ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
بر تر گمان و وہم سے احمؐد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو! مسیح الزمانؑ ہے
قسط 45
تسلسل کے لیے الفضل 2؍دسمبر 2022ء، ملاحظہ کریں
حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا ایک صفاتی نام احمدؐ ہے
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔
وَاِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷﴾
(الصف: 7)
ترجمہ: اور (یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیحؑ نے اس نام کی پیشگوئی کی تھی۔۔۔میرے بعد ایک نبی آئے گا جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور اس کا نام احمد ہوگا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والاہو۔اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ کوئی اسی کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے اگر کسی کو ایک روپیہ دیاجاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار روپیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے کرے گا۔ غرض اس سے واضح طور پرپایا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا ہے۔ دراصل اس نام میں ایک پیش گوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہوگا۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ الصف صفحہ397)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام آپ ﷺ کے اسم احمد کے متعلق فرماتے ہیں:
(عربی عبارت سے ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے الفاظ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ میں اپنی حمد بیان فرمائی۔ پھر اپنے کلام اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں لوگوں کو عبادت کی ترغیب دی۔ پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت عبادت گزار وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حمد اس طور پر کرے جو حمد کرنے کا حق ہے۔ پس اس دعا اور درخواست کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنادیتا ہے جو اس کی عبادت میں لگا رہے۔‘‘
(اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ165)
روئے زمین پر سب سے زیادہ حمد وثنا کرنے والی ذات بابرکات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہے۔ آپ نے اپنے رب سے عشق کا حق ادا کیا۔ اپنے مولیٰ کریم کے اوصاف وردِ زبان رہتے۔ اُ س محبوب کا ذکر آپ ﷺ کی غذا تھی۔ اس کی عبادت میں خشوع وخضوع کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ ﷺکی تہجد کے نوافل اور نماز آپ کی تسبیح و تحمید کا انداز ایسا والہانہ تھا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ خلوت اور جلوت میں دعا میں سوزو گداز اور پگھل جانے کا عاجزانہ طریق آپﷺ پر ختم تھا۔ جو حمید خدا تعالیٰ کو بہت بھاتا تھا۔ شکرگزاری میں عاجزی انکساری اللہ تعالیٰ کے فضل کی بارشوں میں اضافہ کردیتی۔
آپ ﷺ کے اپنے اللہ کے حضور شکر ادا کرنے اور اس کی حمد بیان کرنے کی کیفیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس طرح بیان فرماتی ہیں:
آنحضرت ﷺ رات کو نوافل ادا کرتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ کے دونوں پاؤں متورم ہوجاتے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ یہ کس لئے کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرماچکا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟
(صحیح بخاری حدیث نمبر4837)
آپ ﷺکی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ نہ صرف آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کی بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ حمد کروانے والے بھی آپﷺ ہیں سب سے زیادہ حمد وثنا کے طریق سکھا نے والے بھی آپﷺ ہیں۔
مقام محمود
دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمد اور شکر گزاری میں بلند ترین سطح پر متمکن محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مقام محمود عطا فرمایا۔
عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا ﴿۸۰﴾
(بنی اسرائیل: 80)
قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے۔
’’مقام محمود میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے دنیا میں کسی شخص کو بھی اتنی گالیاں نہیں دی گئیں۔۔۔ مقام محمود عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کا آپ کو صلہ دیا ہے فرماتا ہے جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھوائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے اس کے مقابل پر دشمن کی گالیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں مقام محمود سے مراد شفاعت بھی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے سب اقوام کے لوگ سب نبیوں کے پاس جائیں گے مایوس ہوکر رسول کریم ﷺ کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے اور آپ ﷺ شفاعت کریں گے اس طرح گویا ان سب اقوام کے منہ سے آپ ﷺ کے لئے اظہار عقیدت کروایا جائے گا جو اس دنیا میں آپ ﷺ کو گالیاں دیتی تھیں اور یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر صفحہ375)
حمد کا جھنڈا
اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ ﷺ کی حمد و ستائش کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہوگاتو رسول اللہ ﷺ کو ’’مقام محمود‘‘ یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا۔
(ابن ماجه في السنن، کتاب الزہد)
آپ ﷺ کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہوگی کہ آپ ﷺ پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اورخدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے۔
پھرآپ ﷺ سجدہ ریز ہوکر وہ حمدباری بجالائیں گے جس کے جواب میں آپ ﷺ کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمد ﷺ! آج جو مانگیں گے آپ ﷺ کو عطا کیا جائیگا۔تب آپ ﷺ اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے اور یہ حمد الہٰی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپ ﷺ کو نصیب ہوگی۔
(بخاری بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قول اللہ وعلم ادم الاسماء کلھا)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام شانِ احمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:
؎شانِ احمد را کہ داند جز خداوند کریم
آنچناں از خود جدا شد کز میاں افتاد میم
احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کون جان سکتا ہے۔وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا۔
(دافع البلاء صفحہ20 مطبوعہ 1902ء)
