• 13 مئی, 2024

سیرت حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق ؓ (قسط اول)

اللہ تعالیٰ جب بھی رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرماتا ہے تو اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے انہیں نوازتا ہے۔ اس تائیدایزدی کے نتیجہ میں ہر رسول کے حق میں اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ظاہر ہو تی ہے۔

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ

خدا کا فرستادہ بظاہر دنیا کی نظر میں کمزور ہوتا ہے لیکن اسے غلبہ عطا کیا جاتا ہے۔ وہ اکیلا ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ اسے اکیلا نہیں چھوڑتا۔ نہ صرف دنیا اسے قبول کرتی ہے بلکہ اسے ایسے جانثار صحابہ عطا کئے جاتے ہیں جو اس کا پروانہ صفت طواف کرتے ہیں اور اس کے دست و بازو بن کر اس کےمعین ومددگار ہو جاتے ہیں۔

اس دور آخرین میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے جو جانثار صحابہ عطا فرمائے، جنہوں نے مہدی کے انصار ہو نے کا حق ادا کر دیا، جو آسمان احمدیت پر درخشندہ ستارے بن کر چمکے اور جن کا اسوہٴ حسنہ آج بھی ہمارے لئے قابل تقلید ہے، اس خوش نصیب زمرہ ابرار میں ایک جلیل القدر صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ہیں جن کی سیرت کے بارہ میں کچھ تحریر کرنے کی سعادت میرے حصہ میں آرہی ہے۔ یہ بات یقیناً میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے لیکن اس موضوع پر کچھ بیان کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ اس لئےکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مفتی صاحبؓ کے بارہ میں ایک موقع پر فرمایا ہے:

’’سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن، جوان صالح‘‘

ہر ایک طور سے لائق، جن کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

کتنی خوش بختی اور سعادت ہے حضرت مفتی صاحبؓ کی کہ ان کے حق میں مسیح زماں کی زبان مبارک سے یہ کلمات صادر ہوئے۔ ایک اور موقع پر حضرت مفتی صاحبؓ کے لئے جس محبت کا اظہار ہوا وہ بھی بے مثال ہے۔ ایک مرتبہ حضرت مفتی صاحبؓ کی والدہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپ کی بیماری کی خبر دی اور دعا کے لئے عرض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’ماں کو بچہ بہت پیارا ہوتا ہے مگر میرا یہ دعویٰ ہے کہ صادق جس قدر تم کو پیارا ہے اس سے بڑھ کر مجھے پیارا ہے۔‘‘

مسیح پاک علیہ السلام کے اس پیارے اور راج دلارے کا مختصر تذکرہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

مختصر حالاتِ زندگی

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ 11؍جنوری 1872ء کو بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مفتی عنایت اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل ہی وفات پا چکے تھے لیکن آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فیض بی بی صاحبہ نے 1897ء میں مسیح زماں کی بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ حضرت مفتی محمد صاق صاحبؓ بھی آپ کے ہمراہ آئے۔ جب روانگی کا وقت آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مفتی صاحب اور آپ کی والدہ کو چھوڑنے یکہ والی جگہ تک تشریف لائے اور ان کے لئے کھانا منگوایا۔ لنگر والوں نے بغیر کسی کپڑے میں باندھے کھانا بھجوادیا۔ آپ نے یہ طریق پسند نہ فرمایا اور نہایت بےتکلفی کے انداز میں اپنے عمامہ مبارک میں سے ایک گزکے قریب کپڑا پھاڑا اور کھانا اس میں باندھ کر دیا شفقت کے اس بے ساختہ اظہار اور اکرام ضیف کے سلوک نے مسیح محمدی علیہ السلام کی محبت اور والہانہ عقیدت آپ کے دل میں کچھ اس طرح راسخ کردی کہ پھر آپ بالآخر اسی در پر دھونی رما کر بیٹھ گئے۔

