• 17 مئی, 2025

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 41)

سوال: ایک غیر از جماعت خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنی اور اپنے بھائی کی بعض خوابیں لکھ کر ان کے بارہ میں حضور انور سے راہنمائی چاہی، نیز جماعت کے بارہ میں اپنے بعض سوالات کے جواب بھی حضور انور سے دریافت کئے۔ اسی طرح ایک احمدی لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت بھی مانگی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 22 اگست 2021ء میں اس خط کے جواب میں درج ذیل ہدایات عطاء فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اگر وہ لڑکا بھی آپ سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اسے خود یہ بات پوچھنی چاہیے۔

آپ نے اپنی اور اپنے بھائی کی جو خوابیں تحریر کی ہیں، ان میں سفید پرندوں، سفید گھروں اور ان گھروں میں خانہ کعبہ کے ہونے کا خاص طور پر ذکر ہے۔ خواب میں سفید رنگ نیکی، خیر و برکت اور دین کی صفائی کی علامت ہوتی ہے۔پرندے روحانی ترقی کی علامت ہوتے ہیں اور کسی گھر میں خانہ کعبہ کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس گھر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی شامل ہے اور گھر والوں کے دین کی اصلاح اور ان کے ہر قسم کے خوف سے امن میں ہونے کی دلیل ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کی راہ حق اور حقیقی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائے اور آنحضور ﷺکی پیشگوئیوں کے عین مطابق مبعوث ہونے والے مسیح محمدی علیہ السلام کو پہچاننے، ان کے دعاوی کو صدق دل سے قبول کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اتمام حجت ہو جانے کے بعد بھی آنحضور ﷺکے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جانے والوں کو آخرت میں کئی قسم کے ہم و غم کا تو بہرحال سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ سید الرسل نبی آخر الزماں خاتم النبیین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے احکامات کی تعمیل کئے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہوتے ہیں۔ خواب میں آپ کے والد صاحب کا وفات کے بعد خوفناک مناظر کے دیکھنے کا بیان اسی انذار کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو سچائی پہچاننے اور اسے قبول کر کے ان کے حق میں مقبول دعاؤں کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

باقی جہاں تک آپ کے سوالوں کا تعلق ہے تو ان کے تفصیلی جوابات تو ہمارے سلسلہ کی مختلف کتب میں موجود ہیں، وہاں سے آپ یہ تفصیلی جواب پڑھ سکتی ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ میں ان کا جواب آپ کو بتا دیتا ہوں۔

1۔ علماء دین اور عقل رکھنے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت میں پوری ہونے والی پیشگوئیوں اور نشانیوں کا نظر نہ آنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نصیب ہوتا ہے۔ صرف کسی کے علم اور عقل کی بناء پر حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمدؐ کے نور نبوت کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ایک ان پڑھ اور ناخواندہ غلام نے تو پہچان لیا لیکن مکہ کی وادی کا سردار اور حکمت کا باپ کہلانے والا (ابوالحکم) اس نور کو نہ دیکھ سکا اور اس نور نبوت کو نہ ماننے کے نتیجہ میں ابوجہل کہلایا۔

2۔ آنحضور ﷺکے اپنی ذات کے بارہ میں لا نبی بعدی کے الفاظ فرمانے کی حقیقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (جن کے بارہ میں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا تھا کہ دین کا نصف علم عائشہ سے سیکھو) نے اس طرح بیان فرمائی کہ قولوا خاتم النبيين ولا تقولوا لا نبي بعده۔

(مصنف ابن ابی شیبہ جزء6 حدیث نمبر 219)

