وجہ تسمیہ
ہندوستان میں مردم شماری کے موقع پر حضرت بانی جماعت احمدیہ نے 4 نومبر 1900 کو ’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے تحریر فرمایا :۔
’’چونکہ اب مردم شماری کی تقریب پر سرکاری طور پر اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر ایک فرقہ جودوسرے فرقوں سے اپنے اصولوں کے لحاظ سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کی خانہ پُری کی جائے اور جس نام کو اس فرقہ نے اپنے لئے پسند اور تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں اس کا لکھا جائے۔ اس لئے ایسے وقت میں قرین مصلحت سمجھا گیا ہے کہ اپنے فرقہ کی نسبت ان دونوں باتوں کو گورنمنٹ عالیہ کی خدمت میں یاد دلایا جائے اور نیز اپنی جماعت کو ہدایت کی جائے کہ وہ مندرجہ ذیل تعلیم کے موافق استفسار کے وقت لکھوائیں۔ اور جو شخص بیعت کرنے کے لئے مستعد ہے۔ گو ابھی بیعت نہیں کی اس کو بھی چاہئے کہ اس ہدایت کے موافق اپنا نام لکھوائے اور پھر مجھے کسی وقت اپنی بیعت سے اطلاع دے دے ۔۔۔اور وہ نام جوا س سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلم فرقہ احمدیہ ہے اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے نام سے بھی پکاریں۔ یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی مسلم فرقہ احمدیہ۔۔۔۔۔۔۔
اس فرقہ کا نام مسلم فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھا۔ اور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دوناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا۔ اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے۔ تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں۔
سو اے دوستو! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے۔ خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں۔تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلِّی ان کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا ان کا ہو جائے۔ اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر۔ آمین۔‘‘
ایک مسلمان صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج :79) کے برخلاف ہے۔
اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا:
’’مسلمان بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہےاسلام کے تہتر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے … اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسافرقہ نکلا ہے جو جنت، دوزخ، وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے… غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ : لَاتَفَرَّقُوْا (ال عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔ حضرت نے فرمایا:
ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحامانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔
اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی… ہم کومسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا ﷺ نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے……
جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے …… بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں۔ وہ احمدی ہیں۔‘‘
(بدر مؤرخہ 3 نومبر 1905ء)
قیام کا مقصد
حضرت مسیح موعودنے یکم دسمبر 1888 ء کو درج ذیل اشتہار شائع کیا :۔
’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔
اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے؟ میں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلی پاتا ہے۔
• اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اسے حاصل ہے؟ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہوگئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔ پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ اُن حملوں کو رو کا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور رُوح پیدا کی جاوے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بُت کو عظمت دی گئی ہے اُس کی اَمَانِی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات۔ صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کیلئے ہے۔ اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اُن کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بتازہ پھل دے۔
• میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا۔ سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے۔ آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے …… میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی۔ سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے۔
• ’’مسیح موعود کے وجود کی علّتِ غائی احادیث نبویہؐ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دُور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کر کے دکھلا دے گا۔ چنانچہ یہ امر میرے ہاتھ پر خداتعالیٰ نے ایسا انجام دیا کہ عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا ۔‘‘
• ’’اب اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کے موافق جو ابھی میں نے ذکر کیا ہے خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔سو اے حق کے طالبو! سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی کیا کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گزشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا کیا ناقابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے۔ کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے۔ کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جا ملے کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہوگئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے رد ّکے لئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا اگر ضرور تھا تو تم دانستہ الٰہی نعمت کو ردّ مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہوجاؤجس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریم نے خبر دی تھی اور اہل اللہ نے اپنے الہامات اور مکاشفات سے اس کی نسبت لکھا تھا ذرہ نظر اٹھا کر دیکھو کہ اسلام کو کس درجہ پر بلاؤں نے مجبور کر لیا ہے اور کیسے چاروں طرف سے اسلام پر مخالفوں کے تیرچھوٹ رہے ہیں اور کیسے کروڑہا نفسوں پر اس زہر نے اثر کردیا ہے یہ علمی طوفان یہ عقلی طوفان یہ فلسفی طوفان یہ مکر اور منصوبوں کا طوفان یہ فسق اور فجور کا طوفان یہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک اور بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرہ آنکھیں کھول کر دیکھو اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعہ طوفانات کی کوئی پہلے زمانہ میں نظیر بیان کرو اور ایماناً کہو کہ حضرت آدم سے لے کر تا ایں دم اس کی کوئی نظیر بھی ہے اور اگر نظیرنہیں تو خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور حدیثوں کے وہ معنی کرو جو ہوسکتے ہیں واقعات موجودہ کو نظر انداز مت کرو تاتم پر کھل جائے کہ یہ تمام ضلالت وہی سخت دجالیت ہے جس سے ہریک نبی ڈراتا آیا ہے جس کی بنیاد اس دنیا میں عیسائی مذہب اور عیسائی قوم نےڈالی۔ ‘‘
• ’’یہ عاجز تو محض اِس غرض کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا وے کہ دنیا کے تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے۔ اور دارالنجات میں داخل ہونے کیلئے دروازہ لا الہ …ہے ’’
• ’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خداتعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے… سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کازمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔ سو میں ان ہی باتوں کا مجدد ہوں۔ اور یہی کام ہیں جن کے لئے میں بھیجا گیا ہوں ۔ اور منجملہ ان امور کے جو میرے مامور ہونے کی علت غائی ہیں مسلمانوں کے ایمان کو قوی کرنا ہے اور ان کو خدا اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی نسبت ایک تازہ یقین بخشنا اور یہ طریق ایمان کی تقویت کا دو طور سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آیا ہے ۔ اوّل قرآن شریف کی تعلیم کی خوبیاں کرنی اور اس کے اعجازی حقائق اور معارف اور انوار اور برکات کو ظاہر کرنے سے جن سے قرآن شریف کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے چنانچہ میری کتابوں کو دیکھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ کتابیں قرآن شریف کے عجائب اسرار اور نکات سے پُر ہیں اور ہمیشہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جس قدر مسلمانوں کاعلم قرآن شریف کی نسبت ترقی کرے گا اسی قدر ان کا ایمان بھی ترقی پذیر ہوگا۔ اور دوسرا طریق جو مسلمانوں کا ایمان قوی کرنے کے لئے مجھے عطا کیا گیا ہے تائیدات سماوی اور دعاؤں کا قبول ہونا اور نشانوں کا ظاہر ہونا ہے ۔ چنانچہ اب تک جو نشان ظاہر ہوچکے ہیں وہ اس کثرت سے ہیں جن کے قبول کرنے سے کسی منصف کو گریز کی جگہ نہیں…
• ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کودُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے اُن کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔‘‘
• ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے ۔‘‘