پاک نفس صلحاء کی دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا محمد صادق جو بھیرہ شہر میں اس نام کا پہلا بچہ تھا، دعا گو والدہ کی آغوش محبت میں اس حال میں پروا ن چڑھا کہ بچپن سے ہی قبولیت دعا اس کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا۔ 1885ء میں جبکہ آپ کی عمر تیرہ برس کی تھی حکیم احمد دین نامی ایک شخص کے ذریعہ مسیح موعود علیہ السلام کا نام آپ نے پہلی بار سنا۔ یہ گو یا ایک بیج تھا جو اپنے وقت پر پھولا پھلا۔ قریباً اس زمانہ میں آپ کی ملاقات حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب سے ہوئی۔ یہ تعلقات 1888ء میں اس وقت زیادہ مستحکم ہوئے جب آپ کے والد صاحب آپ کو جموں میں حضرت مولانا نور الدین صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کے لئے چھوڑ آئے۔ یہ گویا آپ کی دنیا اور روحانی لحاظ سے پہلی تر بیت گاہ تھی۔ جس میں نور الدین کی پاکیزہ صحبت اور حسنِ تر بیت نے بھیرہ کے محمد صادق کو ایک جگمگاتے ہیرا کی صورت میں تراشا اور اس قابل بنایا کہ وہ مسیح محمدی علیہ السلام کے دربار کی زینت بن سکے۔

عقیدت اور وابستگی کا آغاز

اس عرصہ میں مولانا نور الدین صاحبؓ کے بیمار پڑنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی عیادت کے لئے جموں آئے۔ آپ علیہ السلام نے آنے سے پہلے ہی لکھ بھیجا تھاکہ میرے وہاں پہنچنے کے وقت آپ کو آرام ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حسن اتفاق سے مفتی محمد صادق صاحبؓ اس وقت وہاں پہنچے جب مسیح پاک علیہ السلام واپس تشریف لے جا چکے تھے۔ اگرچہ آپ کی ملاقات تو نہ ہو سکی لیکن قبولیت دعا کا یہ اعجاز دیکھ کر آپ میں ملاقات کا اشتیاق بہت بڑھ گیا۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک مبارک رؤیادکھائی۔ حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ نے اس خواب کی یہ تعبیر بیان فرمائی کہ اس کا تعلق کسی عظیم الشان مصلح کے ظہور سے ہے۔ آپ نے یہی خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر بھجوائی تو آپ نے فوری تعبیر نہ فرمائی جب کہ خواب بہت واضح تھی۔ اس پر مفتی محمد صادق صاحبؓ اس بات سے بہت متا ثر ہوئے کہ اگر آپ علیہ السلام چاہتے تو اس واضح خواب کو فوراً اپنے آپ پر چسپاں کر لیتے مگر آپ علیہ السلام نے ایسا نہ کیا۔ اس سے آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر اور بھی بڑھ گئی اور دلی عقیدت اور وابستگی فزوں تر ہو گئی۔

بالآخر یہ غائبا نہ عشق و محبت رنگ لائے اور مسیح محمدی علیہ السلام کا یہ پروانہ آپ کے قدموں میں حاضر ہو گیا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلی ملاقات دسمبر 1890ء میں ہوئی۔ سردی کا موسم تھا۔ بٹالہ سے اکیلے ہی یکہ میں سوار ہو کر قادیان آئے۔ آپؓ کے معلم اور مربی حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ نے آپ کو ایک تعریفی خط لکھ کر دیا تھا۔ حضرت اقدس کے دولت خانہ پر پہنچ کر آپ نے وہ خط اندر بھجوایا۔ خط پڑھتے ہی حضرت مسیح پاک علیہ السلام فوراً تشریف لائے اور شرفِ ملاقات بخشا۔ کھانے وغیرہ کی بابت پو چھا۔ اس کے بعد نماز کے وقت ملاقات ہوئی اور اگلے روز صبح کے وقت اکٹھے سیر کو نکلے۔ ان مختصر ملاقاتوں نے آپ کی کایاپلٹ دی اور سینہ صافی نور سے ایسا منور اور کشادہ ہو گیا کہ آپ نے فوری طور پر بیعت کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام آپ کو ایک علیحدہ مکان میں لے گئے۔ کمرے میں چار پائی بچھی تھی اس پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور خود بھی اس پر بیٹھ گئے۔ آپ کا دایاں ہاتھ اپنے دست مبارک میں لیا اور دس شرائط بیعت کا عہد لیا۔ بیعت کی یہ سادہ تقریب مکمل ہوئی اور اس طرح سے بھیرہ کا رہنے والا 19 سالہ محمد صادق، محمد عربیﷺ کے عاشقِ صادق غلام احمد کے غلاموں میں شامل ہو گیا۔