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جو پیشگوئی قرآن شریف میں سورۃ الصف میں درج ہے، اپنے بعد آنے والے کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمدہوگا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’فرمایا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رسول ہوں۔ مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے۔ یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا اسم احمد ہوگا۔ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید اکی، احمدتھا۔ اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی وہوالمراد۔ مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہؐ اور مسیح موعودؑ دونوں کی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پرپیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے توعقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعودؑ ہی تھے۔ خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے۔ جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے۔جیسا اوپر بیان ہوا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے۔‘‘
(مطبوعہ الفضل 15-19؍مئی 1917ء)
؎زندگی بخش جامِ احمد ہے
کیا ہی پیارا یہ نامِ احمد ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا اور سرور کائنات کا ظل مجھے ٹھہرادیا اور میرے نام کو آنحضرت ﷺ کے نام سے مشابہ بنادیا۔ اس طرح پر کہ اپنی نعمتوں کو میرے پر پورا کیا تا میں اس کی بہت تعریف کرکے احمد کے نام کا مصداق بنوں اور میرے سبب سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کیا تا وہ میری بہت تعریف کریں اور میں محمدﷺکے نام کا مصداق بنوں۔‘‘
(حجۃ اللہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ165)
جہاں براہین احمدیہ میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے وہاں احمد کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ فرمایا۔ یا احمدفاضت الرحمۃ علیٰ شفتیک۔
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ398)
’’جس کو آسمان سے احمد کا نام عطا کیا جاتا ہے اوّل اُس پر بمقتضائے اسم رحمانیت تواتر سے نزول آلاء اور نعماء ظاہری اور باطنی کا ہوتا ہے اور پھر بوجہ اس کے جو احسان موجب محبت محسن ہے اس شخص کے دل میں اس محسنِ حقیقی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ محبت نشوو نما پاتے پاتے ذاتی محبت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ذاتی محبت سے قرب حاصل ہوتا ہے اور پھر قرب سے انکشاف تمام صفات جلالیہ جمالیہ حضرت باری عزّاسمہ ہو جاتا ہے پس جس طرح اللہ کا نام جامع صفات کاملہ ہے اِسی طرح احمد کا نام جامع تمام معارف بن جاتا ہے اور جس طرح اللہ کا نام خدا تعالیٰ کے لئے اسم اعظم ہے اسی طرح احمد کا نام نوع انسان میں سے اس انسان کا اسم اعظم ہے جس کو آسمان پر یہ نام عطا ہو اور اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی نام نہیں کیونکہ یہ خدا کی معرفت تامہ اور خدا کے فیوض تامہ کا مظہر ہے اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے زمین پر ایک تجلّی عظمٰی ہوتی ہے اور وہ اپنے صفاتِ کاملہ کے کنز مخفی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو زمین پر ایک انسان کا ظہور ہوتا ہے۔جس کو احمد کے نام سے آسمان پر پکارتے ہیں غرض چونکہ احمد کا نام خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا کامل ظلّ ہے اس لئے احمد کے نام کو ہمیشہ شیطان کے مقابل پر فتحیابی ہوتی ہے اور ایسا ہی آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ ایک طرف شیطانی قویٰ کا کمال درجہ پر ظہور اور بروز ہو اورشیطان کا اسم اعظم زمین پر ظاہر ہو اور پھر اس کے مقابل پر وہ اسم ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا ظلّ ہے یعنی احمد۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ274-276)
اللہ اور سول اللہ ﷺ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احمد نام سے مخاطب فرمایا۔
’’اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تجھ پر پوری کرے گا۔‘‘
(براہین ا حمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ267)
’’اے احمد! تُو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے۔ آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے مَیں نے تجھے چن لیا۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ579)
’’اے احمد !تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ590)
’’یہ رسول خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے میرے احمد!‘‘
(حقِیقۃُالوَحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ76)
آپ علیہ السلام کو پہلا کشف1864ء یا 1865ء میں ہؤا جب آپ علیہ السلام ابھی صرف انتیس تیس سال کے تھے۔ آپ علیہ السلام نے اس کشف میں آنحضرت ﷺ کو دیکھا۔ آپؐ نے دو دفعہ اپنے اس غلام کو احمد نام سے مخاطب فرمایا:
’’اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ اے احمد! اِس مردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے۔‘‘
(خلاصہ از آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ548۔ 549، تذکرہ صفحہ1-3 حاشیہ)
’’خدا تعالیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکارا اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ مَیں ظلّی طور پر نبی ہوں۔ پس مَیں اُمّتی بھی ہوں اور ظلّی طور پر نبی بھی ہوں۔ اِسی کی طرف وہ وحی الٰہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے۔ کُلّ برکۃٍ من محمدٍ صلی اللّٰہ علیہ و سلم فتبارک من علّم و تعلّم۔ یعنی ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ پسؔ بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز۔پس اتباعِ کامل کی وجہ سے میرا نام امّتی ہوا اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہوگیا۔۔۔ پس اس طرح مجھے دو نام حاصل ہوتے ہیں۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد21 صفحہ360)
فرقہ احمدیہ آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمدﷺ اور ایک احمدﷺ۔۔۔ اسم محمد جلالی نام تھا۔۔۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔۔۔ اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے۔‘‘
(اشتہار واجب الاظہار بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ356۔366)
یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اِس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اِس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں۔
آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے۔ نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اِس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اِس نام میں برکت ڈالے۔ خدا ایسا کرے کہ تمام رُوئے زمین کے مسلمان اِسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلّی اُن کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا اُن کا ہو جائے۔ اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر۔ آمین۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔‘‘
(روحانی خزائن جلد1-5 تریاق القلوب صفحہ528)
؎شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے
احمدؑ کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے
(کلام محمود)
(امة الباری ناصر۔ امریکہ)