• 12 مئی, 2025

یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے، یہ آدمی نہیں، فرشتہ ہے

خاندان کے بزرگ جن کے ہاتھوں میں بچے پروان چڑھتے ہیں اپنے بچوں کی فطرت، طبیعت اور صلاحیت سے قدرتی طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ اس طرح خالق کے ودیعت کردہ باسعادت انداز اور ہونہار آثارکے سچے بے لاگ گواہ بنتے ہیں۔ درجِ ذیل اقتباسات میں ایک چچا کا اپنے بھتیجے اور ایک والد کا اپنے بیٹے کے لئے ایسے ہی حقیقت کا اظہار پڑھئے۔

جب یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ مشرکین رِجس ہیں، پلید ہیں، شرالبرّیہ ہیں، سفہاء ہیں اور ذریتِ شیطان ہیں اور ان کے معبود وقودالنار اور حصبِ جہنم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرتﷺ کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہےاور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا ہے اور ان کے بزرگوں کہ شر البرّیہ کہا اور ان کے قابلِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزمِ جہنم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریتِ شیطان اور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرتﷺ نے جواب ہیں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اس راہ میں وقف ہے۔ میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کاخیال ہے تو تُو مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہوجا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں، میں احکامِ الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولی کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر باربار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔

آنحضرتﷺ یہ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرتﷺ یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلی حالت سے بے خبر تھا، تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔

(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 110، 111۔ تذکرہ صفحہ 170)

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہء دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقتِ عزیز مرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔ اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ بنارہتا تھا۔ ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ کی تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیاداروں کی طرح مجھے رُوبہ خلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی۔ ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیاں میں آنا چاہا میرے والد صاحب نے باربار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دوتین کوس جانا چاہئے مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جا سکا پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہوسکتا تھامگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثوابِ اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کردیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بَرٌّبِالْوَالِدَیْنِ جانتے تھے اوربسا اوقات کہا کرتے تھے میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہو کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کررہے ہیں۔’’

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحات 182تا 184حاشیہ)

ایک معمر ہندو جاٹ جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گودوں میں کھلایا تھا کی روایت تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ جب آپ کے والد صاحب ملازمت اور دنیوی معاملات سنبھالنے پر زور دیتے تو آپ عرض کرتے ’’ابا! بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی ملازمت کی کیا پرواہ۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں۔ مرزا غلام مرتضی یہ جواب سن کرخاموش ہوجاتے اور فرماتے ’’اچھا بیٹا جاؤ اپنا خلوت خانہ سنبھالو‘‘ جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے’’یہ میرا بیٹا ملاّ ہی رہے گا میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس بیس من دانے ہی کما لیتا مگر میں کیا کروں یہ تو ملاّگری کے بھی کام کا نہیں۔ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے’’ پھر آبدیدہ ہوکر کہتے کہ ‘‘جو حال پاکیزہ غلام احمدؑ کا ہے وہ ہمارا کہاں یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں، فرشتہ ہے ۔

(تاریخِ احمدیت جلد اول صفحہ 52‘ 53)

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کا پرنٹ سے ڈیجیٹل میڈیا تک کا کامیاب سفر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2020