13؍جنوری 1891ء کا روز آپ کی زندگی کا روشن ترین دن تھا اس روز آپ نے ایک نئی زندگی پائی، ایک عہد وفا باندھا، مسیح محمدی علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر محبت کا پیمان کیا، اپنے آقا کے حضور جانثاری اور قربانی کا ایک وعدہ کیا۔ محمد صادق اپنے نام کی طرح ان وعدوں میں کیسا سچا ثابت ہوا۔ اس نے ہر بات کو سچ کر دکھایا اور ہر عہد کو پورا کیا۔ اس کی ساری زندگی اس بات پر زندہ گواہ بن گئی کہ مسیح محمدی علیہ السلام کا یہ پروانہ، صدق ووفا کا یہ مجسمہ اپنے نام کی طرح سچا اورو فا شعار نکلا۔
1891ء میں آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا اور اس کے بعد دس سال کا عرصہ جس میں آپ بوجہ ملازمت لاہور میں مقیم تھے کچھ اس طرح گزرا کہ آپ کا دل تو آپ کے آقا کے قدموں میں قادیان پڑا رہتا جبکہ آپ کو ملازمت کی مجبوری سے جموں اور لاہور رہنا پڑتا۔ لیکن اس عرصہ میں بھی مسیح موعود علیہ السلام کا شوق زیارت اور سچی محبت اور خدمت کی تڑپ آپ کو بار بار قادیان لے آتی۔ قادیان آتے تو واپس جموں جانے کو جی نہ کر تا۔ جب مجبوراً واپس جاتے تو اولین فرصت میں واپس پلٹ آتے۔ یہ سلسلہ قریباً دس سال جاری رہا اور اس عرصہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب اور خدمت کی خوب سعادت حاصل کی۔ اس دور کی کیفیت کا تذکرہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے الفاظ میں کچھ اس طرح ہے۔ آپ نے ایک مضمون میں احباب جماعت کو حضورعلیہ السلام کی صحبت سے استفادہ کی تحریک کی اور بطور مثال حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’ایک مفتی محمد صادق صاحب کو دیکھتا ہوں کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود۔ مفتی صاحب تو عقاب کی طرح اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زورآور ہاتھوں سے کوئی فرصت غصب کریں۔‘‘

پھر مزید لکھا ’’مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشقِ کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زنجیروں کو توڑ کردیوانہ وار بٹالہ میں اتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن نہ سردی نہ گرمی نہ بارش نہ آندھی۔ آدھی آدھی رات کو یہاں پاپیادہ پہنچ جاتے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔‘‘

اس خوش بخت عاشق نے اس دور میں کیا پایا اور کس کس رنگ میں مسیح پاک علیہ السلام کی محبت و الفت کے مزے لوٹے، ان کی تفصیل کا تو یہ موقعہ نہیں۔ چند ایک واقعات پیش کر تا ہوں۔

قربت میں روز افزوں ترقی

1897ء میں آپ لاہور سے ایک رات کے لئے قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے خدمت گزار خادم کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ ایک مضمون کے نقل کرنے میں آقا کے ساتھ شریک ہوں۔ حضرت اقدس علیہ السلام مضمون لکھتے اور حضرت مفتی صاحبؓ اسے صاف کر کے دوبارہ لکھتے۔ عشاء کے وقت کام شروع ہوا، کام کرتے کرتے صبح ہو گئی۔ ساری رات شمع فروزاں رہی اور پروانہ اس کا طواف کرتا رہا۔ کیسی مبارک اور یادگار تھی وہ رات اور کیسا خوش نصیب تھا وہ پروانہ۔