یعنی تم حضور ﷺکو خاتم النبیین تو کہو لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد نبی نہیں ہو گا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کی وجہ یہ تھی کہ حضور ﷺ اور خلافت راشدہ کا زمانہ گزرنے بعد لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے کہ آپؐ کے بعد ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ حضرت عائشہؓ چونکہ آخرین میں مبعوث ہونے والے مسیح محمدی کے بارہ میں قرآن کریم اور حضور ﷺکی بیان فرمودہ دیگر بشارات سے بھی واقف تھیں اس لئے آپ نے اس زمانہ میں لوگوں میں پیدا ہونے والی اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے یہ ارشاد فرمایا کہ وہ حضور ﷺکو خاتم النبیین (نبیوں کی مہر) تو کہیں یعنی اب جو بھی نبی دنیا میں مبعوث ہو گا وہ صرف اور صرف حضورﷺکی اتباع اور آپ کے فیوض کی برکت سے ہو گا اور حضورﷺہی کی شریعت کے تابع ہو گا۔ لیکن یہ نہ کہیں کہ آپ کے بعد کسی بھی قسم کا نبی نہیں آ سکتا۔ کیونکہ یہ بات حضورﷺکے خاتم النبیین کے مقام کے منافی ہے۔حضور ﷺکا مقام خاتم النبیین ثابت ہی تب ہوتا ہے جب آپ کا کوئی امتی آپؐ کے فیوض و برکات اور آپؐ کی اتباع و اطاعت کی بدولت آپ سے ظلی، بروزی اور امتی نبوت کا مقام حاصل کرے۔

اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:
مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد مصطفیؐ پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔ میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللہ ہوں۔ مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے کیونکہ خدا کی تائیداُن کے ساتھ نہیں اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سےباطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ۔ اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام محمد اور احمد سے مسمّٰی ہو کر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں پانے والا بھی اور اس طور سے خاتم النبیین کی مہر محفوظ رہی کیونکہ میں نے انعکاسی اور ظلّی طور پر محبت کے آئینہ کے ذریعہ سے وہی نام پایا۔ اگر کوئی شخص اس وحی الہٰی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور رسول ہونے سے خدا کی مہر نہیں ٹوٹتی۔

(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد18 صفحہ210-211)

اپنی ایک اور تصنیف میں آپ فرماتے ہیں:
ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحبِ شریعت ہو یا بلاواسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمتِ وحی حاصل کرنے کیلئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں۔ وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوّت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے۔

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ213)

3۔ خلافت علی منہاج النبوۃ سے مراد خلافت کا وہ سلسلہ ہے جو نبوت کے بعد اسی کے نقشِ پا پر اور اسی کے کاموں کو آگے بڑھانے کیلئے جاری ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نے اس خلافت کا وعدہ مومنین کے ساتھ ان الفاظ میں فرمایا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

(النور: 56)

یعنی اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے وہ ان کیلئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کیلئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے۔

پھر ایک حدیث رسول ﷺمیں بھی بیان ہوا ہے کہ مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔ یعنی ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔

(الجامع الصغیر للسیوطی الجزء الثانی صفحہ126 مطبوعہ مصر1306 ہجری)

ان الٰہی وعدوں کے مطابق پہلے آنحضور ﷺکے وصال کے معاً بعد خلافت راشدہ کی صورت میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا یہ سلسلہ مومنوں میں قائم ہوا اورپھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں حضور ﷺ کی ایک پیشگوئی کے مطابق یہی سلسلہ آپ کے غلام صادق مسیح محمدی کی بعثت کے بعد قائم ہوا۔ چنانچہ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں اس خوشخبری کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھالے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دَور ختم ہوگا توا س کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔

(مسند احمد بن حنبلؒ جلد6 صفحہ285 مسند النعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس قرآنی وعدہ اور حضور ﷺکے مذکورہ بالا ارشادات میں یہ پیش خبریاں موجود تھیں کہ امت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ جہاں خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ قائم فرمائے گا وہاں اس کے ساتھ مسلمانوں میں کئی دنیاوی قسم کی بادشاہتیں اور خلافتیں بھی قائم ہوں گی لیکن خلافت علی منہاج النبوۃ کی نشانی یہ ہو گی کہ وہ خلافت شدت پسندوں کا جواب شدّت پسندی کے رویّے دکھا کر قائم نہیں ہو گی۔ مسلم اُمہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہو گی بلکہ وہ خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہوگی اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت کے نتیجہ میں ملے گی وہ نہ صرف اپنے متبعین کیلئے محبت پیار اور خوف کے بعد امن کا سامان کرنے والی ہو گی، دین کی مضبوطی کی ضامن ہو گی،اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے والی ہو گی بلکہ کل دنیا کیلئے بھی امن کی ضمانت ہو گی۔ حکومتوں کو انصاف کرنے اور ایمانداری اختیار کرنےکی طرف توجہ دلائے گی۔ عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی۔

