسلک ہیں۔ غیر مسلموں اور اسلام مخالف لوگوں نے جو اسلام پر حملے کیے اور اس عظیم مذہب کو ذلیل اور حقیر سمجھا تو اس میں مسلمانوں کا اپنا ہاتھ بھی تھا۔ اگر مسلمان نہ بگڑتے تو دشمن کبھی اس طرح اسلام پر حملے کرنے کی جرأت نہ کرتا لیکن

آج ہم ہیں جنہوں نے خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے معیار قائم کرنے ہیں جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا، ہم ہیں جنہوں نے اخلاص و وفا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرنی ہے، ہم ہیں جنہوں نے ہر طرف محبتوں کو پھیلانا ہے اور نفرتوں کو دور کرنا ہے، ہم ہیں جن کو خدا تعالیٰ پر کامل توکل ہونا چاہیے کہ ہر کام کا بنانے والا خدا تعالیٰ ہے اور اسلام ہی اب دنیا کا کامل اور غالب آنے والا مذہب ہے

اور اس کے لیے ہم نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلطان نصیر بننا ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ جو کام اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد کیے ہیں اور جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے کیے ہیں وہ تو ان شاء اللہ پورے ہونے ہیں۔ ہم لوگ اس میں معاون بنیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں گے۔ اگر ہم آگے نہ بڑھے تو اللہ تعالیٰ کوئی اَور لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدد کے لیے بھیج دے گا لیکن کام تو یہ ہونا ہی ہے۔ پس

ہمیں اپنی حالتوں کی طرف نظر رکھنی چاہیے اور
جہاں کمیاں کمزوریاں ہیں انہیں دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

کیا کمزوریاں ہیں جن کو دُور کرنا ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:اب یہ زمانہ ہے کہ اس میں ریا کاری، عجب اور تکبر کی ایک قسم ہے خود بینی اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھنا۔ تکبر، نخوت، رعونت وغیرہ صفات رذیلہ توترقی کر گئے ہیں اور مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وغیرہ صفاتِ حسنہ جو تھے وہ آسمان پر اٹھ گئے ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ353 حاشیہ) توکل، تدبیر وغیرہ سب کالعدم ہیں۔ اب خدا کا ارادہ ہے کہ ان کی تخم ریزی ہو۔

پس آپؑ نے فرمایا یہ سب برائیاں تو اب بڑھ گئی ہیں اور نیکیاں ختم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے وہ بندوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے اب یہ ارادہ کر لیا ہے کہ نیکیاں ترقی کریں اور برائیاں ختم ہوں۔ پس

ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا برائیوں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کرر ہے ہیں؟ کیا نیکیوں کے اپنانے کے لیے بھرپور کوشش ہو رہی ہے؟ کیا عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟

نیکیاں کرنے کی توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش نہیں کر رہے جو عبادت سے حاصل ہوتی ہے ایسی عبادت جو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو نہ کہ صرف اپنی خواہشات کی تسکین اور تکمیل کے لیے تو پھر ہماری کوششیں بےکار ہیں یا ان باتوں کے حصول کی خواہش بےکار ہے۔ پس بہت گہرائی سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اعمال مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بجا لانے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ۔ یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’…خوب یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ354-355 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ وہ گُر ہے جسے اپنانے کی ضرور ت ہے۔ ہم خود تو اللہ تعالیٰ کے حق ادا نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں نہیں سنتا، بعض لوگوں کو یہ بھی شکوہ رہتا ہے۔ جائزہ لیں، دیکھیں کس حد تک ہم نے خداتعالیٰ کے حق ادا کر دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اتنا مہربان ہے۔ ہماری بےشمار غلطیوں کے باوجود بھی ہمیں نوازتا چلا جا رہا ہے۔ پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی ہے کہ کس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے۔ مسجد ہم نے بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس میں خالص ہو کر اس کی عبادت کے لیے آئیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میں نے پرستش کے لیے ہی جنّ و انس کو پیدا کیا ہے۔ ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یکطرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ217-218)

پس دائمی توجہ کے ساتھ، مستقل توجہ کے ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہو گی اور اسی وقت یہ ہو گا جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہو۔ ایسی ذاتی محبت ہو جو کسی اَور سے نہ ہو تب اللہ تعالیٰ کی محبت اور انسان کی اللہ سے محبت، بندے کی اللہ سے محبت وہ نتائج پیدا کرتی ہے جو ایک انقلاب لے آتی ہے۔

پس جو لوگ تھوڑی سی دعا کے بعد تھک جاتے ہیں یا جو دعا کا فلسفہ معلوم کرنا چاہتے ہیں، جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اس حوالے پر غور کرنا چاہیے۔

صرف ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ کے دروازے پر مانگنے نہ جائیں
بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی محبت پیدا کریں
پھر اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے

اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کی مکمل اطاعت کی جائے۔ اللہ کے رسول سے محبت کرنا بھی ضروری ہے اور محبت کے جذبے سے اطاعت کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اور جب یہ دو محبتیں ملتی ہیں تو پھر جیساکہ فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وہ بارش برستی ہے جو انسان کی سوچ سے بھی بالا ہے۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیساکہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لیے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔‘‘ یعنی مکمل طور پر اس پر کاربند ہو جائے کہ عبادت کو اپنا مقصود و مطلوب بنا لے۔ فرمایا:

’’موت کا اعتبار نہیں ہے …تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے
خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور تم اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔‘‘

فرمایا ’’میں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔‘‘ فرمایا ’’میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ پر جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا‘‘ دنیا کے کاروبار بھی کرو، بیوی بچوں کے حق بھی ادا کرو یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ فرمایا ’’اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست اور ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے میں تو یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے مراد یہ لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ181 تا 184 ایڈیشن 1984ء)

پس بڑے غور اور توجہ کا مقام ہے۔ اب یہ بڑے درد سے فرما رہے ہیں کہ میں بار بار اس طرف توجہ دلا رہا ہوں، اس بات کو مت بھولو کہ تمہارا مقصدِ زندگی کیا ہے۔ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا دعویٰ کر کے اپنے مقصد زندگی کو بھول جاتے ہیں تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے، ہمارے الفاظ کھوکھلے ہیں۔ پس

ہر احمدی کو بڑا غور کرنا چاہیے، سوچیں، جائزہ لیں اور دیکھیں کہ سارے دن میں کتنے منٹ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو دیتے ہیں؟ کیا چند منٹ کی نماز پڑھ کر اور وہ بھی کچھ سمجھ کر اور کچھ بغیر سمجھے ہم اپنی زندگی کے مقصدِ پیدائش کو پا سکتے ہیں!

اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی کاموں سے نہیں روکتا بلکہ ایک حقیقی مومن سے اپنے کام میں، اپنے کاروبار میں، اپنی تجارتوں میں، اپنے زمیندارہ میں اعلیٰ معیار پر پہنچنے کی توقع رکھتا ہے مگر ساتھ ہی فرماتا ہے کہ ان دنیاوی کاموں کے ساتھ اپنے مقصدِ پیدائش کو نہیں بھولنا، اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ مسجد بنائی ہے تو اس کی ظاہری خوبصورتی پر نازاں نہ ہو جاؤ بلکہ اس کی اصل خوبصورتی جو حقیقی عبادت کرنے والوں سے پیدا ہوتی ہے اس کا خیال رکھو۔ تقویٰ پر قدم مارو اور تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور جب یہ ہو گا تو تم حقیقی عبادت کرنے والے کہلا سکو گے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی عبادت گزاروں کا کام ہے کہ ظاہری اور باطنی صفائی کے بھی سامان کریں۔ اس لیے نماز پڑھنے والوں کو عمومی حکم ہے کہ اپنے کپڑوں کو بھی صاف رکھو اور ہر نماز سے پہلے وضو کرو کیونکہ ظاہری صفائی کا انسان کے اندرونے پر بھی اثر ہوتا ہے۔ پھر وضو سے انسان ویسے بھی تازہ دم ہوتا ہے اور نماز کی طرف صحیح توجہ رہتی ہے۔

پھر نماز کے حکم کے ساتھ ایک حکم یہ بھی ہے کہ کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ اس کا ایک تو عمومی مطلب متوازن خوراک سے لیا جاتا ہے کہ ایک مومن کھانے پینے میں اسراف نہیں کرتا اور اس اسراف نہ کرنے سے اس کی صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور عبادت بھی صحیح رنگ میں ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ بھی مطلب ہے کہ

حقیقی مومن کی زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا اور سو رہنا نہیں ہے