؎ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ایک بار حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے سب خدام سے ارشاد فرمایا ضرورت امام اور مصلح پر مضمون لکھیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے بھی فوراً آقا کے حکم پر لبیک کہا اور مضمون لکھ کر پیش کیا۔ سب مضامین حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پڑھ کر سنائے گئے۔ حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلویؓ نے بیان فرمایا کہ مسیح پاک علیہ السلام نے حضرت مفتی صاحبؓ کا مضمون پسند فرمایا۔

آقا اور غلام میں محبت و عقیدت اور پیار و شفقت کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ایک بار حضرت مفتی صاحبؓ نے اپنی ایک جیبی گھڑی حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کی۔ اس کے پہنچنے پر حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو اندر بلا یا اور بڑی شفقت اور بے تکلفی کے انداز میں فرمایا کہ ہمارے پاس اس وقت دو گھڑیاں ہیں جو استعمال میں نہیں آرہی ہیں۔یہ آپ لے جائیں اور استعمال میں لائیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جس شفقت اور دلداری سے آقا نے اپنے خادم کو نوازا اس کو دیکھ کر محبِّ صادق کے دل کی کیا حالت ہوئی ہو گی؟

ایک بار صرف تین دن کی چھٹی تھی قادیان آتے ہوئے دلی محبت سے یہ دعا نکلی کہ خدا یا ان تین دنوں کو تین سال بنا دے۔ تیرے آگے تو کوئی بات انہونی نہیں۔ سمیع الدعا خدا نے کمال شفقت سے اس کو سنا اور ہوا یوں کہ آپ قادیان پہنچے تو فوراً ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ فرمایا اور یہ پوچھا کہ رخصت کتنی ہے۔عرض کیا تین دن۔ فرمایا بہت خوب۔ بائیبل کی ایک نئی تفسیر چھپی ہے آپ یہ پڑھ کر مجھے سناتے رہیں امید ہے تین روز میں کام مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد غلام کو آقا کی خدمت اور قربت کا انمول موقع نصیب ہوا۔ دن رات اکٹھے رہے۔ نمازیں اکٹھے پڑھتے اور کھانا بھی اکٹھے ! تین رو ز اس عجب انداز سے گزرے کہ پتہ بھی نہ چلا لیکن عشق اور فدایت کے جذبات کچھ اس طرح بھڑک اٹھے کہ شمع سے دوری پروانہ کے لئے مشکل اور نا ممکن تر ہو گئی اور بالآخر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے 1901ء میں دنیا کی سب ملازمتوں اور مصروفیتوں کو خیر آباد کہا اور ہجرت کر کے قادیان آگئے۔

قادیان آنے کی داستان

آپ کے قادیان آنے کی داستان بھی بڑی دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ 1898ءمیں جبکہ آپ اکاؤنٹنٹ جنرل لاہور کے دفتر میں ایک معزز عہدے پر کام کر رہے تھے آپ نے ملازمت چھوڑکر قادیان ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ فی الحال وہیں رہیں۔ چونکہ آپ نے ہجرت کا ارادہ کر لیا ہے اس لئے اس کا ثواب آپ کو ملتا رہے گا۔ قادیان کے ہائی سکول میں سیکنڈ ماسٹر کی ضرورت محسوس ہوئی تو تین ماہ رخصت لے کر آنے کا ارشاد ہوا۔ آپ فوراً حاضر خدمت ہوئے۔ تین ماہ گزرنے پر ارشاد ہوا کہ مزید چھ ماہ کی رخصت لے لیں آپ نے فوراًدرخواست دے دی۔ لیکن رخصت صرف تین ماہ کی منظور ہوئی۔ تین ماہ گزر گئے تو مسیح پاک علیہ السلام کی ہدایت پر آپ نے استخارہ کیا اور شرح صدر ہونے پر حضور کی اجازت سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک با اثر اور معزز نوکری سے استعفیٰ دینا اتنی بڑی بات تھی کہ آپ کے دفتر کے مسلمان کارکنان نے ایک وفد حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا کہ مفتی صاحب کو اس دفتر میں ملازم رہنے دیا جائے کیونکہ اس سے بیشمار فوائد حاصل ہیں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وفد کی درخواست قبول نہ فرمائی چنانچہ حضرت مفتی صاحبؓ نے استعفیٰ بھجوایا جو فوراً منظور ہو گیا اور اس طرح خدا کے مسیح کا یہ عاشق صادق دنیاوی کاروبار ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ کر، دین کو دنیا پرمقدم کرنے کا نعرہٴ مستا نہ لگاتے ہوئے، اپنے معشوق و محبوب کے قدموں میں آگیا!