پس یہ کام جس طرح آنحضور ﷺ کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ نے کئے آپ ﷺکے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نتیجہ میں قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کام اس زمانہ میں انجام دینے کی توفیق پا رہی ہے۔

4۔ جہاں تک مینارۃ المسیح کا تعلق ہے توجس طرح سابقہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے فرستادہ اپنے زمانوں میں پیشگوئیوں کو ظاہری طور پر بھی پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اسی سنت انبیاء کی اتباع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خدا تعالیٰ کے اذن سےحضور ﷺکی درج ذیل پیشگوئی کو ظاہری طور پر پورا کرنے کیلئے اس مینارہ کی تعمیر شروع کروائی۔ حضرت نواس بن سمعانؓ ایک لمبی روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور ﷺنے اس میں فرمایا کہ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا تو وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے۔

(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ)

حضورؐ کی اس پیشگوئی کو ظاہراً پورا کرنے کیلئے کئی مسلمان بادشاہوں نے اس قسم کے مینارہ کی تعمیر کی کوشش کی۔ چنانچہ 461 ہجری میں دمشق میں جامع اموی میں ایک مینارہ تعمیر کیا گیا، جسے کئی سال بعد عیسائیوں نے آگ لگا کر تباہ کر دیا۔ بعد کے ادوار میں اس مینارہ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا لیکن پھر آتش زدگی سے یہ مینارہ اور مسجد دونوں جل گئے۔ تیسری مرتبہ 805 ہجری میں شام کے گورنر نے اس مینارہ کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اسے منارہ عیسیٰ کا نام دیا گیا۔ لیکن وہ بھی آج موجود نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی بعثت قادیان کی بستی جو دمشق کے عین مشرق میں واقع ہے میں ہوئی، آپ نے بھی حضورﷺکی اس پیشگوئی کی ظاہری علامت کو پورا کرنے کیلئے ایک مینارہ کی تعمیر شروع کروائی۔ جو بعض نا مساعد مالی حالات کی وجہ سے آپ کے عہد مبارک میں مکمل نہ ہوسکی لیکن آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ہی یہ تعمیر مکمل ہو کر یہ مینارہ 1915ء میں اپنی تکمیل کو پہنچا اور آج بھی آپ علیہ السلام کی بعثت کے مقام پر منارۃ المسیح کے نام سے موجود ہے۔بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اس مینارہ کی تعمیر کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حدیث نبوی میں جو مسیح موعود کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ منارہ بیضاء کے پاس نازل ہو گا اس سے یہی غرض تھی کہ مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے کہ اس وقت بباعث دنیا کے باہمی میل جول کے اور نیز راہوں کے کھلنے اور سہولت ملاقات کی وجہ سے تبلیغ احکام اور دینی روشنی پہنچانا اور ندا کرنا ایسا سہل ہو گا کہ گویا یہ شخص منارہ پر کھڑا ہے۔۔۔۔۔۔ غرض مسیح کے زمانہ کیلئے منارہ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی روشنی اور آواز جلد تر دنیا میں پھیلے گی اور یہ باتیں کسی اور نبی کو میسر نہیں آئیں۔

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ51 مطبوعہ 2019ء)

فرمایا: خود اس منارہ کے اندر ہی ایک حقیقت مخفی ہے اور وہ یہ کہ احادیث نبویہ میں متواتر آ چکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المَنَارہ ہو گا یعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آ جائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آ جاتی ہے۔ سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖٖ (الصف: 10) یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آوازیں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کیلئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی عمارت اونچی نہیں۔

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ52 مطبوعہ 2019ء)