جیساکہ اللہ تعالیٰ نے یہ جانوروں کی خصوصیت بیان فرمائی ہے اور ابھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھا ہے۔ اس میں بھی آپؑ نے وضاحت فرمائی ہے کہ یہ تو جانوروں کا کام ہے اور اس کو مزید کھولیں تو اس سے یہ بھی مراد ہے کہ صرف دنیاوی چیزوں اور چاہتوں کے پیچھے نہ پڑو یا نہ پڑے رہو بلکہ اپنے مقصد پیدائش کو پہچانو۔ ایک حقیقی عابد بےشک دنیاوی کام بھی کرتا ہے لیکن اس میں اتنا زیادہ ڈوب نہیں جاتا کہ یہ ہوش ہی نہ رہے کہ اب نماز کا وقت ہو گیا ہے اور میں نے نماز بھی پڑھنی ہے بلکہ نماز کے اوقات میں فوری خیال آنا چاہیے کہ اب میرے دنیاوی کاموں کا وقت ختم اور میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور نماز اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنی ہے۔ یہ نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ لی بلکہ سنوار کر پڑھنی ہے۔ اپنی ظاہری صفائی اور زینت کے ساتھ اپنے دل کو بھی تقویٰ کی زینت سے بھرنا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بےشک تمہیں کھانے پینے کی اجازت ہے، ہر پاک اور طیب چیز تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور جائز ہے، تمہیں کاروباروں اور دنیاوی کاموں کی اجازت ہے لیکن اگر یہ باتیں تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روکیں، مسجد میں جانے اور عبادت کی یاد بھلا دیں تو یہ اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ کو اسراف پسند نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیا کہ پانچ نمازیں فرض کر دیں۔ آج کل کے زمانے میں تو یہ بڑا مشکل کام ہے۔ انسان کاموں سے کس طرح فرصت لے کہ پانچ نمازیں پڑھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مشکل نہیں ہے بلکہ تمہارا صرف دنیا کی باتوں کی فکر کرنا اور خدا تعالیٰ کو بھول جانا اسراف ہے اور پھر یہ اسراف آہستہ آہستہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے دُور لے جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا اظہار انسان سے ہو جائے تو پھر انسان تو کہیں کا نہیں رہتا۔ کہنے کو بےشک کہتا پھرے کہ مَیں مسلمان ہوں، مَیں احمدی ہوں، مَیں نے زمانے کے امام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق بیعت کی ہے لیکن اس کا عمل اسے اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا حامل بنا رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بڑی متوازن تعلیم دی ہے کہ دنیا بھی کماؤ لیکن دین کو بھی ہمیشہ سامنے رکھو، اس میں اسراف نہ کرو اور حقیقی مومن وہی ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے اور جب ایک انسان حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے رزق کے بھی نئے سے نئے راستے کھولتا ہے اور اس کے کام میں برکت بھی عطا فرماتا ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلے اور اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھالے، اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی ضروریات بھی مل جاتی ہیں۔ ہاں دنیاوی لالچ کی خواہشات بڑھتی جاتی ہیں اور اگر یہ بڑھ جائیں تو یہ ایسی آگ ہے جو کبھی بجھتی نہیں ہے۔ اگر دین پر انسان قائم ہو تو یہ دنیاوی خواہشات کی ہر وقت بھڑک پھر نہیں رہتی کیونکہ یہ آگ تو ایسی ہے جو کبھی نہیں بجھتی اور انسان اس میں بھسم ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی کچھ نہیں ملتا جو حقیقی زندگی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس

ہمیں ان ایمان لانے والوں میں سے ہونا چاہیے جو مسجدوں کو آباد کرنے والے ہیں اور مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک انتظار کرتے ہیں۔

(سنن الترمذی ابواب الزھد باب ما جاء فی الحب فی اللّٰہ حدیث 2391، ابواب الایمان باب ما جاء فی حرمۃ الصلاۃ حدیث 2617)

کہ کب وقت ہو اور ہم نماز کے لیے جائیں۔ پس یہ مقصد ہے مسجد کی تعمیر کا کہ اسے آباد کرنا ہے اور کس طرح آباد کرنا ہے۔

پس اب یہ مسجد بنانے کے بعد یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے کہ
اسے آباد بھی کریں

اور یہی طریق ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا، اپنی بھی اصلاح کرنے کا اور اپنی نسلوں کو بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کا، ورنہ موجودہ زمانے کی چمک دمک ہماری نسلوں کو دین سے دُور لے جائے گی۔ بچپن سے ہی انہیں مسجد کے ساتھ جوڑنے اور دین کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے اور یہ ماں باپ دونوں کا کام ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں کہ مسجد کے بننے سے جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا اور اب افتتاح سے جماعت کا مزید تعارف ہو گا۔ مسجد کا اور اسلام کا تعارف ہو گا تو تبلیغ کے راستے کھلیں گے، مزید رابطے بھی ہوں گے۔ پس ان سے فائدہ اٹھا کر اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانا بھی ہر احمدی کا کام ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی …لیکن‘‘ فرمایا ’’شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ119 ایڈیشن 1984ء)

پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے مسجد سے جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر یہاں کے احمدیوں کی کوششیں اخلاص سے ہوں گی، عبادتوں کے معیار ہوں گے تو ان شاء اللہ جماعت کی ترقی کی یہاں بھی سمجھیں کہ اب بنیاد پڑ گئی ہے۔ پس اپنی عبادتوں اور اخلاص کے معیار بڑھاتے چلے جائیں۔ اپنی نسلوں میں بھی اس اخلاص اور دعا کی اہمیت اور عبادت کی اہمیت کو منتقل کرتے چلے جائیں تو اس مادی دنیا کے دلدادوں میں بھی ہم انقلاب پیدا ہوتا دیکھیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ170 ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ اخلاص کے ساتھ نمازیں پڑھنے والے ہوں اور اس مسجد کو آباد کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں اور عبادتوں کو بھی قبول فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 28؍اکتوبر 2022ء صفحہ 5تا9)

پچھلا پڑھیں

محترمہ ماریہ آرینز کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2022