اس کی بے قرار تمناؤں اور خواہشات نے حقیقت کا روپ دھارلیا، عاشق صادق نے اپنا رنگ دکھا یا، قطرہ سمندر میں مل گیا یا یوں کہیئے کہ جس لڑی کا موتی تھا وہ اس میں آن ملا۔ بھیرہ کا نوجوان عاشق، جموں اور لاہور میں سال بہ سال زندگی بسر کرنے کے بعد بلآخر قادیان میں آ بسا اور پھر یہیں کا ہو کر رہا!

عشق و وفا کے پتلے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو جن خدمات سلسلہ کے بجالانے کی توفیق عطا ہوئی اس کا دائرہ ا ٓپ کی ساری زندگی پر محیط نظرآتا ہے۔ جس وقت آپ نے مسیح زماں علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا اس وقت سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا۔ زندگی بھر خدمت کا یہ جذبہ جوان رہا اور آپ ہمیشہ اس جستجو اور تلاش میں رہے کہ کب اور کہاں خدمت کا کوئی موقع پیدا ہو اور مفتی صاحبؓ اس پر لبیک کہیں!

آپ کی ٹھوس علمی خدمات

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت دور میں آپ کو جن خدمات کی سعادت نصیب ہوئی ان کا مرکزی نقطہ مسیح موعود علیہ السلام کی عالمگیر تبلیغی مہم میں آپ کا دست و بازو بننا تھا۔ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے وقف رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اردو، عربی اور انگریزی میں مہارت عطا فرمائی تھی۔ اپنی ساری استعدادوں کو دن رات خدمت دین میں وقف رکھا اور اسی نیک جذبہ سے مسیح پاک علیہ السلام کے ارشاد کی تعمیل میں عبرانی زبان کا علم بھی حاصل کیا اور اس صلاحیت کو خدمت اسلام میں خوب استعمال کیا۔ مسیح پاک علیہ السلام نے جب عربی کے ام الالسنہ ہو نے کا نظر یہ پیش فرمایا تو حضرت مفتی صاحبؓ نے عبرانی الفاظ کی ایک فہرست مسیح پاک علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ نے ایک ایک لفظ کو لسان العرب کی مدد سے عربی سے نکلا ہوا ثابت کیا۔ اس طرح عبرانی بائیبل سے پیشگوئیاں اور ضروری حوالے بھی اصل الفاظ میں تلاش کر کے دیتے جن کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام اپنی کتب میں شامل فرمالیتے۔ ان حوالہ جات کی کتابت بھی حضرت مفتی صاحبؓ کی ہی تحریر میں ہوتی۔ یہ عظیم الشان خدمت تھی جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا کی اور اس کے بہت ہی دور رس اور پائیدار اور مفید نتائج ظاہر ہوئے اور آج بھی ان کا فیض جاری و ساری ہے۔ ایک اور خدمت جو حضرت مفتی صاحبؓ نے از خود بڑے شوق سے اور پورے اہتمام سے سر انجام دی وہ مذہبی امور سے متعلق معلومات بہم پہنچا نے کی تھی۔ آپ کا معمول تھا کہ جب بھی اور جہاں بھی کسی نئےمذہبی فرقہ کی اطلاع ملتی یا کسی نئی کتاب کا علم ہوتا تو فوراً اس بارہ میں معلومات حاصل کرتے اورحضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دیتے۔ یہ خدمت آپ نے اس اہتمام سے سر انجام دی کہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ گویا مسیح پاک علیہ السلام کی آنکھیں اور کان بن کر خدمت کی سعادت پائی۔