فرمایا: یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبر خدا ﷺکی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اسی غرض کیلئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے۔

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ80 مطبوعہ 2019ء حاشیہ)

5۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت آنے کا جو ذکر ہے تو اس میں بھی کئی امور قابل تشریح ہیں جیسا کہ پیشگوئیوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ ان میں کئی باتیں تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ پس ایک تو خود لفظ قیامت تشریح طلب ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺمیں قیامت کا لفظ مختلف معانی میں بیان ہوا ہے۔ قیامت کا لفظ اس عالمگیر تباہی کیلئے بھی آیا ہے جب اس دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ ہر انسان کی موت بھی اس کیلئے قیامت ہوتی ہے۔ نبی کا زمانہ بھی دشمنوں کیلئے قیامت کا رنگ رکھتا ہے جب ان کے باطل عقائد کو شکست ہوتی ہے اور حق کو غلبہ عطا ہوتا ہے۔

آنحضورؐ کا عہد مبارک بھی اہل عرب کیلئے ایک قیامت ہی تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۲﴾ُ (القمر: 2) یعنی (عرب کی) تباہی کی گھڑی آگئی ہے اور چاندپھٹ گیا ہے۔ اسی لئے حضورﷺنے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح قریب ہیں جس طرح یہ (درمیانی اور شہادت کی) دو انگلیاں۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق) اسی طرح کسی ترقی یافتہ قوم کا تنزل یا کسی مغلوب قوم کا اچانک ترقی پانا بھی قیامت کے معنوں میں آتا ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام یعنی مسیح محمدی کے ظہور کے چالیس سال بعد قیامت کے ذکر پر مشتمل احادیث کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ ہزار سال کے عرصہ میں اور خصوصاً مسیح موعود کی بعثت سے قبل اسلام کی کمزوری اور کسمپرسی کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ آنحضور ﷺکی یہ پیشگوئی لفظ لفظ پوری ہو چکی تھی کہ يوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود۔ یعنی قریب ہے کہ لوگوں پرایسا زمانہ آئے کہ جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے۔ ان کی مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی۔ اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی بدترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے۔

(شعب الایمان للبیہقی فصل قال وینبغی لطالب علم أن یکون تعلمہ حدیث:1858)

مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر رہے تھے اور اسلام پر ہر مذہب کی طرف سے تابڑ توڑ حملے کئے جا رہے تھے اور کوئی شخص ان حملوں کے جواب کیلئے میدان میں نہیں آ رہا تھا۔ سید المعصومین رحمۃ اللعالمین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکی ذات اطہر اور آپ کی ازواج مطہرات کے خلاف کھلم کھلا گندہ دہنی کی جار ہی تھی۔ اس زمانہ میں آنحضور ﷺکی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے غلام صادق مسیح محمدی علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور آپ نے اسلام پر ہونے والے ہر حملہ کا منہ توڑ جواب دیا اور ہر دشمن اسلام کو میدان سے فرار اختیار کرنا پڑی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ اسلام کو ایک مرتبہ پھر پوری شان و شوکت عطاء فرمائی اور اسے باقی تمام مذاہب پر غالب کر کے دکھایا اور آپ علیہ السلام نے اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ کی مداح میں برملا فرمایا:

؎ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے

کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے

ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے

اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے

تھک گئے ہم تو انہی باتوں کو کہتے کہتے
ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے پس یہ وہ قیامت ہے جو مسیح محمدی علیہ السلام اور آپ کے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ کے ذریعہ اسلام اور مخالفین اسلام کیلئے ظاہر ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں اسلام اور بانیٔ اسلام ﷺکا نام اور آپ کی پیش کردہ حقیقی تعلیم دنیا کے کناروں تک پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی اس روحانی جہاد میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے اور مخالفین اسلام کی زمین روز بروز گھٹتی چلی جا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی فرمائے، آپ کو حق اور ہدایت کی راہ کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔ آمین

(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

ممبران عاملہ انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کی اپنے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئیل ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2022