ساری دنیا کو مسیح پاک علیہ السلام کی آمد اور آپ علیہ السلام کے مشن سے آگاہ کرنے کا جذبہ تو آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ حضرت مفتی صاحبؓ نے ساری دنیا میں تبلیغی خط و کتابت کا جال پھیلایا ہوا تھا۔ ہندوستان کے علاوہ برطانیہ، امریکہ اور روس کے باشندوں سے بڑی قاعدگی سے یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس ذریعہ سے آپ نے بلا مبا لغہ ہزاروں افراد کو مسیح پاک علیہ السلام کی آمد کی نوید سنائی اور ان میں سے کئی سعادت مندوں نے اس مسیح زماں علیہ السلام کو قبول کرنے کی سعادت پائی۔ یہ خط و کتابت تو حضرت مفتی صاحبؓ اپنی ذاتی حیثیت میں کیا کر تے تھے۔

اضافی خدمات کا اعزاز

اس کے علاوہ آپ کو ایک اور خدمت کی سعادت یہ نصیب ہوئی کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے زمانہ میں حضور علیہ السلام کی تمام ڈاک کے ہر خط کا خلاصہ الگ لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ حضرت اقدس علیہ السلام جواب بھی آپ کو لکھوا دیتے۔ اس زمانہ میں ڈاک کا کوئی الگ دفتر نہ تھا۔ حضرت مفتی صاحبؓ ہی یہ ساری خدمت سر انجا م دیتے۔ حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی وفات کے بعد تو ڈاک کامکمل انتظام حضرت مفتی صاحبؓ کے سپرد ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال تک آپ کو یہ خدمت بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضرت مفتی صاحبؓ کو ایک اور خوش بختی یہ عطا ہوئی کہ جب بھی کوئی انگریزی دان مہمان حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ ترجمان کے طور پر خدمت سرانجام دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انگریزی زبان کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا اور آپ خوب حق ترجمانی ادا فرماتے۔ ایک اور عظیم خدمت جس کا تذکرہ کئے بغیر یہ بیان نامکمل رہے گا وہ آپ کی ڈائری نویسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحریر کا بھی شاندار ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اس صلاحیت کو بھی آپ نے خدمت دین کے لئے ہمیشہ وقف رکھا۔ آپ نے ابتداء ہی سے یہ طریق اپنا لیا تھا کہ آپ جب بھی قادیان آتے تو جو دیکھتے اور سنتے وہ فوراً قلمبند کر لیتے۔ بعد ازاں قادیان میں مستقل قیام کے دوران بھی یہ مبارک سلسلہ جاری رہا بلکہ زندگی کے آخر تک آپ اس کا اہتمام فرماتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف اس زمانہ میں آپ کی تحریرات سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ یہ تحریرات چھپ کر محفوظ ہو جانے کی وجہ سے آج بھی اور ہمیشہ ازدیاد علم و عرفان کا موجب رہیں گے۔ علاہ ازیں آپ نے بڑی کثرت کے ساتھ روایات بیان فرمائی ہیں۔ یہ سب آپ کے عظیم احسانات ہیں جن کی وجہ سے احمدیت کی ساری نسلیں آپ کی ممنون رہیں گی۔ آپ کی تحریر کا انداز بھی بہت نرالا اور پراثر ہوتا تھا۔ پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ان باتوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔

الغرض اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص سے حضرت مفتی صادق صاحبؓ کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی با برکت صحبت میں رہتے ہوئے خدمت کے انمول مواقع عطا ہوئے اور آپ کی خوش بختی اور سعادت یہ تھی کہ آپ نے اس والہانہ فدائیت سے یہ خدمات سر انجام دیں کہ مسیح پاک علیہ السلام کی نظروں میں آپ کے لئے ہمیشہ پیار ہی پیار تھا!

محبت اور شفقت کے واقعات

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے حالات زندگی پڑھتے ہوئے یہ بات بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ جہاں ایک طرف آپ کے دل میں مسیح پاک علیہ السلام کے لئے بے پناہ عشق اور فدائیت پائی جاتی تھی وہاں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا دل بھی اپنے اس عاشق زار کے لئے کناروں تک محبت و الفت اور شفقت سے بھرا ہوا تھا۔ بے شمار واقعات میں سے چند ایک بطور نمونہ عرض کر تا ہوں۔

ایک دفعہ حضرت مفتی صاحبؓ لاہور سے چند دن کی رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے۔ ایک دن حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو یاد فرمایا اور کمرہ میں بلا کر ایک ٹوکرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’مفتی صاحبؓ ! آموں کا یہ ٹوکرا میں نے آپ کے لئے منگوایا ہے آپ جتنے کھا سکتے ہیں کھا لیں۔‘‘

حضرت مفتی صاحبؓ نے چند ایک آم کھا لیے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑے تعجب سے لیکن عجیب شفقت سے فرمایا:
’’آپ نے تو بہت تھوڑے کھا ئے ہیں‘‘۔ ایک اور موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو بلایا۔ ایک لوٹا دودھ سے بھرا ہوا آپ کے ہاتھ میں تھا۔ اس میں سے آپ نے ایک بڑے گلاس میں دودھ ڈالا اور ایک شفیق ماں کی طرح نہایت محبت سے فرمایا: ’’آپ یہ پی لیں پھر میں آپ کو اور ڈال دیتا ہوں‘‘۔ مفتی صاحبؓ تو اس گلاس کو بھی ختم نہ کر سکے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے تبسم فرمایا: ’’آپ تو بہت تھوڑا پیتے ہیں۔‘‘ ان دو واقعات میں کتنی محبت اور بے ساختگی پائی جاتی ہے! ایک شفیق ماں کا انداز نظر آتا ہے جو گویا دودھ اور کھانا ہاتھ میں لئے کھڑی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا جگر گوشہ خوب سیر ہو کر کھائے اور اس کی پیار بھری نگاہیں اس نظارہ کو دیکھتی چلی جاتی ہیں۔

ایک اور موقع پر حضرت مفتی صاحبؓ لاہور سے قادیان پہنچے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو مسجد مبارک میں بٹھایا اور بڑی شفقت سے فرمایا: ’’آپ بیٹھیے! میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر حضور اندر تشریف لے گئے۔ حضرت مفتی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھجوادیں گے۔ مگر چند منٹوں کے بعد جب مسجد کی کھڑکی کھلی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام خود اپنے ہاتھ میں سینی اٹھائے چلے آرہے ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ اس نظارہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے کھانا حضرت مفتی صاحبؓ کے سامنے رکھا اور فرمایا: ’’آپ کھانا کھائیے۔ میں آپ کے لئے پانی لے کر آتا ہوں۔‘‘ حضرت مفتی صاحبؓ پہلے ہی جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے۔ یہ بات سن کر تو بے اختیار آ پ کے آنسو نکل آئے۔ زبان سے کچھ بھی نہ کہہ سکے۔ روح سجدہ ریز تھی کہ کہاں میں اور کہاں یہ نصیب کہ حبیبِ خدا کا محبوب مہدی اس ادنیٰ چاکر کے لئے خود کھانا اور پھر پانی لانے کے لئے چل نکلتا ہے!

پانی کے ذکر سے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحبؓ لوٹا ہاتھ میں اٹھائے پانی کی تلاش کر رہے تھے۔ آپ مسجد مبارک سے ملحق مکان کے اندر چلے گئے تا کہ کسی خادم سے کہہ کر پانی منگوا لیں۔ اتفاقاً عین اس وقت، اندر سے حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لے آئے۔ لوٹا ہاتھ میں دیکھ کر پوچھا ’’آپ کو پانی چاہیے؟‘‘ مفتی صاحبؓ نے عرض کیا۔’’جی حضور‘‘ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کے ہاتھ سے لوٹا لیا اور فرمایا: ’’میں لا دیتا ہوں‘‘ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے اور خود پانی بھر کر لائے اور حضرت مفتی صاحبؓ کو عطا فرمایا۔

شفقت اور بے تکلفی کے واقعات ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت مفتی صاحبؓ ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ رات کو آپ کے پاس اوپراوڑھنے کو کچھ نہ تھا۔ آپ نے بے تکلفی سے اندر کہلا بھیجا کہ حضور سردی بہت ہے اور ڈر ہے کہ کہیں سردی کا شکار نہ ہو جاؤں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت شفقت سے فوری طور پر ایک رضائی اور ایک دُھَسَّہ بھجوادیا اور فرمایا کہ رضائی محمود کی ہے اور دھسہ میرا ہے جو آپ کو پسند ہو رکھ لیں اور اگر چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ نے رضائی رکھ لی اور دھسہ بھجوادیا۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت اور محبت کے علاوہ ذاتی ایثار پر بھی شاہدِ ناطق ہے اور کیا عجیب منظر نظروں کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اپنے جسمانی بیٹے کی رضائی اپنے روحانی فرزند کی خاطر بھجوا رہے ہیں جو واقعی آپ کو اس کی حقیقی ماں سے بھی زیادہ پیارا تھا!

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی!

حضرت مفتی صاحب کے مسیح پاک علیہ السلام سے عشق و محبت کا تو یہ عالم تھا کہ گویا سارا وقت ہی اپنے محبوب کے کوچے کے طواف میں گزرتا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ وہ محبوب، عاشق کے شہر میں آئے اور عاشق فوراً اڑکر وہاں نہ پہنچے۔ لیکن ہوا یہ کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام ملتان سے واپس قادیان آتے ہوئے راستہ میں لاہور میں ایک روز کے لئے ٹھہرے تو حضرت مفتی صاحبؓ درپر حاضر نہ ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ کوئی شدید مجبوری ہو گی لیکن دوسری طرف آقا کی متلاشی نظریں اس پروانہ کی تلاش میں تھیں کہ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔آخر صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پوچھ ہی لیا کہ کیا بات ہے مفتی صاحب کیوں نہیں آئے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور مفتی صاحب سخت بیمار ہیں۔ اتنے زیادہ کے ایک قدم بھی چل نہیں سکتے۔ یہ سنتے ہی پیارے آقا کی محبت اور شفقت نے جوش مارا اور مفتی صاحب کی خوش بختی دیکھیئے کہ حضرت اقدس علیہ السلام خود بنفس نفیس اس عاشقِ صادق کی عیادت کے لئے تشریف لائے۔ دیر تک پاس بیٹھے رہے۔ تسلی دی۔ دعاؤں سے نوازا۔ پانی پر دم کر کے آپ کو پلایا اور بالآخر واپس آنے کے لئے اٹھے تو اپنے محب صادق کو فرمایا: ’’آپ بیمار ہیں بیمار کی دعا بھی قبول ہو تی ہے آپ ہماری کامیابی کے واسطے دعا کریں۔‘‘

زہے نصیب حضرت مفتی صاحبؓ کے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ غیر معمولی برکتیں اور سعادتیں عطا فرمائیں۔ یہ رحمتیں انہی پاک دلوں پر برستی ہیں جو خلوصِ محبت اور فدائیت کے نور سے صیقل ہو چکے ہوں اور لا ریب حضرت مفتی صاحبؓ کو اللہ تعا لیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے یہی مقام بلند عطا فرمایا تھا۔

(باقی آئندہ اِن شاء اللّٰہ)

(مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

ممبران عاملہ انصار اللہ سوئٹزرلینڈ کی اپنے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئیل ملاقات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2022